عباراتِ اکابر

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عباراتِ اکابر
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم امابعد!
تمہیدی معروضات:
حضرات اکابرین رحمہم اللہ کی عبارات پر مخالفین کی طرف سے کئے گئے اعتراضات اور ان کے جوابات شروع کرنے سے پہلے چند باتیں عرض خدمت ہیں۔
[۱]: امن وسکون کو برقرار رکھنے کے لیے یہ اصول اپنایا جائے کہ عبارت کا مطلب مصنف خود ہی بیان کرے۔
مگر فاضل بریلوی اور اس کے چاہنے والوں نے اس اصول کو یکسر نظر انداز کر کے عبارت کسی کی اور مطلب اپنی طرف سے بناکر وار کیے بلکہ بعض موقعوں پر تو فاضل بریلوی وغیرہ سے یوں بھی ہوا ہےجسے شہید اسلام مصلح الامۃ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں :
”راقم الحروف غور وفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ جناب مولانا احمدرضا خان صاحب کا قلم اور حجاج بن یوسف کی تلوار توام (جڑواں) پیدا ہوئے تھے ۔ ان کے قلم کو تکفیر کا وہی چسکا تھا جو حجاج کی تلوار کو خون آشامی کا۔ وہ فطرتاً مجبور تھے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو تیغ تکفیر سے نیم بسمل کریں ، اگر کسی کی کوئی عبارت یا عبارت کا ناتمام جملہ انہیں ایسا مل جاتا جو ان کے ذوق کافر گری کی تسکین کا سامان بن جا تا تو وہ اسے کافی سمجھتے تھے اور اس کی دوسری تحریروں سے آنکھیں بند کر لینا فرض سمجھتے تھے اور اگر خدانخواستہ انہیں ایک آدھ جملہ بھی میسر نہیں آتا تو وہ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے خود ہی ایک عبارت بنا کر کسی صاحب سے منسوب کر دیتے اور اس کی بنیاد پر انہیں کافر گری کا جواز مل جاتا، وہ شخص ہزار چیخے چلائے شور مچائے کہ یہ عبارت میری نہیں،میں ایسی عبارت لکھنے پر لعنت بھیجتا ہوں مگر خان صاحب فرماتے ہیں کہ یہ عبارت ہم نے تمہارے نام سے چھاپی ہے اور اتنی مدت سے چھاپ رہے ہیں لہذا تمہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ عبارت تمہاری ہے اور اس لیے تم کافر ہو۔
میں نے یہ جو کچھ لکھا ہے یہ ظرافت نہیں بلکہ واقعہ ہے۔ خان صاحب کو دو بزرگ ایسے ملے جن کی تحریر میں ان کو کوئی کلمہ کفر نہیں مل سکا جس کی بنیاد پر انہیں کافر بناتے اس لیے خان صاحب نے ایک صاحب کی طرف تو خود ایک عبارت بنا کر منسوب کردی او ران پر کفر کا فتویٰ صادر کرکے اکابر حرمین سے ان کو رجسٹری کروایا۔ یہ شخصیت قطب العالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نوراللہ مرقدہ کی تھی۔ اس فتوے کی جس پر خان صاحب نے تکفیر کی بنیاد رکھی ہے حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی اور جب اس کا علم ہوا تو اس سے براءت کا اظہار فرمایا اور ایسا لکھنے والے کو معلون قرار دیا۔
(فتاویٰ رشیدیہ ص208 الجنہ لاھل السنہ ص 93)
مگر جناب خان صاحب کا اصرار مدت العمر یہی رہا کہ چونکہ ہم آپ کی طرف اس عبارت کو منسوب کر کے کفر کا فتویٰ رجسٹری کرواچکے ہیں لہذا یہ عبارت یقیناً آپ ہی کی ہے اور ہونی چاہیے اور لطف یہ کہ آج تک حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کے انکار کے باوجود خان صاحب اور ان کی جماعت کا اصرار باقی ہے۔
کچھ اسی قسم کا حادثہ خان صاحب کو حضرت حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ قدس سرہ کے بارے میں پیش آیا ، خان صاحب کا قلم حضرت مرحوم کو کافر بنانے کے لیے بے تاب تھا مگر مشکل یہ تھی کہ حضرت رحمہ اللہ کے دفتر تحریر میں خان صاحب کو ایک فقرہ بھی ایسا نہ مل پاتا تھا جس کی بنیاد پر ان کی تیغ تکفیر نیام سے باہر نکل آتی ، اس مشکل کاحل خان صاحب نے یہ تلاش کیا کہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی اس کتاب سے جو صرف مسئلہ ختم نبوت پر لکھی گئی اور جن میں منکرین ختم نبوت کو صاف الفاظ میں ”کافر “ کہاگیا ہے، تین جملے تلاش کیے اور ان کو آگے پیچھے جوڑ کر مربوط اور مسلسل عبارت بناڈالی۔ پس خان صاحب کی تکفیر کے لیے جواز پیدا ہوگیا۔ خان صاحب نے جس چابکدستی سے تین الگ الگ جگہ سے تحذیر الناس کے ناتمام جملوں کو ملاکر ایک مکمل عبارت تیار کرائی وہ ان کی مہارت فن کا شاہکار ہے۔
(تحفہ قادیانیت از شہیدِ اسلام: ج2 ص132 تا 134)
بہت بڑے بریلوی عالم مولوی خلیل احمد برکاتی نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ فاضل بریلوی کو عباراتِ غیر میں تحریف کا چسکا تھا۔
اب آئیے عبارات کی طرف ! ہم صرف حسام الحرمین میں اکابر دیوبند پر کیے گئے اعتراضات کا جائزہ مختصراً عرض کرتے ہیں۔
الزام بر حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم ناناتوی
حضرت نانوتوی کی عبارات کو سمجھنے سے پہلے تھوڑی سی تمہید:
اس کے لیے ہم امام الحکمۃ و الکلام حضرت العلامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات سے چند باتیں عرض کر رہے ہیں۔
یوں سمجھیے ایک کمرے میں 10 آدمی یکے بعد دیگرے داخل ہوئے کیا کوئی بھی یہ کہے گا کہ آخری آدمی ان سب سے افضل ہے کیونکہ وہ آخر میں آیا۔ ہر گز نہیں۔ اسی طرح سیدنا علیؓ کا زمانہ خلافت بعد میں ہے مگر افضل پہلے خلفاء ہیں تو معلوم ہوا محض آخر میں آنے کی وجہ سے آدمی افضل نہیں ہوتا۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے تو خاتم الانبیاءکی اسی وصف کی وجہ سے تعریف کی ہے۔ جب محض آخرمیں آنا افضلیت کی بات اور دلیل نہیں تو اس آیت سے تعریف کیوں کر ثابت ہو گی۔
اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ ہمارے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اعلیٰ اور مقام و مرتبہ سب سے بلند بالا ہے۔ اس لیے آپ کو آخر میں مبعوث کیا گیا۔ تو آپ کے آخری نبی ہونے کی وجہ اور علت یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کی شان و مقام و مرتبہ سب سے اعلیٰ ہے۔ یہیں ایک اعتراض ہو سکتا ہے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جس کی شان سب سے زیادہ ہو اس کو آخر میں بھیجا جائے تو ہم اس کے متعلق یہ عرض کرتے ہیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے بھیج دیا جاتا تو آپ کے بعد آنے والے نبی مقام میں کم ہونے کی وجہ سے ان کے لائے ہوئے احکام بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے احکامات سے مقام میں کم ہوتے۔یہاں قرآن تھا وہاں صحائف یا دیگر کتب ہوتیں۔ تو پھر اعلیٰ احکام کو ادنیٰ کے ذریعے منسوخ کر دیا جاتا۔
اور اگر درمیان میں بھی آتے تو بھی یہی صورت بنتی کہ نسخ اعلیٰ بالادنیٰ ہوتا یعنی کم مقام والے احکامات کے ذریعے اعلی شان و مقام والے احکام منسوخ ہوجاتے جو کہ حکمت خداوندی کے خلاف ہے۔کیونکہ حکمت تو یہ ہے :
ماننسخ من آیۃ اوننسہا نات بخیر منہا۔
الایۃ یعنی جو آیت ہم منسوخ یا بھلاتے ہیں۔ اس سے بہتر لاتے ہیں۔ یعنی منسوخ سے ناسخ بہتر ہوتا ہے یا برابر۔
تو نہ تو آپ علیہ السلام کے برابر کوئی تھا اور نہ افضل۔ اس وجہ سے آپ کا آخر میں آنا آپ کا کمال ہے۔ اب سوال پیدا ہوا کہ آپ علیہ السلام کے برابر یا افضل کیوں کوئی نہیں ہو سکتا۔
تو اس کا جواب یہ ہے: اوصاف کی دو قسمیں ہیں ذاتی، عرضی،ذاتی کہتے ہیں کہ یہ وصف اپنے موصوف کے لیے شروع ہی سے ثابت ہو اور عرضی کہتے ہیں کہ یہ وصف اپنے موصوف کے لیے شروع ہی سے تو نہ ہو بعد میں ثابت ہو یا ذاتی کہتے ہیں۔ یہ وصف اس کا اپنا ہوتا ہے یعنی کسی ذریعے سے نہیں ملتا اور عرضی اس وصف کے کہتے ہیں جو اپنا نہیں ہوتا کسی کے ذریعے سے ملتا ہے۔
مثال کے طور پر: یہ درودیوار روشن ہیں ان پر روشنی سورج کی ہے۔
تو درودیوار کی روشنی عرضی ہے ذاتی نہیں اس لیے رات کو یہ روشن نہیں اور سورج کی روشنی ذاتی ہے۔ وہ کبھی بھی اس سے جدا نہیں ہوتی۔اسی طرح:
چاند کی روشنی اپنی نہیں بلکہ اس میں روشنی سورج سے آ رہی ہے۔ تو چاند کی روشنی جن چیزوں پر پڑتی ہے۔ ان کو روشنی چاند کی وجہ سے ملی۔ اب سلسلہ چلا کہ رات کو مختلف اشیاء روشن ہیں۔ چاند کی وجہ سے اور چاند روشن ہے سورج سے۔ تو روشنی کا سلسلہ یہاں سورج پر آ کر ختم ہو۔ اسی طرح د یکھئے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارکہ کوجب پیدا کیا گیا تو اسے نبوت سے سرفراز کیا گیا اورباقی نبیوں کو نبوت بعد میں ملی۔ گویا آپ علیہ السلام موصوف بالذات ہوئے وصف نبوت سے اور باقی انبیاء موصوف بالعرض ہوئے۔جب اللہ نے آپ علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا تو اپنی حکمت سے یادداشت کے اوپر حکمت کے پردے لٹکا دیئے۔آپ کو پچھلا منظر یاد نہ رہا۔ جب آپ کی عمر مبارک 40سال کو پہنچی توپھر آگاہ فرمایا کہ اپنی نبوت کا اعلان فرما دیں۔ القصہ آپ علیہ السلام اس وصف نبوت سے موصوف بالذات ہیں تبھی تو آپ ارشاد فرما رہے ہیں کہ :
کنت نبیا و آدم بین الروح و الجسد کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم روح اور جسد کے مابین تھے۔
اب دیکھیے کہ موصوف بالعرض کا قصہ موصوف بالذات پر ختم ہو جاتاہے۔ جیسے رات کو روشنی جو مختلف چیزوں پر ہے یہ آتی ہے چاند سے اور چاند کی روشنی آئی سورج سے اور یہاں سورج پر پہنچ کر سلسلہ ختم ہو گیا اسی طرح تمام انبیاء کی نبوت آپ علیہ السلام کے وسیلے سے ان کو ملی ہے اور آپ علیہ السلام کی نبوت بالذات ہے یعنی کسی کے وسیلے سے نہیں ملی تو یہ سلسلہ آپ علیہ السلام پر پہنچ کر ختم ہو گیا۔یعنی آپ علیہ السلام پر تمام کمالات کو تمام محاسن و فضائل کو ختم کر دیا گیا۔اس کو ختم نبوت مرتبی کہتے ہیں۔
یہ مقام و مرتبہ اس وقت سے ملا جب آدم علیہ السلام پیدا بھی نہیں ہوئے تھے لیکن اس ختم نبوت مرتبی کے باوجودانبیاء تشریف لاتے رہے اورسلسلہ نبوت چلتا رہے اور جب آپ اس دنیا میں تشریف لائے تو آپ نے اعلان فرما دیا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو پھر ختم نبوت زمانی کہ آپ کے زمانہ کے بعد کوئی نبی نیا نہیں آئے گابھی آپ کو حاصل ہو گئی۔اب دو قسم کی ختم نبوت ہوئیں:
1۔ ختم نبوت مرتبی
2۔ ختم نبوت زمانی
پہلی کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہی وجہ سے سب کو عزت و عظمت اور کمال نصیب ہوا، آپ تما م مراتب و مقامات میں آخری ہیں۔
دوسری کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی تشریف آوری پر نبوت کا دروازہ بند کر دیا گیا کہ اب کوئی نبی پیدا نہ ہو گا۔
ہمارے نزدیک دونوں قسم کی ختم نبوت پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔
ایک دوسری طرح دیکھتے ہیں :
ایک نقطہ ہوتا ہے اور اسے مرکز دائرہ بھی کہتے ہیں اور ایک اس کے گرد دائرہ ہوتا ہےاس کو ”محیط“ کہتے ہیں۔ اب دائرہ کا اس مرکز سے پورا تعلق ہوتا ہے اور دائرہ اسی مرکز کی وجہ سے بنتا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مرکز نبوت ہے اور باقی انبیاء دائرہ نبوت ہیں۔ مرکز نہ ہو تو دائرہ کہاں تو یہ دائرہ اسی مرکز کی وجہ سے ہوتا ہے توتمام انبیاء کو نبوت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ملی اور سارے انبیاء کا سلسلہ نبوت آ کر آپ علیہ السلام پر ختم ہو جاتا ہے اس کو ”ختمِ نبوت زمانی“ کہتے ہیں اور اللہ نے شان و مرتبہ و مقام و منصب کو بھی آپ پر ہی ختم فرما دیا۔تو اسی کو ختم نبوت مرتبی کہتے ہیں۔
القصہ سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں قسم کی ختم نبوت حاصل ہیں۔ قادیانی صرف ایک مانتے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ختم نبوت مرتبی مانتے اور یہ مسلمان صرف ختم نبوت زمانی مانتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کی حکمت دیکھیے کہ قادیانی سے برسوں پہلے خدا نے مولانا نانوتوی کو پیدا کیا اور ان سے یہ جواب دلوا دیا کہ ہم دونوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ تو قادیانیوں کامنہ بند کرد یا۔
اس بات کو دوبارہ ذہن نشین فرما لیں کہ مولانا نانوتوی نے یہ نہیں فرمایا کہ آخر میں آنے میں کوئی فضیلت نہیں بلکہ آپ نے یہ فرمایا ہے کہ آخر میں آنے میں بالذات فضیلت نہیں یعنی بالعرض تو فضیلت ہے وہ ہم عرض کرچکے ہیں۔
(ماخوذ ازمناظرے مباحثے بتغیر یسیر)
اب دیکھیے اصل عبارات کو:
اگر آپ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی بالفرض نبی موجود ہو۔ تو بھی ختم نبوت میں فرق نہیں پڑتا تو اس سے مراد حجۃ الاسلام کی یہ ہے کہ خاتمیت مرتبی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
کیونکہ یہ تو آپ کو شروع ہی سے حاصل تھی اور دیگر انبیاء تشریف لاتے رہے تو فرق نہ پڑا اب اگر بالفرض و المحال کوئی نبی آ جائے تو کیسے فرق پڑے۔سوال ہوگا کہ خاتم زمانی میں تو فرق پڑے گا۔جواب یہ ہے کہ بالکل پڑے گا اسی لیے تو حجۃ الاسلام نے بالفرض و اگر جیسے لفظ استعمال کیے ہیں کہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ آپ علیہ السلام کے بعد کوئی نیا نبی آئے یہ عبارت تو صرف خاتمیت مرتبی کو ہی سامنے رکھتے ہوئے حضرت نے فرمائی ہے۔اگرنبی کے آنے کو جائز مانتے ہوتے تو حضرت فرض کیوں کرتے اور یہ بات تو فاضل بریلوی بھی لکھتے ہیں کہ فرض محالات جائز ہے۔
(اللہ جھوٹ سے پاک ہے ص139)
تو اعتراض کیوں؟ باقی زمانی ختم نبوت کا خیال کر کے اسے محال سمجھا کہ آپ کے بعد کوئی نبی آئے تبھی تو فرض کیا۔ جیسے پیچھے گزر چکا ہے کہ بریلویوں نے لکھا ہے اگر مرزا قادیانی نبی ہوتا تو سیدنا ابراہیم کی اولاد سے ہوتا۔تو جیسے یہ اگر کہنے سے نبی بن نہیں گیا یہاں بھی اگر اور بالفرض کہنے سے نئے نبی کے آنے کو ممکن نہیں مانا جا رہا بلکہ محال ہی مانا جا رہا ہے کیونکہ محال کو ہی فرض کیا جاتا ہے نہ ممکن کو۔بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ خاتم زمانی کو خاتم مرتبی کے لیے لازم مانتے ہو جب نیا نبی آ جائے خاتم زمانی ٹوٹ گیا اور جب وہ نہ رہا تو ملزوم بھی نہ رہا۔
تو جواباً عرض ہے کہ اسی لیے تو حجۃ الاسلام نے اگراور بالفرض کہا یعنی ایسا ہونامحال ہے نا کہ ممکن، اور محال کو فرض کرنا جرم نہیں۔ جیسا کہ قرآن مقدس میں بھی محالات کو فرض کیا گیا ہے۔جیسے اگر رحمن کا بیٹا ہوتا …الخ، اور اگر زمین و آسمان میں دو خدا ہوتے الخ…ایک اور بات حجۃ الاسلام حضرت نانوتوی ختم نبوت زمانی کے قائل ہیں اور منکر کو کافر کہتے ہیں دیکھیے۔
شیخ العرب و العجم حضرت مدنی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
حضرت مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم زمانی ہونے کی پانچ دلیلیں ذکر فرما رہے ہیں۔ تین دلیلیں قرآن سے ایک حدیث سے اور ایک اجماع اُمت سے آیت قرآنی اس بارے میں:
ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین میں لفظ ’’خاتم النبیین‘‘
یا تو عام مانا جائے کہ اس کے دو افراد ہوں ایک خاتم مرتبی اور دوسرا خاتم زمانی اور لفظ خاتم کادونوں پر اطلاق اس طرح کیا جاتا ہے جیسے کہ مشترک معنوی اپنے متعدد افراد پر اطلاق کیاجاتا ہے۔ (جیسے لفظ عین کئی معنوں میں مشترک ہے۔ ہر ایک پر برابری کے ساتھ بولا جاتا ہے) پس اس دلیل سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہر دو وصف اس آیت سے ثابت ہوں گے۔ (اور یہ دلالت مطابقی ہے کہ لفظ اپنے موضوع لہٗ پر دلالت کرے۔)
یہ دلیل اول کی اجمالاً تقریر ہوئی اور دلیل ثانی کی تقریر یہ ہے کہ لفظ خاتم کے معنی حقیقی خاتمیت مرتبی کے لیے جاویں اورخاتمیت زمانی معنی حقیقی نہ ہوں بلکہ مجازی ہوں لیکن آیت میں مراد ایسے معنی ہوں کہ جو معنی حقیقی اور مجازی دونوں کو شامل ہوں بطریق عموم مجاز کے اس صورت میں ہر دو وصف کاثبوت آپ کی ذات پاک کے لیے ظاہر ہے اور دلیل ثالث یہ ہے کہ معنی حقیقی خاتم کے خاتمیت مرتبی کے ہیں لیکن خاتمیت مرتبی کو خاتمیت زمانی لازم ہے۔ (تاکہ نسخ الاعلی بالانی لازم نہ آئے اسی لیے یہ ختم زمانی ختم مرتبی کو لازم ہے۔)
اس لیے بدلالت التزامی خاتمیت زمانی پر دلالت کرے گی اور اس آیت سے خاتمیت مرتبی اور زمانی کا ثبوت لازم آئے گا دلیل چہارم یہ کہ احادیث متواترہ سے ثابت ہو گیا کہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا اس لیے ثبوت خاتمیت زمانی کاضرور ہو گا اور منکر اس کا اسی طرح کافر ہو جیسے کہ منکر احادیث متواترہ کا لیکن ان احادیث کا تواتر لفظی نہیں تواتر معنوی ہے دلیل پنجم یہ ہے کہ اجماع اُمت کامنعقد ہو گیا ہے کہ آنجناب علیہ الصلوٰۃ والسلام خاتم الانبیاء زماناً ہیں اور اقرار اجماع کاکرنا ضروری اور منکر اس کا کافر ہے۔
(الشہاب الثاقب ص 73، 74)
خان صاحب کے ”کارنامے“
فاضل بریلوی نے عبارتوں کو نقل کرنے میں قطع و برید سے کام لیا۔ وضاحت پیشِ خدمت ہے:
نمبر1:
1۔ تین عبارتوں کو ایک بنا دیامثلاً عربی عبارت جو بنائی وہ یہ ہے:
و لو فرض فی زمنہ صلی اللہ علیہ وسلم بل لوحدث بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی جدید لم یخل ذالک بخاتمیتہٖ و انما یتخیل العوام انہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین بمعنی آخر النبیین مع انہ لا فضل فیہ اصلا عند اہل الفہم.
(حسام الحرمین عربی اردو، ص19)
ولو فرض فی زمنہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک ٹکڑا)، بل لوحدث بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی حدید لم یخل ذالک بخاتمیتہٖ (دوسرا ٹکڑا)، و انما یتخیل العوام سے آخر تک۔(تیسرا ٹکڑا)
پہلا ٹکڑا: تحذیر الناس کے ص 14 کا ہے۔ اس کے شروع اور آخر سے عبارت کو کاٹ دیا۔
دوسرا ٹکڑا: ص28 کا اس کے ساتھ بھی یہی حشر کیا
تیسرا ٹکڑا: پھر ص3 کا ٹکڑا لے آئے اور اس کے ساتھ بھی یہی حشر کیا۔
ہمارا سوال ہے بریلوی ملاؤں سے اگر تمہارے بقول تینوں ٹکڑے کفر تھے تو یہ بتاؤ کہ سیاق و سباق کے کاٹنے کی ضرورت کیاتھی اور عبارات میں تقدیم و تاخیر کہ پہلے والی عبارت کو آخرمیں لانے اور آخر والی عبارت کو درمیان میں لانے کی اور درمیان والی عبارت کو شروع میں لانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگروہ عبارات کفریہ ہوتی تو فاضل بریلوی کویہ کبڈی کھیلنے کی ضرورت نہ تھی۔
پھرفاضل بریلوی نے یہ بھی نہیں بتایا کہ عبارات تین ہیں بلکہ ایک ہی بنا کر دکھائی۔پھر درمیان میں کچھ فاصلہ بھی نہیں رکھااور تواور ترتیب بھی بہت ہی خاص انداز میں بنائی:
پہلے ص14 پھر ص 28 پھر ص 03
یعنی ترتیب کو نہ شروع سے کیا کہ چلو ص 03 پھر ص 14 پھر ص 28 ہو یا اُلٹ کر کے ص28، ص14، ص3 ہوتے۔خدا برا کرے اس تعصب کا۔
بہرحال سیاق و سباق عبارات کو کاٹ کر ان عبارات کو پیش کیا جو کہ کبھی بھی تکفیر کے لیے مفید نہیں کیونکہ بریلوی مناظر علامہ اشرف سیالوی صاحب، پیر نصیر الدین گولڑوی صاحب کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں :
آپ نے بندہ کے مقالہ میں سے صرف ایک عبارت سیاق و سباق سے کاٹ کر اور پورے مضمون ومفہوم اور بنیادی مطلب و مقصد کو قارئین سے پوشیدہ رکھ کر جس تحکم اور سینہ زوری اور ظلم اور تعدی اورناانصافی و بے اعتدالی کا مظاہرہ کیا اورباری تعالیٰ کی مشکلات سے سبکدوشی کا عنوان قائم کرکے اس کومیرا عقیدہ قرار دے دیا ہے۔ اور کفر کا فتویٰ پھر جڑ دیا۔
(ازالۃ الریب ص71)
یہی بات ہم کہہ رہے ہیں کہ فاضل بریلوی نے ظلم و تعدی کر کے سیاق و سباق کوکاٹ کر ناانصافی کر کے ہمارے بنیادی مقصدکو چھپا کر تحکم اور سینہ زوری سے ہماری عبارات کا مطلب گھڑا ہے ہم اس گھڑنتو مطلب سے بری ہیں۔ اگر سیالوی صاحب اس طرح کافر نہیں تو ہم کیوں ؟
نمبر2:
مرزا قادیانی کے اقوال نقل کر کے آگے لکھا ہے منہم الوہابیہ (حسام الحرمین) یعنی یہ وہابیہ مرزائیوں سے ہیں حالانکہ دنیا جانتی ہے یہ مرزائی نہ تھے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ فتویٰ ہمارے اکابر کو مرزائی بتلا کر لیا گیا ہے اس لیے اس فتوے کی کوئی حیثیت نہیں
نمبر3:
حسام الحرمین میں عبارات عربی میں بنائی گئیں حالانکہ ہماری کتب اردو میں تھیں اور حرمین شریفین کے علماء اُردو نہ جانتے تھے۔ فاضل بریلوی نے علمائے دیوبند کی اردو عبارات کو غلط انداز میں عربی میں نقل کرکے دھوکہ دہی سے کام لیا اوربقول بریلویہ کے محض مخالف کے بیان پر اعتما دکرتے ہوئے بلاتحقیق فیصلہ صادر کردینا نہ تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول و پسندیدہ ہے اور نہ ہی اسے اہل علم و دانش قبول کر سکتے ہیں۔
(البریلویہ کا تحقیقی جائزہ ص62)
جب کنز الایمان پر سعودی حکومت نے پابندی لگائی بلکہ جلانے کا فتوی دیا تو یہی بات صاحبزادہ حمید الدین سیالوی نے حکومت سعودیہ کو لکھی، ملاحظہ فرمائیں:
اس میں شک نہیں ہے کہ ترجمہ و حواشی اُردو زبان میں ہیں اورہم جانتے ہیں کہ ادارہ البحوث العلمیہ (جس نے کنز الایمان کو جلانے کا فتویٰ دیا) کے اکثرارکان اردو زبان نہیں جانتے ایک خاص گروہ نے اللہ تعالیٰ ان کی مساعی کو کبھی قبول نہ کرے اس ترجمہ اورا ن کے حواشی کو جھوٹے رنگ میں رنگ کر ادارۃ البحوث العلمیہ کے اراکین کے سامنے پیش کیا اورا پنی چرب زبانی اور عیاری کے باعث ان سے یہ فتویٰ صادر کرانے میں کا میاب ہو گئے۔
ہم کہتے ہیں اور جو ہم کہتے ہیں اس کے سچائی پر اللہ تعالیٰ کو گواہ پیش کرتے ہیں۔ انہو ں نے شر، کفر اور آیات کے معانی میں تحریف کا بہتان ایسے ربانی عالموں پر لگایا ہے جنہوں نے اپنی زندگیوں کا ایک ایک لمحہ اپنا علم اپنی دانش اور اپنی قابلیت اللہ کی بات کو بلندکرنے کے لیے اور ہندوستان میں بسنے والے بت پرستوں کو دعوت توحید پہنچانے کے لیے صرف کی اور وہ بہت سے بت پرستوں کوشرک کے گھپ اندھیروں سے نکال کر اسلام کے نور کی طرف لانے میں کامیاب ہو گئے اس مخصوص گروہ نے اپنے دل سے جھوٹی تہمتیں اور ظلم و کذب بیانی سے ان پاک نفوس پر الزام لگایا۔
(انوار کنزالایمان ص 846، 847)
یہی کچھ ہم اپنے اکابرین کی صفائی میں کہتے ہیں۔ عبارات کا مطلب وہ گھڑا جو ان اکابرین کے ذہن و خیال میں بھی نہیں آیا۔
بریلوی جید مناظر لکھتے ہیں :
بزرگوں کے کلام کاان کی مراد کے خلاف مطلب نکال کر مراد لینا سراسر جہالت ہے۔
(میٹھی میٹھی سنتیں اور دعوت اسلامی ص74)
مولوی اشرف سیالوی جو بریلوی ملت کے مناظر اعظم اور قائد ہیں وہ لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ صحیح سوچ اور فکر نصیب فرمائے اور مقصودِ متکلم بھی سمجھنے کی توفیق بخشے۔
(تحقیقات ص62)
معلوم ہوا متکلم کی مراد نہ سمجھنا الٹی سوچ و فکر ہے جو فاضل بریلوی اور دیگر بریلوی علماء میں ہے۔
عربی عبارت میں اتنی خیانتیں فاضل بریلوی نے کیں اب اردو والوں کو بھی دیکھیے:
نمبر4:
مکتبہ نبویہ والوں نے اردو میں شائع کی توپہلے ٹکڑے میں فاضل بریلوی نے جتنا حصہ کتاب کا لیا تھا انہوں نے دیکھا کہ عام قاری بھی یہ غلطی اورخیانت پکڑ لے گا تو انہوں نے عبارت کوکچھ بڑھا دیا۔
پہلاٹکڑا فاضل بریلوی نے یوں لکھا تھا :
ولو فرض فی زمنہٖ صلی اللہ علیہ وسلم
’’اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی کوئی نبی فرض کر لیا جائے۔‘‘
مگر مکتبہ نبویہ والوں نے اس کے ساتھ ایک جملہ اور بڑھا دیا اور شروع میں بلکہ کا اضافہ بھی کرد یا۔
یوں لکھتے ہیں :
’’بلکہ بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو۔ جب بھی آپ کا خاتم ہونابدستور باقی رہتا ہے۔‘‘
یہ اس لیے کیا گیا کہ فاضل بریلوی کی خیانت پکڑی نہ جائے مگر عربی خواں تو جانتے ہیں بہرحال یہ اردو خواں لوگوں کی بھی خیانت معلوم ہو گئی کہ اُردو والی حسام الحرمین میں ایک ٹکڑے کا اضافہ کر دیا۔
نمبر 5:
کچھ مکتبے اور آگے نکلےانہوں نے حسام الحرمین کی عبارت کہ عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاخاتم ہونا بایں معنی ہے۔ کویوں کر دیاعوام کے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاخاتم ہونا بے ایمانی ہے۔
(تمہید ایمان مع حسام الحرمین ص70، مطبوعہ اکبر بک سیلرز لاہور، تمہید ایمان مع حسام الحرمین ص 53، مطبوعہ مکتبہ غوثیہ کراچی، تمہید ایمان مع حسام الحرمین ص70، مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)
ان تینوں مکتبوں نے خیانت کے ریکارڈ توڑ دیے۔اس پر انما اشکو بثی و حزنی الی اللہ ہی کہاجا سکتا ہے۔
نمبر6:
تحذیر الناس ص 3 کی جب عبارت نقل کی گئی تو اس میں ایک جملہ چھوڑ دیاگیا جو کہ ’’بایں معنی ہے کہ‘‘ کے بعد موجود تھا۔ ’’ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد ‘‘
(تحذیر الناس ص3)
پوری عبارت یہ ہے :
’’سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخر ی نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ ‘‘
(تحذیر الناس ص 3)
کئی خیانات:
اُردو والوں نے کہیں ، بلکہ، کالفظ چھوڑ دیا کہیں ’’سو ‘‘کالفظ نہیں لائے کہیں ’’اگر‘‘ کا لفظ بھی چھوڑ گئے اور خیر سے فاضل بریلوی نے بھی ’’بلکہ‘‘وغیرہا کئی جملوں کا عربی میں ترجمہ ہی نہیں کیا۔
اصل کتاب تحذیر الناس میں یوں تھا کہ اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم و تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔
(تحذیر الناس ص3)
مگر عربی میں ترجمہ کرتے وقت یوں لکھاگیا:
انہ لا فضل فیہ اصلاً عند اہل الفہم.
بالذات کا ترجمہ ہی نہیں کیا گیا۔
اب بریلوی کہتے ہیں بالذات کاترجمہ لفظ اصلاً میں آگیا تو پھر جوابًا عرض یہ ہے کہ اصلاً کا مطلب یہ بنتا ہے کہ بالکل کوئی فضیلت ہی نہیں نہ ذاتی نہ عرضی جو کہ متکلم کے الفاظ و معانی و مراد کے بالکل خلاف ہے کیونکہ متکلم بالعرض فضیلت کا قائل ہے۔بہر کیف یہ فاضل بریلوی کی خیانات اور دجل وفریب کامجموعہ ہے۔
بریلویوں کویہ تو ماننا پڑے گا اس نے دھوکہ دہی و خیانت سے کام لیاہے باقی بحث بعد کی بات ہےاور جب حسام الحرمین کذبات، خیانات، دھوکہ جات کا مجموعہ ہو تو پھر اس کاجواب دینے کی ضرورت بھی باقی نہ رہے گی۔ فاضل بریلوی نے مزید دھوکہ دینے کے لیے مولانا محمد علی بانی ندوہ کا ذکر بھی کیا کہ وہ بھی ان کی تعریفیں کرتے ہیں، چونکہ ندوہ پر پہلے وہاں سے فتویٰ لگا چکے تھے اس لیے کام کو مزید آسان کرنے کے لیے ان کا ذکر کر دیا۔
باقی رہا یہ اعتراض کہ آخری نبی کا معنی جاہلوں کا خیال بتایا تو گزارش یہ ہے کہ ”خاتم“ کا معنی عوام تو یہی سمجھتے ہیں کہ آپ آخری ہیں اور ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس کی علت اور ہے اور وہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اکمل، اعظم و افضل الانبیاء ہونا۔ اسی وجہ سے آپ کو آخری بنایا گیا اور یہ بات عوام کے فہم سے اوپر کی تھی حضرت نے یہ بات سمجھائی ہے نہ کہ آخری نبی معنی کا جاہلوں کا معنی کہا ہے۔
الزام برقطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی
قطب الارشاد گنگوہی پر فاضل بریلوی نے یہ الزام لگایا:
اس نے یہ افتراء باندھا کہ اللہ کا جھوٹا ہونا بھی ممکن ہے۔
(حسام الحرمین ص14)
آگے لکھتے ہیں:
ظلم و گمراہی میں یہاں تک بڑھا کہ اپنے فتوے میں جو اس کا مہری دستخطی میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا جو بمبئی وغیرہ میں بارہا مع رد کے چھپا صاف لکھ دیا کہ جو اللہ سبحانہ کو بالفعل جھوٹا مانے اور تصریح کر ے کہ معاذ اللہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ بولا اور یہ بڑا عیب اس سے صادر ہو چکا تو اسے کفر بالائے طاق گمراہی درکنار فاسق بھی نہ کہو۔ …الخ
(حسام الحرمین ص15)
الجواب: ہم بریلویوں سے گزارش کرتے ہیں کہ ہمیں بھی وہ قلمی فتوی دکھاؤ کہ ٰ کہاں ہے؟ یہ فاضل بریلوی کااتنا بڑا جھوٹ ہے جس کی توقع کسی عام مسلمان سے بھی نہیں کی جاسکتی۔
قطب الارشاد کی اپنی تحریر ملاحظہ فرمائیں :
ذات پاک حق جل جلالہ کی پاک و منزہ ہے۔ اس سے کہ متصف بصفت کذب کیا جاوے معاذ اللہ اس کے کلام میں ہرگز ہرگز شائبہ کذب کا نہیں :
قال اللہ تعالیٰ و من اصدق من اللہ قیلا
جو شخص حق تعالیٰ کی نسبت یہ عقیدہ رکھے یا زبان سے کہے وہ کذب بولتا ہے وہ قطعاً کافر ہے ملعون ہے اور مخالف قرآن و حدیث کا اور اجماع امت کا ہے وہ ہرگز مومن نہیں۔
(فتاویٰ رشیدیہ ص90)
اب بھی کوئی کہے کہ نہیں جی میں تو نہیں مانتا۔ تو ہم اسے اتنا کہیں گے کہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں پیشی کے لیے تیار رہے۔بعض رضا خانی یہ کہہ دیا کرتے ہیں: جی انہو ں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں نے یہ تحریر نہیں لکھی۔ تو جوابًا عرض ہے استفتاء میں اگر یہ پوچھا جاتا کہ آپ نے ایسی تحریر لکھی ہے تو آپ اس کا جواب دے دیتے کہ میں نے نہیں لکھی جب پوچھا نہیں گیا تو یہ جواب دینے کی کیا معنی، جیسے کوئی کہے کہ فتاویٰ مہریہ میں پیر مہر علی شاہ نے مرزا قادیانی پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا تو یہی کہا جائے کہ بھائی اس کے کفر کا سوال ہی نہیں کیا گیا تو جواب کہا ں ہوتا۔جو سوال ہو جواب اس کے موافق ہوتا ہے۔
سوال تھا کہ کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ ذات باری تعالیٰ عزا اسمہ موصوف بصفت کذب ہے یا نہیں اور خدا تعالیٰ جھوٹ بولتا ہے یا نہیں اور جو شخص خدا تعالیٰ کو یہ سمجھے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے وہ کیسا ہے۔ بینوا تو جروا۔
(فتاویٰ رشیدیہ ص90)
تو جواب حضرت نے وہی دیا جو نقل کیا جا چکا ہے۔
مولانا خلیل احمد خان قادری برکاتی بریلوی لکھتے ہیں :فاضل بریلوی نے اپنے رسالہ از کی الہلال میں دربارہ رویت ہلال خط وغیرہ تحریرات کو ناقابل اعتماد فرما یا ہے پھر تکفیر مسلم کے بارے میں مجرد قلمی تحریر پر کیوں اعتماد کر کے احکام کفر و ارتداد جاری کیے۔
(انکشاف حق ص210)
یعنی چاند کے دیکھنے کے بارے میں کسی کے خط اور تحریر پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہو سکتا ہے کسی اور نے لکھی ہو کیونکہ تحریر میں آدمیوں کی بعض دفعہ لکھائی مل بھی جاتی ہیں یعنی یہ ہو سکتا ہے لکھی کسی نے ہو اور نام کسی کے لگائی ہو۔
جب چاند دیکھنے کے معاملے میں کسی کی تحریر جو موصول ہو اس پر فیصلہ نہیں ہو سکتا تو اتنے بڑے تکفیر کے مسئلے میں کیونکر کسی کی تحریر پر تکفیر ہو ہاں اگر صاحب تحریر قبول کرے کہ یہ میری تحریر، پھر بات اور ہے جب حضرت گنگوہی خود کہہ رہے ہیں کہ ایسا عقیدہ رکھنے والا کافر ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بری ہے۔ تو پھر کیونکر یہ بات ان کے ذمے لگائی جائے۔ہداہم اللہ۔
اوریہ بات فاضل بریلوی نے بھی کہی ہے کہ:خط خود کب معتبر تمام کتابوں میں تصریح ہے کہ
الخط یشبہ الخط او الخط لا یعمل بہ۔
(ملفوظات ص203)
یعنی خط معتبر نہیں۔ اس کو بنیاد بنا کر عمل نہیں کیا جائے گا تو فاضل بریلوی نے خود عمل کیوں کیا؟
الزام برفخرالمحدثین مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ
فاضل بریلوی لکھتے ہیں :
ان کے پیر ابلیس کا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ ہے اور یہ اس کا برا قول خود اس کے بدالفاظ میں ص47 پر یوں ہے:شیطان و ملک الموت کی یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخر عالم کی وسعت علم کی کون سی نص قطعی ہے کہ جسے تمام نصوص کو رد کر کے ایک شرک ثابت کرتا ہے۔
(حسام الحرمین ص15)
الجواب: حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری کی کتاب ”براہین قاطعہ“ پر اعتراض ہے جو کہ ”انوارِ ساطعہ“ کے جواب میں لکھی گئی۔ اس میں خود رضا خانی حضرات نےفخرِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو شیطان پر قیاس کیا تو حضرت سہارنپوری رحمہ اللہ نے جواب دیا۔ ہم حیران ہیں کہ شیطان پر قیاس خود مولوی عبدالسمیع رامپوری نے اپنی اس کتاب ”انوار ساطعہ“ میں کیا جس پر تقریظ فاضل بریلوی کی ہے اور نام ہمارا لگا دیا۔
اس سے بڑھ کر کیا شاطرانہ چال ہو سکتی ہے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطان پر قیاس کرنا کیا یہ تعظیم نبوی ہے؟ بریلوی اس بات کا ہمیں جواب دیں شیطان پر قیاس تو رامپوری اور فاضل بریلوی کریں قصور وار ہم ٹھہریں کیوں ؟ کیا بریلویوں کے ہاں شیطان پر قیاس کرنا درست ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو؟
چنانچہ رامپوری صاحب لکھتے ہیں :
ا ن احادیث سے معلوم ہوا کہ ملک الموت ہر جگہ حاضر ہے بھلا ملک الموت علیہ السلام تو ایک فرشتہ مقرب ہے۔ دیکھو شیطان ہر جگہ موجود ہے۔ درمختار کے مسائل نماز میں لکھا ہے کہ شیطان تمام بنی آدم کے ساتھ رہتا ہے مگر جس کو اللہ نے بچا لیا بعد اس کے لکھا ہے۔
واقدرہ علی ذالک کما اقدر ملک الموت علی نظیر ذالک
یعنی اللہ تعالیٰ نے شیطان کو اس بات کی قدرت دے دی ہے جس طرح ملک الموت کو سب جگہ موجود ہونے پر قادر کر دیا…پس اسی طرح سمجھو کہ جب سورج سب جگہ یعنی اقالیم سبعہ میں موجود ہو کہ وہ چوتھے آسمان پر ہے، روحِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جو ساتویں آسمان پر علیین میں موجود ہے اگر وہاں سے آپ کی نظر مبارک کل زمینوں کے چند مواضع و مقامات پر پڑ جائے اور ترشح انوار فیضان احمدی سے کل مجالس مطہرہ کو ہر طرف سے مثل شعاع شمس محیط ہو جائے کیا محال اور کیا بعید ہے۔
(انوار ساطعہ ص357)
حضرت سہارنپوی نے اس کے جواب میں لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے: تمام مسلمان بشمول مصنف شیطان سے افضل ہیں تو کیا اپنا علم شیطان کے دائرہ کار کے علم سے ز ائد مانتے ہیں۔ مؤلف کے ایسے جہل پر تعجب بھی ہوتا ہے اور رنج بھی ہوتا ہے۔ کہ ایسی نالائق بات منہ سے نکال کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطان پر قیاس کیا یہ کس قدر دوراز علم و عقل ہے۔
حضرت نے تو اس پر خوب خبر لی کہ تم نے آپ علیہ السلام کو شیطان پر قیاس کر کے کیوں نالائق بات کہی اُلٹا بریلویوں نے ہمیں کو سنا شروع کر دیا۔
اب مولوی اشرف سیالوی کی سنیے وہ لکھتے ہیں: انبیاء و اولیاء کو اصنام واوثان پر قیاس کرنا اور ان کے متبعین اور اطاعت گزاروں کو بت پرستوں پر قیاس کرنا یہ خالص خارجیت ہے اور مخلوقات میں بدترین مخلوق ہونے کی دلیل۔
(گلشن توحید و رسالت ص139، ج2)
جب بتوں پر قیاس کرنا خارجیت اور بدترین مخلوق ہونے کی دلیل ہے تو شیطان پر قیاس کرنا اور وہ بھی انبیاء علیہم السلام کو بدرجہ اولیٰ بدترین مخلوق ہونے کی دلیل ہے۔
دوسری جگہ یہی مولوی صاحب لکھتے ہیں : اوثان پر اللہ تعالیٰ کے تقرب اور فضل کے وسائل و ذرائع کو قیاس کرنا سراسر محرومی اور بدنصیبی ہے اور بے دینی و الحاد اور منصب نبوت و رسالت کی توہین و تحقیر ہے۔
(گلشن توحید و رسالت ص 164، ج2)
یعنی انبیاء و اولیاء کو بتوں پر قیاس کرنا۔ بدنصیبی محرومی بے دینی الحاد و منصب نبوت و رسالت کی توہین و تحقیر ہے تو معلوم ہو گیا کہ شیطان تو ان بتو ں سے بھی گیا گزرا ہے۔ اس پر قیاس کرنا بڑا جرم ہو گا۔
مفتی حنیف قریشی صاحب کہتے ہیں :
جانوروں کے ساتھ کسی جنس کا ذکر کیا جائے تو یہ اس جنس کی توہین ہے۔
(مناظرہ گستاخ کون ص54)
توکیا شیطان پر قیاس کیا جائے تو یہ درست مانو گے۔
مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں:
حضور کی شان میں ہلکے لفظ استعمال کرنے ہلکی مثالیں دینا کفر ہے۔
(نور العرفان ص345، کتب خانہ نعیمی لاہور)
اس سے گھٹیا مثال کیا ہو گی کہ سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطان پر قیاس کیا جائے۔ القصہ یہ بریلوی اصول کی روشنی میں رامپوری اور احمد رضا نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی۔ مگر ہم بریلویوں پر حیران ہیں کہ ان کو تو کچھ نہ کہا اور جس آدمی نے اس کو نالائق حرکت قرار دیا ہے۔ اس کو گستاخ رسول کہنا شروع کر دیا۔اصل عبارت پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے چند باتیں ذہن میں رکھیں۔
1۔ عقائد قیاس سے ثابت نہیں ہوتے۔
2۔ ہم اہل حق اہلسنت شیطان لعین کے دائرہ کار کا علم جو اس کی گندی سوچ پر مشتمل ہے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہیں مانتے۔
3۔ ملک الموت کی معلومات کہ فلاں کی روح قبض کرنی ہے اور فلاں کی وغیرہ معلومات ملک الموت کی نبی پاک علیہ السلام کو حاجت ہی کیا ہے۔
4۔ اللہ تعالیٰ نے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان تمام باتیں بتا دی ہیں۔
5۔ اگر کوئی کہے رقص وغیرہ کا علم فاضل بریلوی کو نہیں لہٰذا فاضل بریلوی صاحب کا علم رقاصہ اور سینما والے سے کم ہے تو بریلوی کہیں گے کہ یہ غلط ہے بلکہ ان کی نسبت ہی بریلوی حضرات فاضل بریلوی کی طرف کرنا توہین سمجھیں گے۔
6۔ اور دنیا کی بعض باتیں جو علم دین سے متعلق نہیں ان کو اگر انبیاء نہ جانیں تو یہ ان کے لیے عیب نہیں۔
7۔ اگر بعض جزوی باتوں کا علم کسی کو ہو اور نبی کو نہ ہو تو اس سے وہ نبی سے بڑھ نہیں جائے نہیں جیسے کہ ہدہد نے آ کر سلیمان علیہ ا لسلام سے کہا تھا ایسی خبر لایا ہوں جو آپ کو نہیں۔
8۔ سیدنا علی ؓ کو حضرت مابور ؓ کے قتل کے لیے بھیجا وہ کنوئیں میں چھپے تھے جب حضرت علی ؓ نے نکالا اور قتل کرنے لگے وہ گر پڑے اور ان کی چادر (تہبند) کھل گئی۔ سیدنا علیؓ کی اچانک نظر ان کے ستر پر پڑی وہ تو نامرد تھے قتل نہ کیا۔واپس آئے آپ علیہ السلام نے تو سارا واقعہ عرض کر دیا۔تو سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
الشاہد یریٰ ما لا یری الغائب.
(مسند احمد)
اب کیا سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا علم کوئی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کہے گا؟ ہرگز نہیں۔
اب عبارت کو دیکھیےجہاں حضرت نے اس شیطانی قیاس کا جواب دیا ہے جس کو اہل بدعت اچھا نہیں سمجھتےوہ عبارت یہ ہے:
’’الحاصل غور کرنا چاہیے کہ شیطان اور ملک الموت کا حال دیکھ کر (یعنی ان کو جو بعض جزئیات حادثہ دنیاویہ کا علم ہے کہ جن سے ان کا مقصد اغوا اور قبض ارواح ہے۔ وہ ان کو حاصل ہو گیا ہے اور یہ پید ابھی اسی کے لیے گئے ہیں ان پر قیاس کر کے) علم محیط زمین فخر عالم کو (یعنی علم غیر عطائی ذاتی آپ علیہ السلام کو مانا جائے تاکہ روئے زمین میں جہاں بھی مجلس موجود ہو وہیں آپ تشریف لائیں۔ ہم نے علم محیط زمین کا مطلب ذاتی علم اس لیے کیا ہے۔ کہ آگے حضرت سہارنپوری نے ص 57 پر خود لکھا ہے یہ بحث اس صورت میں ہے کہ علم ذ اتی آپ کو کوئی ثابت کر کے یہ عقیدہ کرے جیسا جہلاء کا یہ عقیدہ ہے اگر یہ جانے کہ حق تعالیٰ اطلاع دے کر حاضر کر دیتا ہے تو شرک تونہیں مگر بدون ثبوت شرعی کے اس پر عقیدہ در ست بھی نہیں۔ ) خلاف نصوص قطعیہ کے بلا دلیل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کاحصہ ہے۔ (یعنی ذاتی علم کو بغیر کسی دلیل کے نبی محترم کیلئے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے یعنی ذاتی علم کو بغیر کسی دلیل کے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ثابت کرنا شرک ہی ہے جیسا کہ فاضل بریلوی نے خود ملفوظات ص 317میں فرما یا ہے کہ غیر خدا کے لیے کی ایک ذرہ ذاتی علم ماننا کفر ہے۔)شیطان اور ملک الموت کو یہ وسعت (کہ ملک الموت کا روحوں کو قبض کرنا اور شیطان کا بھاگ دوڑ کر کے لوگوں کو گمراہ کرنا جس کے لیے وہ پیدا کیے گئے ہیں ) نص سے ثابت ہوئی (وہ آپ بھی مانتے ہیں اور آپ نے بھی یہ باتیں لکھی ہیں کہ ان کاموں کے لیے ان کو وسعت دی گئی ہے۔ )فخر عالم کی وسعت علم کی(یعنی ذاتی علم جو محیط ہو علم زمین پر) کون سے نص قطعی سے ثابت ہے۔
(براہین قاطعہ ص55)
اس میں کیاگستاخی ہے؟
1۔ اس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم محیط ذاتی ماننا شرک قرار دیا ہے۔ وہ آپ کو بھی مسلم ہے اور یہ قید ہماری نہیں بلکہ حضرت نے اس بحث کے آخر میں خود لکھی ہے کہ یہ بحث اس صورت میں ہے جب علم ذاتی مانا جائے۔
2۔ آپ علیہ السلام کے علوم عالمیہ و کمالیہ کی بات نہیں ہو رہی بلکہ شیطان و ملک الموت کے دائرہ کار کی بات ہو رہی ہے۔
3۔ نصوص قطعیہ میں تو ایسے علوم کو سرکا دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے لائق نہیں کہا گیا ہے جیسے شعر گوئی وغیرہ اس لیے شیطانی سوچ وفکر پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو محیط ماننا نصوص قطعیہ کا رد ہے۔
4۔ اور مولانا کے یہ الفاظ کہ ’’یہ وسعت یہ اس بات پر مشیر ہے کہ ان ملک الموت اور شیطان کے دائرہ کار کی بات ہو رہی ہے نہ کہ مطلق اور جمیع علوم کی۔
5۔ یہ بات کہ شیطان کے دائرہ کار کا علم نبی کو ہوتا ہے ہمیں مسلم نہیں بریلویوں کو مسلم ہے۔ مثلاً جاء الحق میں مفتی احمد یار نعیمی نے لکھا ہے۔ حضور علیہ السلام کو تمام جہان والوں کا علم دیا گیا اور جہان والوں میں شیطان بھی شامل ہے۔
(جاء الحق ص77)
اس لیے بریلویوں کو تکلیف ہے کہ یہ گستاخی ہے ہم کہتے ہیں ان گندی باتوں کا علم ماننا گستاخی ہے نہ کہ انکار۔اس لیے کہ آپ کے جید عالم مولوی اللہ دتہ صاحب لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو وہ امور غیبہ جن کا علم ان کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ان کا علم عطا فرماتا ہے اور کسی کے لیے غیر ضروری معلومات مہیا کرنا حکیم اور علیم کی شان نہیں۔
(تنویر الخواطر ص48)
آپ کی معتبر کتاب روضۃ القیومیہ میں ہے ہزارہا علوم و معارف اس قسم کے ہیں کہ انہیں انبیاء سے منسوب کرنے سے عار آتی ہے۔
(ج1۔ ص160)
تو یہ بات ہمیں تو اچھی نہیں لگتی البتہ بریلوی حضرات کو اچھی لگتی ہے تو ان کی قسمت۔ الزام کاخلاصہ یہ تھا کہ یہ شیطان کے علم کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ مانتے ہیں۔ جبکہ یہ بات چور مچائے شور کے حساب سے ہے۔ کیونکہ یہ تو تم نے ہی لکھی ہے اور اپنا آپ چھپانے کے لیے ہمارے نام لگا دی جن کو اس کا وہم و گمان بھی نہیں گزرا تھا ہم تو اس کو کفر سمجھتے ہیں۔ اب سنیے! فاضل بریلوی لکھتے ہیں :
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم اوروں سے زائد ہے۔ ابلیس کا علم معاذ اللہ علم اقدس سے ہر گز وسیع تر نہیں۔
(خالص الاعتقاد ص6)
یہی بات اویسی بہاولپوری نے عقائد صحابہ ص5 رسائل اویسیہ ج2 اور الیاس عطار قادری نے کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب کے ص 245 اور نعیم اللہ خان قادری نے شرک کی حقیقت کے ص132 پر نقل کی ہے۔جس کا مطلب صاف یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کا علم اوروں سے تو زائد ہے مگر ابلیس کا علم آپ کے علم مبارک سے وسیع تو ہے مگر وسیع تر نہیں۔
2۔ مفتی احمد یار نعیمی نے معلم التقریر ص95 پر سیدنا آدم کو ابلیس کا شاگرد بنایا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ استاد کا علم طالب علم کم مان کر نہیں آتا زیادہ مانتا ہے تو پڑھنے آتا ہے۔
3۔ اور یہی مفتی صاحب نور العرفان ص 730 پیر بھائی کمپنی لاہور پر لکھتے ہیں: شیطان نے کہا میں پرانا صوفی عابد عالم فاضل اور آدم علیہ السلام نے نہ ابھی کچھ سیکھا نہ عبادت کی۔یعنی علم و عمل میں جناب آدم علیہ السلام سے شیطان زیادہ تھا۔
4۔ اب آپ بتائیں کہ بریلوی حضرات شیطان کے علم کو انبیاء سے زیادہ مانتے ہیں یا کم۔مگر بدنامی کے ڈر سے یہ جرم ہم پر دھر دیا۔وہ مثل مشہور ہے کسی علاقہ میں ناک کٹے کو حرامی کہتے ہیں۔ وہاں ایک ناک کٹا آ گیا اس کو جب یہ معلوم ہوا تو جو آدمی اس کے پاس آتا اس کو حرامی کہتا۔ حالانکہ وہ ناک والے ہوتے تھے صرف اس لیے کہ یہ مجھے نہ کہیں میں پہلے ہی کہہ کے ان منہ بند کر دوں۔
ہم آخر میں اپنا نقطہ نظر المہند علی المفند سے عرض کر دیتے ہیں۔ جو عرب و عجم کی مصدقہ ہے۔
”سوال: کیا تمہاری یہ رائے ہے کہ ملعون شیطان کا علم سید الکائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم سے زیادہ اور مطلقاً وسیع تر ہے اور کیا یہ مضمون تم نے اپنی کسی تصنیف میں لکھا ہے اور جس کا یہ عقیدہ ہو اس کا حکم کیا ہے ؟
جواب: اس مسئلہ کوہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام کا علم حکم و اسرار وغیرہ کے متعلق مطلقاً تمامی مخلوقات سے ز یادہ ہے اور ہمارا یقین ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ فلاں شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلم ہے وہ کافر ہے اور ہمارے حضرات اس شخص کے کافر ہونے کے فتویٰ دے چکے ہیں جو یوں کہے کہ شیطان ملعون کا علم نبی علیہ السلام سے زیادہ ہے پھر بھلا ہماری کسی تصنیف میں یہ مسئلہ کہاں پایا جا سکتا ہے ہاں کسی جزئی حادثہ حقیر کاحضرت کو اس لیے معلوم نہ ہوناکہ آپ نے اس کی جانب توجہ نہیں فرمائی آپ کے اعلم ہونے میں کسی قسم کا نقصان نہیں پیدا کر سکتا۔ جبکہ ثابت ہو چکا کہ آپ ان شریف علوم میں جو آپ کے منصب اعلیٰ کے مناسب ہیں۔ ساری مخلوق سے بڑھے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ شیطان کو بہتیرے حقیر حادثوں کی شدت التفات کے سبب اطلاع مل جانے سے مردود میں کوئی شرافت اور علمی کمال حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ ان پر فضل اور کمال کامدار نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ یوں کہنا کہ شیطان کا علم سیدنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ ہے ہرگز صحیح نہیں
جیسا کہ کسی اپنے بچے کو جسے کسی جزئی کی اطلاع ہو گئی ہے یوں کہنا صحیح نہیں کہ فلاں بچہ کاعلم اس متبحر و محقق مولوی سے زیادہ ہے جس کو جملہ علوم و فنون معلوم ہیں۔ مگر یہ جزئی معلوم نہیں اور ہم ہُدہُد کا سیدنا سلیمان علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والا قصہ بتا چکے ہیں اور یہ آیت پڑھ چکے ہیں۔ کہ مجھے وہ اطلاع ہے جو آپ کو نہیں اور کتب حدیث و تفسیر اس قسم کی مثالوں سے لبریز ہیں۔ نیز حکماء کا اس پر اتفاق ہے کہ افلاطون و جالینوس وغیرہ بڑے طبیب ہیں جن کو دواؤں کی کیفیت و حالات کا بہت زیادہ علم ہے حالانکہ یہ بھی معلوم ہے کہ نجاست کے کیڑے نجاست کی حالتوں اورمزے اور کیفیتوں سے زیادہ واقف ہیں تو افلاطون و جالینوس کا ان ردی حالت سے ناواقف ہونا ان کے اعلم ہونے کو مضر نہیں اور کوئی عقلمند بلکہ احمق بھی یہ کہنے پر راضی نہ ہو گاکہ کیڑوں کا علم افلاطون سے زیادہ ہے۔ حالانکہ ان کا نجاست کے احوال سے افلاطون کی بہ نسبت زیادہ واقف ہونا یقینی امر ہے اور ہمارے ملک کے مبتدعین سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تمام شریف و ادنیٰ و اعلیٰ و افضل علوم ثابت کرتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ساری مخلوق سے افضل ہیں۔ تو ضرور سب ہی کے علوم جزئی ہو ں کلی آپ کو معلوم ہوں گے اور ہم نے بغیر کسی معتبر نص کے اس فاسد قیاس کی بناء پر اس علم کلی و جزئی کے ثبوت کا انکار کیا ہے۔ ذرا غور توفرمائیے کہ ہر مسلمان کو شیطان پر فضل و شرف حاصل ہے۔ پس اس قیاس کی بناء پر لازم آئے گا کہ ہر اُمتی بھی شیطان کے ہتکھنڈوں سے آگاہ ہو اور لازم آئے گا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو خبر ہو اس واقعہ کی جسے ہدہد نے جانا اور افلاطون و جالینوس واقف ہوں کیڑوں کی تمام واقفیتوں سے اور سارے لازم باطل ہیں چنانچہ مشاہدہ ہو رہا ہے۔ یہ ہمارے قول کا خلاصہ ہے جو براہین قاطعہ میں بیان کیا گیا جس نے کند ذہن بددینوں کی رگیں کاٹ دیں اور دجال ومفتری گروہ کی گردنیں توڑ دی ہیں۔ سو اس میں ہماری بحث صرف بعض حادثات جزئی میں تھی اسی لیے اشارہ کا لفظ ہم نے لکھا تھا تاکہ دلالت کرے کہ نفی و اثبات سے مقصود صرف یہ ہی جزئیات ہیں لیکن مفسدین کلام میں تحریف کیاکرتے ہیں اور شاہنشاہی محاسبہ سے ڈرتے نہیں اور ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ جو شخص اس کا قائل ہو کہ فلاں کا علم نبی علیہ السلام سے زیادہ ہے۔ وہ کافر ہے چنانچہ اس کی تصریح ایک نہیں ہمارے بہترے علماء کر چکے ہیں اور جو شخص ہمارے بیان کے خلاف ہم پر بہتان باندھے اس کو لازم ہے کہ شاہنشاہ روز جزاء سے خائف بن کر دلیل بیان کرے اور اللہ ہمارے قول پر وکیل ہے۔“
(المہند علی المفند ص 57 تا 60)
مزید سنئے!بریلوی جید عالم دین مفتی خلیل احمد خان قادری برکاتی لکھتے ہیں:
رہی مولوی خلیل احمد صاحب سہارنپوری مرحوم کی عبارت براہین قاطعہ جس کو مختلف جگہ کے فقروں اور ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک کفری مضمون بنایا ہے یہ آپ کی (اعلیٰ حضرت) دستکاری کا ایک نمونہ ہے۔ کہیں کا فقرہ کہیں کاٹ کر لگا دیا اس کاسیاق و سباق غائب پھر اس میں بھی اپنی تصنیف شامل۔۔۔۔ آگے لکھتے ہیں :
مولوی نذیراحمد خان صاحب مدرس مدرسہ طیبہ احمد آباد گجرات نے اول رد براہین قاطعہ کا لکھا تھا جس کا نام بوارق لامعہ ہے جو 1309ء بمبئی مطبع دت پرشاد سے شائع ہوا اس میں براہین قاطعہ کی اس عبارت کا انہوں نے یہ مطلب کہیں نہ بتایا نہ اس پر حکم کفر بیان کیا۔
(انکشاف حق 132)
آگے لکھتے ہیں : کیا وہ ہندوستانی زبان اور اس کے محاورات کو نہ جانتے تھے یاوہ کفر و اسلام کو بھی نہ پہنچانتے تھے۔ ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک براہین قاطعہ کی عبارت کا یہ مطلب ہی نہیں تھا جو آپ نے بیان فرمایا ہے۔ ورنہ وہ اس پر ضرور رد بلیغ فرماتے اور اسے احکام کفربتاتے۔
(انکشاف حق ص133)
مولوی عبدالسمیع رامپوری کی سنیے ! رامپوری صاحب سے جب کہا گیا کہ براہین قاطعہ کاجواب لکھیں تو انہوں نے کئی عذرکیے اور یہ بھی عذر کیا کہ مؤلف براہین قاطعہ نے بہت سے مضامین ایسے لکھ دیئے ہیں جس سے اکثراہل اسلام متوحش اور نفوز ہو گئے اور آگے مختلف باتیں لکھیں مگر اس عبارت کا نام و نشان نہیں معلوم ہوتا ہے اس وقت کے اہل اسلام نے اس عبارت کو قابل گرفت نہ سمجھا۔
(دیکھیے انوار ساطعہ ص32)
آگے نظر ثانی کا عنوان قائم کر کے اس میں لکھتے ہیں: ہاں جو کوئی شبہ صاحب براہین قاطعہ کا واجب الدفع سمجھاجائے گا اب نظر ثانی (انوار ساطعہ) کی کر رہا ہوں خاص اپنی (انوار ساطعہ) میں اس شبہ کو لکھ کر حل کر دیا جائے گا۔
(انوار ساطعہ 34)
اگر یہ عبارت کفریہ ہوتی تو وہ ضرور اس کو بھی واجب الدفع سمجھتے مگر انہوں نے کئی مقامات پر جوابات دینے کے باوجود اس مقام پر عبارت کو رد بالکل نہیں کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہندوستان کے علماء نے بشمول رامپوری صاحب یہ عبارت قابل ردو تردید نہ سمجھی اس لیے اس کو نہ رد کیا۔ یہ صرف فاضل بریلوی صاحب کی مہربانی ہے اور عنایت ہے کہ انہوں نے تکفیر کر ڈالی۔ حسد و عناد و بعض و کینہ کی آگ میں جلتے ہوئے۔
الزام برحکیم الامت مجدد ملت الشاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
اسی گنگوہی کے دم چھلوں میں سے اشرف علی تھانوی کہتے ہیں۔ اس نے ایک چھوٹی سے رسلیا تصنیف کی کہ چار و رق کی بھی نہیں اور اس میں تصریح کی کہ غیب کی باتوں کا جیسا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایساتو ہر بچے اور ہر پاگل بلکہ ہر جانور اور ہر چارپائے کو حاصل ہے۔ اس کی ملعون عبارت یہ ہے کہ آپ کی ذات مقدمہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے۔ یا کل اگر بعض علوم غیبہ مراد ہیں تو اس میں حضور کی کیا تخصیص ہے ایسا علم غیب تو زید و عمر و بلکہ ہر صبیی و مجنوں بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لیے بھی حاصل ہے۔
(حسام الحرمین ص18)
الجواب:
اس میں گستاخی کیا ہے ہمارا یہ سوال بریلویوں سے ہے۔
وہ جواب میں لکھتے ہیں :
تھانوی صاحب نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے علم پاک کو ہر کس و ناکس زید و عمر و بکر بلکہ مجنون پاگلوں جانوروں کے علم سے تشبیہ دی یا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے علم پاک کو ان کے مساوی بتایا اور اس پر فریقین کااتفاق ہے کہ ان دونوں باتوں میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی توہین اور تحقیر ہے۔
(مسئلہ تکفیر اور امام احمد رضا ص34)
خلاصۃ الکلام یہ ہوا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گھٹیا تشبیہ دینا یا آپ کے علم کو گھٹیا چیزوں کے برابر کہنا توہین و گستاخی ہے۔اب ہم سے سنیئے! حضرت حکیم الامت کی عبارت میں نہ تو آپ علیہ السلام کے علم مبارک کو جانوروں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور نہ ہی ان کے برابر کیا گیا ہے۔
آئیے! بریلویوں کے جید عالم مفتی خلیل احمد خان قادری برکاتی کی سنیئے وہ اسی عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جناب ابھی تک آپ یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ اس عبارت میں آپ کے نزدیک تشبیہ ہے یعنی معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو ان مذکورہ اشیاء کے علم کے ساتھ تشبیہ ہے یا برابر ی (کیونکہ ابھی گزر چکا ہے کہ بریلوی کہتے ہیں یا تشبیہ ہے یا برابری )
فاضل بریلوی نے تو برابری کے معنی متعین کیے ہیں۔ چنانچہ اس کا ترجمہ عربی میں مثل کے ساتھ کیاہے۔
مگر جناب کو ان کے بیان کئے ہوئے معنی میں تردد ہے جب ہی تو یہ کہ رہے ہیں۔ کہ تشبیہ دی یا برابر کر دیا۔ نعوذباللہ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مولوی اشرف علی صاحب کی عبارت میں نہ تشبیہ ہے نہ برابری لفظ ایسا نہ تشبیہ کے لیے متعین ہے نہ برابری کے لیے یہ فاضل بریلوی کی خوبی فہم ہے کہ اپنی رائے سے مقرر کر کے اس پر احکام کفر لگا دیئے۔
سنیئے!اہل زبان ہندوستان کے یہاں لفظ ایسا ہر جگہ تشبیہ کے لیے ہی نہیں بولا جاتا ہے ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ زید نے ایسا گھوڑا خریدا ہے۔ جو اس کو پسند آیا یا زید نے ایسا کام کیا جس سے سب لوگ خوش ہو گئے۔ کہیے کہاں دونوں مثالوں میں لفظ ایسے کے معنی تشبیہ یا برابری کے لیے کب ہوئے پھر چند سطور کے بعد لکھتے ہیں:
اگر مولوی شریف الحق صاحب کے بقول تشبیہ ہے تو تشبیہ میں مشبہ و مشبہ بہ میں برابری کیا لازم ہے اہل فن کا مقررہ قاعدہ ہے کہ مشبہ بہ مشبہ سے اقوی ہوتا ہے۔ خلیفہ معتمد باللہ کی مدح میں جو اس مداح حسان مصیصی شاعر اندلس نے کہا تھا۔
کان ابوبکر ابو بکر الرضی
و حسان حسان و انت محمد
یعنی اے محمد وح تیراوزیر ابوبکر ابن زیدون ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مانند ہے اور تیرا مداح شاعر حسان مصیصی حسان بن ثابت مداح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانند ہے اور تو خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مانند ہے۔
اس پر بعض شارحین شفا نے کہا تھا کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر معتمد باللہ کو حسان شاعر نے کہ دیا ہے اس پر علامہ خفا جی نے شرح شفا میں اور علامہ علی قاری نے اپنی شرح شفا میں اعتراض فرمایا اور تشبیہ کی بناء پر دعویٰ برابری کو خلاف قاعدہ مقررہ اہل فن قرار دیا۔
علامہ خفا جی نے نسیم الریاض میں فرمایا کہ ان شارحین کے کلام کو نہ ذکر کرنا ہی بہتر ہے۔ علامہ علی قاری نے فرمایا یعنی اس شعر حسان مصیصی پر شارحین نے مصنف کی تبعیت میں طویل کلام کیا ہے لیکن کلام اشکال سے خالی نہیں اس لیے کہ تشبیہ سے مشبہ بہ کے ساتھ کمال میں برابری لازم نہیں آتی بلکہ قاعدہ مقرر ہے کہ مشبہ بہ اقوی ہوتا ہے۔ سارے حالات میں۔ الخ…………
اس میں تصریح ہے کہ تشبیہ میں برابری نہیں ہوتی اگر کسی اعلیٰ درجہ کی چیز کو کسی ادنیٰ درجہ کی چیز سے بغرض سمجھانے مخاطب کو تشبیہ دے دی جائے تو اس کو توہین و تنقیص نہیں کہا جا سکتا۔
صحیح بخاری شریف میں حدیث موجود تھی:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ آپ پر وحی کس طور سے آتی ہے۔ تو حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کبھی کبھی مجھ پر وحی مثل گھنٹہ کے آواز کے آتی ہے۔
غور کیجئے کہ اس حدیث شریف میں وحی الٰہی کے نزول کو گھنٹہ کی آواز کے مثل فرمایا یعنی گھنٹہ کی آواز سے تشبیہ دی ہے حالانکہ گھنٹہ کی آواز کو حدیث شریف میں شیطانی آواز فرما یا گیا ہے۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ:
جس قافلہ میں گھنٹہ ہوتا ہے اس قافلے میں رحمت کے فرشتے نازل نہیں ہوتے کیا معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے توہین وحی فرمائی؟
(انکشاف حق ص128تا 130)
پھر آگے لکھتے ہیں : جس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عالم کی پیدائش اور تمام عالم کی بقا کا سبب مان رکھا ہے اور تمام علوم عالیہ شریفہ لوازم نبوت کا جامع مان رہا ہے۔کیا معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم مبارک کی برابری زید عمر و مجانیں۔ و بہائم و حیوانات کے علم سے کرے گا۔
افسوس عقل و انصاف کو ترک کردینا اور اپنی انفرادی رائے کو تمام اہل علم کی رائے پر ترجیح دے دینا جبکہ مصنف خود اپنی عبارت کے لیے اس مضمون کا انکار صریح کر رہا ہے اور دوسرے اہل علم بھی اس خبیث مضمون کو اس عبارت کے لیے نہیں مانتے اس پر بھی وہی کہنا دین و دیانت کے خلاف نہیں تو اور کیا ہے۔
(انکشاف حق ص131)
قارئین ذی وقار! مفتی خلیل احمد صاحب قادری برکاتی نے صاف کہہ دیا ہے کہ اس عبارت میں حکیم الامت نے نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک علم کو چوپاؤں کے برابر کہا ہے اور نہ ہی تشبیہ دی ہے۔
اور ہم بھی یہی کہتے ہیں اور یہی بات حکیم الامت نے بھی ارشاد فرمائی کہ لفظ ایسا مطلق بیان کے لیے بھی آتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اللہ ایسا قادر ہے اب یہاں نہ تشبیہ ہے اور نہ برابری۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ گفتگو حکیم الامت رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم مبارکہ کے متعلق نہیں کر رہے بلکہ وہ تو لفظ عالم الغیب پر گفتگو کر رہے ہیں کہ اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کوعالم الغیب بعض علم کی وجہ سے کہا جاتا ہے تو پھر تو ہر ایک کو کہنا چاہیے کیونکہ ہر ایک کے پاس کچھ نہ کچھ معلومات ہوتی ہے جو کہ بعض علم کہلاتی ہے۔ آخری جملہ جو فاضل بریلوی نے اڑا دیا اس سے یہ بات مفہوم ہو رہی تھی وہ ٹکڑا یہ ہے کیونکہ ہر شخص کو کسی نہ کسی ایسی بات کا علم ہوتا ہے جو دوسرے شخص سے مخفی ہوتی ہے اگر ٹکڑا لکھ دیا جاتا تو ہر آدمی اس ٹکڑے کو دیکھ کر بات سمجھ لیتا ہے کہ لفظ ’’ایسا علم ‘‘سے نبی پاک علیہ السلام کے علم مبارک کی طرف اشارہ نہیں بلکہ اس آخری ٹکڑے والے علم کی طرف اشارہ ہے۔ مگر فاضل بریلوی تو فاضل تھے۔
اور دوسری خیانت فاضل نے یہ کی کہ ایک ٹکڑا اور عبارت کا آخر سے اُڑا دیا جو یہ تھا کہ تو چاہیے کہ سب کو عالم الغیب کہا جاوے تاکہ لوگوں کا دماغ اس طرف نہ جائے کہ بات اس پر ہو رہی ہے کہ آپ علیہ السلام کو عالم الغیب کہا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اب ٹکڑا اُڑانے سے لوگوں کو دھوکہ دیا کہ بات آپ علیہ السلام کے علم مبارک کی ہو رہی ہے۔ القصہ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے مشورہ دیا کہ بے دین لوگ آپ کی تحریر کی وجہ سے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں عبارت اگرچہ ٹھیک ہے مگر اس کو بدل دیا جائے تو کیا حرج ہے۔تو آپ نے اس مشورہ کو قبول کر کے عبارت کو بدل دیا، اب عبارت یوں ہے:
اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کیا تخصیص مطلق بعض علوم تو غیر انبیاء کو بھی حاصل ہیں تو چاہیے سب کو عالم الغیب کہا جاوے۔
(تغیر العنوان ص13)
مگر بریلویت وہیں کھڑی ہے۔اب بریلویت کے گھر میں چلتے ہیں۔ انہوں نے لفظ ایسا سے دو الزام لگائے۔
1۔ تھانو ی صاحب نے آپ کے علم مبارک کو جانوروں کے علم سے تشبیہ دی۔
2۔ ان کے برابر علم کہا اب ہم بھی بریلوی لوگوں کے گھر سے ایسے الفاظ لاتے ہیں اور پھر دنیا کے غیر جاندار اور سمجھ دار لوگوں کو دعوت فکر دیں گے کہ اگر ہمارے لیے یہ اصول ہے تو ا ن کے لیے کیوں نہیں۔
1۔ مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں :
کسی کو الو گدھا کہہ دو تو وہ رنجیدہ ہوجاتا ہے اور حضرت قبلہ و کعبہ کہہ دو تو خوش ہوتا ہے حالانکہ الو گدھا بھی مخلوق ہیں اور قبلہ و کعبہ بھی ایسے ہی خالق کے مختلف ناموں میں مختلف تاثیریں ہیں۔
(اسرار الاحکام ص52)
اب دیکھیے لفظ ”ایسے ہی “کووہ کہہ رہے ہیں جیسے کسی کو الو گدھا کہہ دیا جائے تو اثر پڑتا ہے ایسے ہی خدا کے ناموں سے دم وغیرہ کرنے میں بھی اثر ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے اثر میں خدا کے نام اور اُلو گدھا کے ناموں کو برابر نہیں کیا اور کیا ایسی گھٹیا چیز سے تشبیہ دے کر ان کا ایمان باقی رہا۔مگر بریلویت کو سا نپ سونگھ جائے جو اس عبارت کا جواب دینے کی کوشش کریں۔
2۔ یہی مفتی صاحب اور جگہ لکھتے ہیں :
انبیاء نے اپنے آپ کو ظالم ضال خطاوار وغیرہ فرمایا ہے اگر ہم یہ لفظ ان کی شان میں بولیں تو کافر ہو جائیں ایسے ہی حضور سے فرمایا گیا اپنے کو بشر کہو۔
(نور العرفان ص802، کتب خانہ نعیمی لاہور)
تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں مفتی احمد یار نعیمی نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کو ظلم اور گمراہی کے برابر کہا ہے یا اس سے تشبیہ دی ہے؟جو فتویٰ حکیم الامت حضرت تھانوی پر لگاتے ہو وہ مفتی احمد یار نعیمی پر بھی لگاؤ۔
3۔ یہی مفتی اور جگہ لکھتے ہیں:
جب لاٹھی سانپ کی شکل میں ہو گی تو کھائے گی پیئے گی مگر ہو گی لاٹھی یہ کھانا پینا اس کی اس شکل کااثر ہو گا ایسے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور ہیں جب بشری لباس میں آئے تو نوری بشر تھے۔یہ کھانا پینا نکاح وفات اسی بشریت کے احکام ہیں۔
(نور العرفان ص805 کتب خانہ نعیمی لاہور)
کیوں شریف الحق امجدی صاحب ! یہاں بھی لفظ ایسے آیا ہوا ہے تو کیا آپ کے اصول سے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کوسانپ سے تشبیہ نہیں دی جا رہی کیا یہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت مبارک کو سانپ کے برابر نہیں کہا جا رہا؟ یہاں آپ خاموش کیوں ہیں کیا وہ فتوے اور اصول ہمارے لیے ہی ہیں یا یہاں بھی کچھ توجہ فرمائیں گے۔
اور یہ بات گزر چکی ہے کہ حفظ الایمان کی عبارت پر سب سے پہلے مناظرہ مولوی احمد رضا اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے مابین ہوا۔ جس میں بڑی ذلت سے فاضل بریلوی کو دو چار ہونا پڑا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے انوار مظہریہ ص292
اس وقت حضرت مولانا منظور احمد نعمانی صاحب نے حامد رضا کے اعلان پر کہ اگر یہ ہمارے متعلق ہوتی تو ہم اس پر عدالت میں درخواست دائر کرتے اور ہتک عزت کا پرچہ ان پر کروایا جاتا۔یہی عبارت حامد رضا خان کے نام سے لے کر اپنے رسالے میں چھاپ دی مگر بریلویت کو سانپ سونگھ گیا۔ آج بھی کوئی بریلوی اپنی ضد پر اڑا رہے تو اس کے نام سے یہ عبارت لکھ سکتے ہیں۔
4- مولوی اشرف سیالوی لکھتے ہیں:
وہاں سب لوگوں نے اللہ رب العزت کے سوال الست بربکم کے جواب میں بلی کہا تھا لیکن یہاں کوئی شداد کوئی فرعون کوئی ہامان اور ابولہب بن گئے اس کی وجہ یہی ہے کہ عالم ارواح و عالم اجساد کا معاملہ مختلف ہے اسی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم عالم ارواح میں ملائکہ و انبیاء کے نبی تھے لیکن یہاں نہ کوئی ملک نہ نبی پھر آپ نبی کس کے تھے۔
(نبوت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ص62)
بریلوی حضرات سے ہمارا سوال یہ ہے کہ یہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تمثیل فرعون و ہامان سے نہیں دی جا رہی؟ اس عبارت پررتوخود بریلوی مسلک کے لوگ بھی کہہ اُٹھے:
آپ نے بڑی دیدہ دلیری سے اوربے باکی سے سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے عالم ارواح میں نبی ہونے اور بقول آپ کے عالم اجساد میں تقریباً 40 سال تک نبی نہ ہونے کا موازنہ حکم خداوندی کے مطابق جانوروں سے بھی بدتر کفار بلکہ کفار کے سرداروں کے کفر سے کر دیا۔
(نبوت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہر آن لحظہ ص 62، 63)
اس تشبیہ و برابری پر کیابریلوی علماء نے اس کو کافر کہا؟ اگر نہیں تو کیوں؟
5- فاضل بریلوی سے ایک سوال ہوا کہ ایک عالم نے اپنے وعظ میں کہا۔’’اے مسلمانوں آپ لوگوں کو سمجھانے کے لیے ایک مثال دیتا ہوں اس کے بعد آپ لوگ خیال کریں کہ قوت ایمانی میں کہا ں تک ضعف ہو گیا ہے۔ دیکھو کسی حاکم کا چپراسی سمن لے کر آتا ہے۔ تو اس کا کس کا قدر خوف ہوتا ہے۔ حالانکہ حاکم ایک بندہ مثل وشما سمن آدھے پیسے کا کاغذ جس میں معمولی مضمون ہوتا ہے۔ چپراسی 5،6 ر وپے کا ملازم ہوتا ہے۔ مگر حالت یہ ہوتی ہے کہ اس کے خوف کے مارے لوگ روپوش ہو جاتے ہیں لاچاری سے لینا ہی پڑتا ہے بعد ہ وکیل کی تلاش اور روپے کا صرف کرنا کذا وکذا اور اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین کہ وہم بھر میں تہہ و بالا کر سکتا ہے۔ اس کا حکم نامہ قرآن پاک و مقدس کہ جس کے ایک ایک حرف پر دس بیس تیس نیکی کا وعدہ ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے۔الخ………
الجواب: حاش للہ اس میں نہ تشبیہ ہے نہ تمثیل نہ اصلا معاذ اللہ توہین کی بو۔
(فتاویٰ رضویہ ج15، ص150)
اب دیکھیے مولوی واعظ صاحب کہہ بھی رہے ہیں کہ ایک مثال دیتا ہو اور اس میں اس نے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال چراسی سے دی ہے۔ مگر فاضل بریلوی نے چونکہ اپنا آدمی تھا اس لیے یہ کہہ دیا کہ کوئی تشبیہ و تمثیل نہیں حالانکہ وہ کہہ رہا ہے کہ میں مثال دیتا ہوں۔ اس آدمی نے تمثیل مانی بھی ہے مگر نہ اس مثال میں چپراسی سے آپ علیہ السلام کی برابری تسلیم کی جاتی ہے۔اور نہ تشبیہ۔
تو ہم بھی یہی کہتے ہیں ہماری مثال میں اس قسم کی گفتگو نہیں۔ اگر یہ گستاخی نہیں تو پھر ہماری کیوں ہے۔کیا اسی وجہ سے ہے کہ ہم نےدین خالص لوگوں کو سنایا جس سے تمہیں تکلیف ہوئی۔
اصل میں توہین اور گستاخی بریلویت میں بہت ہے مگر چور بھی کہے چور چور کا اصول اپناکر انہوں نے اپنی گستاخانہ عبارات اور توہین پر عشق و محبت کے مدعی ہونے کی چادر اوڑھ رکھی ہے اور علماء کرام اس فرقہ کی کتب کو جاہل و مجہول سمجھ کر پڑھتے نہیں اور جو بریلویت کو پڑھتا نہیں وہ ان کی گستاخیوں پر مطلع کیسے ہو گا۔
اس لیے علماء کرام سے گزارش ہے کہ ان کی کتب کو پڑھیں اور پھر فیصلہ فرمائیں کہ یہ لوگ گستاخ ہیں یا عاشق۔
ایک اور طرز سے :
بریلوی اس حفظ الایمان کی عبارت پر اعتراض کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے علم مبارک کو تشبیہ دی گئی ہےجانوروں کے علم کے ساتھ تو یہ بات برابری کو لازم کرنے والی ہے۔ یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے علم مبارک کو جانوروں کے علم سے تشبیہ دینے کی وجہ سے یہ لازم آتا ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کا علم مبارک جانوروں کے علم کے برابر ہے۔ تو جواباً عرض یہ ہے کہ ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی اور خلیل احمد رانا جیسے بریلوی اسکالر کا عقیدہ و نظریہ تو یہ ہے کہ :
مشابہت سے مساوات بھی لازم نہیں آتی چہ جائے کہ مشبّہ کی برتری کا قول کیا جائے۔
(افضیلت غوث اعظم دلائل و شواہد ص86)
تو معلوم ہو گیا کہ فاضل بریلوی نے بہت بڑی زیادتی کی ہے۔ جو کہ قابل معافی جرم نہیں اور یہی جرم اس کے ایمان کو کھا گیا کہ وہ خود اپنے فتویٰ کفرمیں بری طرح پھنس گیا جیساکہ آپ اجمالی نظر میں ملاحظہ فرما چکے ہیں۔
مفتی عبدالمجید خان سعیدی لکھتے ہیں :مثال محض تفہیم کے لیے ہوتی ہے مساوات کے لیے نہیں۔
(کنزالایمان پر اعتراضات کا آپریشن ص186)
مفتی حنیف قریشی کہتے ہیں :
تشبیہ اور استعارہ سے مشبہ و مشبہ بہ کی برابری سمجھنا پرلے درجے کی حماقت و جہالت ہے۔
(ص 539، روئیداد مناظرہ گستاخ کون)
مولوی ابوکلیم محمد صدیق فانی لکھتے ہیں:
مثال کے بیان سے مقصد کسی بات کو عام فہم انداز میں بیان کرنا مقصود ہوتا ہے یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ جس چیز کے لیے مثال دی جا رہی ہے۔ مثال اس کا عین ہے اور ہوبہواس پر صادق آتی ہے۔ محدث حافظ ابن قیم جوزی لکھتے ہیں :
انہ لا یلزم تشبیہ الشی ء بالشیء مساواتہ لہ
۔المنار المنیف ص60 طبع بیروت (یعنی کسی شے کو کسی سے تشبیہ دی جائے تو یہ لازم نہیں آتا کہ یہ شے اس کے برابر ہے)
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : تشبیہ اور استعارہ سے مشبہ اور مشبہ بہ سے برابری سمجھنا پرلے درجے کی حماقت (بے وقوفی ) ہے۔
(آئینہ اہلسنت ص 390)
مولوی اشرف سیالوی لکھتے ہیں :
مثال میں صرف وجہ تمثیل کا لحاظ ہوتا ہے جملہ امور میں اشتراک نہیں ہوتا۔
(حاشیہ مناظرہ جھنگ ص52)
بلکہ مولانا لکھنوی نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ کبھی تشبیہ ناقص کے ساتھ مجرد تفہیم کے واسطے ہوتی ہے۔
(مجموعہ فتاوی اردو ج1ص20)
ایک اور طرز سے بریلوی عالم کا اعتراض :
بریلوی علامہ سردار احمد فیصل آبادی لکھتے ہیں :
اس ناپاک عبارت میں حضور پرنور شافع یوم النشور کے علم شریف کو بچوں، پاگلوں، جانوروں چارپاؤں کے علم سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس میں حضور علیہ اصلوٰۃ والسلام کی شان اقدس میں صریح توہین اور کھلی گستاخی ہے۔
(دیوبندی سے لاجواب سوالات ص 183،184)
یعنی گھٹیا اشیاء کے ساتھ تشبیہ دینا گستاخی و توہین و کفر ہے۔جیسا کہ جید بریلوی عالم اور بریلویوں کے حکیم الامت مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں :
آپ کی شان میں ہلکی مثالیں دینا کفر ہے۔
(ملخصاًنور العرفان ص 345)
اب آئیے دوسری طرف:
ہم پہلے بھی چند مثالیں لکھ آئے ہیں کچھ اور بھی عرض کر دیتے ہیں : بریلویت ملت کے قائد مولوی اشرف سیالوی نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی مثال کافروں سے دیتے ہیں اور ان کی اس بات پر بریلوی علماء بھی بہت نالاں ہوتے ہیں۔
مثلاً مفتی عبدالمجید خان سعیدی لکھتے ہیں :
مصنف تحقیقات نے جو حدیث لا یقاس بنا احدسے انحراف کرتے ہوئے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نبوت والا معاملہ کافروں، مشرکوں اور منافقوں سے ملا کر جس سوئے ادبی کا ارتکاب کیا ہے وہ اس پر مستزاد ہے حالانکہ نبوت جب سلب سے پاک ہے اور سلب نبوت محال ہے تو اسے غیر نبی اور وہ کافر، مشرک اور منافق کے کفر و شرک اور نفاق سے ملا دینا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ سلب نبوت کے قائل نہ ہوتے تو یہ بات کبھی منہ سے نہ نکالتے اور گندی تشبیہ سے پرہیز کرتے۔
(سندیلوی کا چیلنج منظور ہے ص 34)
مولوی اشرف سیالوی لکھتے ہیں :
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس بشری نسبتاً کثیف تھا اس لیے اس کثافت کو باربار کے شق صدر اور چلہ کشی وغیرہ کے ذریعے جب لطیف کر دیا گیا تب آپ کو یہ منصب سونپا گیا اس حقیقت کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ دوپہر کے سورج کے آگے سیاہی مائل اور دبیز تہہ والا بادل۔
(ملخصاً تحقیقات ص204)
اس پر تبصرہ کر کے سعیدی صاحب لکھتے ہیں :
مصنف تحقیقات نے حضور کے چالیس سال کی عمر شریف تک بالقوہ بمعنی صلاحیت و استعداد نبی ہونے سے بھی صاف انکار کیا ہے اور آپ کی بشریت مقدسہ و مطہرہ منورہ از کی و اطیب کو کثیف قرار دے کر اسے موٹی تہہ والے سیاہ بادل سے تشبیہ دی ہے جو سخت سوء ادبی ہے۔
(سندیلوی کا چیلنج منظور ہے۔ 47)
مفتی احمد یار نعیمی کو بھی دیکھیے اورا س کی دلیری کو بھی مدنظر رکھیے کہ ام البشر سیدہ حواء علیہا السلام کے متعلق کیا تشبیہ دیتا ہے، کہتا ہے:
حضرت حوا کو حضرت آدم کے جسم سے بغیر نطفہ بنایا دیکھو انسان کے جسم سے بہت سے کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں مگر وہ اس کی اولاد نہیں کہلاتے۔
(نور العرفان ص 93، النساء آیت نمبر 1)
ایک جگہ یوں لکھتے ہیں:
ظاہری صورت کی یکسانیت دیکھ کر اولیاء انبیاء کو اپنا مثل نہ سمجھو نیم اور بکائن کا درخت یکساں معلوم ہوتا ہے مگر پھلوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
(نور العرفان ص 169، سورۃ الانعام آیت نمبر 99)
یہاں انبیاء و اولیاء کو تشبیہ بکائن جیسے کڑوے درخت سے دی ہے۔
ایک جگہ یوں لکھتے ہیں :
بھڑ اور شہد کی مکی ایک ہی پھول چوستی ہیں مگر یہ پھول کا رس بھڑ کے پیٹ میں پہنچ کر زہر اور شہد کی مکھی کے پیٹ میں پہنچ کر شہد بنتا ہے ایسے ہی ہمارا کھانا غفلت کا باعث ہے اور انبیاء کی خوراک نورانیت کے ازدیاد کا ذریعہ ہے۔
(نورالعرفان ص 414، سورۃ المومنون آیت نمبر 32)
لفظ ”ایسےہی“ بھی موجود ہے جو بریلوی اصول میں برابری اور تشبیہ دونوں کے لیے آتاہے اور جن بریلویوں کے نزدیک صرف تشبیہ کے لیے آتا ہے وہ بھی دیکھیں کہ انبیاء کرام کو شہد کی مکھی سے تشبیہ دی گئی ہے جوکہ بریلوی اصول سے گستاخی بنتی ہے۔آگے چلئے:
مفتی صاحب لکھتےہیں :سانپ اور بھینس اگرچہ اللہ کی مخلوق ہے اس کی روزی کھاتے پیتے ہیں۔ مگر سانپ کے پاس زہر ہے اور بھینس کے پاس دودھ۔ اس لیے آپ سانپ کو مارتے ہیں اور بھینس کی خدمت کرتے ہیں۔ ایسے ہی کفار کے پاس کفرکا زہر ہے اور حضرات انبیاء، اولیاء، علماء کے پاس ایمان کا دودھ۔
(تفسیر نعیمی ج3، ص 364، سورۃ آل عمران آیت نمبر 33)
مفتی صاحب کا ایک اور ظلم ملاحظہ فرمائیں : جیسے ایک ہی رحم سے مختلف اولاد پیدا ہوتی ہے ایسے ہی ایک ہی تعلیم سے مریدین کے مختلف حالات ہوتے ہیں نگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی تھی۔ مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے درجات مختلف۔
(تفسیر نعیمی ج 3، ص243، سورۃ آل عمران آیت نمبر6)
ایک جگہ یوں لکھتے ہیں: سچے مرید کا قلب گویا رحم ہے اور شیخ کامل کی نگاہ گویا نطفہ۔
اتنی حقیر چیزوں سے نبی پاک اور انبیاء علیہم السلام کو تشبیہ دینے والا کیا بریلوی اُصول کی رو سے گستاخ نہیں۔
میں بریلوی مناظرین سے پوچھوں گا کہ سیالوی کی تشبیہات کا گھٹیا ہونا تم بھی مانتے ہو کیا اسے کافر و گستاخ اپنے سردار احمد کے فتوے سے کہتے ہو یا نہیں۔
اور اگر اس اصول سے حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کو معافی نہیں تو مفتی احمد یار نعیمی کو معافی کیوں جو انبیاء کو تشبیہ کبھی بھینس سے اور کبھی کسی سے دیتا ہے۔ اسے معافی کیوں ہے۔ بریلوی اکابرین نے اس کے خلاف کتنی کتابیں لکھی ہیں ؟ آخر کیوں معافی دی۔ بریلوی حضرات شیر مادر سمجھ کر اور گیارہویں کا ٹھنڈا میٹھا دودھ سمجھ کر ان سوالات کو ہضم تو کر سکتے ہیں جواب نہیں دے سکتے۔ اب اصل عبارت کو دیکھیں:
”آپ کی ذاتِ مقدسہ پر عالم الغیب کا اطلاق کیا جانا اگر بقولِ زید صحیح ہو تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل؟ اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور کی کیا تخصیص ہے؟ ایسا علمِ غیب تو زید عمرو بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لیے بھی حاصل ہے تو چاہیے کہ سب کو عالم الغیب کہا جائے کیونکہ ہر شخص کو کسی نہ کسی ایسی بات کا علم ہوتا ہے جو دوسرے شخص سے مخفی ہوتی ہے۔“
عبارت میں ”ایسا علم“ سے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے علم مبارک کی طرف اشارہ نہیں بلکہ مطلق بعض علم کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ عبارت کے آخری ٹکڑا سے معلوم ہو رہا ہے یعنی اگر بعض علم کی وجہ سے عالم الغیب کہتے ہو تو پھر ہر ایک کو بعض علم تو ہے یعنی کچھ نہ کچھ تو پتہ ہے، لہٰذا ان کو بھی عالم الغیب کہو۔ تو حضرت تھانوی نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ سرکار والا علم مبارک سب کو ہے
 
Top