حضرت مخشی بن حُمَیِّر شہید رضی اللہ عنہ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سن ۹ ہجری میں عرب کے عیسائیوں نے روم کے بادشاہ ’’ہرقل‘‘ کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کی دعوت دی۔ ہرقل ان کی دعوت پر لبیک کہتا ہوا ایک لشکر جرار لے کر مدینۃ المنورہ کی طرف بڑھا اور ’’بلقائ‘‘ نامی مقام تک آپہنچا… ادھر حضور اکرم ﷺ کو اطلاع ملی تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو کوچ کا حکم فرمایا… سخت گرمی تھی، حالات نا ساز تھے… منافقین نے بہانے تراشے اور گھروں میں دبک گئے… لیکن مخلص مؤمنین سربکف ہوکر نکل کھڑے ہوئے… اور یوں رجب المرجب ۹ ہجری کو آقائے نامدار ﷺ تیس ہزار جانثاروں کے ساتھ ہرقل سے ٹکرانے نکل پڑے۔

منافقین اکثر و بیشتر تو گھروں میں بیٹھ گئے تھے اور حیلے بہانے کر کے اس غزوے میں نہیں گئے تھے… لیکن چند ایک ناک بچانے کے لیے ساتھ ہولیے تھے… راستے میں ان منافقین نے ایک عجیب وغریب شرارت شروع کردی… اور وہ شرارت تھی ’’ناجائز تبصرے بازی‘‘… اور اس کے ذریعے مسلمانوں کو پریشان کرنا اور انہیں خوفزدہ کرنا… مثلاً کبھی کہتے: ’’اس شخص (محمدﷺ) کو دیکھو کہ شام کے محلات اور روم کے شہروں کو فتح کرنے کا خواب دیکھتا ہے(نعوذ باللہ)‘‘… کبھی کہتے: ’’ان (مسلمانوں) نے رومیوں کی جنگ کو عربوں کی جنگ پر قیاس کرلیا ہے۔ (حالانکہ رومی ماہر جنگجو اور منظم فوج ہیں) ہمیں یقین ہے کہ کل ہم سب رومیوں کے سامنے رسیوں میں بندھے کھڑے ہوں گے‘‘… اور کبھی یوں بکتے… ’’یہ پیٹو، جھوٹے اور نامرد (مسلمان) رومیوں کی منظم فوج سے کیسے لڑیں گے؟‘‘ (نعوذ باللہ)… وغیرہ وغیرہ… حضور اکرم ﷺ کو ان کی ان بکواسات کا پتہ چلا تو آپ ﷺ نے انہیں بلا کر باز پرس کی… جس پر انہوں نے کہا: ’’ہم تو ایسے ہی گپ شپ اور دل لگی کررہے تھے تاکہ سفر آسانی سے کٹ جائے، ورنہ ہم دل سے نہیں کہہ رہے تھے۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان جھوٹوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے سورۃ توبہ کی آیات ’’ولئن سألتھم لیقولن الایۃ‘‘…(آیات رقم ۶۵، ۶۶) نازل فرمائیں… جن کا ترجمہ یہ ہے:

’’اور اگر آپ ان سے پوچھیں تو وہ کہیں گے ہم تو بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ کہہ دیجیے! کیا اللہ سے اور اس کے حکموں سے اور اس کے رسول سے تم ٹھٹھہ (مذاق) کرتے تھے۔ بہانے مت بناؤ! تم کافر ہوگئے ایمان ظاہر کرنے کے بعد، اگر ہم معاف کردیں گے تم میں سے بعض کو تو البتہ عذاب بھی دیں گے بعضوں کو، اس وجہ سے کہ وہ گنہگار تھے۔‘‘

دوسری آیت کی تشریح میں حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:

’’یعنی جھوٹے عذر تراشنے اور حیلے حوالوں سے کچھ فائدہ نہیں۔ جن کو نفاق و استہزاء کی سزا ملنی ہے، مل کر رہے گی۔ ہاں جو اب بھی صدق دل سے توبہ کرکے اپنے جرائم سے باز آجائیںگے، انہیں خدا معاف کردے گا۔‘‘ (تفسیر عثمانی)

اس خدائی اعلان کے بعد ان منافقین میں سے کچھ توبہ تائب ہوگئے اور پکے، سچے اور مخلص مؤمن بن گئے… اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے وعدۂ معافی کے مستحق ہوکر جماعت صحابہ کے رکن بن گئے… اور ’’رضی اللہ عنہم‘‘ کا تمغۂ امتیاز پاگئے… ان خوش قسمت اور خوش نصیب لوگوں میں ایک اونچا نام ’’حضرت مخشی بن حمیر رضی اللہ عنہ‘‘ کا ہے۔

آپ رضی اللہ عنہ قبیلہ اشجع سے تعلق رکھتے تھے اور انصار کے قبیلہ بنی سلمہ کے حلیف تھے۔ مذکورہ واقعے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ مخلص اور سچے مؤمن ہوگئے اور آنحضرت ﷺ سے درخواست کی کہ میرا نام بدل دیجئے۔

آنحضرت ﷺ نے ان کا نام بدل کر ’’عبداللہ بن عبدالرحمن‘‘ کردیا… بعد ازاں آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ ’’یااللہ! مجھے شہادت کی موت عطا فرمانا اور ایسی گمنامی میں عطا فرمانا کہ کسی کو میرا پتہ تک نہ چلے‘‘… اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا… اور آپ رضی اللہ عنہ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے اور آپ رضی اللہ عنہ کا کوئی نام ونشان اور اتہ پتہ نہ مل سکا۔

(اسد الغابہ/ الاصابہ)

رضی اللہ عنہ… رضی اللہ عنہ… رضی اللہ عنہ
 
Top