جہاد کے بارے میں حدیثی دلائل

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

(۱) {عن مکحول عن ابی ہریرۃ قال: قال رسول اللہ ﷺ: ’’اَلْجِہَادُ واجِبٌ عَلَیْکُمْ مَعَ کُلِ اَمِیْرٍ بِرًّا کانَ اَو فَاجِرًا… الحدیث‘‘}​

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جہاد تم پر فرض ہے ہر امیر کے ساتھ خواہ وہ نیک ہو یا گناہگار۔‘‘

(ابوداؤد، حدیث رقم۲۵۳۳، باب فی الغزو مع أئمۃ الجور/ دارالکتب العلمیہ بیروت)

علامہ ظفراحمد عثمانیؒ اس حدیث شریف کی تشریح میں لکھتے ہیں۔

’’قولہ عن مکحول الخ، دلالتہ علی وجوب الجہاد ظاھرۃ، و لاحاجۃ للاستدلال علیہ الی الاخبار فأِن القرآن ناطق بہ صریحاً۔‘‘​

یہ حدیث جہاد کی فرضیت پر واضح طور پر دلالت کر رہی ہے، اور جہاد کی فرضیت ثابت کرنے کے لیے اخبار و احادیث سے استدلال کرنے کی (کوئی خاص) حاجت و ضرورت نہیں، کیونکہ قرآن پاک سے جہاد کی فرضیت بالکل صریحی طور پر ثابت ہے۔

(اعلاء السنن/ ج۲/ ص۴/ کتاب السیر/ ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیہ)

واضح رہے کہ ’’واجب‘‘ کا لفظ ’’فرض‘‘ کے لیے استعمال ہوتا رہتا ہے، جیسا کہ امام ابوالحسین احمد بن محمد البغدادی القدوریؒ (م:۴۲۸) نے اپنی مایۂ ناز کتاب ’’المختصر للقدوری‘‘ میں زکوٰۃ کی بحث شروع کرتے ہوئے لکھا ہے’’الزکوٰۃ واجبۃ الخ…‘‘ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ’’زکوٰۃ‘‘ فرض ہے۔ لہٰذا احادیث مبارکہ کے الفاظ ’’الجہاد واجب‘‘ سے کسی کو کوئی اشکال نہیں ہونا چاہیے۔

(۲) {قال رسول اللہ ﷺ: امرت ان اقاتل الناس حتیٰ یقولوا لاالٰہ الا اللہ، فمن قالھا عصم منی مالہ و نفسہ الا بحقہ وحسابہ علی اللہ۔}​

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا اقرار کرلیں۔ پس جس نے یہ کلمہ پڑھ لیا اس نے اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے محفوظ کرلی مگر اسلام کے حق کے ساتھ، اور اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔

(صحیح البخاری، حدیث رقم، ۱۳۹۹/ کتاب الزکوٰۃ، باب وجوب الزکوٰۃ/ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

اس حدیث مبارکہ سے بھی حضرات فقہائے کرامؒ نے جہاد کی فرضیت کو ثابت فرمایا ہے۔ علامہ ظفر احمد عثمانیؒ ’’اعلاء السنن‘‘ میں رقمطراز ہیں۔

’’عن ابی ھریرۃ مرفوعا… ’’امرت ان اقاتل الناس الحدیث‘‘… قلت: و معنی الحدیث ’’انہ امر بالجہاد ما بقی الکفر فی العالم، و اذا اسلم الناس کلھم انقطع الجہاد و اللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘​

(ج۱۲/ ص۴/ کتاب السیر/ ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیہ کراچی)

ایسے ہی امام، فقیہ، محدث عبداللہ بن محمود الموصلیؒ نے اپنی کتاب ’’الاختیار لتعلیل المختار‘‘ میں جہاد کی فرضیت کے ثبوت میں یہ حدیث مبارکہ پیش کی ہے۔ دیکھئیے! ص۵/ ج۴/ دارالرسالۃ العالمیہ، بیروت)

(۳) {عن انسؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ: ’’ثلاث من اصل الایمان، الکف عمن قال لا الٰہ الا اللہ، و لا نکفرہ بذنب و لانخرجہ من الاسلام بعمل، و الجہاد ماض منذ بعثنی اللہ الیٰ ان یقاتل آخر امتی الدجال لایبطلہ جور جائر و لا عدل عادل، و الایمان بالاقدار۔‘‘}​

(ابوداؤد، حدیث رقم ۱۵۳۲، کتاب الجہاد، باب فی الغزو مع أئمۃ الجور، دارالکتب العلمیہ، بیروت/ قال الشیخ ظفر احمد العثمانیؒ: رواہ ابوداؤد و سکت عنہ ھو والمنذری، ولہ شواھد،کذا فی النیل۲:۱۱۸۔ قلت: فالحدیث حسن صالح للاحتجاج بہ)

اس حدیث مبارکہ سے جہاد کی فرضیت کو ثابت کرتے ہوئے علامہ عبداللہ بن محمود الموصلیؒ لکھتے ہیں۔

’’الجہاد ماض… ای فرض… الخ…‘‘ (الاختیارلتعلیل المختار۔ ص۵/ ج۴/ دارالرسالۃ العالمیہ، بیروت)

یعنی وہ ’’ماضٍ‘‘ کو ’’فرضٌ‘‘ کے معنی میں لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث مبارکہ کو فرضیتِ جہاد کی حدیثی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے۔
 
Top