چھوٹا منہ بڑی بات

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
چھوٹا منہ بڑی بات
مولاناحکیم محمود احمد خاں دریابادی​
نیاز فتحپوری نام کے ایک ادیب، صحافی، مصنف اور نقاد ماضی قریب میں گزرے ہیں، بڑی صلاحیتوں کے مالک تھے، بہت وسیع مطالعہ تھا، اسلامیات پر بھی زبردست نگاہ تھی، علماء سے ہمیشہ متنفر رہے، اپنے زمانے کے کئی نامور علماء سید سلیمان ندوی وغیرہ سے زندگی بھر قلمی جنگ چلتی رہی ، ………..
انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اللہ نے دنیا میں کوئی چیز بیکار نہیں بنائی ہر چیز میں کچھ نہ کچھ فائدے ہیں مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مولوی نامی چیز کیوں بنادی یہ کس مرض کی دوا ہے۔ ـ
دراصل مولوی ہے ہی ایسی چیز، یہ بے چارہ اپنوں کے سمجھ میں نہیں آتا، اپنے لوگ اسے دھرتی کا بوجھ، خیرات خور، ''ناکارہ قل اعوذی '' اور نہ جانے کیا کیا کہتے رہتے ہیں، ………. مگر دشمن خوب جانتا ہے کہ اصل مقابل کون ہے، ابھی چند دنوں قبل بہت دنوں کے بعد اپنے ''بھٹ '' سے باہر آنے والے پروین توگاڑیا نے اپنی سیاہ نامبارک زبان سے'' غوغا سرائی '' کرتے ہوئے کہا کہ سب مولویوں کو جیل بھیج دینا چاہیئے، دارالعلوم دیوبند اور تبلیغی جماعت، جمعیۃ علماء پر پابندی لگادینی چاہیئے ………… !
کبھی سوچا ہے کہ توگڑیا نے صرف مولویوں، دیوبند، جمعیۃ اور تبلیغی جماعت کو ہی نشانہ کیوں بنایا ؟ حالانکہ ملک میں بہت سے ' سوٹ پوش اور ٹائی بردار ' افراد بھی ملی خدمات انجام دے رہے ہیں، بہت سے مسلمانوں کے قائم کردہ عصری علوم کے ادارے، کالج، اسکول وغیرہ بھی ہیں جو یقینا بہتر کام کررہے ہیں، مگر توگڑیا نے اُن سب کا نوٹس نہیں لیا ـ۔
بات وہی ہے کہ دشمن خوب جانتا ہے اور ہم سے زیادہ تاریخ پر اس کی نظر ہے، وہ جانتا ہے کہ جب بھی کوئی انقلاب آیا ہے اِنھیں بوریہ نشینوں کے ذریعے آیا ہے، آئندہ بھی اگر کوئی مقابل بن سکتا ہے تو یہی خرقہ پوش ہمارے مقابل بن سکتے ہیں۔ ـ
اب ذرا اپنی اندرونی صورت حال پر ایک بار پھر نظر ڈال لیجئے، ایک طرف اپنے ہی کچھ لوگ ہیں جو مولویوں کا مضحکہ اڑاتے ہیں، دوسری طرف خود ہم مولویوں کا یہ حال ہے کہ آپسی چپقلش، لالچ، حسد اور اقتدار کی ہوس کی وجہ سے آپس میں ہی بھڑتے رہتے ہیں، کہیں کہیں ' مکّا لات ' کی نوبت بھی آجاتی ہے، ہمارے ان اختلافات کی وجہ سے پوری ملت تقسیم ہوجاتی ہے، ملک بھر میں ہمارے ادارے تقسیم ہوجاتے ہیں، تنظیمیں، جماعتیں تقسیم ہوجاتی ہیں، ہمارے عمامہ پوش بزرگ اپنے جیسے دوسرے بزرگوں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں، ………..یہی نظارہ برسوں پہلے دیوبند میں نظر آیا تھا، سہارنپور میں بھی دیکھا گیا اور اب تبلیغی جماعت میں نظر آرہا ہے، جمیعۃ علماء بھی اسی کا شکار ہے ـ ………… دوسری طرف دشمن ہے جو مضبوط ہے، متحد ہے اور مستعد بھی۔
کیا ایسے میں امت کے اکابرین و اساطین کا فرض نہیں بنتا کہ آپس میں ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ــ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ؟ ؟
( اوپر کا جملہ ہم نے جان بوجھ کر ادھورا چھوڑا ہے ہمارے بڑے اتنے تو سمجھدار ہیں ہی کہ ادھورا جملہ پورا کرسکیں، ہم اگر پورا کرتے تو ' چھوٹا منہ بڑی بات ' ہوجاتی ـ) بشکریہ بصیرت آن لائن
 
Last edited:
Top