حضرت ذُوالبِجَادَیْن شہید رضی اللہ عنہ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جب مرکز رسالت مکہ سے مدینہ منورہ کو منتقل ہوا تو عرب کے گوشے گوشے سے متلاشیانِ حق مدینہ پہنچنے شروع ہوئے۔ یہ لوگ گھر بار تج کر اور دنیا کے زر ومال، آسائش و آرام کو چھوڑ کر تعلیم دین کے لیے بارگاہِ رسالت میں آتے تھے۔ انہوں نے فقر وفاقہ اور عسرت و افلاس کی زندگی محض رضائے الہٰی کی خاطر اختیار کی تھی۔ سفر کی صعوبت، بھوک، پیاس کی مصیبت اور گرمی سردی کی تکلیف، غرض کوئی چیز بھی اسلام کی تعلیم اور کلامِ الہٰی کا درس لینے سے ان کی روک نہ بن سکتی تھی۔ حالتِ امن میں وہ اللہ کے مسکین ترین بندے تھے اور میدانِ جہاد میں شیرانِ نر سے بڑھ کر تھے۔ جب ان درویشان اسلام کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہونے لگا تو رحمتِ عالمﷺ ان کے قیام وطعام اور تعلیم وتربیت کے خود کفیل بن گئے۔ آپﷺ نے ان کے مستقل قیام کے لیے مسجد نبویﷺ سے جانبِ مشرق ایک مسقف چبوترہ بنوادیا۔ عربی میں سائبان یا مسقف دالان کو صفہ کہتے ہیں۔ اس لیے یہ مردانِ حق آگاہ بھی اصحاب صفہ کہلانے لگے۔ ان بزرگوں کو اضیاف الاسلام (اسلام کے مہمان) یا اضیاف اللہ (اللہ کے مہمان) بھی کہا جاتا ہے۔

اصحاب صفہ میں ایک نوجوان بھی تھے، جنہیں مبداء فیض نے کمال درجے کا سوزِ ایمان اور قلب گداز عطا فرمایا تھا۔ ان کا عنفوانِ شباب تھا، لیکن دنیا کی رنگینیوں سے مطلق کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ آقائے دو جہاںﷺ سے قرآن مجید سیکھتے اور دن رات عجب ذوق و شوق اور جوش ونشاط سے پڑھا کرتے تھے۔ ایک دن سیدنا عمر فاروقؓ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: ’’یارسول اللہ ﷺ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص دکھاوے کے لیے اتنی بلند آواز سے کلامِ الہٰی پڑھتا ہے۔‘‘

حضور پرنور ﷺ نے فرمایا: ’’عمر! اسے کچھ نہ کہو یہ تو سوزِِ قلب رکھنے والوں میں ہے اور اللہ اور اللہ کے رسولﷺکے لیے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آیا ہے۔‘‘

یہ سعادت مند نوجوان جن کے اخلاص اور سوزِ قلب کی خود سید المرسلین فخر موجودات، خیر الخلائق ﷺ نے تصدیق فرمائی، حضرت عبداللہ ذوالبجادینؓ تھے۔

حضرت عبداللہ ذوالبجادینؓ کا شمار رحمت عالم ﷺ کے ان جاں نثاروں میں ہوتا ہے جن کی سعادت مندی اور خوش بختی پر نہایت جلیل القدر صحابہؓ بھی رشک کیا کرتے تھے۔ ان کا تعلق بنو مزینہ سے تھا۔ سلسلۂ نسب یہ ہے:

عبداللہ بن عبد نہم بن عفیف بن سحیم بن عدی بن ثعلبہ بن سعد بن عدی بن عثمان بن عمرو۔

حضرت عبداللہؓ کا ابھی عہدِ طفلی تھا کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ عبد نہم کے بھائی نے یتیم بھتیجے کو اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا اور نہایت شفقت ومحبت سے اس کی پرورش کی۔ اس بچے کو اللہ تعالیٰ نے فطرتِ سلیم اور قلب گداز عطا کیا تھا۔ جب اس نے ہوش سنبھالا تو مکہ میں دینِ حق کا آوازہ بلند ہوچکا تھا۔ ہوتے ہوتے عبداللہ کے کانوں میں بھی دعوتِ توحید کی صدا پہنچ گئی۔ بلا تامل اس پر لبیک کہا، لیکن چچا ابھی تک کفر وشرک کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عبداللہؓ کے دل میں اسلام کی محبت بڑھتی چلی گئی لیکن چچا کے خوف سے اس کا اظہار نہ کرتے تھے اور اس بات کے منتظر تھے کہ اللہ تعالیٰ کب چچا کو بھی قبول حق کی توفیق دیتا ہے۔ اسی طرح کئی سال گزر گئے لیکن چچا کو قبول حق کی سعادت نصیب نہ ہوئی۔ اس اثناء میں سرورِ عالم ﷺ مکہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔

آخر عبداللہؓ کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا۔ ایک دن وہ چچا کے پاس گئے اور کہا، پیارے چچا! میں عرصہ سے انتظار کررہا ہوں کہ آپ کب جھوٹے معبودوں سے منہ موڑ کر لوائے توحید تھامتے ہیں لیکن آپ کا جو حال پہلے تھا وہی اب ہے۔ اللہ نے مجھے توفیق دی ہے کہ حق اور باطل میں تمیز کرسکوں۔ آپ آگاہ ہوجائیے کہ میں خدائے واحد اور اس کے سچے رسول ﷺ پر ایمان لاتا ہوں۔

چچا نے غصے میں بھر کر کہا، اگر تو نے محمد ﷺ کا دین قبول کرلیا ہے تو اس سے بڑھ کر میرے لیے صدمہ کی کوئی بات نہیں۔ کیا میں نے اسی دن کے لیے تیری پرورش کی تھی کہ اپنے معبودوں کو جھٹلائے۔ بہتر یہی ہے کہ نیا دین فوراً ترک کردے ورنہ اونٹ، بکریاں، مال، کپڑے جو کچھ میں نے تمہیں دے رکھا ہے سب چھین لوں گا۔ عبداللہؓ نے بے دھڑک جواب دیا: ’’چچا جان! اب تو خواہ میری جان چلی جائے میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ سے منہ نہ موڑوں گا۔‘‘

چچا یہ جواب سن کر غضب ناک ہوگیا۔ اس نے توحید کے متوالے عبداللہؓ سے سب کچھ چھین لیا۔ حتیٰ کہ ان کے کپڑے تک اتروالیے۔ صرف کپڑے کی ایک دھجی باقی رہنے دی تاکہ اس سے ستر ڈھانک سکیں۔

عبداللہؓ برہنہ تن لنگوٹی باندھے اپنی ماں کے پاس گئے اور اسے سارا واقعہ سنایا۔ بیوہ ماں کو اپنے لختِ جگر سے بے پناہ محبت تھی۔ جب لڑکے کو اس حال میں دیکھا تو بے تاب ہوگئی۔ ایک چادر تھی انہیں دے دی کہ اپنے جسم پر ڈال لو۔ عبداللہؓ نے چادر کے دو ٹکڑے کیے ایک کا تہہ بند بنایا اور دوسرے کو بدن پر ڈال لیا اور پھر مدینہ کی طرف چل پڑے۔

جب حضرت عبداللہؓ مدینہ منورہ پہنچے تو رات ڈھل چکی تھی اور نمازِ فجر کا وقت ہوچکا تھا۔ وہ سیدھے مسجدِ نبوی ﷺ میں گئے اور رسولِ اکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ نماز کے بعد حضور ﷺ معمول کے مطابق لوگوں سے مصافحہ کرنے لگے تو عبداللہؓ پر نظر پڑی۔ پوچھا: تم کون ہو؟ انہوں نے عرض کیا: میرا نام عبدالعزیٰ ہے۔ مسافر ہوں اور اسلام قبول کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔

حضور ﷺ نے فرمایا: آج سے تمہارا نام عبدالعزیٰ نہیں بلکہ عبداللہ ہے اور لقب ذوالبجادین (دو چادردوں والا) ہے تم ہمارے قریب ہی ٹھہرو۔

حضور ﷺ پرنور کا ارشاد سن کر عبداللہؓ فرطِ مسرت سے باغ باغ ہوگئے اور اصحاب صفہ میں شامل ہوکر صبح وشام آستانہ نبوی ﷺ کی حاضری کو اپنا معمول بنالیا۔ محبوب رب العالمین ﷺ کے کاشانۂ اقدس کی دربانی ان کو دنیا کی ہر شے سے محبوب تھی۔ حضور ﷺ بھی ان پر بڑی شفقت فرماتے تھے اور ان کو بہت عزیز جانتے تھے۔ حضرت عبداللہؓ کو ذکر الہٰی سے بے انتہا شغف تھا۔ ہر وقت پُرسوز آواز میں تہلیل وتسبیح اور تلاوت قرآن میں مشغول رہتے تھے۔ سرورِ عالمﷺ ان کے سوزو اخلاص کو دیکھتے تو بہت خوش ہوتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ نوجوان قلبِ تپاں رکھنے والے لوگوں میں ہے۔

۹؁ ہجری میں سرورِ عالم ﷺ غزوۂ تبوک کے لیے روانہ ہوئے تو تیس ہزار جاں نثار آپ ﷺ کے ہم رکاب تھے۔ حضرت عبداللہ ذوالبجادینؓ بھی ان جاں نثاروں میں شامل تھے۔ چلنے سے پہلے یا اثنائے راہ میں وہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:

’’یارسول اللہ! دعا فرمایئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے رتبۂ شہادت پر فائز کرے۔‘‘

حضور ﷺ نے فرمایا: ’’جاؤ کسی درخت کی چھال اتار لاؤ۔‘‘

جب وہ چھال اتار کر لائے تو حضور ﷺ نے وہ چھال ان کے بازوں پر باندھ دی اور فرمایا:

’’ میں عبداللہ کا خون کافروں پر حرام کرتا ہوں۔‘‘

حضرت عبداللہؓ نے عرض کی:

’’یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ میرا خون کافروں پر حرام کررہے ہیں لیکن میں شہادت پانے کا طلب گار ہوں۔‘‘

حضور ﷺ نے فرمایا: جب تم راہِ خدا میں جہاد کی نیت سے نکل آئے اور پھر لڑائی سے پہلے تمہیں بخار آجائے اور اس بخار سے تم وفات پاجاؤ تب بھی تم شہید ہی ہوگے۔

حضرت عبداللہؓ حضور ﷺ کا ارشاد سن کر مطئمن ہوگئے۔ خدا کی قدرت لشکرِ اسلام جب تبوک پہنچا تو حضرت عبداللہؓ کو شدید بخار آگیا اور اسی بخار سے وہ لشکر گاہ میں عالمِ بقاء کو سدھار گئے۔ تدفین رات کے وقت عمل میں آئی۔ اس وقت چشمِ فلک نے عجیب منظر دیکھا۔ حضرت بلالؓ حبشی کے ہاتھ میں مشعل تھی اور اس کی روشنی میں سرورِ کون ومکاں ﷺ، حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے ساتھ مل کر قبر کھود رہے تھے، جب قبر کھد چکی تو حضور ﷺ نے اپنے دونوں رفیقوں کی مدد سے حضرت عبداللہؓ کی میت کو لحد میں رکھا، اس وقت آپ ﷺ ان سے فرمارہے تھے: ’’ادباً الیٰ اخاکما‘‘ (اپنے بھائی کا ادب ملحوظ رکھو) جب قبر پر مٹی ڈالی جا چکی تو سید المرسلینﷺنے دعا مانگی: الہٰی! میں اس سے راضی تھا تو بھی اس سے راضی رہ۔‘‘

فقیہ امت حضرت عبداللہؓ بن مسعود بھی اس موقع پر موجود تھے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺکی دعا سن کر میرا جی چاہا کہ اے کاش! عبداللہ ذوالبجادینؓ کی بجائے مجھے موت آجاتی۔ (یعنی اس قبر والے کی جگہ میں ہوتا کہ خود حضور ﷺ اپنے دستِ مبارک سے مجھے دفن کرتے اور میرے لیے اسی طرح دعا فرماتے)۔

حضرت عبداللہ ذوالبجادینؓ کی تدفین جس شان سے ہوئی اس سے ان کی جلالتِ قدر اور بارگاہِ رسالت ﷺ میں ان کی محبوبیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ حضرت عقبہؓ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عبداللہ ذوالبجادینؓ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ یہ شخص بارگاہِ الہٰی میں سچے دل سے فریاد کرتا ہے۔

حضرت عبداللہ ذوالبجادینؓ نے اپنے جوشِ ایمان اور سوزِ قلب کی جو مثال قائم کی لاریب وہ ہماری عروقِ مردہ میں تا ابد زندگی کی حرارت پیدا کرتی رہے گی۔

(از: رحمت دارین صلی اللہ علیہ وسلم کے سو شیدائی)

رضی اللہ عنہ…رضی اللہ عنہ…رضی اللہ عنہ
 
Top