سورۃ الشعراء مفتی تقی عثمانی تفسیر آسان قرآن

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
تعارف
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی ایک روایت کے مطابق یہ سورت سورۃ واقعہ (سورۃ نمبر ۵۶) کے بعد نازل ہوئی تھی۔ یہ حضور اکرمﷺ کی مکی زندگی کا وہ زمانہ تھا جس میں کفار مکہ آپ کی دعوت کی بڑے زور و شور سے مخالفت کرتے ہوئے آپ سے اپنی پسند کے معجزات دکھانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس سورت کے ذریعے آنحضرتﷺ کو تسلی بھی دی گئی ہے، اور کائنات میں پھیلی ہوئی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں کی طرف توجہ دلا کر اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی کے دل میں انصاف ہو اور وہ سچے دل سے حق کی تلاش کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی یہ نشانیاں اس توحید کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اور اسے کسی اور معجزے کی تلاش کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی ضمن میں پچھلے انبیائے کرامؑ اور ان کی امتوں کے واقعات یہ بیان کرنے کے لیے سنائے گئے ہیں کہ ان کی قوموں نے جو معجزات مانگے تھے، انہیں وہی معجزات دکھائے گئے، لیکن وہ پھر بھی نہ مانے جس کے نتیجے میں انہیں عذاب الٰہی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب منہ مانگے معجزات دیکھنے کے باوجود کوئی قوم ایمان نہیں لاتی تو اسے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ اس بنا پر کفار مکہ کو مہلت دی جا رہی ہے کہ وہ نت نئے معجزات کا مطالبہ کرنے کے بجائے توحید و رسالت کے دوسرے دلائل پر کھلی آنکھوں سے غور کر کے ایمان لائیں، اور ہلاکت سے بچ جائیں۔
کفار مکہ آنحضرتﷺ کو کبھی کاہن کہتے تھے، کبھی جادو گر اور کبھی آپ کو شاعر کا نام دیتے تھے۔ سورت کے آخری رکوع میں ان باتوں کی مدلل تردید فرمائی گئی ہے، اور کاہنوں اور شاعروں کی خصوصیات بیان کر کے جتایا گیا ہے کہ ان میں سے کوئی بات آنحضرتﷺ میں نہیں پائی جاتی۔ اسی ضمن میں آیت ۲۲۴ تا ۲۲۷ نے شعراء کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ اسی وجہ سے سورت کا نام شعراء رکھا گیا ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں صفحہ نمبر ۱۱۴۱)

آیت ۱

ترجمہ

طسم (۱)

تفسیر

۱۔ جیسا کہ سورۃ بقرہ کے شروع میں عرض کیا گیا تھا، مختلف سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں، انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے، اور ان کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

آیت ۲ ۔ ۴

ترجمہ

یہ اس کتاب کی آیتیں ہیں جو حق کو واضح کرنے والی ہے۔
(اے پیغمبر) شاید تم اس غم میں اپنی جان ہلاک کیے جار ہے ہو کہ یہ لوگ ایمان (کیوں) نہیں لاتے۔
اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتار دیں کہ اس کے آگے ان کی گردنیں جھک کر رہ جائیں۔ (۲)

تفسیر

۲۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کچھ مشکل نہیں تھا کہ ان کو ایمان لانے پر مجبور کر دیتا، لیکن اس دنیا میں انسان کو بھیجنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اسے زبردستی مسلمان بنایا جائے۔ بلکہ انسان سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ کسی زور زبردستی کے بغیر اپنی عقل کو استعمال کر کے اور دلائل پر غور کر کے ایمان کا راستہ اختیار کرے۔ یہی وہ آزمائش ہے جس کے لیے اسے دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ اس لیے اگر یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے ہیں تو آپ کو اتنا صدمہ نہیں کرنا چاہئے کہ اپنی جان کو ہلکان کر لیں۔

آیت ۵ ۔ ۱۴

ترجمہ

(ان کا حال تو یہ ہے کہ) ان کے پاس خدائے رحمن کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے، یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔
اس طرح انہوں نے حق کو جھٹلا دیا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ جن باتوں کا مذاق اڑاتے رہے ہیں، اب عنقریب ان کے ٹھیک ٹھیک حقائق ان کے سامنے آ جائیں گے۔
اور کیا انہوں نے زمین کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اس میں ہر نفیس قسم کی کتنی چیزیں اگائی ہیں؟
یقیناً ان سب چیزوں میں عبرت کا بڑا سامان ہے، پھر بھی ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے
اور یقین رکھو کہ تمہارا پروردگار صاحب اقتدار بھی ہے، بہت مہربان بھی۔
اور اس وقت کا حال سنو جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو آواز دے کر کہا تھا کہ اس ظالم قوم کے پاس جاؤ
یعنی فرعون کی قوم کے پاس۔ کیا ان کے دل میں خدا کا خوف نہیں ہے؟
موسیٰ نے کہا کہ میرے پروردگار! مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جھوٹا بنائیں گے۔
اور میرا دل تنگ ہونے لگتا ہے، اور میری زبان نہیں چلتی۔ اس لیے آپ ہارون کو بھی (نبوت کا) پیغام بھیج دیجیے۔
اور میرے خلاف ان لوگوں نے ایک جرم بھی عائد کر رکھا ہے۔ (۳) جس کی وجہ سے مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے قتل نہ کر ڈالیں

تفسیر

۳۔ حضرت موسیٰؑ نے ایک مظلوم کو بچاتے ہوئے ظالم کو ایک مکا مارا تھا جس سے وہ مر ہی گیا۔ اس وجہ سے ان پر قتل کا الزام لگ گیا تھا۔ تفصیلی واقعہ سورۃ قصص میں آنے والا ہے۔

آیت ۱۵ ۔ ۱۷

ترجمہ

اللہ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں۔ تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ۔ یقین رکھو کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، ساری باتیں سنتے رہیں گے۔
اب تم فرعون کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم دونوں رب العالمین کے پیغمبر ہیں۔
(اور یہ پیغام لائے ہیں) کہ تم بنو اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دو۔ (۴)

تفسیر

۴۔ بنو اسرائیل اصل میں حضرت یعقوبؑ کی اولاد کا نام ہے۔ یہ فلسطین کے علاقے کنعان کے باشندے تھے، لیکن حضرت یوسفؑ جب مصر کے حکمران بنے تو انہوں نے اپنے سارے خاندان کو مصر بلا کر آباد کر لیا تھا، جس کا واقعہ سورۃ یوسف میں گذر چکا ہے۔ کچھ عرصے یہ لوگ وہاں اطمینان سے رہے، لیکن حضرت یوسفؑ کے بعد مصر کے بادشاہوں نے جنہیں فرعون کہا جاتا تھا، ان کو غلام بنا کر ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھانے شروع کر دئیے۔

آیت ۱۸

ترجمہ

فرعون نے (جواب میں موسیٰؑ سے) کہا۔ کیا ہم نے تمہیں اس وقت اپنے پاس رکھ کر نہیں پالا تھا جب تم بالکل بچے تھے؟ (۵) اور تم نے اپنی عمر کے بہت سے سال ہمارے یہاں رہ کر گزارے۔

تفسیر

۵۔ یہ واقعہ سورۃ طٰہٰ ۳۹ میں گذر چکا ہے

آیت ۱۹

ترجمہ

اور جو حرکت تم نے کی تھی وہ بھی کر گزرے (۶) اور تم بڑے ناشکرے آدمی ہو۔

تفسیر

۶۔ یہ اسی قتل کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر اوپر حاشیہ نمبر ۳ میں کیا گیا ہے

آیت ۲ـ

ترجمہ

موسیٰ نے کہا۔ اس وقت وہ کام میں ایسی حالت میں کر گزرا تھا کہ مجھے پتہ نہیں تھا۔ (۷)

تفسیر

۷۔ یعنی یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ ایک ہی مکا کھا کر مر جائے گا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۲۱

ترجمہ

چنانچہ جب مجھے تم لوگوں سے خوف ہوا تو میں تمہارے پاس سے فرار ہو گیا، پھر اللہ نے مجھے حکمت عطا فرمائی، اور پیغمبروں میں شامل فرما دیا۔ (۸)

تفسیر

۸۔ حضرت موسیٰؑ مصر سے مدین چلے گئے تھے جہاں سے واپسی میں انہیں نبوت عطا ہوئی۔ تفصیلی واقعہ سورۃ قصص میں آنے والا ہے۔

آیت ۲۲ ۔ ۲۷

ترجمہ

اور وہ احسان جو تم مجھ پر رکھ رہے ہو (اس کی حقیقت) یہ ہے کہ تم نے سارے بنو اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے۔
فرعون نے کہا۔ اور یہ رب العالمین کیا چیز ہے؟
موسیٰ نے کہا۔ وہ سارے آسمانوں اور زمین کا، اور ان ساری چیزوں کا پروردگار ہے جو ان کے درمیان پائی جاتی ہیں، اگر تم کو واقعی یقین کرنا ہو۔
فرعون نے اپنے اردگرد کے لوگوں سے کہا۔ سن رہے ہو کہ نہیں؟
موسیٰ نے کہا۔ وہ تمہارا بھی پروردگار ہے اور تمہارے پچھلے باپ دادوں کا بھی۔
فرعون بولا۔ تمہارا یہ پیغمبر جو تمہارے پاس بھیجا گیا ہے یہ تو بالکل ہی دیوانہ ہے۔ (۹)

تفسیر

۹۔ فرعون نے جو سوال کیا تھا، اس کا مطلب یہ تھا کہ رب العالمین کی حقیقت و ماہیت بتاؤ۔ حضرت موسیٰؑ کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقت و ماہیت کوئی نہیں جان سکتا، البتہ اس کو اس کی صفات سے پہچانا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰؑ نے جواب میں باری تعالیٰ کی صفات ہی بیان فرمائیں۔ اس پر فرعون نے کہا کہ ’’یہ بالکل دیوانہ ہے‘‘ کیونکہ سوال حقیقت کا کیا گیا تھا، اور جواب صفات سے دے رہے ہیں۔

آیت ۲۸ ۔ ۳۳

ترجمہ

موسیٰ نے کہا۔ وہ مشرق و مغرب کا بھی پروردگار ہے، اور ان کے درمیان ساری چیزوں کا بھی، اگر تم عقل سے کام لو۔
کہنے لگا۔ یاد رکھو، اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا تو میں تمہیں ضرور ان لوگوں میں شامل کر دوں گا جو جیل خانے میں پڑے ہوئے ہیں۔
موسیٰ بولے۔ اور اگر میں تمہیں کوئی ایسی چیز لا دکھاؤں جو حق کو واضح کر دے، پھر؟
فرعون نے کہا۔ اچھا، اگر واقعی سچے ہو تو لے آؤ وہ چیز۔
چنانچہ موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کھلا ہوا اژدھا بن گیا۔
اور انہوں نے اپنا ہاتھ (بغل میں سے) کھینچ کر نکالا تو پل بھر میں وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے سفید ہو گیا۔ (۱۰)

تفسیر

۱ـ۔ یعنی چمک دار ہو گیا

آیت ۳۴ ۔ ۴۴

ترجمہ

فرعون نے اپنے ارد گرد کے سرداروں سے کہا۔ یقیناً یہ کوئی ماہر جادوگر ہے۔
یہ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے ذریعے تمہیں تمہاری سرزمین سے نکال باہر کرے۔ اب بتاؤ کیا رائے ہے؟
انہوں نے کہا۔ ان کو اور ان کے بھائی کو کچھ مہلت دیجیے، اور تمام شہروں میں ہر کارے بھیج دیجیے۔
جو ماہر جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں (اور ان جادوگروں کا مقابلہ کریں)
چنانچہ ایک دن مقر رہ وقت پر سارے جادوگر جمع کر لیے گئے۔
اور لوگوں سے کہا گیا کہ کیا تم لوگ جمع ہو رہے ہو؟
شاید اگر یہ جادو گر ہی غالب آ گئے تو ہم انہی کے راستے پر چلیں۔
پھر جب جادوگر آئے تو انہوں نے فرعون سے کہا۔ یہ بات تو یقینی ہے نا کہ اگر ہم غالب آ گئے تو ہمیں کوئی انعام ملے گا؟
فرعون نے کہا۔ ہاں ہاں، اور تمہیں اس صورت میں مقرب لوگوں میں بھی ضرور شامل کر لیا جائے گا۔
موسیٰ نے ان جادوگروں سے کہا۔ جو کچھ تمہیں پھینکنا ہے، پھینکو
اس پر ان جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر ڈال دیں (۱۱) اور کہا کہ فرعون کی عزت کی قسم! ہم ہی غالب آئیں گے۔

تفسیر

۱۱۔ سورۃ طٰہٰ۔ ۶۶ میں گذر چکا ہے کہ اچانک ان کی ڈالی ہوئی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے نتیجے میں ایسی محسوس ہونے لگیں جیسے دوڑ رہی ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۴۵، ۴۶

ترجمہ

اب موسیٰ نے اپنا عصا زمین پر ڈالا تو اچانک اس نے (اژدھا بن کر) اس تماشے کو نگلنا شروع کر دیا جو وہ جھوٹ موٹ بنا رہے تھے۔
بس پھر وہ جادوگر سجدے میں گرا دیئے گئے۔ (۱۲)

تفسیر

۱۲۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم نے ان کے لیے ’’سجدے میں گر گئے‘‘ کے بجائے ’’سجدے میں گرا دئیے گئے‘‘ فرمایا ہے۔ اس میں اشارہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے جو معجزہ دکھلایا، وہ اس درجہ مؤثر تھا کہ اس نے انہیں بے ساختہ سجدے میں گرا دیا۔

آیت ۴۷ ۔ ۵۹

ترجمہ

کہنے لگے کہ ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے۔
جو موسیٰ اور ہارون کا پروردگار ہے۔
فرعون بولا۔ تم میرے اجازت دینے سے پہلے ہی موسیٰ پر ایمان لے آئے۔ ثابت ہوا کہ یہ تم سب کا سرغنہ ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔ اچھا ابھی تمہیں پتہ چل جائے گا۔ میں تم سب کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کٹواؤں گا، اور تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا۔
جادوگروں نے کہا۔ ہمارا کچھ نہیں بگڑے گا، ہمیں یقین ہے کہ ہم لوٹ کر اپنے پروردگار کے پاس چلے جائیں گے۔
ہم تو شوق سے امید لگائے ہوئے ہیں کہ ہمارا پروردگار اس وجہ سے ہماری خطائیں بخش دے گا کہ ہم سب سے پہلے ایمان لائے تھے۔
اور ہم نے موسیٰ کے پاس وحی بھیجی کہ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات روانہ ہو جاؤ، تمہارا پیچھا یقیناً کیا جائے گا۔
اس پر فرعون نے شہروں میں ہر کارے بھیج دیے۔
(اور یہ کہلا بھیجا کہ) یہ (بنی اسرائیل) ایک چھوٹی سی ٹولی کے تھوڑے سے لوگ ہیں۔
اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے دل جلائے ہوئے ہیں۔
اور ہم سب احتیاطی تدبیریں کیے ہوئے ہیں۔ (لہذا سب مل کر ان کا تعاقب کرو۔
اس طرح ہم انہیں باہر نکال لائے باغوں اور چشموں سے بھی۔
اور خزانوں اور با عزت مقامات سے بھی۔
ان کا معاملہ تو اسی طرح ہوا، اور (دوسری طرف) ان چیزوں کا وارث ہم نے بنی اسرائیل کو بنا دیا (۱۳)

تفسیر

۱۳۔ اس کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ اعراف: ۱۳۷ کا حاشیہ

آیت ۶ـ، ۶۱

ترجمہ

غرض ہوا یہ کہ یہ سب لوگ سورج نکلتے ہی ان کا پیچھا کرنے نکل کھڑے ہوئے۔
پھر جب دونوں جتھے ایک دوسرے کو نظر آنے لگے تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا کہ اب تو پکی بات ہے کہ ہم پکڑ ہی لیے گئے۔ (۱۴)

تفسیر

۱۴۔ موسیٰؑ کے لشکر کے سامنے سمندر آ گیا تھا، اور پیچھے سے فرعون کا لشکر، اس لیے موسیٰؑ کے ساتھی سمجھے کہ اب بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

آیت ۶۲، ۶۳

ترجمہ

موسیٰ نے کہا۔ ہرگز نہیں، میرے ساتھ یقینی طور سے میرا پروردگار ہے، وہ مجھے راستہ بتائے گا۔
چنانچہ ہم نے موسیٰ کے پاس وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو۔ بس پھر سمندر پھٹ گیا، اور ہر حصہ ایک بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہو گیا۔ (۱۵)

تفسیر

۱۵۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کے کئی حصے کر کے ان کو پہاڑ کی طرح کھڑا کر دیا، اور ان حصوں کے درمیان خشک راستے بن گئے۔

آیت ۶۴

ترجمہ

اور دوسرے فریق کو بھی ہم اس جگہ کے نزدیک لے آئے۔ (۱۶)

تفسیر

۱۶۔ یعنی فرعون کے لشکر نے جب دیکھا کہ سمندر کے درمیان راستے بنے ہوئے ہیں، تو اس نے بھی اس راستے سے گذرنے کی کوشش کی، لیکن جب وہ لوگ وہاں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے سمندر کو اپنی اصل حالت پر لوٹا دیا، اور فرعون اور اس کے ساتھ اسی سمندر میں غرق ہو گئے۔ یہ تفصیل سورۃ یونس: ۹۱، ۹۲ میں گذر چکی ہے۔

آیت ۶۵ ۔ ۸ـ

ترجمہ

اور موسیٰ اور ان کے تمام ساتھیوں کو ہم نے بچا لیا۔
پھر دوسروں کو غرق کر ڈالا۔
یقیناً اس سارے واقعے میں عبرت کا بڑا سامان ہے، پھر بھی ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔
اور یقین رکھو کہ تمہارا پروردگار صاحب اقتدار بھی ہے، بڑا مہربان بھی۔
اور (اے پیغمبر) ان کو ابراہیم کا واقعہ سناؤ
جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟
انہوں نے کہا کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں، اور انہی کے آگے دھرنا دیے رہتے ہیں۔
ابراہیم نے کہا۔ جب تم ان کو پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری بات سنتے ہیں؟
یا تمہیں کوئی فائدہ یا نقصان پہنچاتے ہیں؟
انہوں نے کہا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایسا ہی کرتے ہوئے پایا ہے۔
ابراہیم نے کہا۔ بھلا کبھی تم نے ان چیزوں کو غور سے دیکھا بھی جن کی تم عبادت کرتے رہے ہو؟
تم بھی اور تمہارے پرانے باپ دادے بھی۔
میرے لیے تو یہ سب دشمن ہیں، سوائے ایک رب العالمین کے
جس نے مجھے پیدا کیا ہے، پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے۔
اور جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔
اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو مجھے شفا دیتا ہے (۱۷)

تفسیر

۱۷۔ حضرت ابراہیمؑ کا ادب ملاحظہ فرمائیے کہ انہوں نے بیمار ہونے کی نسبت تو اپنی طرف فرمائی، اور شفا دینے کو اللہ تعالیٰ کا عمل قرار دیا، اس میں یہ اشارہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیماری انسان کی کسی اپنی غلطی کے سبب آتی ہے اور شفا براہ راست اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۸۱ ۔ ۸۶

ترجمہ

اور جو مجھے موت دے گا، پھر زندہ کرے گا۔
اور جس سے میں یہ امید لگائے ہوئے ہوں کہ وہ حساب و کتاب کے دن میری خطا بخش دے گا۔
میرے پروردگار! مجھے حکمت عطا فرما، اور مجھے نیک لوگوں میں شامل فرما لے۔
اور آنے والی نسلوں میں میرے لیے وہ زبانیں پیدا فرما دے جو میری سچائی کی گواہی دیں۔
اور مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جو نعمتوں والی جنت کے وارث ہوں گے۔
اور میرے باپ کی مغفرت فرما، یقیناً وہ گمراہ لوگوں میں سے ہے۔ (۱۸)

تفسیر

۱۸۔ سورۃ مریم (۱۹۔ ۴۷) میں گزر چکا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے باپ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت کی دعا کریں گے، لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ممانعت آ گئی اور معلوم ہو گیا کہ وہ کبھی ایمان نہیں لائے گا تو انہوں نے بھی اس سے برأت کا اظہار فرما دیا، جیسا کہ سورۃ توبہ (۹۔ ۱۱۴) میں گزر چکا ہے۔

آیت ۸۷ ۔ ۹۴

ترجمہ

اور اس دن مجھے رسوا نہ کرنا جس دن لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔
جس دن نہ کوئی مال کام آئے گا، نہ اولاد
ہاں جو شخص اللہ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آئے گا (اس کو نجات ملے گی)
اور جنت متقی لوگوں کے لیے قریب کر دی جائے گی
اور دوزخ کھلے طور پر گمراہوں کے سامنے کر دی جائے گی۔
اور ان سے کہا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ جن کی تم عبادت کیا کرتے تھے؟
اللہ کو چھوڑ کر، کیا وہ تمہاری مدد کریں گے یا کود اپنا بچاؤ کر لیں گے؟
پھر ان کو اور گمراہوں کو بھی اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیا جا ۴ے گا۔ (۱۹)

تفسیر

۱۹۔ یعنی ان گمراہوں کے ساتھ ان کے جھوٹے معبودوں کو بھی دوزخ میں ڈالا جائے گا، ان میں سے بعض تو وہ ہیں جنہوں نے خود اپنی خدائی کا دعوی کیا تھا، اور بعض پتھر کے بت ہیں، ان کو یہ دکھانے کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے گا کہ جن کو یہ گمراہ لوگ معبود سمجھتے تھے، ان کا حشر بھی آنکھوں سے دیکھ لیں۔

آیت ۹۵ ۔ ۹۹

ترجمہ

اور ابلیس کے سارے لشکروں کو بھی۔
وہاں یہ سب آپس میں جھگڑتے ہوئے (اپنے معبودوں سے) کہیں گے۔
کہ اللہ کی قسم ہم تو اس زمانے میں کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔
جب ہم نے تمہیں رب العالمین کے برابر قرار دے رکھا تھا۔
اور ہمیں تو ان بڑے بڑے مجرموں نے ہی گمراہ کیا تھا۔ (۲۰)

تفسیر

۲ـ۔ مجرموں سے یہاں مراد وہ بڑے بڑے سردار ہیں جو کفر پر قائم رہے، اور انہیں دیکھ کر دوسروں نے بھی کفر اختیار کیے رکھا۔

آیت ۱ــ ۔ ۱ـ۲

ترجمہ

نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو ہمیں کسی قسم کی سفارش کرنے والے میسر ہیں۔
اور نہ کوئی ایسا دوست جو ہمدردی کر سکے۔
اب کاش کہ ہمیں ایک مرتبہ دنیا میں واپس جانے کا موقع مل جائے تو ہم مومن بن جائیں۔ (۲۱)

تفسیر

۲۱۔ یہ وہ تقریر تھی جو حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم کے سامنے فرمائی۔ باقی واقعہ یہاں بیان نہیں کیا گیا، اس کی تفصیل پیچھے سورۃ انبیاء۔ ۵۱ میں گذر چکی ہے اور کچھ تفصیل سورۃ صافات۔ ۸۳ میں بھی آنے والی ہے۔

آیت ۱ـ۳ ۔ ۱۱۲

ترجمہ

یقیناً اس سارے واقعے میں عبرت کا بڑا سامان ہے، پھر بھی ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔
اور یقین رکھو کہ تمہارا پروردگار صاحب اقتدار بھی ہے، بہت مہربان بھی۔
نوح کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔
جبکہ ان کے بھائی نوح نے ان سے کہا کہ کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟
یقین جانو کہ میں تمہارے لیے ایک امانت دار پیغمبر ہوں۔
لہذا تم اللہ سے ڈرو، اور میری بات مانو
اور میں تم سے اس کام پر کسی قسم کی کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میرا اجر تو صرف اس ذات نے اپنے ذمے لے رکھا ہے جو سارے دنیا جہان کی پرورش کرتی ہے۔
لہذا تم اللہ سے ڈرو، اور میری بات مانو۔
وہ لوگ بولے۔ کیا ہم تم پر ایمان لے آئیں، حالانکہ بڑے نیچے درجے کے لوگ تمہارے پیچھے لگے ہوئے ہیں؟
نوح نے کہا۔ میں کیا جانوں کہ وہ کیا کام کرتے ہیں؟ (۲۲)

تفسیر

۲۲۔ کافروں نے حضرت نوحؑ کو یہ طعنہ دیا تھا کہ ان کے پیرو کار اکثر ایسے لوگ ہیں جن کا پیشہ نچلے درجے کا سمجھا جاتا ہے۔ حضرت نوحؑ نے جواب میں فرمایا کہ مجھے اس سے کیا سروکار کہ ان کا پیشہ کیا ہے، اور وہ کیا کام کرتے ہیں۔

آیت ۱۱۳

ترجمہ

ان کا حساب لینا کسی اور کا نہیں، میرے پروردگار کا کام ہے۔ (۲۳) کاش! تم سمجھ سے کام لو۔

تفسیر

۲۳۔ کافروں کے مذکورہ اعتراض میں اس طرف بھی اشارہ تھا کہ یہ نچلے درجے کے لوگ سوچ سمجھ کر دل سے ایمان نہیں لائے ہیں، بلکہ کسی ذاتی مفاد کی خاطر آپ کے ساتھ ہو لیے ہیں۔ اس جملے میں اس کا جواب ہے کہ اگر بالفرض ان کے دل میں کوئی اور بات ہے بھی، تو میں اس کی تحقیق کا مکلف نہیں ان کا حساب اللہ تعالیٰ خود لے لیں گے۔

آیت ۱۱۴ ۔ ۱۲ـ

ترجمہ

اور میں ان مومنوں کو دھتکار کر اپنے سے دور نہیں کر سکتا۔
میں تو بس ایک خبردار کرنے والا ہوں جو (تمہارے سامنے) حقیقت کھول کر رکھ رہا ہے۔
وہ کہنے لگے۔ اے نوح اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے گا۔
نوح نے کہا۔ میرے پروردگار! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا ہے۔
اب آپ میرے اور ان کے در میان دو ٹوک فیصلہ کر دیجیے، اور مجھے اور میرے مومن ساتھیوں کو بچا لیجیے۔
چنانچہ ہم نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو بھری ہوئی کشتی میں بچا لیا۔
پھر اس کے بعد باقی لوگوں کو غرق کر دیا (۲۴)

تفسیر

۲۴۔ پورا واقعہ سورۃ ہود۔ ۲۵ تا ۴۸ میں گذر چکا ہے۔

آیت ۱۲۱ ۔ ۱۲۸

ترجمہ

یقیناً اس سارے واقعے میں عبرت کا بڑا سامان ہے، پھر بھی ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔
اور یقین رکھو کہ تمہارا پروردگار صاحب اقتدار بھی ہے، بہت مہربان بھی۔
عاد کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔
جبکہ ان کے بھائی ہود نے ان سے کہا کہ کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟
یقین جانو کہ میں تمہارے لیے ایک امانت دار پیغمبر ہوں۔
لہذا تم اللہ سے ڈرو، اور میری بات مانو۔
اور میں تم سے اس کام پر کسی قسم کی کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اس ذات نے اپنے ذمے لے رکھا ہے جو سارے دنیا جہان کی پرورش کرتی ہے۔
کیا تم ہر اونچی جگہ پر کوئی یاد گار بنا کر فضول حرکتیں کرتے ہو؟ (۲۵)

تفسیر

۲۵۔ فضول حرکتوں کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر بلند جگہ پر کوئی یادگار تعمیر کرنے کو ہی فضول حرکت کہا گیا ہے، کیونکہ اس کا کوئی صحیح مقصد نہیں تھا، بلکہ محض دکھاوے اور بڑائی کے اظہار کے لیے یہ کام کیا جاتا تھا۔ دوسری تشریح بعض مفسرین، مثلاً حضرت ضحاک نے یہ کی ہے کہ وہ لوگ ان اونچی تعمیروں پر بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر نیچے سے گذرنے والوں کے ساتھ طرح طرح کی ناشائستہ حرکتیں کیا کرتے تھے۔ اس کو فضول حرکت سے تعبیر کیا گیا ہے (روح المعانی)۔

آیت ۱۲۹

ترجمہ

اور تم نے بڑی کاریگری سے بنائی ہوئی عمارتیں اس طرح رکھ چھوڑی ہیں جیسے تمہیں ہمیشہ زندہ رہنا ہے؟ (۲۶)

تفسیر

۲۶۔ قرآن کریم میں یہاں مصانع کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے اصل معنی ہیں وہ چیزیں جو کاریگری کا مظاہرہ کر کے بنائی گئی ہوں، اس میں ہر طرح کی وہ تعمیرات داخل ہیں جو نام و نمود کی خاطر بڑی شان و شوکت سے بنائی گئی ہو چاہے وہ زرق برق محل ہوں، یا پر شکوہ قلعے یا نہریں اور راستے۔ یہاں حضرت ہودؑ نے اس طرز عمل پر جو اعتراض فرمایا ہے، در اصل اس کا منشا یہ ہے کہ تم نے اپنی ساری دوڑ دھوپ کا مرکز اس نام و نمود اور شان و شوکت کو بنایا ہوا ہے، اور اسی کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ بیٹھے ہو، جیسے تمہیں ہمیشہ اسی دنیا میں رہنا ہے، اور کبھی اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش نہیں ہونا۔

آیت ۱۳ـ

ترجمہ

اور جب کسی کی پکڑ کرتے ہو تو پکے ظالم و جابر بن کر پکڑ کرتے ہو۔ (۲۷)

تفسیر

۲۷۔ یعنی ایک طرف تو تمہارا حال یہ ہے کہ ان نام و نمود کی عمارتوں پر پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہو، اور دوسری طرف غریبوں کے ساتھ تمہارا رویہ انتہائی ظالمانہ ہے کہ ذرا سی بات پر کسی کی پکڑ کر لی تو اس کی جان عذاب میں آ گئی۔ حضرت ہودؑ کی یہ باتیں نقل کر کے قرآن کریم نے ہم سب کو توجہ دلائی ہے کہ کہیں ہمارا طرز عمل بھی اس زمرے میں تو نہیں آتا کہ بس دنیا کی شان و شوکت ہی کو سب کچھ سمجھ کر آخرت سے غافل ہوں، اور دولت مندی کے نشے میں غریبوں کو اپنے ظلم و ستم کی چکی میں پیس رکھا ہو۔

آیت ۱۳۱ ۔ ۱۳۷

ترجمہ

اب اللہ سے ڈرو، اور میری بات مانو۔
اور اس ذات سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے نواز کر تمہاری قوت میں اضافہ کیا ہے جو تم خود جانتے ہو۔
اس نے تمہیں مویشیوں اور اولاد سے بھی نوازا ہے۔
اور باغوں اور چشموں سے بھی۔
حقیقت یہ ہے کہ مجھے تم پر ایک زبردست دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔
وہ کہنے لگے۔ چاہے تم نصیحت کرو، یا نہ کرو، ہمارے لیے سب برابر ہے۔
یہ باتیں تو وہی ہیں جو پچھلے لوگوں کی عادت رہی ہے۔ (۲۸)

تفسیر

۲۸۔ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ تم جو ہمیں دنیا کی شان و شوکت سے بیزار کر کے آخرت کی باتیں کر رہے ہو، پچھلے زمانے میں بھی لوگ اس طرح کے جھوٹے دعوے کرتے آئے ہیں، اس لیے تمہاری بات توجہ کے لائق نہیں ہے۔ اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ پرانے زمانے سے لوگ یہی کرتے آ رہے ہیں۔ اس لیے اس پر اعتراض درست نہیں۔

آیت ۱۳۸۔ ۱۳۹

ترجمہ

اور ہم عذاب کا نشانہ بننے والے نہیں ہیں۔
غرض ان لوگوں نے ہود کو جھٹلایا، جس کے نتیجے میں ہم نے ان کو ہلاک کر دیا۔ (۲۹) یقیناً اس سارے واقعے میں عبرت کا بڑا سامان ہے، پھر بھی ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

تفسیر

۲۹۔ قوم عاد اور حضرت ہودؑ کے مزید تعارف کے لیے دیکھئے سورۃ اعراف۔ ۶۵ اور سورۃ ہود ۵ـ تا ۵۹
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱۴ـ، ۱۴۱

ترجمہ

اور یقین رکھو کہ تمہارا پروردگار صاحب اقتدار بھی ہے، بڑا مہربان بھی۔
قوم ثمود نے پیغمبروں کو جھٹلایا (۳۰)

تفسیر

۳ـ۔ قوم ثمود اور حضرت صالحؑ کا تعارف پیچھے سورۃ اعراف (۷۔ ۷۲) اور سورۃ ہود (۱۱۔ ۶۱ تا ۶۸) میں گزر چکا ہے۔

آیت ۱۴۲ ۔ ۱۵۴

ترجمہ

جبکہ ان کے بھائی صالح نے ان سے کہا کہ کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟
یقین جانو کہ میں تمہارے لیے ایک امانت دار پیغمبر ہوں۔
لہذا تم اللہ سے ڈرو، اور میری بات مانو۔
اور میں تم سے اس کام پر کسی قسم کی کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میرا اجر تو صرف اس ذات نے اپنے ذمے لے رکھا ہے جو سارے دنیا جہان کی پرورش کرتی ہے۔
کیا تمہیں اطمینان کے ساتھ ان ساری نعمتوں میں ہمیشہ رہنے دیا جائے گا جو یہاں موجود ہیں؟
ان باغوں اور چشموں میں؟
اور ان کھیتوں اور ان نخلستانوں میں جن کے خوشے ایک دوسرے میں پیوست ہیں؟
اور کیا پہاڑوں کو بڑے ناز کے ساتھ تراش کر تم (ہمیشہ) گھر بناتے رہو گے؟
اب اللہ سے ڈرو، اور میری بات مانو۔
اور ان حد سے گزرے ہوئے لوگوں کا کہنا مت مانو
جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، اور اصلاح کا کام نہیں کرتے۔
وہ کہنے لگے کہ تم پر تو کسی نے بڑا بھاری جادو کر دیا ہے۔
تمہاری حقیقت اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ تم ہم جیسے ہی ایک انسان ہو۔ لہذا اگر سچے ہو تو کوئی نشانی لے کر آؤ۔ (۳۱)

تفسیر

۳۱۔ نشانی سے مراد معجزہ ہے اور انہوں نے خود فرمائش کی تھی کہ پہاڑ کے اندر سے ایک اونٹنی نکال کر دکھاؤ۔

آیت ۱۵۵

ترجمہ

صالح نے کہا۔ (لو) یہ اونٹنی ہے۔ پانی پینے کے لیے ایک باری اس کی ہو گی، اور ایک معین دن میں ایک باری تمہاری۔ (۳۲)

تفسیر

۳۲۔ چونکہ اونٹنی کا معجزہ انہوں نے خود مانگا تھا، اس لیے ان سے کہا گیا کہ اس اونٹنی کے کچھ حقوق ہوں گے، اور ان میں سے ایک حق یہ ہے کہ ایک دن تمہارے کنویں سے صرف یہ اونٹنی پانی پیے گی، اور ایک دن تم کنویں سے جتنا پانی بھر سکو، بھر کر رکھ لو۔

آیت ۱۵۶ ۔ ۱۵۸

ترجمہ

اور اس کو بری نیت سے ہاتھ بھی نہ لگانا، ورنہ ایک زبردست دن کا عذاب تمہیں آ پکڑے گا۔
پھر ہوا یہ کہ انہوں نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں، اور آخر کار پشیمان ہوئے۔
چنانچہ عذاب نے انہیں آ پکڑا، (۳۳) یقیناً اس سارے واقعے میں عبرت کا بڑا سامان ہے، پھر بھی ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

تفسیر

۳۳۔ سورۃ ہود۔ ۶۸ میں قرآن کریم ہی نے بتایا ہے کہ یہ عذاب ایک خوفناک چنگھاڑ کی شکل میں آیا جس سے ان کے کلیجے پھٹ کر رہ گئے، مزید تفصیل وہیں پر گذر چکی ہے۔

آیت ۱۵۹ ۔ ۱۶۶

ترجمہ

اور یقین رکھو کہ تمہارا پروردگار صاحب اقتدار بھی ہے، بڑا مہربان بھی۔
لوط کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔
جبکہ ان کے بھائی لوط نے ان سے کہا کہ کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟
یقین جانو کہ میں تمہارے لیے ایک امانت دار پیغمبر ہوں۔
لہذا تم اللہ سے ڈرو، اور میری بات مانو۔
اور میں تم سے اس کام پر کسی قسم کی کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اس ذات نے اپنے ذمے لے رکھا ہے جو سارے دنیا جہان کی پرورش کرتی ہے۔
کیا دنیا کے سارے لوگوں میں تم ہو جو مردوں کے پاس جاتے ہو۔
اور تمہاری بیویاں جو تمہارے رب نے تمہارے لیے پیدا کی ہیں، ان کو چھوڑے بیٹھے ہو؟ حقیقت تو یہ ہے کہ تم حد سے بالکل گزرے ہوئے لوگ ہو۔ (۳۴)

تفسیر

۳۴۔ حضرت لوطؑ جس قوم کی طرف بھیجے گئے تھے، ان کے مرد فطرت کے خلاف مردوں ہی سے اپنی جنسی ہوس پوری کرتے تھے۔ ان کا واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۃ ہود۔ ۷۷ تا ۸۳ اور سورۃ حجر۔ ۵۸ تا ۷۶ میں گذر چکا ہے، اور ہم نے ان کا مختصر تعارف سورۃ اعراف۔ ۸ـ میں کرایا ہے۔

آیت ۱۶۷ ۔ ۱۶۹

ترجمہ

کہنے لگے۔ لوط! اگر تم باز نہ آئے تو تم بھی ان لوگوں میں شامل ہو جاؤ گے جنہیں (بستی سے) نکال باہر کیا جاتا ہے۔
لوط نے کہا۔ یقین جانو، میں ان لوگوں میں سے ہوں جو تمہارے اس کام سے بالکل بیزار ہیں۔
میرے پروردگار! جو حرکتیں یہ لوگ کر رہے ہیں، مجھے اور میرے گھر والوں کو ان سے نجات دیدے۔ (۳۵)

تفسیر

۳۵۔ یعنی اس کڑھن سے نجات دیدے جو ان لوگوں کو ایسے گھناؤنے کردار میں ملوث دیکھ کر پیدا ہوتی ہے، اور اس عذاب سے محفوظ رکھ جو ان کی حرکتوں کی وجہ سے ان پر نازل ہونے والا ہے۔

آیت ۱۷ـ، ۱۷۱

ترجمہ

چنانچہ ہم نے ان کو اور ان کے سب گھر والوں کو نجات دی۔
سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہنے والوں میں شامل رہی۔ (۳۶)

تفسیر

۳۶۔ اس سے مراد خود حضرت لوطؑ کی بیوی ہے جو ایمان لانے کے بجائے اپنی بدکردار قوم کا ساتھ دیتی تھی۔ جب عذاب آنے سے پہلے حضرت لوطؑ کو شہر سے باہر نکلنے کا حکم ہوا تو یہ عورت اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے پیچھے رہ گئی تھی، اور جب بستی والوں پر عذاب آیا تو یہ بھی اس کا شکار ہوئی۔

آیت ۱۷۲، ۱۷۳

ترجمہ

پھر اور سب کو ہم نے تباہ کر دیا۔
اور ان پر ایک زبردست بارش برسا دی۔ (۳۷) غرض بہت بری بارش تھی جو ان پر برسی جنہیں پہلے سے ڈرا دیا گیا تھا۔

تفسیر

۳۷۔ پتھروں کی بارش سے مراد ہے جو ان لوگوں پر برسائی گئی تھی، جیسا کہ سورۃ حجر میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱۷۴ ۔ ۱۷۶

ترجمہ

یقیناً اس سارے واقعے میں عبرت کا بڑا سامان ہے، پھر بھی ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔
اور یقین رکھو کہ تمہارا پروردگار صاحب اقتدار بھی ہے، بڑا مہربان بھی۔
ایکہ کے باشندوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ (۳۸)

تفسیر

۳۸۔ ایکہ اصل میں گھنے جنگل کو کہتے ہیں۔ حضرت شعیبؑ جس قوم کی طرف بھیجے گئے تھے، وہ ایسے ہی گھنے جنگل کے پاس واقع تھی، بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اسی بستی کا نام مدین تھا، اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ مدین کے علاوہ کوئی اور بستی تھی، اور حضرت شعیبؑ اس کی طرف بھی بھیجے گئے تھے۔ اس قوم کا واقعہ سورۃ اعراف۔ ۸۵ تا ۹۳ میں گذر گیا ہے۔ تفصیلات کے لیے ان آیات کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔

آیت ۱۷۷ ۔ ۱۸۱

ترجمہ

جبکہ شعیب نے ان سے کہا کہ کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟
یقین جانو کہ میں تمہارے لیے ایک امانت دار پیغمبر ہوں۔
لہذا تم اللہ سے ڈرو، اور میری بات مانو۔
اور میں تم سے اس کام پر کسی قسم کی کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میرا اجر تو صرف اس ذات نے اپنے ذمے لے رکھا ہے جو سارے دنیا جہان کی پرورش کرتی ہے۔
پورا پورا ناپ دیا کرو، اور ان لوگوں میں سے نہ بنو جو دوسروں کو گھاٹے میں ڈالتے ہیں۔ (۳۹)

تفسیر

۳۹۔ کفر و شرک کے علاوہ ان لوگوں کی ایک خرابی یہ تھی کہ یہ تجارت میں ڈنڈی مارنے کے عادی تھے۔

آیت ۱۸۲، ۱۸۳

ترجمہ

اور سیدھی ترازو سے تولا کرو۔
اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو، اور زمین میں فساد مچاتے مت پھرو۔ (۴۰)

تفسیر

۴ـ۔ یہ لوگ مسافروں کو لوٹنے کے لیے ڈاکے بھی ڈالتے تھے۔

آیت ۱۸۴ ۔ ۱۸۸

ترجمہ

اور اس ذات سے ڈرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے، اور پچھلی خلقت کو بھی۔
کہنے لگے۔ تم پر تو کسی نے بڑا بھاری جادو کر دیا ہے۔
تمہاری حقیقت اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ تم ہم جیسے ہی ایک انسان ہو اور ہم تمہیں پورے یقین کے ساتھ جھوٹا سمجھتے ہیں۔
لہذا اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو۔
شعیب نے کہا۔ میرا پروردگار خوب جانتا ہے کہ تم کیا کر رہے ہو۔ (۴۱)

تفسیر

۴۱۔ یعنی کس وقت کونسا عذاب نازل کیا جائے، یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، وہ جب چاہے گا، جس قسم کا عذاب مناسب ہو گا، نازل فرما دے گا، کیونکہ وہ تمہارے سب کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔

آیت ۱۸۹

ترجمہ

غرض ان لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں سائبان والے دن کے عذاب نے آ پکڑا (۴۲)۔ بیشک وہ ایک زبردست دن کا عذاب تھا۔

تفسیر

۴۲۔ کئی دن تک سخت گرمی پڑنے کے بعد ایک بادل ان کی بستی کے قریب آیا جس کے نیچے بظاہر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی بستی کے سب لوگ اس بادل کے نیچے جمع ہو گئے تو اس بادل نے ان پر انگارے برسائے جس سے وہ سب ہلاک ہو گئے۔

آیت ۱۹ـ ۔ ۱۹۶

ترجمہ

یقیناً اس سارے واقعے میں عبرت کا بڑا سامان ہے، پھر بھی ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔
اور یقین رکھو کہ تمہارا پروردگار صاحب اقتدار بھی ہے، بڑا مہربان بھی۔
بیشک یہ قرآن رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے۔
امانت دار فرشتہ اسے لے کر اترا ہے۔
(اے پیغمبر) تمہارے قلب پر اترا ہے تاکہ تم ان (پیغمبروں) میں شامل ہو جاؤ جو لوگوں کو خبردار کرتے ہیں۔
ایسی عربی زبان میں اترا ہے جو پیغام کو واضح کر دینے والی ہے۔
اور اس (قرآن) کا تذکرہ پچھلی (آسمانی) کتابوں میں بھی موجود ہے۔ (۴۳)

تفسیر

۴۳۔ یعنی تورات، زبور اور انجیل میں، نیز دوسرے انبیائے کرامؑ کے صحیفوں میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ آخری پیغمبر تشریف لانے والے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہو گا۔ اگرچہ اب ان کتابوں میں بہت سی تحریفات ہو گئی ہیں، لیکن ان میں سے متعدد بشارتیں آج بھی ان کتابوں میں موجود ہیں۔ حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے اپنی کتاب ’’اظہار الحق‘‘ کے آخری باب میں یہ بشارتیں تفصیل کے ساتھ نقل فرمائی ہیں۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ راقم الحروف کی شرح و تحقیق کے ساتھ ’’بائبل سے قرآن تک‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

آیت ۱۹۷

ترجمہ

بھلا کیا ان لوگوں کے لیے یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ بنو اسرائیل کے علماء اس سے واقف ہیں؟ (۴۴)

تفسیر

۴۴۔ بنو اسرائیل میں سے جو لوگ آنحضرتﷺ پر ایمان لے آئے تھے، وہ تو کھلم کھلا یہ بتاتے تھے کہ یہود و نصاریٰ کی کتابوں میں آنحضرتﷺ کی تشریف آوری کی بشارت اور آپ کی علامتیں درج ہیں، لیکن بنی اسرائیل کے جو علماء ایمان نہیں لائے تھے، وہ بھی تنہائی میں کبھی کبھی اس حقیقت کا اعتراف کر لیتے تھے

آیت ۱۹۸، ۱۹۹

ترجمہ

اور اگر ہم یہ کتاب عجمی لوگوں میں سے کسی پر نازل کر دیتے۔
اور وہ ان کے سامنے پڑھ بھی دیتا تو یہ لوگ تب بھی اس پر ایمان نہ لاتے۔ (۴۵)

تفسیر

۴۵۔ یعنی اگر ہم قرآن کریم کے معجزہ ہونے کی اور زیادہ وضاحت اس طرح کر دیتے کہ یہ عربی زبان کی کتاب کسی غیر عرب پر نازل ہوتی جو عربی سے ناواقف ہوتا، اور وہ عربی نہ جاننے کے باوجود اس عربی قرآن کر پڑھ کر سناتا تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے، کیونکہ ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کی حقانیت کے دلائل معاذ اللہ کمزور ہیں، بلکہ انہوں نے ضد کی بنا پر طے کر رکھا ہے کہ کیسے ہی دلائل سامنے آ جائیں، یہ ایمان نہیں لائیں گے۔

آیت ۲ــ

ترجمہ

مجرموں کے دلوں میں تو ہم نے اس کو اسی طرح داخل کیا ہے۔ (۴۶)

تفسیر

۴۶۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم اگرچہ ہدایت کی کتاب ہے اور جو لوگ حق کے طلب گار ہوں، ان کے دل پر اثر انداز ہوتی ہے اور ان کی ہدایت کا ذریعہ بنتی ہے، لیکن چونکہ انہوں نے ضد کا راستہ اپنا رکھا ہے، اس لیے ہم بھی ان کے دلوں میں قرآن اس طرح داخل کرتے ہیں کہ اس کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

آیت ۲ـ۱ ۔ ۲ـ۴

ترجمہ

یہ لوگ اس پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک دردناک عذاب آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔
اور وہ ان کے پاس اس طرح اچانک آ کھڑا ہو کہ ان کو پتہ بھی نہ چلے۔
پھر یہ کہہ اٹھیں کہ کیا ہمیں کچھ مہلت مل سکتی ہے؟
تو کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں؟ (۴۷)

تفسیر

۴۷۔ اوپر عذاب کا جو ذکر آیا، اس کو سن کر کافر لوگ مذاق اڑانے کے انداز میں یہ کہتے تھے کہ اگر ہم پر عذاب ہونا ہے تو ابھی جلدی ہو جائے۔ یہ آیات اس کا جواب ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے فوراً کسی پر عذاب نازل نہیں کرتا، بلکہ اس کے پاس ایسے رہنما بھیجتا ہے جو اسے خبر دار کریں، اور پھر اسے مہلت دیتا ہے کہ وہ اگر حق کو قبول کرنا چاہے تو کر لے۔

آیت ۲ـ۵ ۔ ۲ـ۷

ترجمہ

بھلا بتاؤ اگر ہم کئی سال تک انہیں عیش کا سامان مہیا کرتے رہیں۔
پھر وہ (عذاب) ان کے اوپر آ کھڑا ہو جس سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے۔
تو عیش کا جو سامان ان کو دیا جاتا رہا وہ انہیں (عذاب کے وقت) کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ (۴۸)

تفسیر

۴۸۔ عذاب کے جلدی نہ آنے پر کافروں کا ایک استدلال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں بڑے عیش دے رکھے ہیں اگر لوگ غلط راستے پر ہوتے تو یہ عیش ہمیں کیوں دیا جاتا؟ ان آیات میں جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مہلت سنبھلنے کے لیے دی ہوئی ہے، اگر کچ لوگ سنبھل گئے تو خیر، ورنہ جب مہلت ختم ہونے پر، مثلاً مرنے کے بعد عذاب آئے گا تو یہ عیش و عشرت جس کے مزے تم دنیا میں اڑا رہے ہو، کچھ بھی کام نہیں آئے گا، بلکہ اس وقت معلوم ہو گا کہ آخرت کی زندگی کے مقابلے میں اس کی ذرہ برابر کوئی وقعت نہیں ہے۔

آیت ۲ـ۸ ۔ ۲۱ـ

ترجمہ

اور ہم نے کسی بستی کو اس کے بغیر ہلاک نہیں کیا کہ (پہلے) اس کے لیے خبردار کرنے والے موجود تھے۔
تاکہ وہ نصیحت کریں اور ہم ایسے تو نہیں ہیں کہ ظلم کریں۔
اور اس قرآن کو شیاطین لے کر نہیں اترے۔ (۴۹)

تفسیر

۴۹۔ یہاں سے چند ان باتوں کی تردید کی جا رہی ہے جو کفار مکہ قرآن کریم کے بارے میں کہا کرتے تھے۔ بنیادی طور پر ان کے دو دعوے تھے، بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ معاذ اللہ آنحضرتﷺ کاہن ہیں اور بعض لوگ آپ کو شاعر کہہ کر قرآن کریم کو شاعری کی کتاب قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آیات میں ان دونوں باتوں کی تردید فرمائی ہے۔ ’’کاہن‘‘ ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جن کا دعویٰ یہ تھا کہ جنات ان کے قبضے میں ہیں جو انہیں غیب کی خبریں لا کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں کاہنوں کی یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ جو جنات ان کے پاس آتے ہیں، وہ در اصل شیاطین ہیں۔ اور قرآن کریم کے مضامین ایسے ہیں کہ شیاطین کو کبھی پسند نہیں آ سکتے، اور نہ وہ ایسی نیکی کی باتیں کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔

آیت ۲۱۱ ۔ ۲۱۴

ترجمہ

نہ یہ قرآن ان کے مطلب کا ہے اور نہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔
انہیں تو (وحی کے) سننے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
لہذا اللہ کے ساتھ کوئی معبود نہ مانو، کبھی تم بھی ان لوگوں میں شامل ہو جاؤ جنہیں عذاب ہو گا۔
اور (اے پیغمبر) تم اپنے قریب ترین خاندان کو خبردار کرو (۵۰)

تفسیر

۵ـ۔ یہ وہ آیت ہے جس کے ذریعے آنحضرتﷺ کو سب سے پہلی بار تبلیغ کا حکم ہوا اور یہ ہدایت دی گئی کہ تبلیغ کا آغاز اپنے قریبی خاندان کے لوگوں سے فرمائیں، چنانچہ اسی آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ نے اپنے خاندان کے قریبی لوگوں کو جمع کر کے ان کو دین حق کی دعوت دی، اس میں یہ سبق بھی دیا گیا ہے کہ اصلاح کرنے والے کو سب سے پہلے اپنے گھر اور اپنے خاندان سے شروع کرنا چاہئیے۔

آیت ۲۱۵ ۔ ۲۲۳

ترجمہ

اور جو مومن تمہارے پیچھے چلیں، ان کے لیے انکساری کے ساتھ اپنی شفقت کا بازو جھکا دو۔
اور اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں تو کہہ دو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو، اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔
اور اس (اللہ) پر بھروسہ رکھو جو بڑا اقتدار والا، بہت مہربان ہے۔
جو تمہیں اس وقت بھی دیکھتا ہے جب تم (عبادت کے لیے) کھڑے ہوتے ہو۔
اور سجدہ کرنے والوں کے درمیان تمہاری آمد و رفت کو بھی دیکھتا ہے۔
یقین رکھو کہ وہی ہے جو ہر بات سنتا ہر چیز جانتا ہے۔
کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کن لوگوں پر اترتے ہیں؟
وہ ہر ایسے شخص پر اترتے ہیں جو پرلے درجے کا جھوٹا گنہگار ہو۔
وہ سنی سنائی بات لا ڈالتے ہیں، (۵۱) اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں۔

تفسیر

۵۱۔ یعنی شیاطین کی باتوں پر بھروسہ کرنے والے کوئی نیک لوگ نہیں، گنہگار لوگ ہوتے ہیں اور ان شیاطین کا یہ دعوی بھی بالکل لغو ہے کہ انہیں غیب کی خبریں معلوم ہیں، ہوتا یہ ہے کہ کبھی فرشتوں کی کوئی بات ان کے کانوں میں پڑ جاتی ہے تو وہ اس میں بہت سے جھوٹ شامل کر کے اپنے معتقدین کو آ کر بتا دیتے ہیں۔

آیت ۲۲۴، ۲۲۵

ترجمہ

رہے شاعر لوگ، تو ان کے پیچھے تو بے راہ لوگ چلتے ہیں۔
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں؟ (۵۲)

تفسیر

۵۲۔ یہ کفار کی دوسری بات کی تردید ہے کہ نبی کریمﷺ معاذ اللہ شاعر ہیں اور قرآن کریم شاعری کی کتاب ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شاعری تو ایک تخیلاتی چیز ہے جس کا بسا اوقات حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا، چنانچہ وہ اپنی خیالی وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں، طرح طرح کے مبالغے کرتے ہیں اور تشبیہات اور استعاروں میں حد سے گزر جاتے ہیں، اس لئے جو لوگ شاعری ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں، ان کو کوئی بھی اپنا دینی پیشوا نہیں بناتا، اور اگر کوئی ان کو اپنا مقتدا بناتا بھی ہے تو وہ جو خود گمراہ ہو، اور حقیقت کے بجائے خیالی دنیا میں رہنا چاہتا ہو۔

آیت ۲۲۶

ترجمہ

اور یہ کہ وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں ہیں۔ (۵۳)

تفسیر

۵۳۔ یعنی اپنی شیخی بگھارتے ہوئے ایسے دعوے کرتے ہیں جن کا ان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا

آیت ۲۲۷

ترجمہ

ہاں مگر وہ لوگ مستثنی ہیں جو ایمان لائے، اور انہوں نے نیک عمل کیے، اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا، اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد اس کا بدلہ لیا۔ (۵۴) اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب پتہ چل جائے گا کہ وہ کس انجام کی طرف پلٹ رہے ہیں۔

تفسیر

۵۴۔ یہ استثناء ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ اگر شاعری میں یہ خرابیاں نہ ہوں اور ایمان اور عمل صالح کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی شاعری کرے اور اپنے شاعرانہ تخیلات کو دین و مذہب کے خلاف استعمال نہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور ظلم کا بدلہ لینے کا ذکر بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے کہ اس زمانے میں شاعری پروپیگنڈے کا سب سے مؤثر ذریعہ سمجھی جاتی تھی، کوئی شاعر کسی کے خلاف کوئی شاندار ہجویہ قصیدہ کہہ دیتا تو وہ لوگوں کی زبانوں پر چڑھ جاتا تھا، چنانچہ بعض بد نہاد کافروں نے حضور نبی کریمﷺ کے بارے میں بھی اس قسم کے اشعار کہہ کر مشہور کر دئے تھے، بعض صحابہ مثلاً حضرت حسان بن ثابت اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے اس کے جواب میں آنحضرتﷺ کی شان میں نعتیہ قصیدے کہے اور ان میں کفار کے اعتراضات کا جواب دیا ؛ بلکہ ان کی اپنی حقیقت واضح فرمائی، اس آیت میں ان حضرات کی شاعری کی تائید کی گئی ہے۔
٭٭٭
 
Top