ضمیر و اعتقاد کی آزادی

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اسلام نے ضمیر و اعتقاد کی آزادی کو تسلیم کیا ہے اور مکمل آزادی دی ہے تو پھر مسلمان ہونے سے روکنے کا کوئی جواز ہی پیدا نہیں ہوتا عمر کی قید رکھنا اور کلمہ حق قبول کرنے والے پر شرائط رکھنا بلا جواز اور بے معنی ہیں۔ کئی صحابہ کرام نے کم عمری میں ہی اسلام قبول کیا تھا۔ تو کیا یہ ایک نئی بدعت ایجاد کرنا نہیں ہوا کہ 18 سال سے کم عمر لوگ اگر دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو ان کو محروم رکھا جائے۔

درج ذیل احکامات الٰہی میں جبر سے اسلام قبول نہیں کروایا جاسکتا تو ایک اسلامی ملک میں جبراً اسلام قبول کرنے سے روکنے کا حکم کیسے صادرکر سکتے ہیں؟

سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہہ نے آٹھ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا اور حضور کے فرمان کے مطابق اپنے ایمان لانے کو اپنے باپ سے مخفی رکھا۔
حضرت زبیر بھی آٹھ برس کی عمر میں اسلام لائے۔ اس کے علاوہ بھی کئی صحابہ کرام s ہیں جو بچپن میں اسلام لائے.
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص بھی بچپن میں اسلام لائے.
حضرت ابومحذورہ جو اسلام قبول کرنے کے بعد مسجد حرام کے مؤذن بنائے گئے، انہوں نے بھی چھوٹی عمر میں اسلام قبول کیا.
حضرت عبداللہ بن عباس نے بھی اپنے باپ سے پہلے بچپن میں اسلام قبول کیا.
اور ایک یہودی بچہ جو بیمار ہوا، آپ نے اس پر اسلام پیش کیا، بچے نے سوالیہ نظروں سے باپ کی طرف دیکھا، باپ نے اجازت دے دی، اور کہا:’’أطع أباالقاسم‘‘۔۔۔’’ابوالقاسم کی بات مان لو‘‘۔ اس نے کلمہ پڑھا، آپ نے فرمایا:’’الحمد للّٰہ الذی أنقذہ من النار‘‘۔۔۔
’’تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیںجس نے اسے آگ سے نجات اور خلاصی عطا فرمائی‘‘۔(صحیح بخاری،ج:۱،ص:۱۸۱)

ضمیر اور اعتقاد کی آزادی کی مثالیں جس کو کوئی قانون ٹال نہیں سکتا:

اللہ تعالیٰ نے صاف ارشاد فرمایا کہ ہدایت گمراہی کے مقابلہ واضح ہو چکی ہے ؛ لہٰذا دین کے معاملہ میں کوئی جبر و دباؤ نہیں ہے :
لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ( البقرۃ : ۲۵۶)
اِیمان کا تعلق دِل سے ہے اور دِل پر جبر نہیں ہو سکتا کیونکہ دِل اُسی بات کو مانتا ہے جسے وہ اپنے اِختیار سے پسند کرتا ہے۔ اِس لئے اِسلام میں کسی کو جبراً مسلمان بنانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ کوئی انسان اگر رضا و رغبت سے اِسلام قبول کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو اِس کیلئے جبر واِکراہ کی ضرورت نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صاف ارشاد فرمایا گیا کہ آپ کا کام صرف نصیحت کرنا ہے
آپ داروغہ نہیں ہیں کہ ان کو اپنی بات ماننے پر مجبور کردیں :
اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ (الغاشیہ : ۲۱-۲۲)

ایک موقع پر ارشاد ہوا کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسان ہی مومن ہو جاتے
پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر دیں گے ؟:
اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْنَ( یونس : ۹۹)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی کہ اگر وہ آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیں تو آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے
آپ پر تو محض یہ ہے کہ پیغامِ ہدایت کو صاف صاف اور کھلے طور پر پہنچا دیں اور بس :
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ( النحل : ۸۲)

آپ سے فرمایا گیا کہ جو لوگ کفر پر بہ ضد ہیں
ان سے کہہ دو کہ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین :
لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَ لِیَ دِیْنْ( الکافرون: ۶)

ایک اور موقع پر آپ کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا
کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال :
لَنَا اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ( الشوریٰ : ۱۵)

غرض عقیدہ و ضمیر کی آزادی کا قائل ہے اسلام اور وہ کسی شخص کو مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کرتا ۔
اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔


تحریر:
زنیرہ گل
04-10-2021
 
Top