سیرت و عظمتِ سیدنا علی رضی اللہ عنہ

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
سیرت وعظمتِ سیدنا علی رضی اللہ عنہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خطبات بندیالوی جلد 10 سے ماخوذ
مفسرِ قرآن ، وکیلِ صحابہ و اہل بیت ،
علامہ محمد عطاء اللہ بندیالوی حفظہ اللہ


امیر المومنین، خلیفۃ المسلمین ،خلیفہء راشد، دامادِ نبی
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم الامین
وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین اما بعد
فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبہ: 100)

قَالَ النَّبِیُّﷺ لِعَلِیٍّ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی اِلَّا اَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ (بخاری)

سامعین گرامی قدر!آج کی محفل میں۔۔۔ آپ حضرات کے سامنے خلیفۂ رابع، امیر المومنین، دامادِ علی سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت اور عظمت کے بارے میں چند معروضات پیش خدمت کروں گا۔
اس سے پہلے کہ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیاتِ طیبہ اور سیرت مبارکہ پر کچھ روشنی ڈالوں اور ان کی عظمت کے بارے میں ارشاداتِ نبوی بیان کرنے کی سعادت حاصل کروں۔
یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سب سے بڑی خوبی اور سب سے بڑی عظمت یہ ہے کہ وہ میرے نبیﷺ کے صحابی ہیں۔
اور اصحابِ رسول کے بارے میں۔۔۔ ان کی عظمت کے بارے میں جتنی قرآنی آیات ہیں اس کے مصداق سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں۔۔۔ ۔سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں شامل ہیں۔۔۔۔ مہاجرین کی پہلی صف میں موجود نظر آتے ہیں۔۔۔ ۔رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ کا مصداق ہیں۔۔۔۔ اَعَدَّلَھُمْ جَنَّاۃٍ کا تمغہ ان کے سینے پر سجا ہوا ہے۔۔۔۔ اُولٰئِکَ حِزْبُ اللہُ میں وہ شامل ہیں۔۔۔۔ اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ کا وصف انہیں حاصل ہے۔۔۔ اُولٰئِکَ ھُمُ الصَّادِقُوْنَ۔۔۔ اُولٰئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ کے زمرے میں وہ شامل ہیں۔۔۔ اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ کی عظمت انہیں حاصل ہے۔۔۔ وہ اصحابِ بدر میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔ اُحد کے وہ ہیرو ہیں۔۔۔ خندق میں ان کی خدمات بے مثال ہیں۔۔۔ خیبر میں انہیں ایک ممتاز مقام حاصل ہوا۔۔۔ صلح حدیبیہ کی تحریر کے وہ کاتب ٹھہرے۔۔۔ تبوک کے موقع پر انہیں ایک انفرادی شان حاصل ہوئی۔۔۔ حنین اور طائف کے شرکاء میں سے ہیں۔۔۔ نبی اکرمﷺ کے اتنقال پُرملال کے بعد ان کے غسل، کفن، تجہیز وتکفین میں شریک رہے۔
ولادت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد ابو طالب کی شادی اپنی چچا زاد بہن۔۔۔ فاطمہ سے ہوئی۔۔۔ اس اعتبار سے وہ نجیب الطرفین ہاشمی ہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ کے چچا زاد بھائی ہیں۔۔۔ اور آپ کے خاندان بنو ہاشم کو قریش میں نمایاں اور امتیازی مقام حاصل ہے۔۔۔ ابو طالب کے چار بیٹوں میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے چھوٹے تھے۔۔۔ ان کی ولادت نبی اکرمﷺ کی بعثت سے آٹھ یا دس سال قبل ہوئی۔۔۔ عام طور پر یہ مشہور ہے اور حُبِّ علی کا لبادہ اوڑھنے والے ایک طبقہ نے اسے یقین کی حد تک۔۔۔ پروپیگنڈے کے ذریعے شہرت دے دی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش بیت اللہ کے اندر ہوئی۔۔۔ اور بیت اللہ کے اندر ولادت کا ہونا ایسی سعادت ہے جس میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
مشہور شیعہ مجتہد ملا باقر مجلسی نے جلاء العیون میں تحریر کیا ہے کہ
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیت اللہ میں پیدا ہوئے تو تلاوتِ قرآن فرما رہے تھے اور وہ اسی وقت سجدہ ریز ہو گئے۔ (لطف بلکہ لطیفہ کی بات ہے کہ ولاتِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ نزولِ قرآن سے آٹھ یا دس سال پہلے کا ہے)
شاعر لوگوں نے ایک شعر بھی بہت مشہور کر دیا۔۔۔ اہل سنت کے اسٹیج پر بھی پڑھا جانے لگا اور بینروں کی زینت بننے لگا۔
کسے را میسر نہ شد ایں سعادت بکعبہ ولادت بہ مسجد شہادت
مشہور شیعہ مؤرخ ابن ابی الحدید نے کہا ہے:
فَکَثِیْرٌ مِّنَ الشِّیْعَۃِ یَزْعَمُوْنَ اَنَّہٗ وُلِدَ فی الْکَعْبَۃِ وَالْمُحَدِّثُوْنَ لَا یَعْتَرِفُوْنَ بِذَالِکَ وَیَزْعَمُوْنَ اَنَّ الْمَوْلُوْدَ فِی الْکَعْبَۃِ حَکِیْمِ بْنُ حِزَامٍ بْنِ خُوَیْلِدْ (شرح نہج البلاغۃ لابن ابی الحدید: 1\14)
اکثر اہل تشیع کا گمان اور خیال یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کعبہ میں ہوئی مگر محدثین اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں بلکہ ان کا خیال یہ ہے کہ کعبہ میں صرف ایک شخص کی ولادت ہوئی ہے حکیم بن حزام جو ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے برادر زادہ تھے۔
حقیقت یہی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت بیت اللہ میں نہیں ہوئی۔۔۔ یہ سب وضّاع لوگوں کی گھڑی ہوئی اور بلادلیل باتیں ہیں جو انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ عقیدت کی وجہ سے بیان کی ہیں۔
شیعہ مؤرخ ابن ابی الحدید نے بھی تحریر کیا اور باقی کتب نے بھی اسے محفوظ کیا کہ بیت اللہ میں صرف سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہوئی تھی۔۔۔ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھتیجے تھے۔۔۔ انہوں نے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خرید کر اپنی پھوپھی کے حوالے کیا تھا۔
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے مسلم کی شرح میں لکھا اور علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے البدایہ والنہایہ میں اسی طرح تحریر فرمایا کہ:
حَکِیْمِ بْنِ حِزَامٍ اَلصَّحَابِیْ وَمِنْ مَنَاقِبِہٖ اَنَّہٗ وُلِدَ فِی الْکَعْبَۃِ قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَائِ وَلَا یَعْرِفُ اَحَدَ شَارِکِہٖ (نووی شرح مسلم:،البدایہ والنہایہ: 8\68)
حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ کے صحابی ہیں ان کی فضیلت میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ بیت اللہ میں پیدا ہوئے بعض علماء کہتے ہیں کہ اس فضیلت میں ان کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔
اگر ایک لمحہ کے لیے تسلیم کر لیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کعبہ میں ہوئی تھی۔۔۔ تو کیا اُن کی عظمت صرف کعبہ میں پیدا ہونے سے ثابت ہوتی ہے۔۔۔؟

پروُردۂ نبوت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بے شمار اوصاف ہیں۔۔۔ انہیں اللہ نے بہت سی خوبیوں سے مالامال فرمایا تھا۔۔۔ ان کی بعض خصوصیات ایسی ہیں جن میں اصحابِ رسول رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی مقدس جماعت میں سے کوئی بھی ان کا ہم سر نہیں ہے۔۔۔ ان خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پرورش اور تربیت نبوت کی گود میں ہوئی۔
اس پرورش کا ظاہری سبب یہ بنا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بچپن کے ایام میں قریش معاشی طور پر انتہائی تنگ دست اور تنگ حالی کا شکار ہو گئے۔
ابو طالب کثیر العیال شخص تھے۔۔۔ اور معاشی حالت ناگفتہ بہ تھی۔۔۔ چار بیٹے اور دو بیٹیوں کی پرورش ان کے لیے انتہائی دشوار ہو رہی تھی۔۔۔ نبی اکرمﷺ کو ابو طالب کی معاشی پریشانی کا علم تھا۔۔۔ آپ چاہتے تھے کہ ان سے یہ بوجھ کچھ کم کیا جائے۔
نبی اکرمﷺ کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ متموّل اور خوشحال تھے۔۔۔ آپ نے اپنے چچا سے کہا۔۔۔ کہ ابو طالب کثیر العیال ہیں اور تنگدستی کا شکار ہیں اور حالات بھی قحط سالی کے ہیں۔ ۔۔ آپ نے تجویز پیش فرمائی کہ ابو طالب کے ایک بیٹے کی پرورش آپ اپنے ذمہ لے لیں اور ایک بیٹے کی کفالت کا بوجھ میں اٹھا لوں گا۔
سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرمﷺ کی اس تجویز کو پسند فرمایا۔۔۔ اور اس طرح سیدنا جعفر کی پرورش سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ذمہ لے لی اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کفالت کا بوجھ نبی اکرمﷺ نے اٹھا لیا۔۔۔ اس طرح سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ کے گھر آپ کی زیر کفالت پرورش پانے لگے۔ (البدایہ والنہایہ: 3\25، شرح نہج البلاغت لابن الحدید شیعہ: 1\15)
نبوت کی پرورش تاریخ وسیرت کی کتب کہتی ہیں۔۔۔ عوام خاص ایک ہی بولی بولتے ہیں۔۔۔ علماء اور جہلاء یک زبان ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے دادا عبد المطلب کی وفات کے بعد نبی اکرمﷺ کی پرورش ا بو طالب نے کی تھی۔۔۔ اور کچھ اسے ابو طالب کے ایمان کی دلیل سمجھتے ہیں کہ ایک نبی کی پرورش کافر کے گھر کیسے ہو سکتی ہے۔۔۔؟ شاید ان جہلاء کو معلوم نہیں کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی بچپن میں پرورش کس کے گھر ہوئی تھی۔۔۔؟ کیا سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پرورش کی بنا پر فرعون کو مومن مان لیا جائے۔۔۔؟
حقیقت یہ ہے اور اس حقیقت کو ماننا آسان نہیں کہ نبی اکرمﷺ کے دادا عبد المطلب نے اپنے بعد اپنی جانشینی اپنے بڑے بیٹے زبیر کے سپرد کی تھی جو نبی اکرمﷺ کے والد گرامی حضرت عبد اللہ کے حقیقی اور سگے بڑے بھائی تھے۔ (طبقات ابن سعد: 1\74)
زبیر، ابو طالب اور عبد اللہ تینوں ایک ماں کے بطن سے حقیقی بھائی تھے۔۔۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ
اِنَّ الزُّبَیْرَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ یَرْقُصَ النَّبِیَّﷺ وَھُوَ صَغِیْرٌ وَیَقُوْلُ مُحَمَّدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَشْتَ بِعَیْشٍ اَنْعَمَ فِیْ عَزٍّ (الاصابہ: 2\308)
عبد المطلب کے بیٹے زبیر نبی اکرمﷺ کو بچپن میں اپنے ہاتھوں پر جھلایا کرتے تھے اور ساتھ کہتے جاتے ہیں یہ محمد میرے عبد اللہ بھائی کی نشانی ہے خوب عیش وآرام سے جیے اور بڑی اعلیٰ قدر ومنزلت پائے۔
نبی اکرمﷺ کے تمام چچائوں میں سب سے زیادہ شفیق اور نرم مزاج زبیر تھے۔۔۔ کَانَ اَلْطَفُ عَمْیَہٗ بِہٖ (انساب الاشراف بلازری: 1\85)
پھر انہوں نے آپ کو گود میں کھلایا۔۔۔ پھر وہی عبد المطلب کے جانشین بنے۔۔۔ وہی مالی لحاظ سے مستحکم تھے۔۔۔ اور سخاوت میں معروف تھے۔
پھر عبد المطلب نے زیبر جیسے شفیق چچا کو چھوڑ کر ابو طالب کی کفالت میں آپ کو کیوں دیا۔۔۔؟ بات تو غور کرنے اور سوچنے کی ہے۔
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ عبد المطلب کی وفات کے بعد نبی اکرمﷺ کی پرورش تو زبیر نے کی تھی مگر زبیر کے انتقال کے بعد ابو طالب آپ کے کفیل بنے۔
بلازری نے انساب الاشراف میں لکھا ہے کہ ان لوگوں کا خیال بھی غلط ہے۔۔۔ اس کی دلیل بلازری نے بڑی مضبوط اور پختہ دی کہ زیبر حلف الفضول میں موجود تھے اور اس وقت نبی اکرمﷺ کی عمر بیس سال سے کچھ اوپر تھی۔ (انساب الاشراف: 1\85)
آپ ان تمام علمی حوالہ جات کو ایک طرف رکھ دیں۔۔۔ اور عقل کے ترازو پر اس بات کو تولیں۔۔۔ نبی اکرمﷺ نے اور سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو طالب کے دو بچوں کی پرورش اپنے ذمہ کیوں لی تھی۔۔۔؟ والد زندہ ہے اور اس کی موجودگی میں ایک بیٹا بھائی کے گھر پرورش پا رہا ہے اور دوسرا بیٹا بھتیجے کے گھر۔۔۔ آخر کیوں۔۔۔؟ ایک ہی جواب ہے نا کہ ابو طالب کی مالی حالت ناگفتہ بہ تھی اور معاشی لحاظ سے وہ پریشان تھے۔۔۔ وہ اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ اپنے بچوں کی صحیح پرورش کر سکیں۔
پھر جو شخص مالی اعتبار سے اور معاشی لحاظ سے اتنا کمزور ہو کہ اپنے بچوں کی پرورش نہ کر سکے تو ان کے بارے میں یہ کہنا کہ بھتیجے کی پرورش انہوں نے کی تھی ہی بات عقل سے بھی بعید ہے۔
قبولِ اسلام نبی اکرمﷺ کی عمر مبارک چالیس سال کو پہنچی۔۔۔ تو آپ کو نبوت ورسالت سے سرفراز فرمایا گیا۔۔۔ آپ نے اسلام اور ایمان کی دعوت سب سے پہلے اپنی زوجۂ محترمہ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے پیش کی اور انہوں نے بلاحیل وحجت آپ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ایمان قبول کیا۔
(لطف کی بات یہ ہے کہ یہ شرف اور یہ عظمت ایک عورت کے حصے میں آئی کہ دعوتِ اسلام کو سب سے پہلے اس نے قبول کیا۔۔۔۔ اور یہ شرف اور مقام بھی ایک عورت کو نصیب ہوا کہ اسلام کی اشاعت اور سربلندی ک لیے اسی کا خون گرا اور وہ شہادت کے مرتبے سے سرفراز ہوئی (سیدہ سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) اور قرآن میں کوئی سورت۔۔۔ سورت الرجال کے نام سے نہیں ہے اور عورتوں کے نام سے سورت النساء موجود ہے)
سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بعد سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایمان کی دعوت پر لبیک کہا۔۔۔ علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے۔۔۔ کہ ایک دن سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے وقت میں نبی اکرمﷺ کے گھر آئے دیکھا کہ نبی اکرمﷺ اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دونوں نماز میں مشغول ہیں۔۔۔ پوچھا یہ کیا معاملہ ہے۔۔۔؟ آپ نے فرمایا:

دِیْنُ اللہِ الَّذِیْ اِصْطَفٰی لِنَفْسِہٖ وَبَعْثَ بِہٖ رُسُلَہٗ
یہ اللہ کا دین ہے جسے اللہ رب العزت نے اپنے لیے پسند فرمایا اور اسی دین کے پھیلانے کے لیے اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا۔
میں تمہیں اللہ وحدہ لا شریک کی طرف دعوت دیتا ہوں جو اکیلا الٰہ اور اکیلا معبود ہے اور اللہ کے سوا ہر ایک کی معبودیت والوہیت کا انکار کرواتا ہوں۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب کہا۔۔۔ آپ کی دعوت نرالی اور انوکھی دعوت ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں سنی گئی۔۔۔ میں اپنے والد ابو طالب سے پوچھنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کر پائوں گا۔
نبی اکرمﷺ چاہتے تھے کہ دین اسلام کی اعلانیہ دعوت سے پہلے اس بات کو ظاہر اور فاش نہ کیا جائے۔۔۔ اس لیے آپ نے فرمایا۔۔۔ اگر تم اس دعوت کو اور اس دین کو قبول نہیں کرتے ہو تو ا س کا تذکرہ اپنے والد سے نہیں کرنا۔۔۔ اسے ابھی پوشیدہ اور مخفی رکھو۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس رات خاموش رہے اور اس دعوت کے قبول کرنے یا نہ کرنے پر غور کرتے رہے۔۔۔ ثُمَّ اِنَّ اللہَ اَوْقَعُ فِیْ قَلْبِ عَلَی الْاِسْلَامِ
پھر اللہ نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں اسلام ڈال دیا۔
صبح ہوتے ہی سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔۔۔ کل آپ نے مجھے کیا دعوت دی تھی۔۔۔؟ آپ نے فرمایا۔۔۔ تم اس بات کی شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ اور معبود نہیں ہے۔۔۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کلمۂ شہادت کا اقرار کر لیا۔۔۔ مگر اپنے والد کے ڈر سے اپنے اسلام کو چھپائے رکھا اور کسی پر ظاہر نہیں کیا۔ (البدایہ والنہایہ: 3\24)
علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ہیں اور انہوں نے محمد بن کعب سے نقل کیے ہیں:

کَانَ عَلِیْ یَکْتُمُ اِیْمَانَہٗ خَوْفًا مِنْ اَبِیْہِ
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد کے ڈر سے ایمان کو چھپاتے تھے۔
(ایک لمحہ کے لیے یہاں ٹھہرئیے! اور علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کے ان الفاظ پر غور فرمائیے۔۔۔!)
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ سے ملے تو آپ نے انہیں دعوتِ ایمان دی اور ان الفاظ کے ساتھی دی۔۔۔ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اَدْعُوْکَ اِلَی اللہِ
میں اللہ کا رسول ہوں اور تجھے اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔
جونہی آ پ کی زبان مقدس سے یہ دعوتی جملہ مکمل ہوا۔۔۔ کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ ہی کی معبودیت کی دعوت دیتا ہوں۔۔۔ تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر۔۔۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ تم اللہ کے رسول ہو تو میں تیرا پہلا (امتی) ماننےوالا ہوں۔
فَلَمَّا فَرَغَ کَلَامَہٗ اَسْلَمَ اَبُوْبَکْر (البدایہ والنہایہ: 3\39)
نبی اکرمﷺ نے جونہی اپنی دعوت مکمل کی ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لے آئے۔
امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی خوبصورت بات کہہ کر تمام روایات میں تطبیق دے دی کہ
آزاد مردوں میں سب سے پہلے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے۔۔۔ عورتوں میں سب سے پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایمان لائیں۔۔۔ بچوں میں سب سے پہلے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے ۔۔۔ اور غلاموں میں سب سے پہلے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے۔ (البدایہ والنہایہ: 3\29)
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر قبولِ اسلام کے وقت آٹھ یا دس سال کی تھی۔۔۔ مگر اس عمر کا فائدہ اٹھا کر انہوں نے اسلام کے ارادے سے مکہ آنے والے لوگوں کی راہنمائی کرتے تھے۔۔۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت نقل کی یہے کہ مشہور صحابی ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان قبول کرنے کی غرض سے مکہ تشریف لائے چونکہ نبی اکرمﷺ کو پہچانتے نہیں تھے اور کسی سے دریافت کرنا اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنے کے مترادف تھا۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دو دن انہیں بیت اللہ میں دیکھتے رہے۔۔۔ آخر کار پوچھ لیا کہاں سے آئے ہو اور کیوں آئے ہو۔۔۔؟ سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنے تئیں ڈرے ہوئے ہیں۔۔۔ کیا تم اگر وعدہ کرو کہ میرے ساتھ تعاون کرو گے اور میری راہبری کرو گے تو میں بتاتا ہوں۔۔۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وعدہ کرنے پر انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا۔۔۔۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔۔۔ یقینا وہ اللہ کے رسول ہیں اور ان کی دعوت حق اور سچ کی دعوت ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑی حکمت عملی اور بڑی سمجھداری سے سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لے کر نبی اکرمﷺ کی خدمت میں پہنچے۔۔۔ اور نبی اکرمﷺ کی دعوت پر ایمان لے آئے۔ (بخاری: 1\545، مسلم: 1\295)
ہجرتِ مدینہ نبی اکرمﷺ نے مکہ مکرمہ میں مسلسل تیرہ سال دعوتِ توحید کو پیش فرمایا۔۔۔ مشرکین نے اس دعوت کو روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔۔۔ پتھروں کی بارش۔۔۔ راستے میں کانٹے۔۔۔ سروں پر گندی اوجڑیاں۔۔۔ گلے میں رسیاں۔۔۔ طعنے۔۔۔ فتوے۔۔۔ پھبتیاں۔۔۔ کذّاب ہے۔۔۔ العیاذ باللہ مجنون ہے۔۔۔ شاعر ہے۔۔۔ ساحر ہے۔۔۔ مشرکین ظلم کے جتنے پہاڑ توڑتے۔۔۔ مسلمان اتنے ہی ثابت قدم رہتے۔۔۔ دعوتِ توحید دن بدن بڑھتی چلی گئی۔۔۔ مسلمانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہونے لگا۔
آخر کار مشرکین نے نبی اکرمﷺ کو قتل کرنے کا متفقہ فیصلہ کر لیا۔۔۔ اور ہر قبیلے کا ایک جوان اسلحہ سے لیس ہو کر انہوں نے کاشانۂ نبوت کا گھیرائو کر لیا۔
اللہ رب العزت نے وحی کے ذریعے آپ کو مشرکین کی اس سازش سے آگاہ کر دیا۔۔۔ اور ساتھ ہی حکم دیا کہ آپ گھر سے نکلیں۔۔۔ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہمراہ لے کر مدینہ کی جانب ہجرت فرمائیں۔
نبی اکرمﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ میری چادر اوڑھ کر سو جائو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ (البدایہ والنہایہ: 3\176)
مشرکین کی امانتیں۔۔۔ ہاں انہیں مشرکین کی جو تلوار سونت کر گھر سے باہر کھڑے تھے کہ محمدﷺ کو قتل کر دیں گے۔۔۔ آپ کے پاس موجود تھیں۔۔۔ مشرکین اس حد تک آپ کی امانت ودیانت کے قائل تھے اور آپ کو محمدﷺ امین کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔۔۔ آپ نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا۔۔۔ مشرکین کی یہ امانتیں ان کے سپرد کرکے تم بھی مدینہ آجانا۔
سامعین گرامی قدر! اس رات بسترِ رسول پر سونا سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا بہادر اور شجاع ہی کا کام تھا۔۔۔ دلیر علی۔۔۔ نڈر علی۔۔۔۔ بسترِ رسول پر چادر تان کر بے خوف وخطر سو گیا۔
نبی اکرمﷺ نے ایک مٹھی بھر مٹی ہاتھ میں لی ور گھر سے باہر آگئے۔۔۔ اللہ رب العزت نے کفار کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے۔۔۔ آپ مٹی ان کے سروں پر پھینکتے ہوئے صاف بچ نکلے۔۔۔ آپ سورت یٰسین کی یہ آیت پڑھتے ہوئے نکلے:
فاغشینٰھم فہم لا یبصرون (یٰسین: 9)
ہم نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تو انہیں کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔
اللہ رب العزت نے مشرکین کو اندھا کر دیا۔۔۔ نبی اکرمﷺ ان کے اندر سے ہو کر نکل گئے مگر نبی اکرمﷺ کو دیکھ نہ سکے۔
(مشرکین اس دن جو اندھے ہوئے آج تک اندھے ہیں۔۔۔ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ حاضروناظر ہیں۔۔۔ ہماری مجلسوں میں موجود ہیں مگر ہمیں نظر نہیں آتے)
صبح کے وقت مشرکین نے جھانک کر دیکھا تو بسترِ رسول پر سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو موجود پایا۔۔۔ ان سے نبی اکرمﷺ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:
لَا عَلْمَ لِیْ بِہٖ (طبقات ابن سعد: 1\228)
مجھے ان کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ کے حکم کے مطابق مشرکین کی امانتیں ان کے سپرد کرکے تین دن کے بعد مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوئے۔۔۔ ہجرت کا سفر انتہائی مشکل اور دشوار تین سفر تھا۔۔۔ اوپر سے دشمن کا خوف۔۔۔ دن کو چھپے رہتے اور رات کے پہروں میں پتھریلی زمین پر چلتے رہے۔۔۔ پائوں پر ورم آگیا۔۔۔ چھالوں نے قدموں پر گھر بنا لیا۔۔۔ پانچ سو کلو میٹر کا طویل ترین اور دشوار ترین سفر اور اکیلا مسافر۔
دن رات کے طویل سفر کو طے کرکے اس جگہ پہنچے جہاں رحمت کائناتﷺ کا قیام تھا۔۔۔ نبی اکرمﷺ کو پتہ چلا تو فرمایا۔۔۔ علی کو بلائو۔۔۔ ساتھیوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کے پائوں سوج گئے ہیں۔۔۔ اور وہ چلنے سے معذور ہیں۔۔۔ آپ خود چل کر سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے۔۔۔ فرطِ مسرت سے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گلے لگایا۔۔۔ سر پر بوسہ دیا۔۔۔ سبحان اللہ! پائوں کے ورم کو دیکھا تو نبوت کی مبارک آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔۔ آپ نے اپنا لعابِ دہن ان کے پائوں پر لگایا۔۔۔ اور ہاتھ پھیرا۔۔۔ ان اثیر نے الکامل میں لکھا کہ نبی اکرمﷺ کے لعاب دہن لگانے کے بعد ساری زندگی سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیروں کو بھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ (ابن اثیر: 2\106)
یہ سب باتیں جو میں نے بیان کی ہیں۔۔۔ یہ سب کی سب تفصیل تاریخ کی کتب میں ہے۔۔۔ حدیث کی معتبر ترین کتاب بخاری میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے سے جو روایت ہے اس میں ان باتوں کا تذکرہ نہیں ہے۔۔۔ بخاری کی روایت کے مطابق ہجرت کا سفر دوپہر کے وقت ہوا تھا رات میں نہیں ہوا۔ (بخاری: 1\552)
بخاری کی روایت میں ہے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر آپ کی تشریف آوری کا تذکرہ موجود ہے۔۔۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹیوں (سیدہ اسماء، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کا ذکر بھی موجود ہے۔۔۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر سے غارِثور تک جانے کا تذکرہ بھی موجود ہے۔۔۔ بخاری کی روایت میں بسترِ رسول پر سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سونے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ میں قبولِ اسلام کے وقت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچے تھے۔۔۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کارہائے نمایاں اور اسلام کی خدمات ہجرت کے بعد شروع ہوئیں۔
چنانچہ ہجرتِ مدینہ کے بعد سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر وہ کام کیا اور ہر وہ خدمت سرانجام دی اور ہر وہ قربانی پیش کی جو ایک نوجوان کر سکتا ہے۔
جنگ بدر ہو یا غزوۂ اُحد ہو۔۔۔ یا خندق کا معرکہ ہو۔۔۔ یا خیبر کی جنگ ہو۔۔۔ یا حدیبیہ کا سفر ہو۔۔۔ ہر مقام پر سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نمایاں اور امتیازی شان کے ساتھ نظر آتے ہیں۔
نبی اکرمﷺ نے مدینہ پہنچ کر مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین اور مدینہ کے انصار کے درمیان موأخات اور بھائی چارے کا رشتہ قائم فرمایا۔
اللہ گواہ ہے آسمان نے ایسا اخوت کا رشتہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ نبی اکرمﷺ کے ایک فرمان پر عمل کرتے ہوئے۔۔۔ دو اجنبی شخص ایسے گہرے بھائی بنے کہ سگے بھائی بھی ایسے ایثار والے نہ ہوں۔۔۔ نبی اکرمﷺ نے سیدنا علی اور سیدنا سہیل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے درمیان بھائی چارہ کا تعلق قائم فرمایا۔ (طبقات ابن سعد: 3\23)
کچھ روایات ایسی بھی لوگ پیش کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس موقع پر اپنا بھائی بنایا اور ان کی موأخات اپنی ذات سے قائم فرمائی۔
مگر یہ روایت، درایت کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں اور روایت کے لحاظ سے بھی غلط ہے۔۔۔ نبی اکرمﷺ بھی مہاجر تھے اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مہاجر تھے۔۔۔ مہاجر کا دوسرے مہاجر سے رشتۂ اخوت قائم کرنے کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔۔۔ پھر نبی اکرمﷺ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں چچازاد بھائی ہونے کے ناطے رشتۂ اخوت میں بندھے ہوئے تھے۔
اسی رشتے کا لحاظ کرتے ہوئے نبی اکرمﷺ نے کسی موقع پر سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا بھائی کہا ہو گا۔۔۔ جسے کچھ غلط کار لوگوں نے مدینہ منورہ کی موأخات کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ (تحقیق وجستجو کے شائق لوگ البدایہ والنہایہ جلد 3صفحہ 241کا مطالعہ فرمائیں، انہوں نے اس پر بہت عمدہ بحث اور گفتگو فرمائی ہے)
غزوۂ بدر اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سن 2ہجری تھا اور رمضان المبارک کا مقدس مہینہ تھا کہ اسلام اور کفر کے مابین پہلا معرکہ ہوا۔۔۔ حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کن جنگ ہوئی۔۔۔ اسی غزوہ نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا۔۔۔ اس دور میں۔۔۔ جنگ کی ابتدا میں بہار اور دلیر شہسوار میدان میں آکر اپنا مقابل طلب کرتے اور ھَلْ مِنْ مُبَارِزٍکا نعرہ لگاتے۔۔۔ یعنی ہے کوئی جو میرے مقابلہ میں آئے؟
غزوۂ بدر میں مشرکین کی طرف سے تین بہادر سب سے پہلے میدان میں کودے۔۔۔ عتبہ بن ربیعہ۔۔۔ اس کا بھائی شیبہ بن ربیع۔۔۔ اور عتبہ کا بیٹا ولید۔۔۔ انہوں نے نعرہ لگایا۔۔۔ ھَلْ مِنْ مُّبَارِزٍ۔۔۔ ان کے مقابلے میں سیدنا حمزہ۔۔۔ سیدنا علی۔۔۔ اور سیدنا عبیدہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہم میدان میں آئے۔
عتبہ کا مقابلہ سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا۔۔۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولید بن عتبہ کے سامنے آئے۔۔۔ اور سیدنا عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقابلہ شیبہ سے ہوا۔۔۔ ان تینوں نے مشرکین کے تینوں شہسواروں کا غرور خاک میں ملا دیا اور انہیں جہنم واصل کر دیا۔
غزوۂ بدر کے موقع پر ۔۔۔ کچھ لوگوں کا۔۔۔ بعض کمزور نظریہ رکھنے واے سنی بھی۔۔۔ اور تمام کے تمام اہل تشیع اس بات کے قائل ہیں اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اس موقع پر اپنی تلوار سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عنایت فرمائی جسے ذوالفقارِ علی کا نام دیا گیا۔
آپ سن کر حیران ہوں گے کہ یہ بات کسی مستند حوالے سے ثابت نہیں ہے بلکہ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منیّہ بن حجاج نامی ایک مشرک کو قتل کیا۔۔۔ ذوالفقار نام کی تلوار اسی مشرک کی تھی جو مالِ غنیمت میں حاصل ہوئی۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی عجیب بات تحریر کی ہے:

اِنَّ ذَالْفِقَارَ لَمْ یَکُنْ لِعِلِیٍّ
ذوالفقار نام کی تلوار سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نہیں تھی۔
اِنَّمَا کَانَ سَیْفًا مِنْ سُیُوْفِ اَبِیْ جَھْلٍ
بلکہ ذوالفقار نامی تلوار ابوجہل کی تلواروں میں سے ایک تلوار تھی۔۔۔ جیسے غزوۂ بدر کے دن غنیمت میں حاصل کیا گیا۔
مزہ اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس تلوار کا نام پہلے ہی ذوالفقار تھا۔۔۔ مالِ غنیمت میں یہ تلوار حاصل ہوئی۔۔۔ کسی مستند کتاب میں نہیں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے یہ تلوار سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عنایت کی ہو۔۔۔ مگر اہل تشیع نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت کو ثابت کرنے کے لیے یہ کہانی گھڑی اور تراشی۔
اصول کافی میں ایک روایت ہے کہ ایک شخص نے امام رضا سے پوچھا کہ ذوالفقار تلوار کہاں سے آئی تھی۔۔۔؟ امام رضا نے جواب دیا کہ یہ تلوار جبریل آسمان سے لائے تھے اور اس کا قبضہ چاندی کا تھا۔ (الشافی شرح اصول کافی: 1\267)
تلوار آسمان سے اتری۔۔۔ جبریل لے کر آیا۔۔۔ یہ سب افسانے ہیں۔۔۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت اور شان بڑھانے کے لیے ایسے افسانے اور ایسی کہانیاں گھڑنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام اور مرتبہ۔۔۔ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان اور مقام ویسے کچھ کم ہے؟ وہ پروردۂ نبوت ہیں۔۔۔ نبی اکرمﷺ کے عم زاد ہیں۔۔۔ بچوں میں پہلے مومن ہیں۔۔۔ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔۔۔ بہادر اور شجاع ایسے کہ بدرواحد کے میدان آج بھی اس کی شہادت دے رہے ہیں۔۔۔ دلیر اور باہمت ایسے کہ خیبر کے قلعے اس کے گواہ ہیں۔۔۔ ان کی عظمت کو ثابت کرنے کے لیے من گھڑت قصوں اور کہانیوں کی بھلا کیا ضرورت ہے؟
غزوۂ اُحد اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ بدر میں مشرکین مکہ کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔ بڑے بڑے چوہدری میدان میں ذلت کی موت مر گئے۔۔۔ بہت سے قیدی بنے۔ بدر کی شکست نے مکہ کے ہر کافر کو برانگیختہ کر دیا اور وہ انتقام کی آگ میں جلنے لگے۔۔۔ مشرکین نے پوری تیاری کر کے۔۔۔ آلاتِ جنگ سے لیس ہو کر تین ہجری میں مشرکین مکہ نے مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے لشکر کشی کی۔۔۔ نبی اکرمﷺ نے مشورے کے بعد طے کیا کہ مدینہ سے باہر نکل کر مشرکین سے دو دو ہاتھ کرنے چاہئیں۔
نبی اکرمﷺ نے احد کو پشت پر رکھ کر لشکر اسلام کی صف آرائی فرمائی۔۔۔ فوج کا علم سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا۔۔۔ اور پچاس افراد پر مشتمل ایک دستہ ایسے درے پر کھڑا کیا گیا جہاں سے مشرکین کے حملہ آور ہوے کا خطرہ تھا۔۔۔ غزوۂ اُحد کے دن سیدنا حمزہ، سیدنا ابو دجانہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شجاعت اور دلیری لائقِ دید تھی۔۔۔ وہ کفار کے لشکر میں گھس کر انہیں واصل جہنم کر رہے تھے۔
مشرکین کو پہلے مرحلہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔۔۔ مسلمان مالِ غنیمت سمیٹنے میں مصروف ہو گئے تو درے پر متعین پچاس صحابہ میں سے اکثر نے درہ خالی کر دیا۔
درہ خالی دیکھ کر کفار کے لشکر نے عقب سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔۔۔ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو لشکر اسلام کے علمبردار تھے اور شکل وصورت میں نبی اکرمﷺ کے قدرے قریب تھے۔۔۔ وہ بھی جامِ شہادت نوش کر گئے۔۔۔ میدان میں افواہ اُڑ گئی کہ محمدﷺ شہید ہو گئے ہیں۔۔۔ اس افواہ نے مسلمانوں کے ہوش وحواس اُڑا دیئے۔۔۔ تلواریں ان سے ہاتھ سے گر گئیں۔
سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد لشکر اسلام کا علم سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنبھالا اور آخر تک اس علم کی حفاظت کی۔
مشرکین کی فوج کے علمبردار طلحہ بن عثمان نے جب مسلمانوں کو للکارا تو سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی اس کی طرف بڑھے اور اس پر تلوار کا ایک کاری وار کیا کہ اس کا پائوں کٹ گیا اور وہ سواری سے نیچے گر گیا۔۔۔ گرتے ہی اس کی شرم گاہ سے کپڑا ہٹ گیا۔۔۔ وہ رحم کی اپیل کرنے لگا اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے بہادر نے اسے چھوڑ دیا۔ (ابن اثیر: 2\152)
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کی شہادت کی خبر اُڑنے کے بعد سب سے پہلے میں نے آپ کو دیکھا اور میں نے بلند آواز سے مسلمانوں کو آواز لگائی:

یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْنَ اَبْشِرُوْا ھٰذَا رَسُوْلُ اللہِﷺ حَتّٰی لَمْ یَقْتُلْ
مسلمانو! تمہیں بشارت ہو یہ اللہ کے رسول ہیں اور شہید نہیں ہوئے۔
مسلمانوں کے کانوں میں جب خوشخبری کی یہ آواز پہنچی تو وہ سنبھلے اور دوڑ کر اس گھاٹی کے قریب پہنچے اس وقت آپ کے ساتھ سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم موجود تھے۔ (ابن اثیر: 2\175)
نبی اکرمﷺ کی شہادت کی خبر اُڑتے اُڑتے مدینہ تک جا پہنچی۔۔۔ ویسے بھی مدینہ کی بستی اُحد سے کچھ زیادہ فاصلہ پر نہیں تھی۔۔۔ لوگ بھاگتے ہوئے میدانِ اُحد میں پہنچے۔۔۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی دوڑتی ہوئی اُحد کے میدان میں پہنچ گئیں۔۔۔ اپنے مشفق والد کو زخمی دیکھ کر افسردہ ہو گئیں۔۔۔ حالت یہ تھی کہ نبی اکرمﷺ کے چہرۂ پُرانوار سے خون جاری تھا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ڈھال میں پانی بھر کر لاتے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی اکرمﷺ کے چہرۂ مبارک سے خون کو صاف کرتیں اور پانی سے دھوتیں۔ (بخاری: 2\584)
غزوۂ خندق اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ کو ہجرت فرمائے تقریباً پانچ سال ہو رہے تھے کہ مشرکین مکہ نے دوسرے کفار قبائل کو اپنے ساتھ ملا کر دس ہزار کے ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کر دی۔
نبی اکرمﷺ نے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے سے مدینہ کے گرد خندق کھودی تاکہ کفار آسانی کے ساتھ مدینہ کی جانب نہ آسکیں۔۔۔ سخت سردی کا موسم تھا اور مسلسل فاقے تھے۔۔۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایک طویل خندق کھود دی۔
مشرکین کے کچھ بہادر سپاہی ایک تنگ جگہ سے خندق کو عبور کرکے اندر آگئے۔۔۔ ان میں ایک زبردست پہلوان عمر بن عبد ود بھی تھا۔۔۔ اسے ایک ہزار فوجیوں کے برابر گردانا جاتا تھا۔۔۔ بڑا تجربہ کار اور جنگجو سپاہی تھا۔۔۔ اگرچہ اس وقت اس کی عمر تقریباً نوے سال تھی۔۔۔ مگر اس نے خند ق پار کرکے ھَلْ مِنْ مُّبَارِزٍ کا نعرہ لگایا۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے مقابلے میں نکلے۔۔۔ نبی رحمتﷺ نے اپنے مبارک ہاتھ سے انہیں تلوار عنایت فرمائی۔۔۔ سر پر عمامہ باندھا اور دعائیں دے کر میدان کی جانب بھیجا۔
دونوں بہادر آمنے سامنے آئے۔۔۔ عمرو بن عبد ود نے تلوار کا وار کیا جو سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ڈھال پر روکا۔۔۔ مگر اس کی تلوار ڈھال کو چیر کر سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیشانی پر لگی۔۔۔ زخم اگرچہ معمولی تھا مگر اس زخم کا نشان آپ کی پیشانی پر اپنے نشان چھوڑ گیا۔۔۔ پھر دونوں کی تلواریں چلنے لگیں۔۔۔ ایک دوسرے پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔۔۔ آخر کار سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلوار نے اس کا کام تمام کر دیا۔۔۔ ساتھ ہی سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر مسلمانوں کو اطلاع دی کہ کامیابی نے میرے قدم چومے ہیں۔ (البدایہ والنہایہ: 4\105)
صلح حدیبیہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ذیقعدہ کا مہینہ تھا اور چھ ہجری تھی کہ نبی اکرمﷺ اور چودہ سو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم عمرے کا احترام باندھ کر عازمِ بیت اللہ ہوئے۔۔۔ مشرکین نے آپ کو روکنے کے بڑے حربے استعمال کیے۔۔۔ آپ مکہ سے چند میل کے فاصلے پر حدیبیہ کے مقام پر رک گئے۔۔۔ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ کے سفیر بن کر مکہ پہنچے مگر مذاکرات ناکام ہو گئے۔۔۔ مشرکین کے وفود بھی آتے رہے۔۔۔ آخر کار سہیل بن عمرو کے ساتھ آپ کے مذاکرات کامیاب ہو گئے اور کچھ شرائط پر اتفاق ہو گیا۔۔۔ نبی اکرمﷺ نے معاہدہ کی تحریر لکھوانے کے لیے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو طلب فرمایا۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معاہدہ سے پہلے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ تحریر فرمایا۔۔۔ سہیل بن عمرو نے اس پر اعتراض کر دیا کہ ہم تو بِاِسْمِکَ اَللّٰھُمَّ لکھا کرتے ہیں۔۔۔ لہٰذا وہی تحریر کیا جائے۔
نبی اکرمﷺ نے اسے منظور فرما لیا کیونکہ دونوں کا مفہوم تقریباً ایک ہی ہے۔۔۔ اب سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معاہدہ کی ابتدا میں لکھا:

ھٰذَا مَا قَاضِیْ عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ
یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہﷺ اور سہیل بن عمرو کے مابین ہے۔
سہیل بن عمرو نے اس پر بھی اعتراض اٹھا دیا۔۔۔ کہنے لگا اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول تسلیم کرتے تو پھر ہم تمہیں بیت اللہ آنے سے کیوں روکتے؟ پھر آپ کے اور ہمارے درمیان جھگڑا اور لڑائی کیسی۔۔۔؟ لہٰذا آپ صرف اپنا نام اور اس کے ساتھ اپنے والد کا نام تحریر کروائیں۔۔۔ یعنی محمد بن عبد اللہ۔
آپ نے فرمایا۔۔ سہیل! تم لوگ بھلے میری تکذیب کرو اور مجھے جھٹلاتے رہو لیکن بیت اللہ کے رب کی قسم ہے میں اللہ کا رسول ہوں۔ نبی اکرمﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا جس طرح سہیل کہہ رہا ہے اسی طرح تحریر کرو۔۔۔ محمد رسول اللہ کاٹ کر محمد بن عبد اللہ لکھ دو۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑھ کر محب رسول کون ہو سکتا ہے۔۔۔؟ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑھ کر نبی اکرمﷺ کا فرمانبردار کون ہو سکتا ہے۔۔۔؟ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ کی حکم عدولی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
مگر الفت ومحبت میں کچھ مقام ایسے بھی آتے ہیں جہاں فرمانبرداری سے بعض اوقات انکار پر کروڑوں فرمانبرداریاں قربان۔۔۔ یہاں بھی وہی وقت تھا جب سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں عرض کیا:
علی کے ہاتھ کٹ سکتے ہیں مگر محمدﷺ کے ساتھ رسول اللہ کے لکھے ہوئے الفاظ مٹا نہیں سکتے۔
نبی اکرمﷺ نے فرمایا پھر مجھے دکھائو کہ میرا نام کس جگہ پر لکھا ہوا ہے۔۔۔ چنانچہ نبی اکرمﷺ نے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کے الفاظ کاٹ دیئے۔ (مسلم: 2\104)
(یہاں ایک لمحہ کے لیے رکیے۔۔۔! وفات سے چند دن پہلے نبی اکرمﷺ کے قلم دوات کے طلب کرنے پر سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حَسْبُنَا کِتَابُ اللہِ کہنا ایک طبقہ کے نزدیک جرم بن گیا۔۔۔ کہ نبی اکرمﷺ کے حکم کو تسلیم نہیں کیا۔۔۔ حالانکہ نبی اکرمﷺ نے وہاں سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خاص کرکے حکم نہیں دیا گیا اور یہاں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خاص کرکے فرمایا تھا۔۔۔۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انکار کرنا جرم نہیں تو پھر سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حَسْبُنَا کِتَابُ اللہِ کہنا جرم کیوں بن گیا؟ )
غزوۂ خیبر اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صلح حدیبیہ کے بعد سات ہجری میں نبی اکرمﷺ نے صلح حدیبیہ میں شریک چودہ سو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ خیبر پر حملہ کر دیا۔۔۔ خیبر عرب میں یہودیوں کا سب سے بڑا اور مضبوط مرکز تھا۔۔۔ بنو نضیر اور دوسرے قبیلے جنہیں مدینہ سے جلا وطن کر دیا گیا تھا یہیں آکر آباد ہوئے۔۔۔ اور مسلمانوں کے خلاف مختلف سازشوں میں سرغنے کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔
خیبر کی بستی میں کئی قلعے تھے۔۔۔ جنہیں مختلف صحابہ کی کمان میں فتح کر لیا گیا۔۔۔ ایک قلعہ الغموص کے نام سے معروف تھا جس کا سپہ سالار عرب کا مشہور پہلوان مرحب تھا۔
نبی اکرمﷺ نے ایک دن فرمایا۔۔۔ کل جھنڈا اسے دوں گا جس کے ہاتھ سے اللہ رب العزت اس قلعہ کو فتح فرما دے گا اور وہ شخص اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اس کا رسول اس کے ساتھ محبت کرتے ہوں گے۔
صبح کے وقت نبی اکرمﷺ نے فرمایا۔۔۔ علی کہاں ہے۔۔۔؟ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھیں خراب تھیں اور وہ لڑنے کے قابل نہیں تھے۔۔۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے۔۔۔ آپ نے اپنا لعابِ دہن ان کی دکھتی ہوئی سرخ آنکھوں پر لگایا۔۔ آنکھیں درست ہو گئیں۔۔۔ نبی اکرمﷺ نے دعا دے کر رخصت فرمایا۔ (بخاری: 2\605، مسلم: 2\279)
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قلعہ قموص کے سالار مرحب کو قتل کر دیا اور یوں بیس دنوں کے بعد یہ قلعہ بھی فتح ہو گیا۔
خیبر کے اس واقعہ میں۔۔۔ قلعۂ قموص کے دروازے کے بارے میں اور مرحب کو قتل کرنے کے متعلق کئی مضحکہ خیز باتیں مؤرخین نے کی ہیں۔۔۔ مثلاً علامہ شبلی نے ایک روایت نقل کی ہے:
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تلوار کے وار کو مرحب نے ڈھال پر روکا مگر ذوالفقار مرحب کے سر پر چڑھے ہوئے خود اور سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک جا پہنچی۔۔۔ مرحب کے قتل ہونے پر یہود نے حملہ کر دیا تو اتفاقاً ڈھال سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے گر گئی، انہوں نے قلعہ کا دروازہ اکھاڑ کر اسے ڈھال بنا لیا، بعد میں چالیس آدمیوں نے اس دروازے کو اٹھانے کی کوشش کی مگر نہ اٹھا سکے۔
(اتنے بڑے اور اتنے وسیع وعریض دروازے کو ڈھال کے طور پر کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔۔۔؟ عقل اور درایت کے پیمانے پر یہ بات پوری نہیں اترتی۔۔۔ ایسی روایات ابن اسحاق اور حاکم نے روایت کی ہیں مگر سب جھوٹ ہے۔۔۔ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔۔۔ کُلُّھَا وَاھِیَۃٌ۔۔۔ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے میزان الاعتدال میں بھی ایسی روایات کو مجروح قرار دیا ہے۔۔ ایک مخصوص گروہ نے ایسی روایات کو شہرت دے دی جن میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بے حد مبالغہ سے کام لیا گیا ہے)
آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ قلعۂ قموص کے سالار مرحب کے قاتل کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ اسے سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتل کیا تھا۔۔۔ مرحب جب ھَلْ مِنْ مُّبَارِزٍ کا نعرہ لگاتا ہوا قلعہ سے باہر آیا تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا اس کے مقابلے میں کون جائے گا۔۔۔؟ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا۔۔۔ یا رسول اللہ! اس نے کل میرے بھائی کو قتل کیا تھا اس لیے اس کے مقابلے میں۔۔۔ میں جائوں گا۔ نبی اکرمﷺ نے دعا دے کر انہیں مرحب کے مقابلے میں بھیجا۔
وَضَرَبَہٗ مُحَمَّدٌ بْنُ مَسْلَمَہ حَتّٰی قَتَلَہٗ (سیرت ابن ہشام: 2\47)
محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے ضرب لگائی اور اسے قتل کر دیا۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ طبری جو نظریۃً اہل تشیع ہے اس نے اپنی تاریخ میں یہی لکھا۔۔۔ اور علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مرحب کا قاتل سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قرار دیا۔ (طبری: 2\299، البدایہ والنہایہ: 2\188)
فتح مکہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشرکین مکہ نے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی تو آپ نے مشرکین مکہ سے جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اپنے طور پر تیاری کر لو ہم عنقریب مکہ کی جانب روانہ ہوں گے۔۔۔ اس تمام تر کارروائی اور تیاری کو انتہائی مخفی رکھا گیا تاکہ مشرکین کو اس کی خبر نہ ہو۔
ایک بدری صحابی ہیں سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۔۔ ان کے بال بچے ابھی تک مکہ میں تھے اور بچوں کے علاوہ دوسرا کوئی رشتہ دار وہاں موجود نہیں تھا۔۔۔ جو ان کے اہل وعیال کی دیکھ بھال یا حفاظت کرے۔
ان کے دل میں آیا کہ قریش پر ایک احسان کر دوں تاکہ اس احسان کے بدلے وہ میرے اہل وعیال کا خیال اور لحاظ کریں۔۔۔ انہوں نے قریش مکہ کو خط لکھا کہ نبی اکرمﷺ اہل مکہ پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں۔۔۔ وہ خط انہوں نے مکہ جانے والی ایک عورت کے حوالے کر دیا کہ قریش تک یہ خط پہنچا دے۔۔۔ اس عورت نے اس خط کو سر کے جوڑے میں چھپا لیا اور بسوئے مکہ روانہ ہو گئی۔
نبی اکرمﷺ نے سیدنا علی، سیدنا زبیر، سیدنا مقداد اور سیدنا ابو مرثد غنوی (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کو بھیجا کہ ایک عورت جو تمہیں خاخ کے مقام پر ملے گی (مکہ اور مدینہ کے درمیان۔۔۔ مدینہ سے تقریباً بیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے) تمہیں اونٹ پر سوار ایک عورت ملے گی اسے پکڑو اور اس کے پاس ایک خط ہے جو وہ قریش کو پہنچانے جا رہی ہے۔۔۔ وہ خط اس سے لے کر مجھے پہنچائو۔
یہ حضرات گھوڑوں پر سوار ہو کر نکلے۔۔۔ وہ عورت عین اسی مقام پر مل گئی جو مقام نبی اکرمﷺ نے بتایا تھا۔۔۔ پوچھنے پر اس عورت نے خط سے انکار کیا۔۔۔ اس کے کجاوے کو کھولا گیا مگر خط نہ ملا۔۔۔ عورت خط سے مسلسل انکار کرتی رہی۔۔۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
میں اللہ رب العزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ نبی اکرمﷺ نے کبھی غلط بات نہیں کہی۔۔۔ خلافِ واقعہ بات آپ نہیں کہتے اور ہم بھی غلط بیانی نہیں کر رہے۔
(آسمان نیچے آ سکتا ہے اور زمین اوپر جا سکتی ہے، پہاڑ اپنی جگہ سے سرک سکتا ہے اور سمندر راستہ بدل سکتا ہے، سورج اپنی روشنی کھو سکتا ہے اور چاند بے نور ہو سکتا ہے، ستارے جگمگانا بھول سکتے ہیں، تقدیر بدل سکتی ہے، اور تدبیر ٹل سکتی ہے، مگر محمد عربیﷺ کی کوئی بات غلط نہیں ہو سکتی)
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔۔۔ تمہیں وہ خط دینا پڑے گا ورنہ ہمیں برہنہ کرکے تلاشی لینی پڑی تو ہم اس سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔۔۔ اس عورت نے محسوس کیا کہ یہ لوگ مجھے چھوڑنے والے نہیں ہیں تو اس نے سر کے بالوں سے خط کھول کر ان کے حوالے کر دیا۔۔۔ خط نبی اکرمﷺ تک پہنچا۔۔۔ آپ نے سیدنا حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات سن کر اعتبار فرمایا اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اجازت طلب کی کہ میں اس کا سر قلم کر دوں؟
تو آپ نے فرمایا۔۔۔ عمر! تمہیں معلوم نہیں حاطب بدری ہے اور اللہ نے اصحابِ بدر کے متعلق فرمایا ہے:

اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ قَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ
تم جو دل میں آئے عمل کرو اللہ نے تمہیں معاف فرما دیا ہے۔
نبی اکرمﷺ رمضان المبارک کے مہینے میں آٹھ ہجری میں دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ہمراہ مکہ کے فاتح بن کر مکہ میں داخل ہوئے۔۔۔ آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے۔۔۔ مشرکین نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے تعمیرہ کردہ اللہ کے گھر میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔۔۔ نبی اکرمﷺ نے ایک لکڑی کی نوک سے ایک ایک بت کو گرا دیا۔
لوگوں میں مشہور یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرمﷺ کے کندھوں پر چڑھ کر اونچائی پر نصب تصویروں کو توڑا تھا۔۔۔ مگر یہ بات درست نہیں ہے اور تاریخ وسیرت کی کتب بھی اس کی تائید نہیں کرتیں۔۔۔ قدم مؤرخین اور محدثین میں سے کسی نے بھی اس کو نقل نہیں کیا۔۔۔ یار لوگوں نے محبت علی کے پردے میں اسے مشہور کر دیا۔
تمام علماء نے یہی لکھا ہے کہ ان تمام بتوں کو نبی اکرمﷺ نے اپنے ہاتھ سے توڑا تھا۔۔۔ بیت اللہ کے اندر کی تصویریں سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گرائیں اور مٹائیں۔ (سیرت ابن ہشام: 2\83، البدایہ والنہایہ: 4\301)
غزوۂ تبوک اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تبوک کا سفر نو ہجری میں پیش آیا۔۔۔ نبی اکرمﷺ کو اطلاع ملی کہ رومیوں نے اپنی سرحد پر بہت بڑا لشکر اکٹھا کیا ہے۔۔۔ نبی اکرمﷺ نے مسلمانوں کو تبوک جا کر روم کی فوج سے دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ فرمایا۔
سخت گرمی کا موسم۔۔۔ کھجور کی فصل تیار۔۔۔ صحرا کا سفر۔۔۔ سواریوں کا فقدان۔۔۔ اور پیشہ ور فوج سے مقابلہ۔۔۔ واقعی جیش العسرۃ تھا۔
نبی اکرمﷺ کا معمول اور عادت مبارکہ تھی کہ آپ مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو مدینہ میں کسی کو اپنا قائمقام مقرر فرماتے۔۔۔ غزوۂ تبوک پر جاتے ہوئے آپ نے سیدنا سباع بن عرفطہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا قائمقام مقرر فرمایا۔۔۔ کچھ مؤرخین نے سیدنا محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لیا ہے کہ انہیں قائمقام مقرر فرمایا۔۔۔ اور اپنے اہل وعیال کی دیکھ بھال اور بچوں کی نگرانی کے لیے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقرر فرمایا۔ (بخاری: 2\633، ابن اثیر: 2\278)
نبی اکرمﷺ رخصت ہو گئے تو مدینہ میں رہنے والے منافقین نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو طعنے دینے شروع کیے کہ تمہیں عورتوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔۔۔ تم اگر کسی قابل ہوتے تو تمہیں بھی ساتھ لے کر جاتے۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے طعنے سن کر پریشان اور رنجید ہوئے۔۔۔ اور اپنے ہتھیار لے کر۔۔۔ مدینہ سے تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر جرف نامی مقام پر نبی اکرمﷺ کے ہاں پہنچ گئے۔۔۔ نبی اکرمﷺ کے پوچھنے پر بتلایا کہ آپ مجھے ساتھ نہیں لے جانا چاہتے تھے اس لیے عورتوں کی دیکھ بھال کے لیے مدینہ چھوڑ دیا۔۔۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
اَلَا تَرْضیٰ۔۔۔ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو۔۔۔ اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی۔۔۔ کہ میں تمہیں اس طرح چھوڑ کر جا رہا ہوں جس طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام طور پر جاتے ہوئے سیدنا ہارون علی علیہ السلام کو چھوڑ گئے تھے۔
یہ فرمانے کے بعد آپ کو محسوس ہوا کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سیدنا ہارون علیہ السلام سے تشبیہ دی ہے۔۔۔ سیدنا ہارون علیہ السلام تو اللہ کے نبی تھے۔۔۔ کوئی بدبخت اس کا غلط مفہوم نہ سمجھ لے اس لیے ساتھ ہی فرمایا:
اِلَّا اَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ (بخاری: 2\633، مسلم: 2\278)
تمہیں چھوڑ کر تو اسی طرح جا رہا ہوں جس طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام سیدنا ہارون علیہ السلام کو چھوڑ کر گئے تھے۔۔۔ مگر یاد رکھو! میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
کچھ کور مغز۔۔۔ اور جاہل اس حدیث سے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت بلافصل پر استدلال کرتے ہیں۔۔۔ کہ اس ارشاد میں نبی اکرمﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی وصیّت کر دی ہے۔۔۔ اس لیے خلافت بعد از نبوت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حق تھا جسے خلفائِ ثلاثہ نے غصب کیا۔۔۔ اور دوسرے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چھوڑ کر خلفائِ ثلاثہ کی بیعت کرکے نبی اکرمﷺ کے حکم سے اعراض کیا۔
اس ٹولے کی بھی کوئی کَل سیدھی نہیں ہے۔۔۔ کبھی اس ارشاد کو خلافتِ علی کی دلیل بناتے ہیں۔۔۔ کبھی مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ سے دلیل پکڑتے ہیں۔۔۔ اور کبھی قلم دوات کے طلب کرنے سے خلافتِ علی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ اس ارشاد میں خلافت کا تذکرہ کہاں ہے۔۔۔؟
نبی اکرمﷺ کے بعد خلافت کا اشارہ تک موجود نہیں۔۔۔ اس میں تو آپ کی حیاتِ طیبہ میں آپ کی عدم موجودگی میں آپ کی نیابت اور قائمقامی کا تذکرہ ہے۔۔۔ جس طرح سیدنا ہارون علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں بنی اسرائیل میں ان کے قائمقام تھے۔۔۔ اسی طرح نبی اکرمﷺ کی عدم موجودگی میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قائمقام بنے۔
محبانِ علی۔۔۔! نبی اکرمﷺ کے اس ارشاد سے خلافت بلا فصل پر استدلال کریں تو یہ استدلال انتہائی بعید از عقل ہے کیونکہ سیدنا ہارون علیہ السلام سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بعد خلیفہ نہیں بنے بلکہ سیدنا ہارون علیہ السلام سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہی میں انتقال فرما گئے تھے اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بعد سیدنا یوشع بن نون علیہ السلام ان کے خلیفہ ہوئے۔۔۔ جبکہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ کے انتقال پُرملال کے بعد کئی سال تک زندہ وسلامت رہے۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی دشمن اور مخالف سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عدمِ خلافت پر اس ارشاد سے استدلال کرے۔۔۔ تو گو وہ استدلال خلافِ حق ہو گا اور زیادتی اور ظلم ہو گا۔۔۔ مگر ان کے استدلال میں قدرے وزن ہو گا۔
سامعین گرامی قدر! امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمتوں کا تذکرہ۔۔۔ ان کی اسلام کی اشاعت کے لیے خدمات کا تذکرہ۔۔۔ ان کے دین کی اشاعت کے لیے کارہائے نمایاں۔۔۔ ان کا مقام ومرتبہ۔۔۔ ان کی فضیلت وعظمت۔۔۔ یہ موضوع بڑا وسیع ہے۔۔۔ ان شاء اللہ آئندہ خطبہ میں اسی عنوان سے گفتگو کروں گا۔
وما علینا الا البلاغ المبین




 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جراءت وبہادری، قوت وشجاعت اور جہاد کے میدان میں کفار کے مقابلے میں استقلال محتاج بیان نہیں ہے، کتبِ سیر وتاریخ میں اس کے سینکڑوں واقعات مذکور ہیں، اس بہادری کی بنا پر آپ کے القاب میں سے ایک لقب "اسداللہ" تھا، جس کا معنی ہے "اللہ کا شیر"۔ اسی کو اردو میں "شیرِخدا"سے تعبیر کیاجاتاہے۔

روح المعانى ـ نسخة محققة - (3 / 363):

محاذير كلية أهونها تفسيق الأمير كرم اللّه تعالى وجهه وهو هو ، أو نسبة الجبن إليه - وهو أسد اللّه تعالى الغالب - أو الحكم عليه بالتقية - وهو الذي لا تأخذه في اللّه تعالى لومة لائم ولا يخشى إلا اللّه سبحانه - أو نسبة فعل الرسول اللّه صلّى اللّه عليه وسلّم ، بل الأمر الإلهي إلى العبث والكل كما ترى۔

إزالة الخفاء عن خلافة الخلفاء - شاه ولي الله دهلوي - (6 / 358):

أما مآثر أميرالمؤمنين و إمام أشجعين أسد الله الغالب علي بن أبي طالب رضي الله عنه پس از آن جمله آن است كه بآن حضرت صلي الله عليه وسلم قرابت قريبه داشت و در شرافت نفس صاحب مرتبهء اعلي بود هو علي بن ابي طالب بن عبدالمطلب وامه فاطمة بنت اسد بن هاشم.

تفسير المنار - (10 / 145):

وَلَمَّا كَانَ عَلِيٌّ كَرَّمَ اللهُ تَعَالَى وَجْهَهُ الَّذِي هُوَ أَسَدُ اللهِ مَظْهَرَ جَلَالِهِ ، فَوَّضَ إِلَيْهِ نَقْضَ عَهْدِ الْكَافِرِينَ الَّذِي هُوَ مِنْ آثَارِ الْجَلَالِ وَصِفَاتِ الْقَهْرِ.

-سیرت خلفائے راشدین ، ص:195،ط:کتب خانہ مجیدیہ ملتان۔
 
Top