آپ ﷺ کے دست مبارک کے اثر سے ایک صحابی کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ درست ہوگئی

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
وعن البراء قال بعث النبي صلى الله عليه و سلم رهطا إلى أبي رافع فدخل عليه عبد الله بن عتيك بيته ليلا وهو نائم فقتله فقال عبد الله بن عتيك : فوضعت السيف في بطنه حتى أخذ في ظهره فعرفت أني قتلته فجعلت أفتح الأبواب حتى أنتهيت إلى درجة فوضعت رجلي فوقعت في ليلة مقمرة فانكسرت ساقي فعصبتها بعمامة فانطلقت إلى أصحابي فانتهيت إلى النبي صلى الله عليه و سلم فحدثته فقال : " ابسط رجلك " . فبسطت رجلي فمسحها فكأنما لم أشتكها قط . رواه البخاري

" اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی ایک جماعت کو ابورافع کی طرف بھیجا ، چنانچہ ( جب وہ جماعت اس کے قلعہ پر پہنچی تو ایک صحابی ) عبداللہ ابن عتیک رات کے وقت ابورافع کی خوابگاہ میں جب کہ سورہا تھا ، داخل ہوگئے اور اس کو مار ڈالا عبداللہ ابن عتیک نے بیان کیا کہ میں نے ابورافع کے پیٹ پر تلوار رکھی یہاں تک کہ وہ پشت کے طرف سے باہر نکل گئی ، جب میں نے سمجھ لیا کہ اس کا کام تمام ہوگیا ہے تب میں نے ( قلعہ ) کے دروازے کھولنے شروع کئے ( تاکہ جماعت کے باقی لوگ بھی جو میرے ساتھ اس مہم میں آئے تھے ، اندر آجائیں ) اور پھر میں ایک زینہ پر پہنچا اور ( اس خیال سے آگے زمین ہے ) جونہی میں نے پاؤں رکھا پھیلی ہوئی چاندنی میں ( اس طرح ) گر پڑا ( کہ ) میری پنڈلی ٹوٹ گئی ، میں نے اپنا عمامہ کھول کر پنڈلی کو باند ھ لیا اور اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا ( جو قلعہ کے نیچے کھڑے تھے ) پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا ماجرا بیان کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلاؤ ! میں نے اپنا پاؤں پھیلادیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاؤں پر اپنا دست مبارک پھیرا اور اسی وقت میرا پاؤں اس طرح اچھا ہوگیا جیسے اس میں کوئی تکلیف ہی نہیں ہوئی تھی ۔ " ( بخاری )

تشریح :
ابورافع ایک یہودی تاجر تھا ، اس کی کنیت ابوالحقیق تھی نہایت بدظن اور کمینہ خصلت شخص تھا تمام طرح یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کا دشمن تو تھا ہی ، لیکن اس نے اپنی عہد شکنیوں ، فتنہ انگیزیوں اور اذیت رسانیوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زایدہ تنگ کر دیا تھا ، اس بدبخت نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ناپاک ہجو بھی کہی تھی ، آخر کار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبور ہو کر اس کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا ارادہ فرمالیا ، اور حضرت عبداللہ ابن عتیک کی سر کردگی میں چند انصاری نوجوانوں کو اس کے قید کرنے یا قتل کر ڈالنے کے لئے بھیجا جو پہلے سے صورت حال کا اندازہ لگا اپنے محفوظ قلعہ مں محصور ہو گیا ، عبداللہ ابن عتیک ایک بڑی عجیب اور حیرت انگیز تدبیر کے ساتھ ( جو واقعہ کی پوری تفصیل کے ساتھ ساریخ وسیر کی کتابوں کے علاوہ خود بخاری کی کتاب المغازی کی تفصیلی روایت میں مذکور ہے ) پہے اس کے قلعہ میں اور پھر جب رات کے کھانے کے بعد ابورافع سوگیا تھا اس کی خوب گاہ میں داخل ہوگئے اور اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کر دیا ۔
جب وہ اپنی کاروائی مکمل کر کے واپس ہونے لگے تو انہیں ایک زینہ سے اترنا پڑا اور وہ جب نیچے اتر رہے تھے تو چاند رات ہونے کی وجہ سے اندر زینہ تک اس طرح کی روشنی رہ گی جس میں نگاہ الجھ جاتی ہے ، چنانچہ عبداللہ ابن عتیک نے یہ سمجھ کر اپنا قدم اٹھایا کہ زینہ ختم ہوگیا ہے اور آگے زمین مگر وہاں ابھی تک ایک زینہ باقی تھا اور ان کا پاؤں اس طرح پڑا کہ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور نیچے گر گئے اس کی وجہ سے ان کی پنڈلی ٹوٹ گئی ، بعد میں وہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور پورا واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاؤں پر اپنا دست مبارک پھیرا اور اس کی برکت سے ٹوٹی ہوئی پنڈلی درست ہوگئی اور ساری تکلیف بھی جاتی رہی ، یہ ذات رسالت کا اعجاز تھا ۔
 
Top