صوفیأ حضرات اپنی تعلیمات میں سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیتے ہیں وہ عشق ومحبتِ خداوندی ہے ،کیونکہ محبت ہی ایک ایسی چیزہے جو محب کو اپنے محبوب کی اطاعت پر مجبور کرتی ہے اور اس کی نا فرمانی سے روکتی ہے اور محب کے دل میں محبوب کی رضا کی خاطر ہر مصیبت و تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی قوت وصلاحیت پیدا کرتی ہے،اور محبت ہی وہ چیز ہے جو محب کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ایسا عمل کرے جس سے محبوب راضی ہو اور ہر اس عمل وکردارسے باز رہے جس سے محبوب ناراض ہو ، چنانچہ صوفیأ حضرات اگر زہد، تقویٰ،عبادت،ریاضت اور مجاہدے اختیار کرتے ہیں تو ان کا مقصد صرف اور صرف خداکی رضا حاصل کرنا ہوتا ہے۔وہ جنت کی لالچ یا جہنم کے خوف سے خداکی بندگی نہیں کرتے،
چنانچہ حضرت رابعہ بصریہؒ اپنی ایک دعا میں فرماتی ہیں :
’’خدایا! اگر میں تیری بندگی جنت کے لیے کرتی ہوں تو مجھے اس سے محروم رکھنا ،اگر میں جہنم کے خوف سے تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے اس میں جھونک دینا، لیکن اگر میں تیری بندگی تجھے پانے کے لیے کرتی ہوں تو مجھے اپنے آپ سے محروم نہ رکھنا ‘‘۔
(مرزا قلیچ بیگ:مقالات الاولیاء ،سندھ پرنٹنگ ،پریس ،نوشہری دروازہ شکارپور ،۱۹۲۷ء ص: ۱۵ ۔)
چنانچہ حضرت رابعہ بصریہؒ اپنی ایک دعا میں فرماتی ہیں :
’’خدایا! اگر میں تیری بندگی جنت کے لیے کرتی ہوں تو مجھے اس سے محروم رکھنا ،اگر میں جہنم کے خوف سے تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے اس میں جھونک دینا، لیکن اگر میں تیری بندگی تجھے پانے کے لیے کرتی ہوں تو مجھے اپنے آپ سے محروم نہ رکھنا ‘‘۔
(مرزا قلیچ بیگ:مقالات الاولیاء ،سندھ پرنٹنگ ،پریس ،نوشہری دروازہ شکارپور ،۱۹۲۷ء ص: ۱۵ ۔)