کاش !اس مزنی کی شہادت مجھے نصیب ہوتی

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

(۱) حضرت وہب بن قابوس مزنی شہید رضی اللہ عنہ​

(۲) حضرت حارث بن عقبہ مزنی شہید رضی اللہ عنہ​

سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے کبھی غزوہ احد کا تذکرہ چھڑجاتا تو آپ ؓ فرمایا کرتے ’’کاش! اس مزنی کی شہادت مجھے نصیب ہوتی۔‘‘ اسی طرح فارس الاسلام، فاتح عراقِ عرب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے سامنے کبھی غزوہ احد کا ذکر ہوتا تو وہ بھی فر ماتے ’’میری آرزو ہے کہ میری موت بھی مزنی کی شہادت جیسی ہو۔‘‘

یہ مزنی جن کی شہادت پر فاروق اعظم ؓ اور سعد ؓ بن ابی وقاص جیسے اساطین رشک کیا کرتے تھے، بنو مزنیہ کے چشم وچراغ حضرت وہبؓ بن قابوس تھے۔ یہ اللہ کی دَین ہے جس کوچاہے فرش سے اٹھاکر تخت پر بٹھادے اور جس کو چاہے تخت سے گرا کر تحت الثریٰ میں ڈال دے۔ حضرت وہبؓ بن قابوس صحرائے عرب کے ایک بدوی ہی تو تھے۔ دار آخرت کو سدھا رنے سے پہلے نہ انہوں نے کوئی روزہ رکھا اور نہ کسی وقت کی نماز پڑھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ شان اور رفعت عطاکی کہ اوج ثریا نے منہ چھپالیا اور چشم فلک دنگ رہ گئی۔ ؎

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

حضرت وہب ؓ بن قابوس کے حسب ونسب اور وطن کے بارے میں صرف اتنامعلوم ہے کہ وہ قبیلہ مزنیہ سے تعلق رکھتے تھے جو مضر کی مشہور شاخ ہے۔ چونکہ بنو مزنیہ کا قیام بلاد غطفان میں تھا، اس لیے بعض اہل سیر نے انہیں قبیلہ غطفان کی ایک شاخ خیال کیا ہے لیکن یہ صحیح نہیں۔ بنو مزنیہ کا تعلق اُد بن طانجہ بن الیاس بن مضر سے ہے۔ قصیدہ بانت سعاد کے زندہ جاوید خالق حضرت کعبؓ بن زہیر کا تعلق بھی بنو مزنیہ سے تھا۔

حضرت وہبؓ بن قابوس کے حالات زندگی گوشہ خاموشی میں ہیں۔ وہ پہلی اور آخری بار شوال ۳ ہجری میں غزوہ احد کے دن صفحہ تاریخ پر نمودار ہوئے اور اسی دن شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں ایسے بلند مقام پر فائز ہوگئے کہ ملت اسلامیہ تا ابد ان پر ناز کرتی رہے گی۔

علامہ ابن سعد کاتب الواقدیؒ کا بیان ہے کہ حضرت وہب ؓ بن قابوس اپنے بھیتجے حارث بن عقبہ بن قابوس کے ساتھ بکریاں لے کر خاص اس دن مدینہ منورہ آئے۔ جب سرور عالمﷺاپنے جاں نثاروں کے ہمراہ غزوہ احد کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ خدا وند علیم وخبیر ہی جانتا ہے کہ وہ دونوں کس غرض کیلئے مدینہ منورہ آئے تھے، بکریان فروخت کرنے یا اسلام کی سعادت کے حصول کیلئے؟

مدینہ پہنچ کر انہوں نے ہر طرف سناٹا دیکھا تو حیرن رہ گئے۔ اوس اور خزرج کے محلوں میں عورتوں اور بچوں کے سواکوئی شخص نظرنہ آتا تھا۔ ان سے پوچھا، یہ کیا ماجرا ہے کہ آج مدینہ مردوں سے خالی نظرآتا ہے؟ جوا ب ملا کہ سب لوگ رسولﷺکی معیت میں مشرکین مکہ کے مقابلے کے لئے جبل احد کی طرف گئے ہیں۔ یہ سن کر دونوں چچا بھتیجے اسی وقت میدان احد میں سرورعالمﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہو ئے اور مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ اسوقت لڑائی شروع ہوچکی تھی اور مسلمان مشرکین کو برابرپیچھے دھکیل رہے تھے۔ حضرت وہبؓ بن قابوس بھی تلوار کھینچ کر مشرکین پر ٹوٹ پڑے۔ شوق شہادت سے سر شار مسلمانوں نے اپنے پرجوش حملوں سے جلد ہی مشرکین کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ میدان صاف ہوگیا تو بیشتر مسلمانوں نے مال غنیمت سمیٹنا شروع کردیا۔ لڑائی کا آغاز ہونے سے پہلے حضورﷺ نے کوہ ا حد کے دَرَّہ عینین پر حضرت عبد اللہ ؓ بن جبیر انصاری کی سرکردگی میں پچاس تیر انداز مقرر کردیئے تھے تاکہ دشمن اس درہ کے راستے پشت کی جانب سے اچانک مسلمانوں پر نہ آپڑے۔ ان تیر اندازوں کو حضورﷺنے حکم دیا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے (ہم غالب ہوں یا مغلوب) تم اس درہ کونہ چھوڑنا۔ جب لڑائی میں مسلمان غالب آگئے تو بد قسمتی سے ان میں سے اکثر تیر انداز ایک اجتہادی خطا سے درے کو چھوڑ کرمال غنیمت سمیٹنے میں مشغول ہوگئے۔ صرف حضرت عبد اللہ ؓ بن جبیر سات یا دس تیر اندازوں کے ساتھ درے پر موجود رہ گئے۔ عین اس وقت خالد ؓ بن ولید اور عکرمہ ؓ بن ابو جہل (جو ابھی اسلام نہ لائے تھے) اپنے رسالے (گھڑسواردستے) کے ساتھ درے میں آگھسے ۔ حضرت عبد اللہ ؓ بن جبیر نے اپنے مٹھی بھرساتھیوں کے ساتھ جم کر مقابلہ کیا لیکن مشرکین کی کثیر تعداد کے سامنے ان کی کچھ پیش نہ چلی اور راہ حق کے یہ سبھی جانباز ایک ایک کرکے شہید ہوگئے۔ مشرکین نے اب درے سے نکل کر مسلمانوں کی بڑی جمعیت پر ہلہ بول دیا۔

لڑائی کے پہلے دور میں مشرکین کو پسپاکرکے مسلمان پہلے ہی اپنی صف بندی توڑ چکے تھے۔ درے کے راستے قریش مکہ کے اچانک طو فانی حملے نے انہیں سنبلھنے کا موقع ہی نہ دیا اور وہ مختلف ٹکڑیوں میں بٹ کر حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے لگے۔ اسی دوران میں مشرکین کا ایک جھتا مسلمانوں کے اس گروہ کی جانب بڑھا جس میں سرور عالمﷺموجود تھے۔ حضورﷺنے اپنے جاںنثاروں کی طرف دیکھا اور فر مایا: اس غول کو کون روکے گا؟ حضرت وہب ؓ بن قابوس قریب ہی تھے، انہوں نے آگے بڑھ کر عرض کیا: ’’یارسول اللہ اس کا م کے لیے میں حاضر ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر مشر کین پراس شدت سے تیر باری کی کہ ان کا منہ پھر گیا اور وہ پیچھے ہٹ گئے۔ اتنے میں مشرکین کے ایک اور جتھے نے ادھر کا رخ کیا۔ حضورﷺنے فر مایا، اس سے کون نپٹے گا؟ حضرت وہب ؓ پھر آگے بڑھے اور عرض کیا: ’’یارسو ل اللہ میں ان سے نپٹوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر تلوار لہراتے ہوئے اس جوش کے ساتھ اس جتھے پر حملہ کیا کہ اس کے دانت کھٹے ہوگئے اور وہ بھی پیچھے ہٹ گیا۔ اس سے فارغ ہوئے تھے کہ کفار کا ایک اور پرجوش گروہ اس طرف یلغار کرتا نظر آیا۔ حضورﷺنے فر مایا: اس گروہ سے کون نبرد آزما ہوگا؟ اب کی بار بھی حضرت وہب ؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں حاضر ہوں ۔ حضورﷺنے فر مایا: جاؤ جنت تمہاری منتظر ہے۔ یہ بشارت سن کر فرط مسرت سے حضرت وہب ؓ کے قدم زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ یہ کہتے ہوئے کہ ’’کسی کونہ چھوڑوں گا اور نہ خود بچنے کی کوشش کروں گا۔‘‘ تلوار کھینچ کر مشرکین کے لشکر میں گھس گئے اور اس جوش اور وار فتگی سے لڑے کہ جانبازی اور سر فروشی کا حق اداکردیا۔ لڑتے مارتے گروہ کفا ر کی دوسری طرف نکل گئے۔ جب سامنے کوئی شخص نہ رہا تو پھر پلٹے اور دوبارہ مشرکوں کے جم غفیر میں گھس گئے۔ حضورﷺان کی معرکہ آرائی کو بنظر تحسین دیکھ رہے تھے اور فر مارہے تھے ۔ اللھم ارحمہ (الہیٰ اس پر رحم کر)۔

حضرت وہب ؓ دیر تک اسی طرح دادشجاعت دیتے رہے۔ آخر مشرکین نے انھیں نرغے میں لے لیا اور ہر طرف سے تلوار وں اور نیزوں کا مینہ برسادیا۔ حضرت وہب ؓ برابر مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے لیکن انسانی طاقت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ آخر بیسیوں زخم کھا کر زمین پر گر گئے اور ان کی روح مطہر عالم بالا کو پر وازکرگئی۔ یوں تو ان کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جو زخمی نہ ہوا ہو لیکن بیس زخم ایسے شدید تھے کہ ان میں سے ہر ایک کسی انسا ن کی موت کے لیے کافی تھا۔ اتنے کاری زخموں کے باوجود ان کا آخر د م تک جم کر لڑنا تحیر خیز تھا۔ فی الحقیقت یہ ان کا جوش ایمان تھا جس نے ان کی نس نس میں شجاعت، حوصلے اور استقامت کی بجلیاں بھر دی تھیں ۔ چو نکہ انہوں نے مشرکین کو سخت ز چ کیاتھا اور ان کے بہت سے آدمی ہلاک یا زخمی کیے تھے اس لیے انہوں نے اپنے دل کی بھڑ اس یوں نکالی کہ شہید را ہ حق وہبؓ کی لاش کا بُری طرح مثلہ کیا (ناک، کان، ہونٹ کاٹ ڈالے اور جسم کو جگہ جگہ سے پھاڑ ڈالا) یہ ایسا دلدوز منظر تھا کہ کسی کو دیکھنے کی تاب نہ تھی۔ حضرت وہب ؓ کے نوجوان بھتیجے حارث ؓبن عقبہ نے شفیق چچا کی نعش کا یہ حال دیکھا تو بے تاب ہوگئے اور تلوار کھینچ کرمشرکین پر جا پڑے، دیر تک حضرت وہب ؓ کی طرح بے جگری سے لڑتے رہے آخر مشرکوں نے انھیں بھی شہید کرڈالا۔ اس طرح چچا بھتیجے دونوں نے بکریاں انسانوں کے ہاتھ فروخت کرنے کی بجائے اپنی جانیں راہ حق میں فروخت کرڈالیں۔

نبا کردند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

رحمت عالمﷺپر ان دونوں سرفروشوں کے اخلاص عمل کا اس قدر اثر ہوا کہ آپﷺلڑائی کے بعد بہ نفس نفیس ان کی لاشوں پر تشریف لے گئے اور فر مایا: ’’میں تم سے راضی ہوں۔‘‘ ان کی قبر کھدنے تک حضورﷺان کے پاؤں کی جانب کھڑے رہے۔ حضرت وہب ؓ کو سرخ لکیروں یا سرخ بوٹیوں کی ایک چادر کا کفن پہنایا۔ چادر چھوٹی تھی پاؤں ننگے رہ گئے حضورﷺنے ان پر حرملہ گھاس ڈالوادی اور پھر اپنے ہاتھوں سے ان کو سپرد خاک کیا۔

سیدنا حضرت سعد ؓ بن ابی وقاس فر مایاکرتے تھے کہ ’’جو ہمت اور دلاوری وہب ؓ بن قابوس سے غزوہ احد میں دیکھی گئی ویسی کسی معرکہ میں کسی سے دیکھنے میں نہیں آئی ۔ میں نے رسول اللہﷺکو دیکھاکہ با وجود ان زخموں کے جو آپ ﷺکے جسم اطہر پرتھے، آپﷺنے وہب ؓ کو خود جاکر قبر میں اتارا۔ آپﷺکے پاس ایک چادر سرخ لکیروں یا سرخ بوٹیوں کی تھی اس کو اوڑھا کر دفن فر مایا، کاش میری موت بھی ایسی ہی ہوتی۔‘‘

اسی طرح اور بھی بڑے بڑے صحابہؓ حضرت وہبؓ کی شہادت پررشک کیاکرتے تھے ۔

اللہ، اللہ، یہ صحرانشین جوقبول اسلام کے بعد دنیا کی آلود گیوں میں ایک لمحہ کے لیے بھی ملوث نہ ہوئے اور جن کو خود رحمت عالمﷺنے جنت کی بشارت دی ان کی خوش بختی پر کون مسلمان رشک نہ کرے گا۔

رضی اللہ عنہ…رضی اللہ عنہ… رضی اللہ عنہ
 
Top