میرے رب نے وہ دونوں جنتیں مجھ کو عطا فرمادیں

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
میرے رب نے وہ دونوں جنتیں مجھ کو عطا فرمادیں

ابن عسا کر نے اپنی سند سے ابو ایوب خزاعی سے روایت کی کہ حضرت عمرؓ بن خطاب کے زمانہ میں ایک عبادت گزار نوجوان تھا جو ہمہ وقت مسجد میں مصروف عبادت تھا اور حضرت عمرؓ کو وہ بہت ہی پسند تھا ۔ اس کا ایک بوڑھا باپ تھا ۔رات کو وہ اپنے باپ کے پاس چلا جاتا تھا ،راستہ میں ایک فاحشہ عورت کا گھر تھا ۔وہ اس پر عاشق ہو گئی ۔چنانچہ وہ روز آنہ اس کے راستہ میں کھڑی ہو ھاتی تھی حتی کہ ایک روز وہ اس کو اپنے دروازے پر لے گئی جب وہ داخل ہو نے لگا تو اس کو خدا کی یاد آئی اور اس کی زبان سے بے ساختہ یہ آیت نکل گئی کہ " إِنَّ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَوْاْ إِذَا مَسَّهُمْ طَٰٓئِفٌ مِّنَ ٱلشَّيْطَٰنِ تَذَكَّرُواْ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ"یعنی بےشک متقی لوگ وہ ہیں کہ جب شیطان کا کوئی وسوسہ ان کے پاس آتا ہے تو وہ یاد خدا اپنے دل میں لاتے ہیں اور راہ راست پر آجاتے ہیں۔ یہ آیت پڑھتے ہی نوجوان بے ہوش ہو کر گر گیا۔ اس عورت نے اپنی باندی کو بلایا اور دونوں گھسیٹ کر اس کو اس کے دروازے پر پھینک آئے ۔اب جب باپ اس کی تلاش میں نکلا تو دیکھا کہ وہ دروازے پر بے ہوش پڑا ہے تو وہ اس کو اٹھواکر اندر لے گیا ۔رات گئے اس کو ہوش آیا ۔باپ نے دریافت کیا کہ اے بیٹے کیا بات ہے ؟ اس نے کہا خیریت ہے۔باپ نے کہا میں تجھ کو خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں بتا کہ کیا معا ملہ ہے ؟اس نے سب واقعہ بتا دیا باپ نے نے دریافت کیا کہ کونسی آیت پڑھی تھی ؟اس نے وہی آیت دوبارہ پڑھی ۔اور اب وہ پڑھتے ہی دوبارہ بے ہوش ہو گیا لوگوں نے سے ہلایا جلایا تو معلوم ہوا کہ وہ مر گیا ہے چنانچہ لوگوں نے اسے راتوں رات دفن کر دیا ۔صبح کو یہ واقعہ حضرت عمرؓ کو بتا یا گیا ۔آپ اس کے باپ کے پاس تعزیت کو گئے اور فرمایا کہ تو نے مجھ کو اطلاع کیوں نہ دی ؟اس نے کہا کہ اے امیر المومنین !رات کا وقت تھا آپ کو تکلیف ہو تی ۔آپ نے فرمایا اس کی قبر پر لے چلو ۔چنانچہ آپ اپنے ساتھیوں سمیت اس کی قبر پر آئے اور کہا کہ :یا فلاں :! وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ" تو قبر کے اندر سے نوجوان نے جواب دیا ،یا عمر اعطانیھما ربی فی الجنۃ مرتین ۔ یعنی میرے رب نے و ہ دونوں جنتیں مجھ کو عطا فرما دیں۔​

 
Top