حضرت عُروہ بن مسعود ثقفی شہید رضی اللہ عنہ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ذیقعدہ ۶ ؁ ہجری میں رحمتِ عالم ﷺ چودہ سو جاں نثاروں کے ہمراہ عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے۔ قربانی کے اونٹ ساتھ تھے اور حضور ﷺ کے حکم کے مطابق تمام مسلمانوں نے اپنی تلواریں نیاموں میں ڈال رکھی تھیں کیونکہ اس سفر کا مقصد محض خانۂ کعبہ کے طواف اور زیارت سے مشرف ہونا تھا اور اس میں لڑائی کے ارادہ کا مطلق کوئی دخل نہ تھا۔ اہلِ حق کا یہ مقدس قافلہ جب مکہ سے چند میل اِدھر حدیبیہ کے مقام پر پہنچا تو حضور ﷺ کو اطلاع ملی کہ قریش مسلمانوں کو ہر قیمت پر مکہ میں داخل ہونے سے روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس غرض کے لیے انہوں نے ایک بڑی جمعیت اکٹھی کرلی ہے۔ یہ اطلاع پاکر حضوراکرم ﷺ نے ایک سفیر کو یہ پیغام دے کر قریش کے پاس بھیجا کہ ہم صرف عمرہ ادا کرنے آئے ہیں، لڑنا مقصود نہیں، بہتر یہ ہے کہ قریش ایک معین مدت کے لیے ہم سے صلح کرلیں اور ہمارا اور قوم کا معاملہ عرب کے ہاتھوں میں چھوڑ دیں۔ اگر ہم غالب ہوں گے تو یہ ان کی صوابدید پر منحصر ہوگا کہ ہماری جماعت میں شامل ہوں یا نہ ہوں اگر ان کی صلح منظور نہیں ہے تو پھر خدا کی قسم میں ان سے آخری دم تک لڑوں گا… حضوراکرم ﷺ کے سفیر نے قریش کے پاس جاکر کہا کہ میں محمد ﷺ کا پیغام تمہارے لیے لایا ہوں اگر تم پسند کرو تو بیان کروں؟ بعض جوشیلے لوگوں نے کہا، ہم کو سننے کی ضرورت نہیں… لیکن قریش کے سنجیدہ اور تجربہ کار آدمیوں نے کہا کہ تم جو پیغام لائے ہو بیان کرو… سفیر نے یہ پیغام بیان کیا تو مشرکین میں سے پختہ عمر کے ایک وجیہ اور خوبصورت آدمی کھڑے ہوگئے اور انہوں نے قریش سے مخاطب ہوکر کہا:

’’یا معشرِ قریش! کیا تم میں سے بعض میرے والد کے برابر نہیں؟‘‘

لوگوں نے کہا: ’’کیوں نہیں، ضرور ہیں۔‘‘

وہ صاحب پھر بولے: ’’کیا تم میں سے بعض میری اولاد کے برابر نہیں؟۔‘‘

سب نے جواب دیا: ’’ہاں ضرور ہیں۔‘‘

ان صاحب نے پھر پوچھا:

’’تم کو مجھ پر کوئی بدگمانی ہے؟۔‘‘

قریش نے یک زبان ہوکر کہا: ’’ہرگز نہیں۔‘‘

وہ صاحب بولے: ’’تہیں یاد ہوگا کہ میں نے اہلِ عکاظ کو تمہاری مدد کے لیے کہا تھا اور جب انہون نے انکار کیا تھا تو میں اپنے بچوں اور حامیوں کو ساتھ لے کر تمہاری مدد کے لیے آیا تھا۔‘‘

قریش نے جواب دیا: ’’جی ہاں! ہمیں آپ کا احسان خوب یاد ہے۔‘‘

جب یہ سوال وجواب ہوچکے تو ان صاحب نے کہا: ’’محمد کا پیغام نہایت معقول معلوم ہوتا ہے۔ اگر تم مجھے اجازت دو تو میں محمد سے مل کر اس معاملہ کو طے کروں۔‘‘

سب نے رضا مندی ظاہر کی تو وہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیر تک آپ سے گفت وشنید کرتے ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ گرد و پیش کا بھی بغور جائزہ لیتے رہے۔ جب قریش کے پاس گئے تو ان کو حضور ﷺ کے ساتھ اپنی گفتگو کی تفصیل سنائی اور پھر نہایت درد مندی کے ساتھ انہیں بتایا کہ:

’’برادرانِ قریش! مجھے دنیا کے بڑے بڑے فرمانروائوں کے درباروں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ میں نے قیصر وکسریٰ کے دبار اور نجاشی کی شان و شوکت دیکھی ہے، لیکن خدا کی قسم! میں نے کسی زر خرید غلام کو بھی اپنے بادشاہ کی اتنی عزت کرتے نہیں دیکھا جتنی کہ محمد کے ساتھی ان کی کرتے ہیں۔ محمد تھوکتے ہیں تو یہ لوگ آگے بڑھ کر ان کے تھوک کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں اور جوشِ عقیدت میں اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مل لیتے ہیں۔ محمد وضو کرتے ہیں تو یہ لوگ مستعمل پانی کے ایک ایک قطرے پر اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے اس کی خاطر آپس میں لڑ مریں گے۔ محمد کوئی حکم دیتے ہیں تو ہر شخص بجا آوری کے لیے لپکتا ہے۔ محمد جب کوئی بات کرتے ہیں تو سب کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں۔ محمد کی عظمت کا یہ حال ہے کہ ان کا کوئی ساتھی ان کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھ سکتا۔ میری مانو تو محمد کی تجویز منظور کرلو۔ یہ نہایت پسندیدہ اور معقول ہے۔‘‘

یہ صاحب جنہوں نے خونریزی روکنے کے لیے مسلمانوں اور قریش کے مابین صلح کے لیے نہایت اخلاص اور درد مندی کے ساتھ سر توڑ کوشش کی، بنو ثقیف کے ایک سردار ابو مسعود عروہؓ بن مسعود تھے۔

سیدنا حضرت ابو مسعود عروہؓ بن مسعود اگرچہ صحابۂ متاخرین کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا شمار اکابر صحابہ میں ہوتا ہے، وہ طائف کے مشہور قبیلہ بنو ثقیف کے اشراف میں سے تھے، سلسلۂ نسب یہ ہے:

عروہؓ بن مسعود بن مالک بن کعب بن عمرو بن سعد بن عوف بن ثقیف بن منبہ بن بکر بن ہوازن بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس عیلان۔

عروہؓ نہایت نیک دل، صائب الرائے اور دلیر آدمی تھے اور بنو ثقیف میں نہایت عزت واحترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔ قریش مکہ سے بھی ان کے گہرے مراسم تھے اور مکہ میں ان کا اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر وہ مکہ میں موجود تھے۔ ایک روایت کے مطابق وہ قریش کے بلاوے پر مکہ آئے تھے اور بقولِ بعض وہ از خود اس قضیے کا تصفیہ کرانے مکہ آئے تھے۔ حافظ ابن حجرؒ اور حافظ ابنِ عبدالبرؒ کا بیان ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت بسرؓ بن سفیان خزاعی کو قریش کے ارادوں کی تحقیق کے لیے مکہ روانہ کیا تھا۔ وہ تحقیق کرکے عسفان کے مقام پر حضور اکرم ﷺ سے ملے اور عرض کی:

’’یارسول اللہ! قریش نے مزاحمت کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ لڑائی پر تُلے ہوئے ہیں۔‘‘

صحیح بخاری کی روایت کے مطابق سب سے پہلے حضرت بدیلؓ بن ورقا خزاعی نے حضور ﷺ کو قریش کی مزاحمت کی خبردی تھی اور انہوں نے ہی حضور ﷺ کا پیغام قریش کو پہنچایا تھا۔

حضرت عروہؓ بن مسعود قریش کے سفیر بن کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان کے سامنے بھی وہی تجویز پیش کی جو اپنے سفیر کی زبانی قریش کو بھیج چکے تھے۔ عروہؓ نے نفسیاتی حربے سے کام لینا چاہا اور کہا:

’’محمد! اگر تم بالفرض اپنی قوم کی بیخ کنی کرنے میں کامیاب ہوگئے تو کیا تم نے عرب کے کسی آدمی کے بارے میں آج تک سنا ہے کہ اس نے خود اپنی قوم کو برباد کردیا ہو اور اگر لڑائی کا نتیجہ کچھ اور نکلا تو خدا کی قسم! یہ لوگ جو تمہارے گردنظر آرہے ہیں، سب بھاگ جائیں گے اور تمہیں تنہا چھوڑ دیں گے۔‘‘

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ عروہ کی بات سن کر غصہ سے بیتاب ہوگئے اور فرمایا:

’’ جا جا اپنے معبود ’’لات‘‘ کی پیشاب گاہ چوس! ارے ہم محمد ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور آپ ﷺ کو تنہا چھوڑ دیں گے؟‘‘

عروہؓ نے کہا: ابوبکر! اگر تمہارے بعض احسانات مجھ پر نہ ہوتے تو خدا کی قسم میں تمہاری سخت کلامی کا ضرور جواب دیتا۔‘‘

بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بات سن کر عروہ نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ جب ان کو بتایا گیا کہ یہ ابوبکر بن ابی قحافہ ہیں تو انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قدیمی احسانات کا حوالہ دے کر کوئی سخت جواب دینے سے گریز کیا لیکن ان روایتوں کی صحت محلِ نظر ہے، کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ قریش کی بڑی مشہور و معروف ہستی تھے۔ یہ ناممکن تھا کہ حضرت عروہؓ ان کو چہرے یا آواز سے نہ پہچانتے ہوں۔

اس کے بعد عروہؓ پھر حضور ﷺ سے گفتگو میں مشغول ہوگئے، عربوں کی عادت تھی کہ گفتگو کرتے وقت وہ ایک دوسرے کی ڈاڑھی کو ہاتھ لگاتے تھے یا اسے پکڑ لیتے تھے۔ عروہؓ بھی دورانِ گفتگو بار بار حضور ﷺ کی ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتے تھے۔ حضرت مغیرہؓ بن شعبہ خود پہنے شمشیر بدست حضور ﷺ کی پشت کی جانب کھڑے تھے، جونہی عروہؓ حضور ﷺ کی ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتے، حضرت مغیرہؓ تلوار کے پر تلہ سے ان کے ہاتھ کو ٹھوکا دیتے اور کہتے: ’’خبردار اپنا ہاتھ حضور ﷺ کی ریشِ مبارک سے پرے رکھ۔‘‘

حضرت مغیرہؓ کا چہرہ خود میں چھپا ہوا تھا، عروہؓ نے برہم ہوکر کہا: ’’ یہ کون ہے؟‘‘

لوگوں نے کہا: ’’یہ مغیرہؓ بن شعبہ ہیں۔‘‘

عروہؓ نے ان سے مخاطب ہوکر کہا: ’’او غدار! کیا میں نے فلاں موقع پر تیری غداری کے معاملہ میں تیری مدد نہیں کی تھی؟۔‘‘ (زمانۂ جاہلیت میں حضرت مغیرہؓ نے چند آدمیوں کو قتل کردیا تھا اور ان کا مال لے لیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا تھا۔ حضور ﷺ نے مغیرہؓ کے قبولِ اسلام پر توصاد فرمایا تھا لیکن ساتھ ہی ان پر واضح کردیا تھا کہ تم نے جو مال لوٹا ہے ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ عروہؓ بن مسعود نے حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مقتولوں کا خون بہا ادا کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا تھا)۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حدیبیہ میں اپنی سفارت کے دوران میں حضرت عروہؓ نے حضور اکرم ﷺ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عقیدت اور شیفتگی کے جو حیرت انگیز مناظر دیکھے وہ ان سے بہت متاثر ہوئے۔ واپس جاکر قریش کے سامنے ان کی کیفیت بڑے مؤثر پیرا یہ میں تفصیل سے بیان کی اور انہیں مشورہ دیا کہ مسلمانوں سے صلح کرلو اور ان کو مکہ میں داخل ہونے سے نہ روکو۔ قریش نے اس وقت تو ان کا مشورہ نہ مانا لیکن بیعتِ رضوان کے بعد وہ صلح نامہ حدیبیہ پر دستخط کرنے پر مجبور ہوگئے۔

۸؁ ہجری میں سرورِ عالم ﷺ غزوۂ طائف سے فارغ ہوکر مدینہ منورہ کو واپس تشریف لارہے تھے کہ اثنائے راہ میں حضرت عروہؓ بن مسعود آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قبولِ اسلام کی سعادت حاصل کی اس کے بعد انہوں نے عرض کی:

’’یارسول اللہ ﷺ! مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے قبیلہ کو حق کی دعوت دوں۔‘‘

بنو ثقیف بڑے جنگجو اور مغرور لوگ تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری سنگدل قوم تم سے لڑے گی۔‘‘ (یا بروایتِ دیگر تمہاری قوم تم کو قتل کردے گی)۔

انہوں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ ﷺ! بنو ثقیف میرا بہت احترام کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر میں سورہا ہوں تو مجھے بیدار بھی نہیں کرتے کہ مبادا مجھے تکلیف ہو۔‘‘

ان کی بات سن کر حضور اکرم ﷺ نے انہیں تبلیغ حق کی اجازت دے دی۔

سعادت اندوزِ اسلام ہوکر حضرت عروہ بن مسعودرضی اللہ عنہ عشاء کے قریب طائف پہنچے۔ بنو ثقیف ان کی آمد کی خبر سن کر ملاقات کے لیے آئے اور جاہلیت کے طریقے پر ان کو سلام کیا۔ انہوں نے اس پر سختی سے اعتراض کیا اور کہا کہ تم کو اہلِ جنت کی طرح سلام کرنا چاہیے اور ’’السلام علیکم‘‘ کہنا چاہیے۔ پھر انہوں نے بنو ثقیف کو اسلام کی دعوت دی، اس پر وہ بھڑک اٹھے اور حضرت عروہ رضی اللہ عنہ کو سخت سست کہہ کر چلے گئے۔

صبح کو حضرت عروہؓ نے اپنے مکان کے بالاخانے میں کھڑے ہوکر فجر کی اذان دی۔ اس کو سن کر بنو ثقیف مشتعل ہوگئے اور حضرت عروہؓ کا رتبہ واحترام بالائے طاق رکھ کر ان پر تیر برسانے شروع کردیے۔ علامہ ابن سعدؒ کا بیان ہے کہ بنو مالک (ثقیف کی ایک شاخ) کے ایک شخص اوس بن عوف نے تاک کر ایسا تیر مارا کہ ان کی رگ اکحل میں پیوست ہوگیا۔ یہ تیر پیغامِ قضا ثابت ہوا۔ جب ان کی جانبری کی کوئی امید نہ رہی تو ان کے اہل خاندان ہتھیار باندھ کر ان کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کا بدلہ ضرور لیں گے، خواہ ہمارا بچہ بچہ مارا جائے، جب تک ہم بنو مالک کے دس سردار نہ قتل کرلیں گے ہم کو چین نہ آئے گا۔

حضرت عروہ رضی اللہ عنہ نیک نفسی میں اپنی مثال آپ تھے۔ انہوں نے فرمایا: ’’یہ تو اللہ تعالیٰ کا مجھ پر خاص احسان ہے کہ اس نے رتبۂ شہادت پر مجھے فائز کیا۔ میرے بدلہ میں کسی کو قتل نہ کرو۔ میں نے اپنا خون معاف کیا۔ میری تو اب صرف یہ آرزو ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے ان ساتھیوں کے پاس دفن کرنا جو محاصرۂ طائف کے دوران شہید ہوئے۔‘‘

ایک اور روایت میں ان سے یہ الفاظ بھی منسوب ہیں۔ ’’میرے بارے میں جنگ وجدل نہ کرو۔ میں نے تم لوگوں میں مصالحتِ باہمی کے لیے اپنا خون معاف کردیا۔ میرا قتل تو اللہ تعالیٰ کی نوازش ہے، اس کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اپنی جان راہِ حق میں قربان کرنے کی توفیق دی۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں جنہوں نے مجھے اس بات کی خبر دی تھی کہ تمہاری قوم تمہیں قتل کر ڈالے گی۔‘‘

اس وصیت کے بعد حضرت عروہؓ نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ اہلِ خاندان نے طائف کے گنجِ شہیداں میں سپردِ خاک کرکے ان کی آخری تمنا پوری کردی۔

رحمتِ عالم ﷺ کو حضرت عروہؓ بن مسعود کی شہادت کی اطلاع ملی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’عروہؓ کی مثال صاحبِ یٰسین جیسی ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو حق کی طرف بلایا اور قوم نے ان کو مار ڈالا۔‘‘

سرورِ عالم ﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ مجھے انبیاء کی مثالی صورتیں دکھائی گئیں، ابراہیم علیہ السلام میرے ہم شیبہ تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام عروہؓ بن مسعود کے ہم شکل تھے۔

حافظ ابنِ عبدالبرؒ نے الاستیعاب میں لکھا ہے کہ سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حضرت عروہ بن مسعود کی شہادت سے اتنا صدمہ پہنچایا کہ انہوں نے اس سانحۂ جانگداز پر ایک پُر درد مرثیہ کہا۔

طبری کا بیان ہے کہ حضرت عروہؓ بن مسعود نے جُرش (ایک صنعتی شہر) میں جاکر دبابہ، ضبور اور منجنیق بنانے کا طریقہ سیکھا تھا۔ ان کے ساتھ حضرت غیلانؓ بن سلمہ ثقفی بھی گئے تھے۔ ابنِ سعدؒ اور ابنِ ہشام کا بیان ہے کہ ان دونوں کو حضور ﷺ نے جُرش بھیجا تھا۔ اس لیے وہ غزوۂ حنین اور محاصرۂ طائف میں شریک نہ ہوسکے۔ اگر یہ روایت درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عروہؓ بن مسعود نے فتح مکہ سے کچھ پہلے یا اس کے فوراً بعد اسلام قبول کرلیا تھا لیکن عام طور پر یہی مشہور ہے کہ انہوں نے غزوۂ طائف کے بعد اسلام قبول کیا اور طائف واپس پہنچتے ہی ان کی شہادت کا واقعہ پیش آگیا۔ اس صورت میں اُن کا جُرش جانا قرینِ قیاس نہیں ہے اور اگر وہ جُرش گئے بھی تھے تو پھر یہ ان کے قبولِ اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

رضی اللہ عنہ…رضی اللہ عنہ…رضی اللہ عنہ
 
Top