حضرت ابو انصر سراج رحمۃ اللہ علیہ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت ابو انصر سراج رحمۃ اللہ علیہ

آپ بہت بڑے عالم وعارف تھے ،ظاہری وباطنی علوم پر مکمل دسترس رکھتے تھے اور خاتم فقراء کے نگینہ تھے لیکن آپ کے مکمل حالات واوصاف کو احاطۂ تحریر میں لانا ممکن نہیں ۔ آپ کی ایک تصنیف " کتاب لمع" بہت مشہور ہے ۔ آپ نے حضرت سر سقطیؒ اور سہل تستری ؒ کو بھی دیکھا ہے اورآپ کا وطن طوس تھا۔

ایک مرتبہ ماہ صیام میں بغداد پہنچے تو وہاں کے با شندوں نے نہایت گرم جوشی اسے استقبال کرکے آپ کو مسجد شو نیزیہ کے ایک حجرے میں ٹہردیا اور آپ کی امامت میں پورے ماہ میں پانچ قرآن سنے۔ ایک خادم ہر شب آپ کے حجرے کے سامنے روٹی کی ٹکیہ رکھ دیا کرتا لیکن آپ اس کو اٹھا کر حجرے کے ایک گوشے میں رکھ دیا کرتے تھے اور ماہ صیام کے خاتمہ پر عید کی نماز ادا کر کے نا معلوم سمت کی جانب نکل گئے ۔لوگوں نے حجرے میں جاکر دیکھا تو ایک گوشہ میں تیس ٹکیاں ر وٹی کی جمع تھیں۔

موسم سرما کی ایک رات میں آپ اپنے اردات مندوں سے معرفت کے متعلق کچھ بیان فرما رہے تھے ۔آپ کے سامنے آگ روشن تھی ۔دوران بیان آپ کو ایسا جوش آیا کہ اٹھ کر آگ کے اوپر سجدہ شکر میں گر پڑے ،لیکن سر اٹھانے کے بعد معلوم ہوا کہ آپ کا ایک بال بھی متاثر نہیں ہوا ۔پھر مریدین سے فرمایا کہ بارگاہ الٰہی میں اظہار عجز کر نے والے ہمیشہ سر خرو رہیں گے اور ان کو آگ بھی نہ جلا سکے گی ۔

آپ فرمایا کرتے تھے کہ سینہ عشاق میں ایک ایسی آگ شعلہ فگن رہتی ہے کہ اپنے شعلوں کی لپیٹ میں ہر شئے کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے ۔فرمایا کہ اہل ادب کی تین قسمیں ہیں ۔ان میں سے ایک قسم اہل ادب کی وہ ہے جس کو اہل دنیا فصاحت وبلاغت وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں ۔دوسری قسم وہ ہے جن کو اہل باطن سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک طہارت اور بھید کی حفاظت اور اعضاء ونفس کا مؤدب بنانا اور یاضت نفس وغیرہ ادب میں شامل ہے ۔

تیسرے گروہ کو خاصانِ خدا سے تعبیر کیا جاتا ہے جن کے نزدیک تحفظ اوقات ، ایفائے عہد، نفس پر عدم تو جہی، مقام حضوری اور مقام قرب میں شائستگی اختیار کرنے کا نام ادب ہاےا ۔

آپ نے اپنی حیات ہی میں فرما دیاتھا کہ میرے مزار کے قریب جو جنازہ لایا جائے گا ،اس کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گ ۔چنانچہ آج تک اہل طوس ہر جنازہ کو کچھ دیر کے لیے آپ کے مزار کے قریب رکھ کر پھر دفن کرتے ہیں ۔(خدا کے قاصد)



 
Top