قبر پر میت کے لیے قرآن پڑھنا

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قبر پر میت کے لیے قرآن پڑھنا (1)

۱۔ میر کے لیے قرآن پڑھنے سے آیا میت کو ثواب ملتا ے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے ۔جمہور سلف اور ائمہ مجتہدین ثواب پہنچنے کے قائل ہیں ۔ہارے امام شافعیؒ نے اختلاف کیا ۔ ان کی دلیل ہ آیت ہے وان لیس للانسان الا ماسعیٰ۔ انسان کو اس کی کوشش کا بدلہ ملے گا ۔لیکن اس آیت کا جواب چند وجوہ سے دیا گیا ہے :

اول تو یہ کہ یہ آیت منسوخ ہے اس آیت سے ۔ والذین اٰمنوا واتبعتھم ذریتھم ۔اور وہ لوگ جو ایمانا لائے اور ان کےبعد ان کی ذریت آئی ۔اس آیت کا مفاد یہ ہے کہ بیٹوں کو باپ کی نیکی سے جنت میں داخل کردیا گیا۔
دوم یہ کی آیت قوم ابراہیم موسی کے ساتھ خاص ہے

لیکن یہ امت مرحومہ تو اس کو وہ بھی ملے گا جو خود کرے گی اور وہ بھی جو اس کے لیے کیا جائے گا یہ قول عکرمہؒ کا ہے۔
تیسرے یہ کہ انسان سے مراد یہاں کافر ہے اور مومن اس سے مستثنیٰ ہے یہ قول ربیع بن انس کا ہے۔
چوتھے یہ قانون عدل ہے اور دوسرے کے لئے فائدہ کا پہنچنا اس کا فضل ہے یہ حسین بن فضیل کا قول ہے۔

پانچویں لا م بمعنی علیٰ ہے کہ انسان کوضرور انسان کو اس کے کئی بے گناہ کا ہوگا، نہ کہ دوسرے کا، جو حضرات ثواب کے پہنچنے کے قائل ہیں وہ یہ قیاس کرتے ہیں کہ جب حج، صدقہ، وقف، دعا، قرأۃ کا ثواب پہنچتا ہے تو دوسری عبادات کا بھی پہنچ سکتا ہے۔ اگرچہ یہ احادیث ضعیف ہیں لیکن ان کی مجموعی حیثیت سے ایصال ثواب کے اصل ثابت ہوسکتی ہے نیز قدیم مسلمان مردوں کے لئے جمع ہو کر قرآن پڑھتے رہے اور کسی نے انکار نہ کیا۔ اس اجماع مسلمین بھی ثابت ہوتا ہے یہ سب کچھ حافظ شمس الدین عبد الواحد المقدسی الحنبلی نے اپنے ایک رسالہ میں ذکر کیا۔

قرطبیؒ نے یہ کہا کہ شیخ عزالدین بن سلام ایصال ثواب کے قائل نہ تھے۔ جب ان کا انتقال ہوگیا تو بعض لوگوں نے ان کو خواب میں دیکھا تو دریافت کیا کہ آپ دنیا میں ایصال ثواب کےقائل نہ تھے اب کیا حال ہے؟ کہا ہاں پہلے تو یہی کہتا تھا مگر اب معلوم ہوا کہ خدا کے فضل و کرم سے ثواب پہنچتا ہے اور اب میں نے رجوع کر لیا ہے۔

قبر پر قرآن پڑھنے کے بارے میں ہمارے اصحاب نے جواز کا قول نقل کیا ہے۔زعفرانی کہتے ہیں میں نے امام شافعی سے دریافت کیا کہ قبر کے پاس قرآن پڑھنا کیسا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ حرج نہیں ہے۔

نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا شرح مہذب میں کہ" زیارت کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ زیارت کے بعد قرآن پڑھے اور دعا کرے اس پر امام شافعی کی تشریح بھی ہے اور ان کے اصحاب بھی اس پر متفق ہیں۔ اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں اگر قرآن ختم کرے تو افضل ہے۔

امام احمد بن حنبل پہلے اس کا انکار کرتے تھے کیونکہ ان کو اس سلسلہ میں کوئی حدیث نہیں ملی تھی لیکن ان کو وہ حدیث ملی جو ہم "دفن کے وقت کیا کہا جائے؟" کے باب میں ذکر کے آئے جس کے ابن عمر اور علاء بن حلاج راوی ہیں اور حدیث مرفوع بھی ہے تو رجوع کر لیا ۔
خلال نے جامع میں شعبی سے روایت کی کہ جب انصار کا کوئی مر جاتا تو وہ اس کے قبر پر آتے جاتے اور قرآن پڑھتے ۔
ابو محمد سمرقندی نے سورہ اخلاص کے فضائل ذکر کیا (مرفوعا) کہ جس نے قبرستان سے گزرتے ہوئے گیارہ مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھی اور اس کا ثواب مردوں کو بخش دیا تو مردوں کی تعداد کے مطابق اسے اجر ملے گا۔

ابو القاسم سعد بن علی زنجانی نے اپنے فوائد میں ابوہریرہ سے روایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو قبرستان پر گزرا اور اس نے سورت فاتحہؔ اخلاص" اور الھٰکم التکاثر پڑھی پھر دعائیں مانگی کہ اے اللہ میں نے جو قرآن پڑھا ہے اس کا ثواب مومن مرد اور عورت دونوں کو دینا تو قبر والے قیامت کے دن اس کے شفارسی ہونگے۔ جاری
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
(۲)
قاضی ابوبکر بن عبدالباقی انصاری نے سلمہ بن عباس سے روایت کی کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو حماد مکی نے بتایا کہ ایک رات میں مکہ کے قبرستان کی طرف چلا گیا اور ایک قبر پر سر رکھ کر سو گیا تو دیکھا قبروالے حلقہ در حلقہ ہیں میں نے اسے دریافت کیا کہ کیا قیامت قائم ہوگی انہوں نے کہا نہیں ،ہاں ہمارے بھائی نے سورہ اخلاص پڑھ کر ہم کو ثواب پہنچایا تو وہ ثواب ہم ایک سال سے تقسیم کر رہے ہیں۔

عبدالعزیز جو خلال کے ساتھی، انہوں نے روایت کی کہ انسؓ نے فرمایا رسول اللہ صلی وسلم نے فرمایا جس نے قبرستان میں "یٰسین" پڑھی تو اللہ تعالی اس کی برکت سے مردوں کے عذاب میں تخفیف فرما دے گا اور پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے برابر ثواب ملے گا ۔قرطبیؔ کہتے ہیں یہ حدیث کہ" اپنے مردوں کے پاس یسین پڑھو " دوحتمال رکھتی ہے۔ ایک تو یہ کہ مرتے وقت اور دوسرا یہ کہ قبر پر ،پہلا قول جمہور کا ہے اور دوسرا عبدالواحد مقدسی کا ہے اور ہمارےعلمائے متاخرین میں سے محبؔ طبری نے اس کو عام رکھا۔ غزال نے احیاء میں ۔ور عبدالحق نے احمد بن حنبل ؒسے روایت کرتے ہوئے عاقبتؔ میں بیان کیا کہ جب تم قبرستان میں داخل ہو تو سورہ فاتحہ ، معوذتین اور اخلص پڑھو اور ان کا ثواب اہل قبر کو پہنچا دوں کیونکہ یہ پہنچتا ہے۔

قرطبیؔ کہتے ہیں کہ ایک قول یہ ہے پڑھنے کا ثواب پڑھنے والے کو ہے اور میت کو سننے کا ثواب ہےاسی لئے تو نصف قرآن کے بموجب قرآن کے سننے والے پر رحم ہوتا ہے۔قرطبی فرماتے ہیں خدا کے کرم سے کچھ بعید نہیں کہ پڑھنے اور سننے دونوں کا ثواب مردے کو پہنچادے۔حنفیوں کے فتاوی قاضی خان میں ہے جو میت کو مانوس کرنا چاہے تو وہ قبر کے پاس قرآن پڑھے ، ،ورنہ جہاں چاہے پڑھے کیونکہ خدا ہر جہ کی قرأت کر سننے والا ہے
۔ ( شرح الصدور ۔علامہ جلال الدین سیوطیؒ)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قرآن پاک کی تلاوت چاہے انفرادی طور پر ہو یا کسی جگہ اکٹھے ہوکر دونوں طرح صحیح اور مستحسن ہے۔
قرآن کریم کا پڑھنا احادیث وآثار سے ثابت ہے
چنانچہ ایصال ثواب کے لیے جو ایک شرعی مقصد ہے، قرآن کریم کا پڑھنا خیرالقرون کے زمانہ سے جاری اور صحابہٴ کرام کی ایک جماعت سے ثابت ہے۔

حدیث شریف میں ہے:
ان لکل شیء قلب وقلب القرآن یسین فاقروٴہا علی موتاکم
ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے، قرآن پاک کا دل سورئہ یٰسین ہے، پس اسے مردوں پر پڑھا کرو

اس لیے میت کے لیے یٰسین شریف پڑھنا اور پڑھوانا دونوں درست ہے۔ (فتح القدیر)

محی السنہ امام نووی اپنی کتاب ”التبیان فی آداب حملة القرآن“ میں انصار مدینہ کا ایک معمول نقل کرتے ہیں
الأنصار اذا حضروا عند المیت قروٴا سورة البقرة
انصار مدینہ جب میت کے پاس حاضر ہوتے تو سورئہ بقرہ پڑھا کرتے تھے۔

مشہور شارحِ مشکوٰة ملا علی قاری جلیل القدر تابعی امام شعبی کا قول نقل کرتے ہیں
کانت الأنصار اذا مات لہم المیت اختلفوا الی قبرہ یقروٴن القرآن (مرقات صفحہ ۱۹۸:۴)

علامہ ابن القیم  نے بھی اپنی کتاب ”الروح/۹۳“ میں امام شعبی کا قول ذکر کیا ہے،
یعنی انصار میں جب کسی کا انتقال ہوتا تو اس کی قبر پر جاتے اور قرآن پڑھتے تھے۔

اس سلسلہ میں مختلف احادیث وآثار ذکر کرکے ملا علی قاری لکھتے ہیں
الأحادیث المذکورة وہی ان کانت ضعیفة فمجموعہا یدل علی أن لذلک اصلاً وان المسلمین ما زالوا فی کل عصر ومصر یجتمعون ویقروٴن لموتاہم مِن غیر نکیر فکان ذلک اجماعًا

یعنی میت کے ایصال ثواب کے لیے قرأتِ قرآن کی مذکورہ احادیث اگرچہ ضعیف ہیں؛ مگر مجموعہ دلالت کرتا ہے کہ اس کی اصل موجود ہے؛ چنانچہ مسلمان ہر زمانہ اور شہر میں جمع ہوتے ہیں اور اپنی میت کے لیے قرآن پڑھتے ہیں، پس عملاً یہ اجماع ہوگیا۔ (مرقات، ص:۱۹۹:۴) اور جب خیرالقرون؛ بلکہ ایک جماعت صحابہ سے اس کا ثبوت موجود ہے، تو پھر ایصال ثواب کے لیے اجتماعی قرأتِ قرآن کو بدعت نہیں کہا جائے گا؛ البتہ اگر خلاف شرع کسی پابندی کے ساتھ کیا جائے تو پھر ممنوع کہلائے گا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت انس بن مالک نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ! ہم اپنے مُردوں کے لیے دعا کرتے ہیں، ان کے لیے صدقہ کرتے ہیں اور ان کی طرف سے حج کرتے ہیں، کیا ان اعمال کا ثواب ان مُردوں تک پہنچتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو ثواب پہنچتا ہے اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی خوش ہوتا ہے، جب اسے کھجور کا طبق ہدیہ کیا جائے۔ ایک اور حدیث میں ہے جس شخص نے اپنے والدین یا دونوں میں سے ایک کی قبر کی زیارت کی اور قبر کے پاس یٰسین شریف پڑھی تو اس کی مغفرت ہوجاتی ہے۔

ایصال ثواب کا منشا عموماً یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے میت سے عذاب میں تخفیف کردیتے ہیں یا دور فرمادیتے ہیں، کبھی میت کے درجات کی بلندی یا میت پر شفقت وترحم ہوتا ہے، کبھی اس کا مقصد والدین کی طاعت ہوتا ہے اور کبھی میت کے حق کی ادائیگی یااس کے احسان کا بدلہ دینا ہوتا ہے۔ اور ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ خود ایصال ثواب کرنے والا اجر وثواب کا مستحق ہو۔ یہ سب دینی مقاصد ہیں جو احادیث میں مذکور ہیں، جیسے حدیث شریف میں آیاہے کہ جو شخص قبرستان گیا اور یٰسین شریف پڑھی تو اللہ تعالیٰ اس دن مردوں سے عذاب میں تخفیف کرتے ہیں اور مُردوں کی تعداد کے برابرپڑھنے والے کو اجر دیتاہے۔ بہرحال ایصال ثواب ایک شرعی مقصد ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ہر نیک عمل سے چاہے کرتے وقت مُردوں کی طرف سے نیت کی ہو یا کرکے اس کا ثواب بخشا جائے اور ثواب چاہے کسی خاص میت کو بخشے یاتمام مومنین کو اور چاہے عمل کرنے والا تنہا کرے یا چند افراد مل کر انجام دیں ہر طرح مُردوں کو نفع پہنچانا درست اور ثابت ہے؛ بلکہ زندوں کو بھی ثواب بخشنا درست اور جائز ہے۔

الاصل اَنَّ کلمَن اَتی بعبادةٍ مّا أی سواء کانت صلاةً أو صومًا أو صدقةً أو قراء ةً أو ذکرًا أو طوافًا أو حجًا أو عمرةً ․․․ جمیع أنواع البر
(شامی وبحر)

الافضل لمن یتصدق نفلاً اَن ینوی لجمیع المومنین والمومنات لانہا تصل الیہم ولا ینقص من أجرہ شیء ہو مذہب أہل السنة والجماعة
(شامی)


اصل یہ ہے کہ جو کوئی کسی قسم کی عبادت کرے خواہ نماز ہو یاروزہ یا صدقہ یاقرأت قرآن یا ذکر یا طواف یا حج یا عمرہ․․․․ ہر طرح کی نیکیوں کا ثواب پہنچانا درست ہے اور ایصال ثواب کرنے والے کے لیے بہتر یہ ہے کہ تمام مومنین اور مومنات کی نیت کرے؛ اس لیے کہ سب کو بھیجے ہوئے نیک عمل کا پورا ثواب پہنچتا ہے، بھیجنے والے کے اجر میں سے کچھ کم نہیں کیا جاتا، یہی اہل السنة والجماعة کا مذہب ہے۔

فہذہ الآثار وما قبلہا وما فی السنة أیضاً من نحوہا عن کثیر قد ترکناہ لحال الطول یبلغ القدر المشترک بین الکل وہو من جعل شیئًا من الصالحات لغیرہ نفعہ اللّٰہ بہ مبلغ التواتر(فتح القدیر صفحہ۱۴۲:۳)
علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ احادیث و آثار بکثرت ہیں طوالت کی وجہ سے ہم نے ترک کردیا، ان سب سے قدر مشترک ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص کسی بھی نیک عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو ضرور نفع دے گا یہ بات یقینی ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت مولانا سیدزوّار حسین نقشبندی اپنی کتاب ”عمدة الفقہ“ میں لکھتے ہیں:

قرأت قرآن کے لیے قبر کے پاس بیٹھنا نیز قرآن شریف پڑھنے کے لیے حافظوں اور قرآن خوانوں کو بٹھانا بھی بلاکراہت جائز ہے؛ جبکہ پڑھنے والے اجرت پرنہ پڑھتے ہوں اور پڑھوانے والے کو اجرت (دینے) کا خیال نہ ہو۔

(عمدة الفقہ،ص:۵۳۶/۲)
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
فی زماننا کس کو فرصت ہے سوائے خواتین کے کہ مفت میں اپنی سواری سے جاکر یہ کار خیر میں حصہ لیں۔کیا مبلغ ،نعت خواں تراویح اور امام وموذن پر قیاس کر کے قرآن خوانی میں لگنے والے "ٹائم" کی اجرت نہیں لے سکتے؟
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
فی زماننا کس کو فرصت ہے سوائے خواتین کے کہ مفت میں اپنی سواری سے جاکر یہ کار خیر میں حصہ لیں۔کیا مبلغ ،نعت خواں تراویح اور امام وموذن پر قیاس کر کے قرآن خوانی میں لگنے والے "ٹائم" کی اجرت نہیں لے سکتے؟
کیا خواتین کو قبروں پر جا کر قرآن خوانی کی اجازت ہے؟
قبروں پر نعت خوانوں کا کیا کام ؟
کیا ضروری ہے کہ اما م و موذن ہی جا کر قرآن خوانی کرے؟
کیا اجرت پر پڑھنا اور اجرت کے خیال سے پڑھوانا جائز ہے؟
 
Top