عورت اہل فارس کی نظر میں

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
عورت اہل فارس کی نظر میں

قدیم ایرانیوں میں عورت کی تہذیب کا بڑا خیال رکھا جاتا تھا اوراسی لیے وہ اپنی عفت ، پاکیزگی اور بلندئی اخلاق کے لحاظ سے بڑے مرتبہ کی چیز سمجھی جاتی تھی ۔۔صحیٖفۂ اوستاد اور شریعت زردشت میں عورت کے حفظ ناموس کی بڑی تا کید کی گئی ہے ۔چنانچہ اسی تعلیم وہدایت کا نتیجہ تھا کہ ایران کی بعض عورتوں نے سیاست وحکومت کی خدمات کو حد درجہ خوبی کے ساتھ انجام دیا ۔ ہمامی بنت بہمنؔ کے تیس سالہ دور حکومت اور خسرو پرویز کی لڑکیوں پور اندختؔ اور آذر میدختؔ کی کامیاب حکمرانی سے کون واقف نہیں ہے ۔

قدیم ایرانوں میں عورت کے حسن ظاہری اور حسن باطنی دونوں ے لیے کچھ اصول علم فراست وقیافہ کے لحاظ سے مقرر تھے اور نہایت احتیاط سے ان اصول پرایک عورت کےحسن واخلاق کو جانچتے تھے ۔چنانچہ شیریں فرہاد کی محبوبہ کے متعلق مشہور ہے کہ ۴۰ صفات جمال میں سے ۳۹ صفات اس میں پائی جاتی تھیں۔ اور حسن واخلاق ووفا شعاری کے لحاظ سے بھی وہ اسقدر بلند مرتبت تھی کہ جب اس کا شوہر خسرو پر ویز قتل یا گیا اور شیرویہ فرمانروا تو اس نے خود کشی کر لی اور شیرویہ کے ساتھ رشتہ ازدواج کو منظور نہ کیا ۔

ایرانی عورتیں اپنی عفت وعصمت کے لحاظ سے خاص شہرت رکھتی تھیں ۔ چنانچہ عہد عباسیہ میں جب بغداد کے بازار میں مختلف ملکوں کی کنیزیں لائی جاتی تھیں تو ایران کی کنیزوں کی تعریف میں جو بات کہی جاتی تھی وہ ان کی عفت وعصمت اور حفظ شرف وناموس سے متعلق ہوتی تھیں ۔

جب ملوک فارس کسی بیوی کا انتخاب کرتے تھے تو خواجہ سرا بھیجے جاتے تھے کہ وہ خود دیکھ کر معلوم کریں کہ اس میں تمام شرائط پائی جاتی ہیں یا نہیں ۔جب کوئی لڑکی پسند کر لی جاتی تھی تو اسےقصر شاہی میں لے آتے تھے اور وہاں اس کی تعلیم وتربیت ہو تی تھی ۔تا آنکہ وہ بادشاہ کی بیوی بننے کی اہل ہو جائے ۔یہ طریق کسریٰ نوشیرواں کے عہد تک جاری رہا۔


ایرانیوں نے ۱۶سال کی عمر لے کر ۴۰ سال تک عورت پر تنقید کی ہے وہ خالی از لطف نہیں ۔چنانچہ ان کا بیان ہے کہ:

چودہ سال کی عمر میں ایک عورت اس برگ پوش گلاب کی طرح ہے نہ جس کا رنگ ابھی ظاہرہو نہ خوشبو۔

پندرہ سال کی عورت ان کے نزدیک "سرو کا درخت ہےجسے نسیم کا ہلکا جھونکا بھی جھکا دیتا ہے :"

سولہ سا کی عورت "ایک چشمہ ہے جو تنکوں اور پتیوں سے ڈھکا ہے "

سترہ سال۔۔۔۔۔۔۔۔"ماہ کامل ہے عشوہ ناز سے آراستہ"

اٹھارہ سال۔۔۔۔۔۔۔۔" دوپہر کا چڑھتا ہوا آفتاب ہے جو آنکھوں کو خیرہ کردیتا ہے "

انیس سال۔۔۔۔۔۔۔۔"پختہ رنگین سیب ہے کہ کوئی اگر اس کا توڑنے والا نہیں تو زمین پر گر کر تباہ ہو جائے گا"

بیس سال۔۔۔۔۔۔۔۔" آفتاب ہے مائل بہ انحطاط"

اکیس سال۔۔۔۔۔۔۔۔" لوگ راحت پاتے ہیں "سایہ دار صنوبر کا درخت ہے جس کے سایہ میں"

بائیس سال۔۔۔۔۔۔۔۔"ایک رباب ہے جس ے تاروں سے نغمے نکل کر لوگوں کو مست کر دیتے ہیں "
تئیس سال۔۔۔۔۔۔۔۔"ہرنی ہے جسے چیتاؤں نے گھیر رکھا ہے "

چو بیس سال۔۔۔۔۔۔۔۔"ایک قصیدہ ہے کہ کسی شاعر نے ایسا قصیدہ نہ کہا"

پچیس سال۔۔۔۔۔۔۔۔"نسیم سحر ہے جو بدمستیوں کو جگا دیتی ہے "

چھبیس سال۔۔۔۔۔۔۔۔"گلاب کا پھول ہے جو پوری طرح کھل چکا ہے اور دیکھنے والا چا ہتا ہے کہ اس کو توڑ کر اپنے سر وسینہ سے لگا لے"

ستائیس سال۔۔۔۔۔۔۔۔"بدر کامل ہے جو گھٹنے والا ہے "

اٹھائیس سال۔۔۔۔۔۔۔۔" ایک باغ ہے جس میں خزاں کے آثار شروع ہو گئے ہیں "

انتیس سال۔۔۔۔۔۔۔۔"ایک اچھی آواز ہے جو تاریک رات میں دور سے سنائی دے اور کانوں کو بھلی معلوم ہو"

تیس سال۔۔۔۔۔۔۔۔"قدیم روایت ہے جس کا کسی وقت بڑا شہرہ ہو چکا ہے "

اکتیس سال۔۔۔۔۔۔۔۔"معطرپھولوں اور پختہ پھلوں سے لدا ہوا درخت ہے لیکن اخیر کا موسم"

بتیس سال۔۔۔۔۔۔۔۔"شمع ہے جو اپنی عمر ختم کر چکی ہے اور جس کی روشنی مضمحل ہو چلی ہے "

تینتیس سال۔۔۔۔۔۔۔"ایک کتاب ہے جس کاشیرازہ بکھر گیا ہے اور اوراق منتشر ہیں"

چونتیس سال۔۔۔۔۔۔۔"ایک مینا ہے جو کسی وقت عطر سے لبریز تھا لیکن اب اس میں صرف آثار خوشبو باقی رہ گئے ہیں"

پینتیس سال۔۔۔۔۔۔۔"ایک ضعیف سی روشنی ہےجو غروب شمس کے بعد نظر آتی ہے "

چھتیس سال۔۔۔۔۔۔۔"ستارۂ صباحی ہے جو جلد غروب ہونے والا ہے "

سینتیس سال۔۔۔۔۔۔۔" کسی مقفل مکان یا حمام کے اندر کی آواز ہے "

اڑتیس سال۔۔۔۔۔۔۔" گرم پانی کا پیالہ ہے جو گرمی میں کسی پیاسے کو دیا جائے"

انتالیس سال۔۔۔۔۔۔۔" پرانا قصر ہے جس میں سوائے مٹے ہوئے نقوش کے اور کچھ باقی نہیں"

چالیس سال:۔۔۔۔۔۔۔۔" ایک ایسا حمام ہے جس میں ہوا کے لے منفذ ہیں اور اگرانسان اس کے اندر جائے تو دم گھڑ کر مر جائے"


( تاریخ کے گمشدہ اوراق)
 
Last edited:
Top