سلطان شہاب الدین محمد غوری

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

غوری سلطنت کا قیام​

جس وقت شام اور فلسطین میں سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے عروج پر تھے اور عیسا ئیوں کو سلیبی جنگوں میں پے در پے شکست دے رہے تھے ٹھیک اسی وقت افغانستان میں غزنوی سلطنت زوال پذیر ہو چکی تھی ۔ تقریبا 1192 میں کابل میں سلطان شہاب الدین غوری نے غوری سلطنت کی بنیاد رکھ دی تھی۔

سلطان محمد غوری کی ہندوستان میں مہم جوئی​

سلطان محمود غزنوی کے سترہ حملوں کا چونکہ بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ ہندوؤں کی عسکری اور معاشی قوت کو کچلا جا سکے تاکہ بعد میں آنے والے مسلمانوں کے لیے اسلامی ریاست کا قیام آسان ہوسکے۔ سلطان غوری نے تخت نشین ہوتے ہی اس مہم کو جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا اور ہندوستان کو مسلم سلطنت کا حصہ بنا نے کے لیے تیاری شروع کردی۔

پہلی جنگ ترائن​

پونے دوسو سال کے وقفے کے بعد یہ پہلا مرحلہ تھا جب مسلمان ہندوؤں کے مقابلے کے لیے صف آرا ہوئے تھے۔ دہلی سے تقریبا ڈیڑھ سو کلومیٹر دور ترائن کے میدان میں مسلمان اور ہندو فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے کے لیے آئی تھی۔ مسلم فوج کی تعداد تقریبا سوا لا کھ کے قریب تھی جب کے ہندو فوج تین سو ہاتھیوں اور دو لاکھ گھڑ سواروں اور ان گنت پیادہ سپاہیوں پر مشتمل تھی جس کی قیادت دلی کا راجہ گووندا بات خود کررہا تھا۔ مسلمانوں نے اس سے پہلے ہاتھیوں کی اتنی بڑی دفاعی دیوار نہیں دیکھی تھی اور مسلمانوں کے گھوڑے ہاتھیوں سے مانوس نہیں تھے۔

سلطان محمد غوری کی جنگی حکمت عملی​

اس مو قعے پر سلطان نے اپنی فوج کو تین حصوں میمنہ، میسرہ اور قلب میں تقسیم کیا سلطان غوری نے اپنا مرکزعین وسط میں بنایا۔ جب ہندو فوج ہاتھیوں کی ایک دیوار کے ساتھ ٹکرائی تو مسلمانوں کے گھوڑے بدک کر تتر بتر ہوگئے اس کیفیت میں مسلم فوج کا دیاں اور بیاں بازو شدید دباؤ میں آکر پیچھے ہٹنے لگے لیکن سلطان غوری اپنے مرکز کے ساتھ تین لاکھ فوج کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے رہے مگر ہاتھیوں اور ہندو فوج کی عددی برتری کا دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ مسلم فوج کی پاؤں اکھڑنے لگے۔

مسلم فوج کو شکست ہونا​

ہندو راجہ گووندا ایک ہا تھی پر سوار ہو کر سلطان کے سامنے آیا اور دونوں بادشاہوں کی دست بدست لڑائی شروع ہوگئی اور دونوں بادشاہ شدید زخمی ہوگئے۔ اس سے پہلے کے سلطان میدان جنگ میں گر جاتے ان کے ایک غلام نے آگے آکر انہیں سہارا دیا اور گھوڑے پر بٹھا کر میدان جنگ سے نکل گیا اس غلام کو آج دنیا قطب الدین ایبک کے نام سے جانتی ہے جو بعد میں دہلی کے پہلے مسلم سلطان بنے۔ سلطان غوری کے جنگ سے نکلنے کے بعد مسلم فوج بکھرنا شروع ہوگئی اور عام پسپائی کا حکم جاری کردیا گیا ۔

محمد بن قاسم سے لے کر اب تک مسلمانوں کی یہ ہندوؤں کے ہاتھوں پہلی شکست تھی سلطان بہت مشکل سے اپنی بچی کچی فوج کے ساتھ لاہور پہنچ سکے تھے ہندوستان پر انکی پہلی مہم بری طرح ناکام ہوئی تھی لیکن سلطان ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھے افغانستان لوٹنے سے پہلے ہی وہ تہیہ کر چکے تھے کے وہ جلد لوٹ کر اپنی شکست کا بدلہ لیں گے۔

اس مہم میں شکست کی وجہ سلطان کے وہ سردار بنے جنہوں نے ہاتھیوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے پسپائی اختیار کی اور سلطان کی اپنی بہادری کے باوجود مسلم فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سلطان غوری نے فیصلہ کیا کے جب تک اپنی شکست کا بدلہ نہیں لے لیتے تب تک نہ تو اپنے بیوی بچوں کے پاس جائے گے اور نہ ہی اپنا وہ خون آلود لباس اتارے گے جو انہوں نے جنگ کے دوران پہن رکھا تھا۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا اجمیر میں آکر آباد ہونا​

سلطان محمود غزنوی کے دور ہی سے ہندوستان میں اولیا کرام آکر آباد ہونا شروع ہوگئے تھے اور اپنی روحانی طاقت سے مشرکوں کو اسلام کی روشنی سے منور کر رہے تھے۔ جس طرح سلطان محمود غزنوی کے دور میں حضرت علی بن عثمان ہجویری لاہور آکر آباد ہوگئے تھے اور ہندوں جوق در جوق ان کے ہا تھ پر اسلام قبول کر رہے تھے اسی طرح تقریبا ڈیڑھ سو سال بعد چشتی سلسلے کے عظیم ترین بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی(رحمتہ اللہ علیہ) اسلام کی تبلیغ کی غرض سے اجمیر آکر آباد ہوگئے تھے۔

اجمیر تشریف لانے سے پہلے آپ نے شیخ عبدالقادر جیلانی کی صحبت سے فیض حاصل کیا تھا اور ہندوستان آنے سے قبل ان کو ان کی کامیابی اور فتح کی خوشخبری اور بشارت روضہ رسول(صل اللہ علیہ وسلم) پر حاضری کے وقت دی گئی تھی بعض بزرگوں نے کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ کو “سلطان الہند” کا خطاب خود حضور(صل اللہ علیہ وسلم) عطا فرمایا تھا۔ جس وقت آپ نے اجمیر میں اپنا مرکز بنایا اس وقت نہ تو کوئی مسلم حکومت تھی نہ ہی کوئی آپکی حفاظت کا انتظام تھا۔

اجمیر کی ریاست کا تعارف​

اجمیر ہندوستان کے علاقے راجھستان کا ایک شہر ہے جہاں پر ظالم بادشاہ پرتھوی راج چوھان کی حکومت تھی اس علاقے پر راجپوتوں کا قبضہ تھا اور پورے ہندوستان میں سب سے زیادہ طاقتور پرتھوی راج چوھان ہی تھا۔ اس علاقے میں سخت وحشی قوم رہتی تھی جو لوگ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے ان کے ہاں جب بیٹی پیدا ہوتی تھی تو یہ اسے ذبح کردیتے تھے جس کی وجہ سے ان کے ہاں مردوں کی تعداد عورتوں کی نسبت زیادہ تھی جسکی وجہ سے اس قوم میں ایک نا پاک رسم شروع ہوگئی تھی جسکو انگریزی میں polyandry کہتے ہیں یعنی ایک مرد کئی عورتوں سے شادی کر سکتا تھااور اس علاقے میں جادوٹونا بھی عام تھا اور یہ درندہ صفت قوم مسلم دشمنی میں بھی سب سے آگے تھی۔ جب آپ نے اجمیر میں میں آکرتبلیغ شروع کی تو آس پاس کے لوگ مسلمان ہونا شروع ہوگئے اور اس بات کی خبر پورے علاقے میں پھیل گئی۔ آپ کے پاس راجپوتوں کی ٹولیاں آتیں اور آپ کا امتحان لینے کی کوشش کرتیں اور آپ کو یہاں سے نکالنے کی دھمکیاں بھی دی جاتیں لیکن آپ اپنی جگہ پر قائم رہے کیونکہ آپ کو غیبی مدد حاصل تھی جو آپ کو نکالنے کی کوشش کرتا وہ خود خوفزدہ ہوجاتا اور متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیتا تھا ۔

پرتھوی راج چوہان کا خواجہ معین الدین کو دھمکی دینا​

جب پرتھوی راج چوھان کو اسکی خبر ملی تو وہ خوب آگ بگولا ہوا اور اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ آپ کو یہاں سے نکال دے لیکن آپ اپنی جگہ پر قائم رہے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اس نے حضرت معین الدین چشتی کے مریدوں کی انگلیاں کٹوادیں جب آپ کے مرید آپ کے پاس آئے تو آپ نے کہا کہ فکر مت کرو ان انگلیوں کو زمین میں دبا دو اور ساتھ ہی پرتھوی راج چوھان پر بھی مٹی ڈال دو۔

جب حضرت معین الدین چشتی کے ہاتھوں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا تو وہ آپ کی جان کا دشمن بن گیا یہاں پر آپ قدرت کا کمال دیکھے کے ایک طرف فقیر جو بے سروسامان نہ کوئی ظاہری طاقت کے کیسے وقت کے ظالم اور طاقتور ترین بادشاہ کے سامنے ڈٹ گیا۔ اب پرتھوی راج بے ادبی پر اتر آیا تھا اس نے آپ کو قتل کرنے کی دھمکی دے دی حضرت معین الدین چشتی بھی جلال میں آگئے اور فرمایا کہ “ہم نے تجھ کو گرفتار کر کے مسلمان فوج کے حوالے کیا”۔ پہلے تو پرتھوی راج یہ سن کر حیران ہوگیا پھر قہقہ لگا کر بولا کہ” کونسی فوج آئے گی مجھے گرفتار کرنے” اس کے طنزیہ سوال پر حضرت معین الدین چشتی نے صرف اتنا جواب دیا کہ ” اب جو ہوگا وہ تم خود دیکھ لوگے”۔

سلطان شہاب الدین غوری کو خواب آنا​

ادھر سلطان کو ایک رات خواب میں ایک بزرگ کی زیارت ہوئی جو ان سے واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ ” میں نے ہندوستان تجھ کو دیا آکر اس پر قبضہ کرلو”۔ سلطان جب خواب سے بیدار ہوتے ہیں تو اس تعبیر کے بارے میں پریشان ہوجاتے ہیں ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ بھرپور تیاری کے بغیر ہندوستان پر ایک مرتبہ پھر حملہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے خواب کو نظرانداز کردیا۔ مگر پھر متواتر سے خوابوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اب کی بار ان بزرگ کے لہجے میں سختی بھی آگئی۔

سلطان کا ہندوستان پر دوبارہ حملہ کرنا​

سلطان نے بھی علماء اور صاحب فراست لوگوں سے مشورے شروع کردیے ایک فقیر نے انہیں بتایا کہ ان بزرگ کی آمد ایک غیبی مدد کی طرف اشارہ ہے ان کو حکم دیا جارہا ہے کہ وہ ہندوستان جائیں ان کی فتح یقینی ہے۔ جب سلطان نے ان سے ان بزرگ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اب اس کی حقیقت فتح کے بعد ہی آشکار ہوگی۔ اس کے بعد سلطان نے فیصلہ کیا کہ یکسو ہو کر ہندوستان پر حملہ کی تیاری کی جائے اور جتنی فوج بھی تیار ہے اس کے ساتھ ہی ہندوستان پر یلغار کردی جائے۔

دوسری جنگ ترائن​

اب کی بار سلطان اپنے تمام امیروں کی رائے کے خلاف اپنی ایک لاکھ بیس ہزار فوج کہ ساتھ ایک مرتبہ پھر ترائن کے میدان میں پہنچ گئے جہاں انہیں کچھ عرصہ قبل شکست ہوئی تھی۔ اب کی دفعہ خود پرتھوی راج چوھان تھا جو کہ پانچ لاکھ فوج اور تین ہزار ہاتھیوں کہ ساتھ میدان میں میں آیا تھا وہ اس دور کی جنگوں کے لحاظ سے عظیم قوت کے ساتھ میدان میں آیا اتنی بڑی تعداد میں ہاتھی اس وقت کسی فوج کے پاس نہیں تھے جتنے پرتھوی راج چوھان اس جنگ میں جھونکنے کے لیے لایا تھا۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے یہی لگتا تھا کہ اب کی بار پھر مسلمان شکست کھا کر لوٹیں گے لیکن جو ہونے جارہا تھا وہ کسی کے بھی وہم وگمان میں نہ تھا۔

پچھلے بار کی شکست سے سلطان نے اب کی دفعہ محتاط مگر جارحانہ حکمت عملی اپنائی سلطان نے اپنی فوج کو پانچ حصوں میں میں تقسیم کیا۔ ایک وقتت میں ایک دستہ آگے جاتا اور دشمنوں سے ٹکراتا اور اسکے بعد مسلمانوں کے گھڑ سوار آگے جاتے اور ہاتھیوں کو آنکھوں پر نشانہ لگاتے۔ جب ایک دستہ تھک جاتا تو وہ پیچھے ہٹ جاتا اور پیچھے والا ایک دستہ اسکی جگہ لے لیتا اور اسکی جنگی کاروائی کو جاری رکھتا اس غیر معمولی حکمت عملی کی وجہ سے ہندو فوج کو تو آرام وسکون تو نہ مل سکا لیکن مسلما ن دستے تازہ دم ہوکر دوبارہ حملہ ور ہو تے رہے۔

پرتھوی راج کو شکست ہونا​

شام تک ہندو فوج بری طرح تھک چکی تھی اور ان کی پہلی صف میں موجود ہاتھیوں کا دفاعی حصار بھی ٹوٹ چکا تھا ۔ ٹھیک مغرب کے وقت سلطان نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ ہندو فوج کہ قلب پر حملہ کر دیا جس سے پر تھوی راج چوھان پر دباؤ پڑ گیا اور وہ پیچھے ہٹنے لگا اس کے بعد گمسان کی جنگ شروع ہوگئی۔ ہاتھیوں کے واپس پلٹنے کی وجہ سے راجپوت فوج اپنے ہی ہاتھیوں کے پیروں تلے روندی جانے لگی اور ان کی صفیں پلٹنا شروع ہوگئی۔ اس افراتفری میں پرتھوی راج کے ذاتی محافظ یہ تو مارے گئے یہ پیچھے ہٹ گئے جلد ہی پرتھوی راج کو گرفتار کرلیا گیا۔ جیسے ہی پرتھوی راج کے گرفتار ہونے کی خبر پھیلی اس کی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے۔ بپھرے ہوئے مسلمانوں نے اپنی گذشتہ شکست کا خوب بدلہ لیا اور بھرپور قتل عام کیا۔ جنگ میں تقریبا دو لکھ کے قریب ہندو راجپوت قتل ہوئے اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں نے کبھی ہندوؤں کو قتل نہیں کیا۔

جب پرتھوی راج کو زنجیروں میں جکڑ کر سلطان کے سامنے لایا گیا تو سلطان کو اپنی سال پرانی شکست اور ساتھیوں کی شہادت یاد آگئی اس سے پہلے کے آپ کوئی انتقامی کاروائی کرتے آپ کو اجمیر سے ایک بزرگ پیغام بھیجتے ہیں اور اپنے پاس طلب کرتے ہیں۔ سلطان جب ان بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ یہ تو وہی شخصیت ہیں جو ان کے خواب میں آتی تھیں۔ حضرت معین الدین چشتی کے چہرے پر نظر پڑ تے ہی آپ اپنی پگڑی اتار کر انکے قدموں میں رکھ دیتے ہیں تو حضرت معین الدین خود اپنے ہاتھ سے ان کو پگڑی پہناتے ہہں اور اپنی بہت سی دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتے ہیں۔ حضرت معین الدین چشتی کا حکم نافذ کیا جا چکا تھا سلطان اپنے ساتھ پرتھوی راج کو بیڑیوں میں جکڑ کر غزنی لے کر جاتے ہیں اور اس کے گناہوں کی سزا کے طور پر اسے سزائے موت دے دی جا تی ہے۔

فاتح ہند​

اس جنگ کو مسلم تاریخ میں بہت اہمیت حاصل ہے جس طرح جنگ قادسیہ نے ایران اور فارس کا علاقہ مسلمانوں کے حوالے کردیا تھا اور جنگ یرموک نے بازنطینی سلطنت کی قمر توڑ دی تھی ۔ اسی طرح اس جنگ کی وجہ سے پہلی بار مسلمانوں کی دہلی پر حکومت بنی اور ہندوستان کے قلب میں مسلم ریاست وجود میں آئی۔ انہیں فتوحات کی بنا پر سلطان محمد غوری کو ” فاتح ہند ” کا خطاب دیا گیا۔

1206ء تک سلطان اپنی وسیع وعریض سلطنت پر حکومت کرتے رہے جس کا ایک سرا ہندوستان کے مشرق تک اور دوسرا سرا افغانستان کے مغرب تک پھیلا ہوا تھا ۔ مگر1206ء میں جہلم کے قریب ایک سفر کے دوران جب آپ آرام فرما رہے تھے تو کچھ شرپسندوں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کو شہید کردیا۔ سلطان شہاب الدین محمد غوری کا مزار اسی مقام پر واقع ہے جہاں آپ شہید ہوئے۔ روالپنڈی شہر سے چند فاصلے پر سوہاوہ کے قصبے میں سلطان شہاب الدین محمد غوری آرام فرما رہے ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یہ تحریر جناب احمر محمود کے مضمون سلطان شہاب الدین محمد غوری جس سائٹ سے نقل کی گئی ہے جو مسلمانوں کے ہیروز نامی سائٹ پر برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے زمرے میں موجود ہے
 
Top