ہرمحدث فقیہہ نہیں ہوتا!

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
کفایت اللہ صاحب نے اردومجلس پر ایک موضوع شروع کیاہے جس کا عنوان ہے۔

حدیث کا سب سے بڑا جانکا رہی سب سے بڑا فقیہ ہوتاہے۔
چونکہ یہ موضوع یہاں شروح وفوائد حدیث میں چل رہاتھا۔ اس کے بجائے کفایت اللہ صاحب نے دوسرے فورم پر لکھنابہتر سمجھایہ ان کی مرضی ہے۔ میں وہاں پر نہیں ہوں لہذا میں نے بہتر سمجھاکہ اس کا جواب ایک مستقل موضوع کے تحت محدث فورم پر دے دیاجائے۔ کفایت اللہ صاحب کا مضمون جاری ہے اگراس میں کوئی قوی اعتراض ہوتواتواس کاجواب دیاجائے گاورنہ ہم اس موضوع پر صرف اپنے دلائل پیش کرتے چلے جائیں گے۔
کفایت اللہ صاحب کے فورم پر موجود دستخط میں ایک شعر ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ
محبت ہے توعیب بھی ہنر بن جاتی ہے اورنفرت ہے توہنربھی عیب دکھائی پڑتاہے۔

اورکمال یہ ہے کہ وہ اس پر پورے طورپرعمل بھی کرتے ہیں۔ قارئین ان اسی بحث کے پچھلے حصہ میں کچھ نمونے ملاحظہ کرچکے ہیں۔ جہاں محض کسی صحابی کوغیرفقیہہ کہنے پر انہوں نے دشمن اسلام اورروایات کے خلاف خفیہ سازش تک کہہ دیاتھا۔

کیافقہ اورحدیث میں تلازم ہے دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیں؟یہ ایسے سوالات ہیں جودورحاضر میں اٹھ رہے ہیں۔ دورحاضر میں سب سے پہلے میرے محدود علم کے مطابق یہ بات علامہ البانی نے کہی تھی کہ جومحدث ہے وہ فقیہہ بھی ہے۔ اس کے بعد سے اس کی حمایت اورمخالفت میں لوگ لکھتے آرہے ہیں۔
ہم کفایت اللہ صاحب کی تحریر کافردافرداجواب نہ دے کر بہترسمجھتے ہیں کہ اس بحث کی چند بنیادی باتیں ذکر کردی جائیں۔

قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ نےکاارشاد ہے
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ } [التوبة: 122]

اس آیت سے کفایت اللہ صاحب نے نرالااستدلال کیاہے ۔ ان کاخیال ہے کہ صرف حدیث کے حصول کیلئے ہی انسان باہر کا سفر کرسکتاہے۔ حلال وحرام کاعلم اس سے مستغنی ہے وہ گھر بیٹھے حاصل ہوجاتاہے۔ اس نرالے استدلال پر ہم کچھ زیادہ توکہہ نہیں سکتے۔ اتناعرض کرتے چلیں۔ انسان فقیہہ بھی گھربیٹھے نہیں بن جاتا ۔ بلکہ اس کیلئے اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنی پڑتی ہیں۔ یہ اوربات ہے کہ کسی کو اپنے شہر میں یہ دولت مل جائے اورکسی کو دردر کی خاک چھاننی پڑے۔

یہ ضروری نہیں ہے کہ حدیث کیلئے دردر کی خاک چھاننی ہی پڑے۔ دیکھئے امام مالک مدینہ سے باہر نہیں گئے لیکن ان کو عظیم الشان محدث شمار کیاجاتاہے۔ تو فقہ اورحدیث دونوں میں یہ خصوصیت موجود ہے کہ کبھی یہ اپنے شہر میں ہی فراوانی سے دستیاب ہوتی ہے اورکبھی دردر کی خاک چھاننی پڑتی ہے۔

فقیہ اورمحدث کے درمیان فرق کیاہے۔ محدث ایک حدیث کی روایت کرتاہے ۔ بسااوقات اس کی نظر صرف اس کے ظاہری پہلو کی جانب جاتی ہے جب کہ فقیہہ اس کے دوسرے پوشیدہ پہلوؤں پر بھی نگاہ رکھتاہے اوراس سے مسائل کااستنباط کرتاہے۔ بسااوقات ایسابھی ہوتاہے کہ ایک فقییہ ایک حدیث سے سینکڑوں مسائل کا استنباط کرتاہے ۔ جب کہ محدث کی نگاہ صرف اس کے ظاہری پہلوؤں پر ہوتی ہے۔

اگراسکو اقبال کے الفاظ میں کہیں تو


دوصددانادریں محفل سخت گفت
سخن نازک ترازبرگ سمن گفت
ولے بامن بگو آں دیدہ ورکیست
کہ خارے دید واحوال چمن گفت​

دوسو عقلمندوں نے محفل میں اپنے خیالات ظاہر کئے۔ ان کی باتوں میں پھول کی پتیوں سے زیادہ نزاکت تھی لیکن مجھے یہ توبتاؤکہ اس میں کوئی ایسابھی تھا جس کی دوربینی پیش بینی اورپیش گوئی اس درجے کی ہو کہ کانٹوں کودیکھ کر چمن کے احوال بیان کردے۔

ہم بھی یہی کہناچاہتے ہیں کہ فقیہہ وہی ہوتاہے جو حدیث کے ظاہری معنی کوہی نہیں بلکہ باطنی اورپوشیدہ معانی کو اپنے قوت اجتہاد واستنباط سے باہرلاتاہے۔ اس کے مخفی گوشوں کی نقاب کشائی کرتاہے۔ اس کے پیچیدہ اورزولیدہ گیسوؤں کو سلجھاتا ہے۔

حدیث کے حصول سے فقہ نہیں آتی اس پر کئی جہتوں سے کلام کیاجاسکتاہے۔ اس کی دلیل

1: اولا قرآن پاک کا مقام ومرتبہ حدیث سے زیادہ ہے۔ اس کے الفاظ محفوظ ہیں۔ اس کے عجائبات کبھی ختم ہونے والے نہیں۔ اس کے فقروں اورجملوں میں معنی کی ایک دنیا آباد ہے۔ اس کے باوجود کسی نے یہ نہیں کہاکہ قرآن کاحافظ ہونے سے انسان فقیہہ ہوجاتاہے۔ یااس کے اشارات ،مقاصد،مراد اوردیگر اشیاء سے واقف ہوجاتاہے اورقرآن میں جوفقہیات مذکور ہیں۔ وہ ان سے آشناہوجاتاہے۔ پھرحدیث کے بارے میں یہ دعویٰ کیسے کیاجاسکتاہے کہ اس کی واقفیت سے فقاہت خود بخود آجائے گی۔

2: احادیث پاک میں بھی کئی ایسی حدیثیں ہیں جس سے پتہ چلتاہے کہ محدث کا وظیفہ الگ ہے اورفقیہہ کا وظیفہ الگ ہے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں فقییہ اورمحدث کی الگ الگ تعریف کی ہے۔
اگرمحدثین کی فضیلت میں نضراللہ امراسمع مقالتی فرمایاتوفقہاء کی تعریف میں ارشاد فرمایا کہ من یرد اللہ بہ خیرایفقہ فی الدین (بخاری)

یہ تقسیم ہی بتارہی ہے کہ دونوں کا وظیفہ ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ورنہ الگ الگ دونوں کی تعریف کی ذکر کی ضرورت نہ ہوتی جیساکہ کفایت اللہ صاحب کا ماننا ہے کہ حدیث کے علم کے ساتھ ہی ضمنی طورپر فقاہت حاصل ہوجاتی ہے۔

اس استدلال پر جتناغورکریں گے اتناہی آپ پر واضح ہوتاجائے گاکہ فقیہہ کاوظیفہ محدث کے وظیفہ سے الگ ہے۔ دونوں کا منصب الگ ہے۔

اگر حدیث کی تحصیل کالازمی نتیہ فقاہت کا حصول ہوتاتو پھر خطیب بغدادی کو النصیحۃ لاہل الحدیث لکھنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اورنہ ہی شرف اصحاب الحدیث کے بعد الفقیہہ والمتفقہ لکھنے کی ضرورت پڑتی۔

جاری ہے
 

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
ہم کچھ احادیث پیش کریں گے جس سے یہ حقیقت مزید نمایاں ہوجائے گی کہ حدیث دانی ،احادیث کا علم اوراس سے واقفیت فقاہت کیلئے لازمی نہیں ہے۔ اس کے بعد ہم کچھ بزرگوں کے اقوال اورواقعات بھی پیش کریں گے جس سے ہرایک پرعیاں ہوجائے گاکہ محدث اورفقیہہ میں تطابق اورتلازم کا دعویٰ کا درست نہیں ہے۔
3:اس باب میں سب سے زیادہ معتبر اورقول فیصل رسول پاک کا ارشاد ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی صراحت اوروضاحت سے بتادیاہے کہ صرف حدیث دانی فقاہت کیلئے کافی نہیں ہے۔
نضر الله امرأ سمع منا حديثا فحفظه حتى يبلغه غيره ، فرب حامل فقه إلى من هو أفقه منه ، ورب حامل فقه ليس بفقيه

(جامع الترمذی رقم 2656،اس کے علاوہ یہ حدیث امام ابوداؤد نے سنن ابی داؤد میں رقم 3660،ابن عبدالبر نے التمہید: 21/276میں نقل کیاہے)

اس حدیث کی شرح میں شراحان حدیث کے کلام نقل کئے جاسکتے ہیں لیکن تطویل کے خوف سے ہم دردگزرکرتے ہین اورصرف اسکے ترجمہ پر اکتفاء کرتے ہیں تاکہ عربی سے ناواقفوں کوبھی واقفیت ہوجائے۔

اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری بات سنی پھر وہ بات دوسروں کو سنائی ،کیونکہ بہت سے حاملین فقہ اس کو ان تک پہنچائیں گے جوان سے زیادہ فقییہ ہیں اوربہت سے حاملین فقہ فقیہہ نہیں ہیں۔

آخری جملہ نبی پاک صلی اللہ کا اپنے مدعا اورمدلول پر کس درجہ صریح اورواضح ہے رب حامل فقہ لیس بفقیہہ ۔ فقہ کے سرچشمہ اورمصدر میں سے دوسرے نمبر یعنی حدیث کے واقف کار،جانکاراورحافظ ہیں لہذا حامل فقہ ہیں لیکن بذات خود ان احادیث سے مسائل کے استنباط کی صلاحیت اورسلیقہ نہیں ہے لہذا وہ فقیہہ نہیں ہیں۔ اس صریح اورواضح ارشاد نبوی کے بعد یہ دعویٰ کرنا کہ ہرفقیہ محدیث ہوتاہے یاجوحدیث کاجتنا بڑاجانکار وہ اتنابڑافقیہہ کیاحدیث نبوی کی مخالفت نہیں ہے؟۔ تعجب ہے جولوگ چند محدثین کرام کے نقول اوربیانات کی بنیاد پر امام ابوحنیفہ پر مخالفت حدیث کاراگ الاپتے ہیں وہ خود محدثین کرام کی حمایت میں اس حدتک بڑھ جاتے ہیں جہاں صریح حدیث کامدلول اورمقتضاء بھی ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتاہے۔

اگرچہ یہ حدیث فی نفسہ حدیث دانی کوفقاہت کاپیمانہ بنانے کے دعوےٰ کی دھجیاں اڑانے کیلئے کافی ووافی ہے۔ اس کے باوجود ہم رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد پیش کرتے ہیں۔

إن مثل ما بعثني الله عز و جل به من الهدى والعلم كمثل غيث أصاب الأرض فكانت منه طائفة قبلت فأنبتت الكلأ والعسب الكثير وكانت منها أجادب أمسكت الماء فنفع الله عز و جل بها ناسا فشربوا فرعوا وسقوا وزرعوا واسقوا وأصابت طائفة منها أخرى إنما هي قيعان لا تمسك ماء ولا تنبت كلأ فذلك مثل من فقه في دين الله عز و جل ونفعه الله عز و جل بما بعثني به ونفع به فعلم وعلم ومثل من لم يرفع بذلك رأسا ولم يقبل هدى الله عز و جل الذي أرسلت به".(بخاری1/18،مسلم2/247،مشکوٰۃ1/28)

اللہ تعالیٰ نے مجھے جوہدایت اورعلم دے کر مبعوث کیاہے اس کی مثال ایس ہے جیسے زور کی بارش ہوئی ۔زمین کے ایک بہترین اورقابل زراعت ٹکرے نے پانی جذب کیااوراسی کے ساتھ ساگ پات اورگھاس وچارہ کثرت سے اگایا اورزمین کاایک حصہ وہ ہے جو سخت ہے۔ اس سے کوئی چیز اگتی تونہیں لیکن اس حصہ میں پانی خوب جمع ہوگیا اوراس جمع شدہ پانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کونفع بخشاکہ وہ خود بھی پیتے یہں اورجانوروں کوبھی پلاتے ہیں اورکھیتی کو سیراب کرتے ہیں اورزمین کاایک اورقطعہ وہ ہے جو بالکل چٹیل ہے ۔نہ تو وہ پانی کو روک سکتاہے اورنہ گھاس وسبزہ وغیرہ اگانے کی صلاحیت اس میں موجود ہے۔

پھرآپ صلی اللہ نے اس کی تمثیل بھی بیان کی کہ

یہ مثال ہے اس شخص کی جس نے اللہ تعالیٰ کے دین میں فقاہت حاصل کی اوراللہ تعالیٰ نے اس چیز سے نفع عطاکیا ۔جوچیز اللہ نے مجھے دے کر مبعوث کیاہے جس کواس نے سیکھااورسکھایا اورمثال ہے اس کی جس نے ہدایت خداوندی کی طرف جس کو میں لے کر آیاہوں مطلقاسرہی نہ اٹھایا۔

حدیث میں درمیان کے ان افراد کی تمثیل چھوٹ گئی ہے جس نے پانی کو روکا لیکن اس کو نفع بخش نہیں بنایا ۔یاتوراوی سے سہواہویاپھرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی بیان نہ کیاہو کہ اس کی تمثیل لوگ خود سمجھ جائیں گے۔

اس حدیث کی تشریح تقریباتمام علماء نے اسی سے کی ہے کہ پہلی قسم جس نے پانی کوبھی جذب کیا اور اس سے پھل پھول غلے پودے اگائے وہ فقہاء کرام ہیں۔ اوردوسری قسم جس نے صرف پانی کو روکا اورجذب کیااوراس کے ذریعہ دوسروں نے فائدہ اٹھایا وہ محدثین کرام ہیں۔ اورتیسرے قسم پانچویں سوار ہیں ۔

اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن قیم الوابل میں لکھتے ہیں۔

"الطبقة الثانية :فإنها حفظت النصوص وكان همها حفظها وضبطها فوردها الناس وتلقوها منهم فاستنبطوا منها واستخرجوا كنوزها واتجروا فيها وبذروها في أرض قابلة للزرع والنبات ووردها كل بحسبه "قد علم كل أناس مشربهم" وهؤلاء هم الذين قال فيهم النبي صلى الله عليه و سلم "نضر الله امرءا سمع مقالتي فوعاها ثم أداها كما سمعها فرب حامل فقه غير فقيه ورب حامل فقه إلى من هو أفقه منه"
وهذا عبد الله بن عباس حبر الأمة وترجمان القرآن مقدار ما سمع من النبي صلى الله عليه و سلم لم يبلغ نحو العشرين حديثا الذي يقول فيه سمعت ورأيت وسمع الكثير من الصحابة وبورك في فهمه والاستباط منه حتى ملأ الدنيا علما وفقها قال أبو محمد بن حزم : وجمعت فتاويه في سبعة أسفار كبار وهي بحسب ما بلغ جامعها وإلا فعلم أبن عباس كالبحر وفقه واستنباطه وفهمه في القرآن بالموضع الذي فاق به الناس وقد سمع كما سمعوا وحفظ القرآن كما حفظوا ولكن أرضه كانت من أطيب الأراضي وأقبلها للزرع فبذر فيها النصوص فأنبتت من كل زوج كريم "ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم"
وأين تقع فتاوى أبن عباس وتفسيره واستنباطه من فتاوى أبي هريرة وتفسيره ؟ وأبو هريرة أحفظ منه بل هو حافظ الأمة على الإطلاق يؤدي الحديث كما سمعه ويدرسه بالليل درسا فكانت همته مصروفة إلى الحفظ وبلغ ما حفظه كما سمعه وهمة ابن عباس مصروفة إلى التفقه والاستنباط وتفجير النصوص وشق الأنهار منها واستخراج كنوزها
وهكذا الناس بعده قسمان :
(قسم حفاظ ) معتنون بالضبط والحفظ والأداء كما سمعوا ولا يستنبطون ولا يستخرجون كنوز ما حفظوه وقسم معتنون بالاستنباط واستخراج الأحكام من النصوص والتفقه فيها فالأول كأبي زرعة وأبي حاتم وابن دارة وقبلهم كبندار ومحمد بن بشار وعمرو الناقد وعبد الرزاق وقبلهم كمحمد بن جعفر غندر وسعيد بن أبي عروية وغيرهم من أهل الحفظ والاتقان والضبط لما سمعوه من غير استنباط وتصرف وأستخراج الأحكام من ألفاظ النصوص
(والقسم الثاني ) كمالك والشافعي والاوزاعي وإسحق والإمام أحمد بن حنبل والبخاري وأبي داود ومحمد بن نصر المروزي ـ وأمثالهم ممن جمع الاستنباط والفقه إلى الرواية ـ فهاتان الطائفتان هما أسعد الخلق بما بعث الله تعالى به رسوله صلى الله عليه و سلم وهم الذين قبلوه ورفعوا به رأسا....".


حافظ ابن قیم کے ارشاد کا خلاصہ یہ ہے کہ امت میں دوطبقے ہیں ایک حفاظ حدیث کا جنہوں نے حدیث کے الفاظ کو یاد کرنے کا اہتمام کیااس کی روایت کی اوراس کو محفوظ اورمنتقل کرنے کی کوشش کی شکر اللہ سعیھم ۔دوسراطبقہ وہ ہے جس نے احادیث کابھی اہتمام کیا اوراس کے بعد اس سے مسائل کا استنباط کیا اورلوگوں کے شرعی مسائل میں ان کی رہنمائی کی۔

حافظ ابن قیم نے دونوں طبقوں کی واضح طورپر تقسیم کی ہے۔حافظ ابن قیم کا کہناہے کہ صحابہ کرام میں بھی یہ دوطبقے موجود تھے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس نے اگرچہ آنحضرت سے روایتیں کیں لیکن ان کے اندر کی قوت استنباط اورفقہی ملکہ نے ان کو صحابہ کے دور میں ہی فقیہ بنادیا۔اورحضرت ابوہریرہ اگرچہ حفظ میں ان سے بہت آگے ہیں۔ لیکن ایک توان سے اتنے فتاوی اورشرعی مسائل کے جوابات منقول نہیں ان کی توجہ صرف حفظ حدیث ،الفاظ کی صحیح ادائیگی اوراسے کماحقہ دوسروں تک منتقل کرنے کی جانب متوجہ تھی۔

اس کے بعد حافظ ابن قیم نے حفاظ حدیث میں چند نام گنائے ہیں۔

ابو زرعة ،أبو حاتم ،ابن دارة ،بندار ،محمد بن بشار ،عمرو الناقد ،عبد الرزاق ،محمد بن جعفر غندر ،سعيد بن أبي عروية اوردوسرے یہ حضرات اگرچہ حفظ حدیث میں امام تصور کئے جاتے ہیں اس کے باوجود ان کے بارے میں ابن قیم کاکہناہے

أهل الحفظ والاتقان والضبط لما سمعوه من غير استنباط وتصرف وأستخراج الأحكام من ألفاظ النصوص
کہ احادیث کے حافظ ہیں۔الفاظ کی ادائیگی میں متقن اورپختگی کے حامل ہیں ۔لیکن اس کے باوجود استنباط مسائل ،حدیث میں پوشیدہ معانی کے درک کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

دوسراطبقہ وہ ہے جوکہ احادیث سے مسائل کے استنباط واستخراج کاملکہ رکھتاہے۔فرمان رسول میں مضمر معنی کو ڈھونڈنے کی صلاحیت اورلیاقت رکھتاہے۔وہ گوشے جومخفی ہیں ان کواپنی باریک بینی سے دیکھ سکتاہے اور حدیث میں جوعلت پنہاں ہیں اس کی تخریج کرکے اس پر دوسرے مسائل منطبق کرسکتاہے۔
اس میں حافظ ابن قیم نے نام گنائے ہیں۔

مالك ،الشافعي والاوزاعي وإسحق والإمام أحمد بن حنبل والبخاري وأبي داود ومحمد بن نصر المروزي ـ وأمثالهم ممن جمع الاستنباط والفقه إلى الرواية

جیسے امام مالک ،شافعی، اوزاعی،اسحق،احمد بن حنبل،بخاری ابوداؤد،محمد بن نصرالمروزی اوراس کے جیسے دوسرے لوگ جنہوں نے فقہ اوراستنباط روایت دونوں کو جمع کیا۔

ان دواحادیث اورا سکے واضح مفہوم کے بعد اس میں شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ صرف حدیث دانی سے کوئی انسان فقیہہ نہیں بن جاتا۔فقاہت کا پیمانہ حدیث کی واقفیت اورجانکاری نہیں ہے فقیہہ بننے کے لئے اس کے علاوہ اوربہت سارے علوم کی ضرورت پڑتی ہے۔



اس کے علاوہ بزرگوں کے واقعات ارشادات بھی اس موقع پر ذکر کئے جانے کے قابل ہے۔ اس سلسلے میں اجلہ علماء،فقہاء محدثین کے تمام ارشادات تونقل نہیں کئے جاسکتے ۔کچھ ارشادات بطور نمونہ نقل کئے جارہے ہیں ج سسے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگاکہ وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ فقہ کامیدان دوسراہے اورحدیث کا میدان دوسرا۔ محدثین کاوظیفہ الگ ہے اورفقہاء کا منصب الگ ہے۔

امام اعمش مشہور محدث ہیں۔انہوں نے امام ابوحنیفہ سے مسائل پوچھے۔ امام ابوحنیفہ نے ان کاجواب دیا۔ امام اعمش نے پوچھاکہ یہ مسائل تم نے کہاں سے اخذ کئے ۔انہوں نے بتایاکہ ہم نے یہ مسائل آپ کی بیان کردہ فلاں فلاں روایتوں سے اخذ اورمستنبط کیاہے۔ اس پر امام اعمش نے فرمایا اے گروہ فقہاء تم ڈاکٹر طبیب اورحکیم اورہم پنساری، اورکیمسٹ ہیں۔

امام اعمش کے الفاظ ہیں۔

یامعشرالفقہاء انتم الاطباء ونحن الصیادلۃ
اورپوری روایت ہے

اخبرنا حسن بن علی الجوہری، انامحمد بن عباس الخزاز،نا ابوبکر عبداللہ بن محمد بن زیاد النیشاپوری ،قال سمعت اباابراہیم المزنی،قال: اناعلی بن معبد،ناعبیداللہ بن عمرو،قال:کناعندالاعمش وھویسال اباحنیفۃ عن مسائل ویجیبہ ابوحنیفۃ فیقول لہ الاعمش من این لک ھذا، فیقول انت حدثتنا عن ابراہیم بکذا وحدثتنا، بکذا وحدثتنا عن الشعبی بکذا، قال :فکان الاعمش عندذلک یقول،یامعشرالفقہاء انتم الاطباء ونحن الصیادلۃ ۔(شرف اصحاب الحدیث ونصیحۃ اہل الحدیث ص261)

پوری روایت سند سے اس لئے ذکر کی گئی ہے کہ جن کوکچھ شک ہے وہ اس سند کی تحقیق کرلیں۔ہماری تحقیق کے مطابق سند بے غبار ہے اورنصیحۃ اہل الحدیث کے محقق نے بھی سند کو صحیح کہاہے۔

امام اعمش ان مختصرجملوں میں دونوں گروہ کی امتیازی خصوصیات کوبیان کردیاہے۔

پنساری یاکیمسٹ دواکے نام جانتاہے لیکن کون سی دواکن بیماریوں میں استعمال کی جائے گی۔بیماری کیاہے ۔بیماری کی وجہ کیاہے وہ کیوں کردور ہوگی ۔وہ اتنانہیں جانتا۔ اس کاکام صرف دواؤں کی شناخت کرنا اورڈاکٹر کے نسخہ کے مطابق مریض کو دوادے دیناہے۔جب کہ ڈاکٹر اورحکیم نہ صرف دواکی خصوصیات جانتاہے بلکہ اس کی تاثیر افادیت سے واقف ہونے کے ساتھ مرض اورسبب مرض سبھی کچھ جانتاہے۔

یہی فرق محدثین کرام اورفقہاء میں ہے کہ حضرات محدثین کرام حدیث کے الفاظ ،متون سے گہری واقفیت رکھتے ہیں اس میں معمولی ردوبدل اورکمی بیشی کی پوری خبر رکھتے ہیں۔سند کی تبدیلیوں اورتحویلات سے واقف ہوتے ہیں۔ لیکن متن سے کن شرعی مسائل کی جانب رہنمائی مل رہی ہے۔ شارع کا مقصود کیاہے۔حدیث میں اصل علت کیابیان کی گئی ہے اوراس کو کیوں کر دوسرے مسائل پر منطبق کیاجاسکتاہے وہ اس سے ناواقف ہوتے ہیں۔

قاضی عیاض ترتیب المدارک میں امام عبداللہ بن وہب کے ترجمہ میں نقل کرتے ہیں کہ یوسف بن عدی کہتے ہیں:

میں نے لوگوں کو یاتومحدث پایایافقییہ پایا سوائے عبداللہ بن وہب کہ میں ن ان کو محدث اورفقییہ دونوں پایا۔

قال یوسف بن عدی ادرکت الناس فقیھاغیرمحدث ومحدثا غیرفقیہ خلاعبداللہ بن وہب، فانی رایتہ فقیھامحدثا زاہدا،(ترتیب المدارک 3/231-236)

اگر کفایت اللہ صاحب کی بات درست ہو کہ حدیث کے ضمن میں فقاہت خودبخود حاصل ہوجاتی ہے یاپھر جوجتنا بڑامحدث وہ اتنابڑا فقیہہ توپھر یوسف بن عدی کو فقییہ اورمحدث کی تقسیم کی ضرورت کیوں پڑتی ۔جومحدث ہوتاوہ خودبخود فقیہہ ہوتا اوران کو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ لوگوں کو میں نے یاتو فقیہہ پایایامحدث پایا۔

امام ترمذی کی کتاب جامع ترمذی یاسنن الترمذی سے ہرطالب علم واقف ہوگا۔ ان کی کتاب ایک جانب طالب علم کو فقہاء کے مستدلات اوراختلافات سے روشناس کراتی ہے تودوسری حدیث کے مقام ومرتبہ کی بھی وضاحت کرتی ہے اوراس وجہ سے اس کتاب کو بڑی قدر وقیمت کی نگاہ سے دیکھاگیاہے۔

امام ترمذی بذات خود عظیم الشان محدث ہیں۔ اس کے باوجود دیکھئے وہ ایک مسئلہ کے بارے میں کیافرماتے ہیں۔

وکذلک قال الفقہاء وھم اعلم بمعانی الحدیث(ترمذی1/118)

اوراسی طرح فقہاء نے کہاہے اور وہ حدیث کے معانی کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔

امام ترمذی کا یہ اعتراف صاف صاف بتارہاہے کہ جس طرح الفاظ حدیث کی حفاظت کے نگہبان اورپاسبان محدثین کرام ہیں اسی طرح معانی حدیث کی نگرانی کا شرف فقہاء کرام کوحاصل ہے اوریہی بات فخر المتاخرین حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے بھی ایک مقام پر کہی ہے۔

""پس اس علم کی تحصیل میں دوچیزیں لازم ہیں۔ ایک تو رواۃ کے احوال کی واقفیت ،دوسرے معانی کے فہم میں بڑی احتیاط۔ اس لئے کہ اگراول الذکر میں کوتاہی ہوگی تو کذب اورصدق دونوں مختلط ہوکر رہ جائیں گے اوراگر دوسری چیز میں احتیاط نہ برتی گئی تواس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ مراد غیرمراد کے ساتھ مشتبہ ہوجائے گا اورحصول کار یہ کہ یہ علم جس مقصد کیلئے حاصل کیاجاتاہے وہ پورانہیں ہوگا بلکہ اس کے برعکس انسان گمراہ ہوگا اوردوسروں کو گمراہ کرے گا""۔(عجالہ نافعہ ص4)
اگرحدیث کے الفاظ اورمتن کے معانی کی رہنمائی فقہاء سے حاصل نہ کی جائے تواس کا نتیجہ اورانجام گمراہی ہوتاہے اس کی گواہی امام عبداللہ بن وہب خود دیتے ہیں۔ انہوں نے خود کہاہے کہ

لولامالک واللیث لضللت اگرمالک اورلیث نہ ہوتے تومیں گمراہ ہوجاتاہے اورایک دوسرے مقام پراس کی وضاحت یوں کی ہے کہ احادیث کی کثرت نے مجھے حیرت میں ڈال دیاتھا اورمیں پریشان ہوگیاتھا۔ امام مالک نے میری رہنمائی کی کہ فلاں حدیث قابل اخذ ہے اورفلاں قابل ترک ہے ۔یہ معمول بہاہے وہ غیرمعمول بہاہے۔

لولاان اللہ انقذ نی بمالک واللیث للضللت،فقیل لہ کیف ذلک؟ قال:اکثرت من الحدیث فحیرنی،فکنت اعرض ذلک علی مالک واللیث ،فیقولان لی:خذ ھذا ودع ھذا (،(ترتیب المدارک 3/231-236،التمہید لابن عبدالبر باب ذکر عیون من اخبارمالک )

اگرمجھے امام مالک اورامام لیث بن سعد کی جانب سے رہنمائی نہ ملتی تومیں گمراہ ہوجاتا۔پوچھاگیاوہ کیسے؟توفرمایا میں نے حدیث کی خوب تحصیل کی جس کے بعد متضادحدیثوں کی وجہ سے میں حیرت میں پڑگیا۔ پھر میں ان حدیثوں کو امام مالک اورلیث بن سعد کے سامنے پیش کرتا اوروہ مجھے بتاتے کہ اس پر عمل کیاجائے گا اوریہ حدیث متروک اورناقابل عمل ہے۔

اوریہی چیز حضرت ابونعیم فضل بن دکین کو بھی پیش آئی کہ وہ احادیث کی روایت توکرتے تھے لیکن ان میں سے کون سی قابل اخذ وعمل ہے اورکون سی قابل ترک ہے اس سے لاعلم تھے اوراس باب میں ان کی رہنمائی امام ابوزفربن الھذیل فرماتے تھے۔

قال ابونعیم الملائی الفضل بن دکین کنت امر علی زفر فیقول لی :تعال حتی اغربل لک ماسمعت ،وکنت اعرض علیہ الحدیث فیقول :ھذا ناسخ ،ھذا منسوخ ،ھذایوخذ بہ ،ھذایرفض (تاریخ الاسلام للذہبی 6/178)

ابونعیم کہتے ہیں کہیں میں امام زفر کے پاس سے گزرتاتووہ فرماتے یہاں آؤ میں تمہارے لئے احادیث کوچھان دوں۔ میں ان پر سنی ہوئی احادیث پیش کرتا اوروہ فرماتے یہ ناسخ ہے۔یہ منسوخ ہے ۔اس پر عمل کیاجائے گااوراسے ترک کردیاجائے گا۔ واضح رہے کہ ابونعیم فضل بن دکین مشہور محدث ہیں اورامام یحیی بن معین کے ہم عصر ہیں اورعلم حدیث میں ان کا مقام بہت بلند ہے اس کے باوجود صرف احادیث کی واقفیت فقاہت کیلئے کافی نہیں ہوئی بلکہ اس سلسلے میں امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام زفر بن الہذیل نے ان کی رہنمائی اوردستگیری کی ۔
 

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
حضرت عبداللہ بن مبارک کا مقام ومرتبہ حدیث وفقہ میں جس قدر نمایاں ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ان کے جیسی جامع شخصیات بہت کم اوراقل قلیل ہوتی ہیں۔ ان سے جب پوچھاگیاکہ کوئی فتویٰ دینے کا اہل کب ہوتاہے توانہوں نے فرمایاکہ

[اذاکان عالماًبالاثر،بصیرابالرای(جامع بیان العلم وفضلہ ص818 وسندہ لاباس بہ کماقال المحقق]
جب وہ آثار سے واقف ہو اوررائے میں بصیرت اوردرک رکھتاہو۔

اگرمحض آثار سے ہی فقاہت حاصل ہوجایاکرتی توحضرت عبداللہ بن مبارک یہ کبھی نہ فرماتے کہ فتویٰ دینے کیلئے یعنی فقاہت حاصل کرنے کیلئے رائی میں بصیرت اورگہرارسوخ ضروری ہے۔

محدثین کرام میں حفظ حدیث کا رواج زیادہ رہاہے اوراحادیث سے مسائل کااستنباط واخراج کم رہاہے اس کااعتراف امام احمد بن حنبل نے بھی کیاہے چنانچہ ان سے جب مشہور محدث عبدالرزاق بن ہمام کے بارے میں پوچھاگیاکہ کیاوہ فقییہ بھی تھے توفرمایاکہ اہل حدیث میں فقاہت بہت کم ہوتی ہے۔

[قال محمد بن يزيد المستملي رحمه الله تعالى: "سألت أحمد عن عبدالرزاق كان له فقه؟ فقال: ما أقل الفقه في أصحاب الحديث" ا.ه . [طبقات الحنابلة لابن أبي يعلى رحمه الله تعالى] (2/392 ـ)

اگر کفایت اللہ صاحب کے بقول حدیث دانی فقاہت کاپیمانہ ہوتی تو پھر عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی کے بارے میں امام احمد بن حنبل کاجواب مختلف ہوتا۔ اس کے برعکس وہ فرماتے ہیں کہ اہل حدیث میں فقاہت بہت کم ہوتی ہے۔

جب امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کاذکر چل نکلاہے تویادش بخیر یہ بھی تازہ کرلیں کہ علم حدیث میں امام احمد بن حنبل کامقام ومرتبہ امام شافعی سے بہت زیادہ ہے حتی کہ امام شافعی ان سے علم حدیث میں مدد طلب کرتے تھے لیکن کسی نے یہ نہیں کہاکہ فقہ میں امام احمد کامرتبہ ومقام امام شافعی سے زیادہ بلند ہے۔بلکہ اس کے برعکس کئی سارے اجلہ فقہاء نے توان کو ائمہ مجتہدین میں ہی شمار نہیں کیا۔ آخرمیں ان حضرات کیلئے جن کو خطیب بغدادی کی ذات سے بڑاشغف اورتعلق خاطر ہے اورجولوگ ان کی شرف اصحاب الحدیث سے مختلف ٹکرے اوراقتباس نقل کرتے رہتے ہیں ان کیلئے خطیب بغدادی کی النصیحۃ لاہل الحدیث کا ایک ٹکرا ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں تاکہ ان کی بھی تسلی اورتشفی ہوجائے۔

خطیب بغدادی صاف اورصریح الفاظ میں بغیر کسی لگی لپٹی کے کہتے ہیں کہ کتب حدیث کے جمع کرنے یااس کیروایت کرنے سے کوئی فقیہہ نہیں بن جاتابلکہ اس کیلئے احادیث کے معنی ومرا د میں غوروفکر کرنا ضروری ہوتاہے۔

ان الاکثار من کتب الحدیث وروایتہ لایصیربھاالرجل فقیھا]،انما یتفقہ باستنباط معانیہ وانعام التفکرفیہ۔(شرف اصحاب الحدیث ونصیحۃ اھل الحدیث ص252)


اب آخر میں کچھ باتیں فقہ کے تعلق سے بھی عرض کردوں ۔دیکھئے ایک چیز ہے معلومات اورایک چیز ہے اس سے نتائج کا استنباط ۔

ایک سائنس کے طالب علم کو موجودہ دور میں شاید نیوٹن سے زیادہ معلومات ہوں گی لیکن نیوٹن کی طرح وہ کوئی چیز ایجاد نہیں کرسکتا ۔وجہ صرف یہ کہ اس کے اندر معلومات سے کام لینے کی صلاحیت نہیں ہے۔اس کے اندر تجسس کی طبیعت ہے۔ آپ ایک شخص کو ہرچیز پڑھاسکتے ہیں لیکن اس کے بعد بھی معاملہ یہی ہوگاکہ اس کو اپنی ذہانت سے کام لیناہوگا۔

ایک واقعہ سناؤں۔

کسی بادشاہ کا ایک بیٹاتھابہت کند ذہن۔بادشاہ نے سوچاکہ اسے ایساکون ساعلم سکھادوں جس کے بعد یہ خطرات سے محفوظ ہوجائے اوراپنی غباوت ذہنی سے کسی حادثہ اورمکار شخص کی چالاکی کا شکار نہ ہو ۔آخر اس کے ذہن میں آیا کہ اس کو علم نجوم سکھادیتاہوں اسکو پیشگی خطرات معلوم ہوجایاکریں گے ۔ اوریہ اپناتحفظ کرلے گا۔ ماہرنجومیوں کو اپنے بیٹے کی تعلیم پر مقرر کردیا۔ایک عرصہ کے بعد نجومیوں نے بادشاہ سے عرض کیاکہ ہم نے اس کو سب کچھ سکھادیاہے ۔آپ اس کا چاہیں توامتحان لے سکتے ہیں۔بادشاہ نے اپنی مٹھی میں انگوٹھی چھپائی اوربیٹے سے پوچھاکہ بتاؤ!میں نے اپنی مٹھی میں کیاچھپایاہے۔ اس نے حساب لگایااورکہاکہ کوئی گول سی چیز ہے۔بادشاہ نے پوچھاکہ وہ گول سی چیز کیاہوسکتی ہے؟بیٹا نے جواب دیاکہ بیل گاڑی کا پہیہ۔

نجومیوں کے سکھانے کا تعلق جہاں تک تھاانہوں نے سکھادیااوراس نے بتابھی دیاکہ وہ گول سے چیز ہوسکتی ہے۔اب وہ گول سی چیز کیاہوسکتی ہے اس کا تعلق ذہانت سے تھا اورکوئی بھی ذہین شخص قرائن اوراشارات سے انگوٹھی تجویز کرسکتاتھا۔

اسی طرح ہم عرض کرتے ہیں کہ حدیث کا علم بہت اہمیت رکھتاہے اورمحدثین کرام اورناقلین عظام نے اپنی جانب سے بڑی خدمات انجام دیں ہیں جزاھم اللہ خیراً۔لیکن صرف یہی چیز اس کیلئے کافی نہیں ہوسکتی کہ وہ فقیہہ بن جائے ۔بلکہ اس کے علاوہ دیگر علوم کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔

اوریہی وجہ تھی کہ امام احمد بن حنبل نے باوجود علم حدیث میں امام شافعی سے آگے ہونے کے امام شافعی کی شاگردی اختیار کی۔اوریہی وجہ ہے کہ باوجود علم حدیث کے سرخیل اورامام ہونے کے اورتمام احادیث سے واقفیت رکھنے کے عبدالرحمن بن مہدی نے امام شافعی سے گزارش کی تھی کہ وہ اصول فقہ پر کتاب لکھیں۔اورامام شافعی نے عبدالرحمن بن مہدی کی درخواست پر ہی اصول فقہ کی پہلی کتاب الرسالہ لکھی ۔ امام شافعی نے جن احادیث سے اصول فقہ پر استدلال کیاہے اورباطل فرقوں کے دعووں کو رد کیاہے کیاوہ احادیث امام احمد بن حنبل اورامام عبدالرحمن بن مہدی کے علم میں نہ تھیں؟یقیناًتھیں اوراس کے طرق اورمتابعات سے وہ امام شافعی سے کہیں زیادہ واقف تھے لیکن ان سے استدلال کس طرح کیاجائے ۔ اس کیلئے امام شافعی رضی اللہ عنہ جیسے فقیہہ کی ضرورت تھی ۔
ایک اورمثال ذکر کردوں۔

علی بن مسہر کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کی مجلس لگی ہوئی تھی۔ عبداللہ بن مبارک آئے اوریہ مسئلہ پوچھاکہ ایک شخص ہانڈی پکارہاتھاکہ ایک چریااس میں گری اورمرگئی۔تواس کا کیاحکم ہوگا۔امام ابوحنیفہ نے اپنے شاگردوں اورمجلس میں موجود لوگوں سے مسئلہ بتانے کوکہا۔انہوں نے حضرت ابن عباس کی روایت بیان کی کہ شوربہ کو بہادیاجائے گا اورگوشت کھالیاجائے گا۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایاکہ ہم بھی یہی کہتے ہیں لیکن ایک شرط کے ساتھ۔ وہ شرط یہ ہے کہ اگر ہانڈی حالت جوش میں نہ ہو یعنی ہانڈی کے اندر پک رہاشوربہ خوب گرم نہ ہو تواسی روایت پر عمل ہوگالیکن اگر شوربہ بہت گرم ہوگا تو پھر شوربہ بھی بہادیاجائے گااورگوشت بھی نہیں کھایاجائے گااوراس کی وجہ یہ ہے کہ سکون کی حالت میں چریاکے گرنے سے ہانڈی میں موجود گوشت کے ٹکروں پر کوئی اثر نہیں پڑتالیکن اگرہانڈی ابل رہی ہو تو جوشوربہ مردہ چڑیا کے اعضاسے لگے گا وہ ہانڈی میں موجود گوشت کے دیگر ٹکروں تک سرایات کرجائے گاجیساکہ سرکہ اور اورپانی سرایت کرجاتاہے۔اس لئے گوشت اورشوربہ دونوں کو ضائع کردیاجائے گا۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مبارک نے فرمایا رزین ۔

رزین فارسی کا جملہ ہے اسکا معنی سونے کے ہیں۔(الانتقاء ص304) مطلب یہ ہے کہ یہ کلام سونے کے مثل ہے۔ جیساکہ آج بھی ہم کسی اچھی بات پر کہتے ہیں کہ اسے سونے کے پانی سے لکھاجاناچاہئے۔

توجیساکہ روایت ہرایک کومعلوم تھی لیکن اس میں کیاقید چھپاہواہے اوراس کو کس طرح نافذ کرناہے۔ یہ امام ابوحنیفہ نے بتایا۔

علاوہ ازیں فقیہہ کیلئے نص کی دلالت، اشارہ،اقتضاء وغیرہ بھی جانناضروری ہے۔ عربی زبان سے اچھی طرح واقفیت بھی ضروری ہے۔ ناسخ ومنسوخ کا علم بھی ضروری ہے۔اس کے علاوہ قیاس، تعلیل،مناط حکم،وجوہ تخریج،عرف،عادت،استصحاب،مص لحت عامہ ان سب چیزوں کو جانناضروری ہے۔ جب کہ ان امور کا جاننا ایک محدث کیلئے ضروری نہیں ہے۔

آخر میں میں نے سوچاتھاکہ ابن جوزی نے تلبیس ابلیس اورآفۃ اصحاب الحدیث میں غیرفقیہہ محدثین کے بارے میں جوکچھ لکھاہے اورمعالم السنن کے مصنف علامہ خطابی نے اپنے جن شیخ کا واقعہ لکھاہے اس کوبھی ذکرکروں لیکن طوالت کے خوف سے اسے درکنارکرتاہوں۔کیونکہ طوالت مخل بھی ہوتی ہے اورممل بھی ۔لہذا صرف اتنے پر ہی اکتفاء کیاجاتاہے اورانشاء اللہ یہ مختصر مضمون یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہوگاکہ تمام محدثین کے فقیہہ ہونے کا دعویٰ ایک بے بنیاد اورجذباتیت پر مبنی ہے جس کے پیچھے دلائل نہیں ہیں۔ والسلام


بدرصاحب!
فقہ کی تحصیل کے دوطریقے ہیں۔
ایک توادلہ تفصیلہ سے مسائل کا استنباط جیساکہ اصول فقہ کی کتابوں میں لکھاہے۔ دوسرے فقہاء کرام کے اقوال پر تخریجات
توجوفقہاء قرآن وحدیث سے براہ راست مسائل کا استنباط کرتے ہیں توان کیلئے فقیہہ مفسر وغیرہ کا ہونا لابدی ضروری ہے۔ اورجو فقہاء کے اقوال پر تخریجات کرتے ہین ان کیلئے محدث ہوناضروری نہیں ہے۔
ویسے یہ پورامضمون ایک صاحب کے جواب میں لکھاگیاہے جن کا دعویٰ تھا کہ ہرمحدث فقیہہ ہوتاہے اورجوحدیث کا جتنا بڑاواقف کار ہوگاوہ اتناہی بڑافقیہہ بھی ہوگا۔ اوریہی بات البانی صاحب نے بھی کہی ہے۔لہذا یہ مضمون ایسے ہی حضرات کے خیال کی غلطی واضح کرنے کیلئے لکھاگیاتھا۔ والسلام
 

nicesahil

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ خیرا آپ نے بہت وضاحت کے ساتھ سمجھا دیا۔ اللہ آپ کے علم وعمل میں برکت عطا فرمائے۔ آمین
 
Top