حضرت معاویہؓ حضرات حسنینؓ کے نظرمیں

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت علی ؓ کے صاحب زادے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓحضرت امیر معاویہؓ سے خاص تعلق رکھتے تھے ،جب کہ حضرات حسنینؓکے سامنے جنگ صفین ہوئی اور امیر معاویہؓ ان کے والد کے خلاف لڑرہے تھے ، اور ہزاروں لوگ اس جنگ میں شہید ہوچکے تھے،بے شمار عورتیں بیوہ ہوچکی تھیں، اور کئی بچے یتیم ہوچکے تھے ، اور ان کے والد کی خلافت کے بعض حصوں پر حضرت معاویہ قبضہ کرچکےتھے ، یہ سب باتیں حضرات حسنین کو معلوم تھیں اس کے باوجود حضرات حسنین ؓ حضرت امیر معاویہ سے تعلقات قائم رکھتے ہیں، حضرات حسنینؓ حضرت علی ؓکے بعد میں خلافت کا اہل حضرت معاویہ ؓ کو ہی سمجھتے تھے ، اسی لئے حضرت حسنؓ نے اپنی خلافت حضرت معاویہؓ کو سونپ دی اور ان سے صلح کرکے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی ، یہ محض ایک صلح نہیں تھی بلکہ امت مسلمہ کو کشت و خون سے روکنے کی ایک بہترین تدبیر تھی جس کی پیش گوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے بتلادی ، حضرت حسن کی اس صلح کے بارے میں حضرت امام باقرؒ نے کہاآپ نے جو کچھ کیا وہ اس امت کے لئے ہر اس چیز سی بہتر تھا جس پر کبھی سورج طلوع ہوا
(بحارا الانوار،۱۰؍۱۶۴۱)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اسی طرح حضرت حسین ؓنے بھی حضرت امیر معاویہؓ کے ہاتھ پربیعت فرمایا اور ان کے ماتحتی میں کئے جنگیں لڑیں، اور ان سے تعلقات بلکہ رشتہ داری بنائے رکھے ہوئےتھے ،اس لئے حضرت امیر معاویہؓ کی حقیقی بھانجی آمنہ بنت میمونہ ؒحضرت حسین کی پہلی بیوی تھی اس لحاظ سے دونوں کے درمیان سسر اور داماد کا رشتہ بھی قائم تھا ، اگر حضرات حسنینؓ کے دل رائی کے دانہ کے برابر بھی حضرت معاویہؓ سے صاف نہ ہوتے تو وہ کبھی بھی ان سے صلح نہیں کرتے اور ان کی ماتحتی میں جنگیں نہیں لڑتے ، ان کا اس طرح نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حضرت امیر معاویہؓ سے عقیدت و محبت رکھتے تھے اور ان کا بے حد ادب و احترام کرتےتھے ،ان کے فیصلو ںکو صحیح مانتے تھے ،کتب تاریخ و سیر اس پر شاہد ہیں کہ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ دونوں بھائی اکثر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس جایا کرتے تھے وہ دونوں کی بہت عزت و تکریم کرتے، محبت و شفقت سے پیش آتے اور اپنے برابر تخت پر بٹھاتے اور لاکھوں درہم ان دونوں کو عطا کرتے،حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بدستور ان کی مجلس میں تشریف لے جایا کرتے او ر حضرت معاویہ ؓ ان کو وظائف او رعطایا سے نوازتے
(البدایہ و النہایہ،۸؍۱۵۰)

ان تاریخی حقائق سے اتنی بات تو ثابت ہوتی ہےکہ حضرت امیر معاویہ اور اہل ِ بیت کے درمیان دوستانہ اور ہمدردانہ روابط تھے ، اجتہادی غلطیوں اور اختلافات کے باوجود وہ ایک دوسرے کا ادب و احترام کرتے تھے ، ایک دوسرے کے خلاف غلط بیانی سے گریز کرتے تھے ،عزت و حرمت کو سرِبازار نیلام نہیں کرتے تھے ، اگر کوئی ان کے سامنےفریق مخالف کی برائی کرتا، یااس کی عزت کو تارتار کرتا تو اسے سختی کے ساتھ منع کردیتے تھے ۔
 
Top