امام علی علیہ السلام

Manzoor Hussain

وفقہ اللہ
رکن
*اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْمِ*

*بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ*

*❣️نھج البلاغہ حکمات❣️*

*مؤلف: علامہ محمد بن الحسین الموسویالشریف المعروف سید رضی*


*حکمات نمبر 221سے 225*

*حکمت نمبر_221*
*ﺭﻭﺯ ﻗﻴﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﺪ ﺗﺮﻳﻦ ﺯﺍﺩ ﺳﻔﺮ ﺑﻨﺪﮔﺎﻥ ﺧﺪﺍ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ۔*

*حکمت نمبر_222*
*ﮐﺮﻳﻢ ﮐﮯ ﺑﮩﺘﺮﻳﻦ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻣﻴﮟ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﺑﻦ ﺟﺎﻧﺎ۔*

*حکمت نمبر_223*
*ﺟﺴﮯ ﺣﻴﺎ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﺒﺎﺱ ﺍﻭﮌﮬﺎ ﺩﻳﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻴﺐ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﻲ ﻧﮩﻴﮟ ﺩﻳﮑﮫ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔*

*حکمت نمبر_224*
*ﺯﻳﺎﺩﮦ ﺧﺎﻣﻮﺷﻲ ﮨﻴﺒﺖ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺑﻨﺘﻲ ﮨﮯ ﺍﻭﺭﺍﻧﺼﺎﻑ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﻣﻴﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ﻓﻀﻞ ﻭ ﮐﺮﻡ ﺳﮯ ﻗﺪﺭﻭﻣﻨﺰﻟﺖ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﻮﺗﻲ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﺍﺿﻊ ﺳﮯ ﻧﻌﻤﺖ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮﺗﻲ ﮨﮯ۔ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺳﺮﺩﺍﺭﻱ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺗﻲ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺳﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﭘﺮ ﻏﻠﺒﮧ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﻴﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ﺍﺣﻤﻖ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﻣﻴﮟ ﺑﺮﺩﺑﺎﺭﻱ ﮐﮯ ﻣﻈﺎﮨﺮﮦ ﺳﮯ ﺍﻧﺼﺎﺭ ﻭ ﺍﻋﻮﺍﻥ ﻣﻴﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔*

*حکمت نمبر_225*
*ﺣﻴﺮﺕ ﮐﻲ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﺴﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺴﻤﻮﮞ ﮐﻲ ﺳﻼﻣﺘﻲ ﭘﺮﺣﺴﺪ ﮐﻴﻮﮞ ﻧﮩﻴﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻴﮟ ( ﺩﻭﻟﺖ ﻣﻨﺪ ﮐﻲ ﺩﻭﻟﺖ ﺳﮯ ﺣﺴﺪ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﺩﻭﺭﮐﻲ ﺻﺤﺖ ﺳﮯ ﺣﺴﺪ ﻧﮩﻴﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﻳﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮍﻱ ﻧﻌﻤﺖ ﮨﮯ۔*


*اپنی دعاؤں میں امام زمانہ عج کو ضرور یاد رکھیں_امامؑ عج کے ظھور کے واسطے 5 بار صلوات*

*اَللّٰھُمَ صَلِ عَلٰی مُحَمَّدً وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَعَجِلْ فَرَجَھُمْ*



*مولا پاک آپ سب مومنین کو سلامت رکھے آمین*

*ہم حسینی دنیا میں پہیلے ہوۓ*

*انسان کو بیدار تو______ہونے دو*

*ھر قوم پکاریگی ہمارے ہیں حسینؑ*

*۞================۞*
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت علی کے معاصر ضرار بن مضمر نے حضرت ابوسفیان کے اصرار پر مندرجہ ذیل تاثر بیان کیا اور ان کے انتقال کو مسلمانوں کے لیے ایک خطرہ قرار دیا اور ان کی حیات مسلمانوں کے لیے نعمت عظمی بتاتے ہوئے ان کے اخلاق و کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے بیان کیا کہ:

”ان کی نظر انتہائی دور رس تھی،
ان کے قویٰ انتہائی مضبوط تھے،
بات دو ٹوک اور صاف کہتے
اور فیصلے پورے عدل و انصاف کے ساتھ کرتے،
ان کی شخصیت سے علم کے چشمے ابلتے تھے،
دنیا اور دنیا کی دل آویزیوں سے متوحش رہتے،
رات اوراس کی تاریکی سے دل لگاتے تھے،
خدا گواہ ہے کہ (راتوں کو عبادت میں) ان کے آنسو تھمتے نہ تھے،
دیر دیر تک فکرمند اور سوچتے رہتے،
اپنے کف دست کو الٹتے پلٹتے
اور اپنے آپ باتیں کرتے،
موٹا جھوٹا پہنتے،
روکا سوکھا کھاتے،
بخدا بالکل اپنے ہی ساتھیوں اور بے تکلف لوگوں کی طرح رہتے،
جب کچھ پوچھا جاتا جواب دیتے،
جب ان کے پاس جاتے تو خود بڑھ کر باتیں شروع کرتے،
جب بلاتے تو حسب وعدہ آجاتے،
لیکن ہم لوگوں کو (باوجود اس قربت اور رفاقت اور ان کی سادگی کے ان کا رعب ایسا تھا کہ) ان کے سامنے بولنے کی ہمت نہ ہوتی اور نہ کوئی گفتگو چھیڑتے،
اگر وہ مسکراتے تو آپ کے دندان ایسے نظر آتے جیسے سفید موتیوں کی لڑی ہو،
دینداروں کی توقیر کرتے،
مساکین سے محبت کرتے کسی طاقتور انسان کی یہ جراء ت نہ تھی کہ ان سے باطل کی تائید میں توقع رکھتا
اور کوئی کمزور ان کے عدل و انصاف سے مایوس نہ ہوتا۔
اور میں اللہ کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ میں نے ان کی راتوں کے چند مناظر دیکھے ہیں کہ رات نے اپنی سیاہ چادر پھیلادی ہے،
تارے ڈوبنے لگے ہیں اور علی محراب مسجد میں اپنی داڑھی ہاتھ سے پکڑے درد بھرے شخص کی طرح رورہے ہیں اوراس طرح تڑپ رہے ہیں جیسے کوئی ایسا شخص تڑپے جس کو کسی زہریلے سانپ یا بچھو نے ڈس لیاہو، مجھے ایسا لگتا ہے کہ ان کی آواز اب بھی سنائی دے رہی ہے، اور وہ کہہ رہے ہیں:

”اے دنیا کیاتو مجھ سے چھیڑ چھاڑ کررہی ہے یا مجھ سے کوئی امید رکھتی ہے؟ مجھ سے کچھ امید نہ رکھ، میرے علاوہ کسی اور کو فریب دے، میں تو تجھے تین طلاقیں دے چکا ہوں، جس کے بعد تیری طرف رجعت کی گنجائش ہی نہیں، تیری عمر کوتاہ، تیری دی ہوئی کامرانی حقیر، تیرے خطرات بھیانک اور بڑے آلودہ، آہ! زاد راہ کتناکم ہے، سفر کتنا طویل ہے اور راستہ کس درجہ سنسان ہے۔“

اس تاثر کو روایت کرنے والے ابوصالح ہیں کہتے ہیں کہ:

”یہ سن کر معاویہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اوراس کے قطرے ان کی داڑھی پر گرنے لگے، اپنی آستین سے وہ آنسو پونچھتے، اور رونے سے آواز حلق میں گھٹنے لگی، پھر معاویہ نے کہا: اللہ ابوالحسن پر رحم فرمائے، واقعی ان کا یہی حال تھا، ضرار تم اپنا حال کہو ان کی جدائی سے کیا محسوس کرتے ہو؟ کہا: مجھے ایسا غم ہے جیسا اس عورت کو ہوگا جس کا بچہ اس کی گود میں ذبح کردیاگیا ہو، اور نہ اس کے آنسو تھمتے ہوں، نہ غم ہلکاہوتا ہو۔“
 

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
*اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْمِ*

*بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ*

*❣️نھج البلاغہ حکمات❣️*

*مؤلف: علامہ محمد بن الحسین الموسویالشریف المعروف سید رضی*


*حکمات نمبر 221سے 225*

*حکمت نمبر_221*
*ﺭﻭﺯ ﻗﻴﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﺪ ﺗﺮﻳﻦ ﺯﺍﺩ ﺳﻔﺮ ﺑﻨﺪﮔﺎﻥ ﺧﺪﺍ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ۔*

*حکمت نمبر_222*
*ﮐﺮﻳﻢ ﮐﮯ ﺑﮩﺘﺮﻳﻦ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻣﻴﮟ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﺑﻦ ﺟﺎﻧﺎ۔*

*حکمت نمبر_223*
*ﺟﺴﮯ ﺣﻴﺎ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﺒﺎﺱ ﺍﻭﮌﮬﺎ ﺩﻳﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻴﺐ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﻲ ﻧﮩﻴﮟ ﺩﻳﮑﮫ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔*

*حکمت نمبر_224*
*ﺯﻳﺎﺩﮦ ﺧﺎﻣﻮﺷﻲ ﮨﻴﺒﺖ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺑﻨﺘﻲ ﮨﮯ ﺍﻭﺭﺍﻧﺼﺎﻑ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﻣﻴﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ﻓﻀﻞ ﻭ ﮐﺮﻡ ﺳﮯ ﻗﺪﺭﻭﻣﻨﺰﻟﺖ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﻮﺗﻲ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﺍﺿﻊ ﺳﮯ ﻧﻌﻤﺖ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮﺗﻲ ﮨﮯ۔ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺳﺮﺩﺍﺭﻱ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺗﻲ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺳﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﭘﺮ ﻏﻠﺒﮧ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﻴﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ﺍﺣﻤﻖ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﻣﻴﮟ ﺑﺮﺩﺑﺎﺭﻱ ﮐﮯ ﻣﻈﺎﮨﺮﮦ ﺳﮯ ﺍﻧﺼﺎﺭ ﻭ ﺍﻋﻮﺍﻥ ﻣﻴﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔*

*حکمت نمبر_225*
*ﺣﻴﺮﺕ ﮐﻲ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﺴﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺴﻤﻮﮞ ﮐﻲ ﺳﻼﻣﺘﻲ ﭘﺮﺣﺴﺪ ﮐﻴﻮﮞ ﻧﮩﻴﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻴﮟ ( ﺩﻭﻟﺖ ﻣﻨﺪ ﮐﻲ ﺩﻭﻟﺖ ﺳﮯ ﺣﺴﺪ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﺩﻭﺭﮐﻲ ﺻﺤﺖ ﺳﮯ ﺣﺴﺪ ﻧﮩﻴﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﻳﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮍﻱ ﻧﻌﻤﺖ ﮨﮯ۔*


*اپنی دعاؤں میں امام زمانہ عج کو ضرور یاد رکھیں_امامؑ عج کے ظھور کے واسطے 5 بار صلوات*

*اَللّٰھُمَ صَلِ عَلٰی مُحَمَّدً وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَعَجِلْ فَرَجَھُمْ*



*مولا پاک آپ سب مومنین کو سلامت رکھے آمین*

*ہم حسینی دنیا میں پہیلے ہوۓ*

*انسان کو بیدار تو______ہونے دو*

*ھر قوم پکاریگی ہمارے ہیں حسینؑ*

*۞================۞*
جناب منظور حسین صاحب : کیا جناب کا " نھج الابلاغہ " پر کامل ایمان ہے ؟
جناب کے جواب کا منتظر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Manzoor Hussain

وفقہ اللہ
رکن
میرا کامل ایمان قرآن کے سوا کسی بھی کتاب پر نہیں البتہ ہم ان کے اقوال کو جھٹلا بھی نہیں سکتے۔
 

Manzoor Hussain

وفقہ اللہ
رکن
حضرت علی کے معاصر ضرار بن مضمر نے حضرت ابوسفیان کے اصرار پر مندرجہ ذیل تاثر بیان کیا اور ان کے انتقال کو مسلمانوں کے لیے ایک خطرہ قرار دیا اور ان کی حیات مسلمانوں کے لیے نعمت عظمی بتاتے ہوئے ان کے اخلاق و کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے بیان کیا کہ:

”ان کی نظر انتہائی دور رس تھی،
ان کے قویٰ انتہائی مضبوط تھے،
بات دو ٹوک اور صاف کہتے
اور فیصلے پورے عدل و انصاف کے ساتھ کرتے،
ان کی شخصیت سے علم کے چشمے ابلتے تھے،
دنیا اور دنیا کی دل آویزیوں سے متوحش رہتے،
رات اوراس کی تاریکی سے دل لگاتے تھے،
خدا گواہ ہے کہ (راتوں کو عبادت میں) ان کے آنسو تھمتے نہ تھے،
دیر دیر تک فکرمند اور سوچتے رہتے،
اپنے کف دست کو الٹتے پلٹتے
اور اپنے آپ باتیں کرتے،
موٹا جھوٹا پہنتے،
روکا سوکھا کھاتے،
بخدا بالکل اپنے ہی ساتھیوں اور بے تکلف لوگوں کی طرح رہتے،
جب کچھ پوچھا جاتا جواب دیتے،
جب ان کے پاس جاتے تو خود بڑھ کر باتیں شروع کرتے،
جب بلاتے تو حسب وعدہ آجاتے،
لیکن ہم لوگوں کو (باوجود اس قربت اور رفاقت اور ان کی سادگی کے ان کا رعب ایسا تھا کہ) ان کے سامنے بولنے کی ہمت نہ ہوتی اور نہ کوئی گفتگو چھیڑتے،
اگر وہ مسکراتے تو آپ کے دندان ایسے نظر آتے جیسے سفید موتیوں کی لڑی ہو،
دینداروں کی توقیر کرتے،
مساکین سے محبت کرتے کسی طاقتور انسان کی یہ جراء ت نہ تھی کہ ان سے باطل کی تائید میں توقع رکھتا
اور کوئی کمزور ان کے عدل و انصاف سے مایوس نہ ہوتا۔
اور میں اللہ کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ میں نے ان کی راتوں کے چند مناظر دیکھے ہیں کہ رات نے اپنی سیاہ چادر پھیلادی ہے،
تارے ڈوبنے لگے ہیں اور علی محراب مسجد میں اپنی داڑھی ہاتھ سے پکڑے درد بھرے شخص کی طرح رورہے ہیں اوراس طرح تڑپ رہے ہیں جیسے کوئی ایسا شخص تڑپے جس کو کسی زہریلے سانپ یا بچھو نے ڈس لیاہو، مجھے ایسا لگتا ہے کہ ان کی آواز اب بھی سنائی دے رہی ہے، اور وہ کہہ رہے ہیں:

”اے دنیا کیاتو مجھ سے چھیڑ چھاڑ کررہی ہے یا مجھ سے کوئی امید رکھتی ہے؟ مجھ سے کچھ امید نہ رکھ، میرے علاوہ کسی اور کو فریب دے، میں تو تجھے تین طلاقیں دے چکا ہوں، جس کے بعد تیری طرف رجعت کی گنجائش ہی نہیں، تیری عمر کوتاہ، تیری دی ہوئی کامرانی حقیر، تیرے خطرات بھیانک اور بڑے آلودہ، آہ! زاد راہ کتناکم ہے، سفر کتنا طویل ہے اور راستہ کس درجہ سنسان ہے۔“

اس تاثر کو روایت کرنے والے ابوصالح ہیں کہتے ہیں کہ:

”یہ سن کر معاویہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اوراس کے قطرے ان کی داڑھی پر گرنے لگے، اپنی آستین سے وہ آنسو پونچھتے، اور رونے سے آواز حلق میں گھٹنے لگی، پھر معاویہ نے کہا: اللہ ابوالحسن پر رحم فرمائے، واقعی ان کا یہی حال تھا، ضرار تم اپنا حال کہو ان کی جدائی سے کیا محسوس کرتے ہو؟ کہا: مجھے ایسا غم ہے جیسا اس عورت کو ہوگا جس کا بچہ اس کی گود میں ذبح کردیاگیا ہو، اور نہ اس کے آنسو تھمتے ہوں، نہ غم ہلکاہوتا ہو۔“
محترمہ اسکا کوئی حوالہ پیش کریں۔
 
Top