بریلوی فرقے کے بارے میں ہمارے اکابر نے کفر یا شرک کا فتویٰ نہیں دیا

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اگر کسی شخص جو بریلوی ہے کے متعلق یقین سے معلوم ہوکہ وہ بلاتاویل شرکیہ عقائد میں مبتلا ہے تو ایسے شخص کے عقیدے کا علم ہونے کے باوجود اس کی اقتدا میں نماز تک پڑھنا جائز نہیں ہے۔ جب تک کسی بریلوی کے متعلق یقین نہ ہو کہ اس کا عقیدہ شرکیہ ہے اس پر کفر و شرک کا فتویٰ دینا درست نہیں ۔

واضح رہے کہ بریلوی فرقے کے بارے میں ہمارے اکابر نے کفر یا شرک کا فتویٰ نہیں دیا ہے، البتہ ان میں سے جو عملی بدعات میں مبتلا ہیں انہیں بدعتی کہا جائے گا، اور جو جمہور اہلِ سنت والجماعت سے جداگانہ عقائد رکھتے ہیں انہیں بدعتی ہونے کے ساتھ ساتھ گم راہ اور اہلِ ہویٰ میں سے کہا جائے گا۔ بریلوی کی اقتدا میں نماز ادا کرنا مکروہِ تحریمی ہے، صحیح العقیدہ امام مل جائےتو ایسے بدعتی امام کی اقتدا میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے، اور اگر صحیح العقیدہ امام نہ ملے تو مجبوراً ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے ، جماعت نہیں چھوڑنی چاہیے ، اور اس نماز کے اعادہ (دہرانے) کی ضرورت بھی نہیں ہوگی، البتہ متقی پرہیزگار کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے اتنا ثواب نہیں ملے گا.

سابق مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ کا ایک فتویٰ سوال و جواب کی عبارت کے ساتھ درج ذیل ہے:

’’سوال: فرقہ بریلویہ جن کے عقائد مشہور و معروف ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے علمِ غیب کلی عطائی اور آپ ﷺ کو حاضر و ناظر و مختارِ کل مانتے ہیں، نیز آپ ﷺ کو نور مان کر صورۃً بشر کہتے ہیں، علاوہ ازیں نذر لغیر اللہ کو نہ صرف مانتے ہیں، بلکہ اس کی دعوت بھی دیتے ہیں، دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس فرقہ کو مشرک و کافر کہا جائے یا مسلمان مبتدع ضال و مضل؟

جواب: کافر و مشرک کہنا مشکل ہے، اکابرِ دیوبند نے ان لوگوں پر ان عقائدِ کفریہ و شرکیہ کے باوجود کفر کا فتویٰ نہیں دیا، اس لیے مبتدع اور ضال مضل کہہ سکتے ہیں، کافر نہیں۔ فقط واللہ اعلم

کتبہ: ولی حسن (21/4/1400)‘‘

جامعہ ہٰذا کے رئیس دار الافتاء مفتی محمد عبدالسلام چاٹ گامی صاحب دامت برکاتہم ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں، جس پر مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ کی تصحیح موجود ہے:

’’واضح رہے کہ بریلوی حضرات کے بعض عقائد کی بنا پر ان کی گم راہی اور غلطی پر ہونے کا فتویٰ دیا جاسکتاہے، لیکن کافر اور مرتد ہونے کا فتویٰ نہیں دیا جاسکتا، اور نہ ہی دیوبندیوں میں سے کسی معتبر عالم نے بریلویوں کے کافر ہونے کا فتویٰ دیا ہے، اس لیے ہم بریلویوں کو مطلقاً کافر نہیں سمجھتے، ضرورت کے تحت ان سے اسلامی تعلقات، نکاح وشادی، کھانا پینا اور دوسرے معاملات کو جائز سمجھتے ہیں، اور ہم اختلاف و انتشار کے قائل نہیں ۔۔۔ البتہ بریلوی حضرات میں سے جو لوگ ہمیں اور اکابرِ دیوبند کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں ان کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ دیوبندی مسلک کے لوگ ان سے تعلقات نہ رکھیں، کیوں کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھنے سے اتفاق کی جگہ انتشار ہوگا۔

کتبہ: محمد عبدالسلام (10/10/1395) الجواب صحیح: ولی حسن ٹونکی‘‘

.فقط واللہ اعلم
 
Top