حضرت شماس بن عثمان مخزومی شہید رضی اللہ عنہ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
عثمان بن شرید بن ہرمی بن عامر بن مخزوم مخزومی قریش کے کھاتے پیتے لوگوں میں سے تھا اور رئیس مکہ ربیعہ بن عبد شمس کا داماد تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے فرزند عطا کیا تو اس نے اس کا نام اپنے ہی نام پر عثمان رکھا، لیکن اس نہال تازہ کو خالق کائنات نے ایسے حسن وجمال سے نوازا کہ لوگ اس کو شماس (روئے تاباں ) کہہ کر پکارنے لگے یہاں تک کہ کسی کو اس کا اصلی نام یا د ہی نہ رہا۔

شماس کا ابھی عہد طفلی تھا کہ شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ماں صفیہ بنت ربیعہ پر قیامت ٹوٹ پڑی، لیکن شماس ؓ کے ماموں عتبہ بن ربیعہ نے بیوہ بہن اور یتیم بھانجے کے سر پر دست شفقت رکھا اور ان کو عثمان بن شرید کی کمی چنداں محسوس نہ ہونے دی۔ شماس ماموں اور ماں کے سایہ ہی میں عنفوان شباب کو پہنچے۔ شماس کے سیاہ چمکیلے بال، موتیوں جیسے دانت، گوراچٹارنگ، ستواںناک، غلافی آنکھیں، کتابی چہرہ۔ ایسے خدوخال نہیں تھے کہ دیکھنے والوں کو مسحورنہ کردیتے۔ ماں اور ماموں دونوں شماس پر سو جان سے فداتھے اور انہوں نے ان کو بڑے ناز ونعم سے پالاتھا۔

ایک مرتبہ مکہ میں ایک خوبرو نصرانی یاآتش پرست وارد ہوا، لوگوں میں اس کے رنگ، روپ اور حسن صورت کا چرچا پھیلا تو عتبہ نے ایک دن اپنے بھانجے شماس کو اس کے ساتھ لاکھڑا کیا اور لوگوں سے کہا کہ ذراغور سے دیکھو، میرا بھانجا حسن وجمال میں اس اجنبی سے بڑھ کرہے یانہیں؟ دونوں کو یکجا دیکھ کر اہل مکہ کی آنکھیں کھل گئیں۔ شماس کے حسن وجمال کے سامنے اجنبی کے حسن وجمال کی کوئی حقیقت ہی نہ تھی۔ بعض روایتوں میں ہے کہ عثمان بن عثمان اسی دن سے شماس کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اس لقب نے اتنی شہرت پائی کہ لوگ ان کا اصل نام بھول گئے۔

شماس ؓ ابھی انیس بیس کے برس کے پیٹے میں تھے کہ رحمت عالمﷺنے دعوت حق کاآغاز فرمایا۔ شماس کو اللہ تعالیٰ نے حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت سے بھی نوازاتھا، ان کے کان جونہی دعوت توحید سے آشنا ہوئے انہوں نے کسی تامل کے بغیر اس پر لبیک کہا۔ ماں بھی نہایت نیک بخت خاتون تھیں، وہ بھی اپنے فرزند سعید کے ساتھ نعمت اسلام سے بہرہ یاب ہوگئیں ۔ عتبہ بن ربیعہ نے بہن ا ور بھانجے کو بہتیرا سمجھایا کہ آبائی مذہب ترک نہ کرو، لیکن وہ دونوں جس جادہ مستقیم پر گامزن ہوچکے تھے اس سے منہ موڑ نا انہوں نے کسی صورت میں گورا نہ کیا۔

یہ بڑا پُرآشوب زمانہ تھا اور دعوت حق قبول کرنا گرداب بلا میں پھنسنے کے مترادف تھا۔ مشرکین قریش کو کسی مسلمان کا چین سے بیٹھنا گورا نہ تھا۔ جوں جوں اسلام کی دعوت پھیلتی جاتی تھی ان کی آتش غضب اور تیز ہوتی جاتی تھی۔ جور وتعدی کا کوئی حرجہ نہ تھا جو انہوں نے اہل حق پر نہ آزمایاہو۔ ان کے دست تظلم سے صفیہ بنت ربیعہ اور شماس ؓ بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ جب کفار کے مظالم حد سے بڑہ گئے تو سرورعالم ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ حضرت شماسؓ بھی اپنی والدہ کو ساتھ لے کر بہت سے دوسرے بلاکشان اسلام کی طرح ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے اور کئی سال وہاں مقیم رہ کر غریب الوطنی کی مصیبتیں جھیلتے رہے۔

مہاجرین حبشہ میں سے ایک جماعت تو حضرت جعفر طیارؓ بن ابی طالب کے ساتھ غزوہ خیبر تک حبشہ ہی میں رہی البتہ ابن اسحاقؓ کی روایت کے مطابق چالیس کے لگ بھگ مسلمان مختلف اوقات میں سرورعالمﷺکی ہجرت الیٰ المدینہ کے بعد مکہ واپس آگئے۔ ان واپس آنے والوں میں حضرت شماسؓ اور ان کی والدہ بھی تھیں، لیکن مکہ میں ان کو واپس آئے ہوئے زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ ہجرت مدینہ کا اذن ہوگیا۔ حضرت شماسؓ اب والدہ کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے اس طرح ان کو ذوالہجرتین (دوہجرتیں کرنے والے) کا شرف حاصل ہو گیا۔

حضرت شماس ؓ کو مدینہ منورہ میں حضرت مبشر بن عبد المنذر انصاری نے اپنا مہمان بنایا۔ ہجرت کے چند ماہ بعد جب سرور عالمﷺنے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخاۃ قائم فرمائی تو حضرت شماسؓ کو غسیل الملائکہ حضرت حنظلہ ؓ بن ابی عامر انصاری کا اسلامی بھائی بنایا۔

رمضان المبارک ۶ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا تو حضرت شماسؓ ان تین سو تیرہ سرفروشوں میں شامل تھے جو کفر کی مہیب طاغوتی قوت سے محض اللہ کے بھروسے پر بھڑ گئے۔ میدان جنگ میں ان کے دو حقیقی ماموں عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ مخالف صفوان میں تھے لیکن حضرت شماسؓ کے نزدیک راہ حق میں دنیوی رشتے ناتے کوئی حقیقت نہیں رکھتے تھے۔ وہ مشرکین کے خلاف اس جوش اور وارفتگی سے لڑے کہ جانبازی کا حق ادا کر دیا۔

۳ ہجری میں وہ غزوہ احد میں بھی بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ شریک ہوئے اور مردانہ وار داد شجاعت دی۔ لڑائی کے دوسرے مرحلے میں ایک اتفاقی غلطی سے مسلمانوں میں انتشار پھیل گیا اور رحمت عالمﷺکے قریب صرف چند جانثار رہ گئے۔ ان جانثاروں میں حضرت شماس ؓ بھی تھے۔ کفار بار بار رحمت عالمﷺپر نرغہ کرتے تھے اور آپ کے جانثاران کو بزور شمشیر پیچھے ہٹا دیتے تھے۔ اپنے آقا ومولاﷺکو خطرے میں دیکھ کر حضرت شماسؓ کے جسم میں غضب کی چستی اور قوت آگئی تھی ۔ وہ حضورﷺکے دائیں بائیں آگے پیچھے رہتے تھے اور ان کی تلوار برق بے اماں بن کر کافروں پر گر رہی تھی۔اس وقت وہ دنیا ومافیھا سے بالکل بے خبر تھے۔ دھن تھی تو صرف یہی کہ کوئی مشرک رحمت عالمﷺکے قریب نہ پھٹکنے پائے۔

حضورﷺجس طرف نظر اٹھا کر دیکھتے شماسؓ کو سر بکف کفار سے نبر د آزما پاتے۔ انہوں نے اپنے آپ کو حضورﷺکی ڈھال بنالیاتھا اور کفار کے ہر وار کو بڑھ کر اپنے جسم پر لے لیتے تھے۔ یہاں تک کہ زخموں سے چور چور ہوکر گر گئے۔ لڑائی ختم ہوئی اور شہیدوں اور زخمیوں کی تلاش شروع ہوئی تو شماسؓ اس حالت میں ملے کہ جسم کا کوئی حصہ زخموں سے خالی نہ تھا لیکن ابھی سانس چل رہی تھی ۔ حضورﷺنے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ انہیں اٹھا کر مدینہ لے جاؤ اور ان کا علاج کرو۔ چنانچہ وہ مدینہ لائے گئے جہاں حضرت ام سلمہ مخزومیہ ؓ نے ان کی تیمار داری کا فرض انجام دیا لیکن حضرت شماسؓ کی حالت علاج معالجہ اور تیمارداری کی حد سے گزر چکی تھی، صرف ایک رات اور ایک دن زندہ رہے، اس دوران میں نہ کچھ کھایا اور نہ کچھ پیا، اس کے بعد اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کر دی۔

اس وقت ان کی عمر چونتیس برس کی تھی ۔ اولاد میں ایک صاحزادے عبد اللہ اور ایک صاحزادی ام حبیب تھیں ۔ یہ دونوں لاولد فوت ہوئے ۔ اس لیے حضرت شماسؓ کی نسل نہیں چلی۔

حضر ت شماس ؓ کی شہادت کے بعد ان کی میت حضورﷺکے حکم کے مطابق میدان احد میں لائی گئی اور جن خون آلودہ کپڑوں میں انہوں نے شہادت پائی تھی، انہی میں اس شہید راہ حق کو احد کے گنج شہیداں میں سپرد خاک کردیا گیا۔ (ایک روایت میں ان کی تدفین بقیع میں بیان کی گئی ہے۔ واللہ اعلم)

سرور عالم ﷺ غزوہ اُحد کا ذکر کرتے وقت فرمایا کرتے تھے:

’’ما وجدت شماس شبہا الاالجنۃ‘‘ یعنی میں شماس کے لیے سپر کے سواکوئی تشبیہ نہیںپاتا۔

ایک ر وایت میں ’’الجُنۃ ‘‘ کے بجائے ’’الجُبۃ ‘‘کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ’’زرہ ‘‘ کے ہیں یعنی میں شماس ؓ کے لیے زرہ کے سوا کوئی تشبیہ نہیں پاتا۔

حضرت شماسؓ نے اپنے آپ کو حضورﷺکی سپر بنایا یا زرہ بہرصورت انہوں نے اپنی جان اپنے آقاﷺپر قربان کردی۔

یہ حضرت شماس ؓ جیسے سر فروش ہی تھے جنہوں نے نخل اسلام کو اپنے خون سے سینچا، ملت اسلامیہ ان جوانمروں پر فخر کرتی رہے گی۔

رضی اللہ عنہ… رضی اللہ عنہ… رضی اللہ عنہ
 
Top