مناجات کسے کہتے ہیں؟

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

مناجات کسے کہتے ہیں؟​

سرگوشی کو ، رازو نیاز کے انداز میں بات کرنے کو


آج دنیا میں لوگ کسی بھی بڑے آدمی سے چند منٹ کی بات کرنے کے لیے بھی کئی کئی دن خوار ہونا پڑتا ہے، اور پھر بھی کبھی موقع مل جاتا ہے اور کبھی نہیں ملتا اور اگر مل بھی جائے تو کبھی وہ خوشی سے پیش آتے ہیں اور کبھی دھتکار دیتے ہیں، اور اگر خوش سے پیش بھی آئیں تو کبھی وہ آپ کا کام کرنے کی حامی بھرتے ہیں اور کبھی نہیں اور اگر حامی بھر بھی لیں تو کبھی وہ کام ہو جاتا ہے اور کبھی وہ نہیں کراپاتے

مگر اللہ رب العالمین کا احسان اور بندوں پر کرم دیکھئے کہ ہر شخص کے لیے ، اور ہر وقت میں مناجات، سرگوشی اور بات کرنے کا دروازہ کھلا ہوا ہے، ہر زبان والے کے لیے اجازت ہے،ہر نیک و بد کے لئے راہیں کھلی ہیں، کسی کالے او ر کسی گورے میں وہاں کوئی تفریق نہیں برتی جاتی، بلند وبالا محلات میں رہنے والوں کو جھونپڑی میں دربدری کی زندگی گزارنے والوں پر کوئی فوقیت نہیں دی جاتی، وہ سب کی سنتا ہے، سب باتیں سنتا ہے، اور ہر وقت سنتاہے اور ہر جگہ سنتا ہے

تو پھر کیوں نہ ہم اسی کو اپنا دوست بنائیں! اسی سے سرگوشیاں کریں! اسی سے دل کی باتیں کریں! اور اسی کو اپنا ہم دم و ہم نفس بنائیں!ہم خلوتوں میں بھی اُسی سے اُنس حاصل کریں اور ہماری جلوتوں میں بھی اُسی کے تذکرے ہوں!

سچ تو یہ ہے کہ بہت ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اللہ رب العالمین سے سرگوشیاںکرتے ہیں، اور پھر کمال یہ ہے کہ یہ سرگوشیاں خوداسی کے کلام قرآن کریم کے وظائف کے ذریعے ہوں!

بلاشبہ وہ سعادت مند ہیں کہ انہیں وہ سب سے بڑی ذات خود اس کا موقع فراہم کرتی ہے اور وہ اس سے سرگوشیاں کرتے ہیں

ذرا سوچئے کہ کبھی آپ نے کسی عاشق کو معشوق کے ساتھ سرگوشی کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ اس میں عاشق بس معشوق کی تعریف ہی کرتا رہتا ہے ، کیوں کہ اسے پتہ ہے کہ یہ اس سے خوش ہوگا

اب سوچئے کہ ایمان والے تو سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ سے رکھتے ہیں، اس لیے وہ بھی اپنے رب کے ساتھ مناجات میں اس کی حمدکرتے ہیں، اس کی خوبیاں بیان کرتے ہیں، اور چونکہ وہ اللہ تعالیٰ ہے ہی اتنی خوبیوں والا کہ ہمارا بیان ختم ہوسکتا ہے مگر اس کی خوبیاں ختم نہیں ہوسکتیں، اس لیے انسان اپنے رب کی جتنی ہی تعریف کیوں نہ کر لے پھر بھی ان مبارک سرگوشیوں اور مبارک مناجات کا یہ گوشہ اسے تشنہ ہی محسوس ہوتا ہے اور اسی لیے جب حمد وتعریف کے نئے کلمات ختم ہو جاتے ہیں، تو وہ انہی کو دوبارہ دھرانے لگتا ہے۔ بعض اللہ والے تو ایسے ہیں کہ ان کی زبان پر بس اکثر الحمد للہ رب العالمین ہی جاری رہتا ہے ، بعض ایسے ہیں کہ جب بھی کوئی نئی بات پیش آتی ہے تو اگر وہ خوشی ہو تو بھی حمد اور اگر غم کی بات ہو تو بھی حمد۔خوشی پر اس لیے حمد کہ وہ خوشی اسی کی طرف سے نصیب ہوئی اور غمی پر اس لیے حمد کہ اس نے اس غمی پر صبر کرنے میں اجر رکھا ہے، اس غمی سے وہ بندے کی توجہ ا پنی طرف مزید کھینچ لیتا ہے، گویا وہ غم بھی اس لیے دیتا ہے تاکہ بندہ وصال یار کی راہ پر چلے۔ اس لیے خوشی پر کہتے ہیں: الحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات :سب تعریفیں تو اسی اللہ کی ہیں جس کی نعمتوں سے اچھائیاں مکمل ہوتی ہیں، اور غم پر کہتے ہیں: الحمد للہ علی کل حال:ہر حال میں سب تعریفیں بس اللہ کی ہی ہیں۔

پھر یہ دیکھئے کہ جس کسی نے ہم پر احسان کیا ہو اور کبھی ہمیں اسے تنہائی میں بات کرنے کا موقع میسر آجائے تو ہم اسے کتنا غنیمت سمجھتے ہیں بلکہ یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ ایسی باتیں اس سے کریں جس سے گزشتہ احسان کا شکریہ بھی اداء ہوجائے اور آئندہ بھی وہ ہم پر احسان کرتا رہے۔اب خود سوچئے کہ اللہ تعالیٰ کے ہم پر کتنے احسانات ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ اتنے ہیں کہ ہمیں انہیں شمار ہی نہیں کر سکتے اور پھر اس کے یہ سب احسانات بلاغرض ہیں، یعنی ان سے اس کی اپنی کوئی بھی غرض وابستہ نہیں ہے، تو اس کے احسانات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کاشکر اداء کرتے رہیں۔

پھرہم نے دیکھا کہ وہ تمام تر خوبیوں کا مالک ہے اور ہرقسم کے عیب سے پاک سے تو دل مچل اٹھا کہ اس کی خوبیاں کابیان کیاجائے اور اس کی پاکیزگی کا اعلان کیاجائے، تب زبان سے بے اختیار نکلتا ہے:الحمد للہ، سبحان اللہ۔ وہ سب تعریفوں والا بھی ہے اور ہر عیب سے پاک بھی ہے۔

اور جب وہ ایسا ہے تو عبادت کے لائق بھی وہی ہوا، اس کے سواکسی اور سجدہ عبادت بجالانا کبھی بھی درست نہیں ہوسکتا، اس لیے زبان پر جاری ہوا:لا الہ الا اللہ، کوئی معبودبرحق نہیں مگر ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

پھر اپنی عبادات میں غور کیا تو اس میں کوتاہیوں کے انبار نظر آئے، نافرمانیوں کے ڈھیر نظر آئے، تب دل متوجہ ہواکہ اس کی معافی تلافی کی کوشش کی جائے، اسی معافی کی کوشش کو استغفار کہتے ہیں۔ استغفر اللہ، استغفر اللہ، میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے مغفرت اور پھر جب اپنے دوسرے ایمان والے بھائی اور بہنوں پر نظر پڑتی ہے تو دل چاہتا ہے کہ ان کے لیے معافی مانگ لی جائے تب استغفار کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے ۔ رب اغفرلی ولوالدی و للمومنین والمومنات
 
Top