امام غزالی اور ابنِ رشد کا قضیہ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
غزالی نے اپنے دور میں خود کو مسلم کہنے والے بعض فلسفیوں کی کچھ آراء پر سخت علمی تنقید کی جو ان کی کتاب “تہافت الفلاسفۃ “کی صورت میں آج تک موجود ہے جبکہ ایک مشہور فلسفی “ابن رشد”نے “تہافت التہافت” کے نام سے اس نقد کا جواب لکھا۔ غزالی اور ابن رشد کی اس آویزش کو غزالی اور ابن رشد کا قضیہ کہا جاتا ہے۔ زیر نظر مضمون میں اس علمی آویزش اور بحث کے تمام پہلووّں کو زیربحث لانا مقصود نہیں، نہ ہی یہ مفید ہے اور نہ ہی آج کے جدید ذہن کےلیے یہ سب پہلو قابل فہم ہوں گے۔ موجود دور میں بہت سے لوگ غزالی کے مقابلہ میں ابن رشد کو اپنا راہنما قرار دیتے ہیں اور قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ان کی اکثریت نے غزالی اور ابن رشد کے عربی متون کو تو درکنار ، ان کے تراجم کو بھی نہیں پڑھا۔ کہیں کسی تحقیقی مجلہ میں اس موضوع پر دو، ایک مقالے پڑھ کر وہ اس معاملہ میں ثالثی کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہمارے قومی اخبارات کے بہت سے کالم نگاروں کا یہ پسندیدہ موضوع ہے اور وہ وقفہ وقفہ سے اس موضع پر رائے زنی کرتے ہوئے غزالی کے موقف پر ابن رشد کے موقف کو ترجیح دیتے رہتے ہیں۔ غزالی کے حوالہ سے یہ حضرات کچھ سنگین قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر عالم اسلام ‘ غزالی کے بجائے ابن رشد کو اپنا راہنما بناتا تو آج ذلت کے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ ان کا خیال ہے کہ ابن رشد سائنس اور اسلام کے درمیان ہم آہنگی کا قائل تھا، جبکہ غزالی سائنس کے مخالف ومنکر اور گیارہویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کے درمیان آنے والا سائنسی و فکری انحطاط غزالی کی مخالفت کی ہی وجہ سے پیدا ہوا۔ زیر نظر مضمون میں دراصل انہی “مغالطوں” کاازالہ مقصود ہے۔ ان حضرات پر میری تنقید غزالی سے اندھی عقیدت کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ سوچی سمجھی رائے ہے جو غزالی اور ابن رشد کے اصل عربی متون کو براہِ راست پڑھنے کے بعد میری اندر پیدا ہوئی ہے
امام غزالی رحمتہ اللہ کا موقف:
غزالی نے فلسفیوں پر کوئی ایسا جبر نہیں کیا کہ وہ فلسفہ نہ پڑھیں یا سائنسی تحقیقات کرنا چھوڑ دیں اور نہ ہی کبھی انہوں نے یہ کہا کہ اسلام اور سائنس ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ وجہ ہے کہ غزالی کے پیرو کاروں نے ایسے فلسفیوں اور سائنس دانوں پر کبھی تنقید نہیں کی جنہوں نے خود کو سائنسی تجربات اور ریاضی و طب جیسے مفید ، کارآمد اور اوریجنل سائنسی علوم تک محدود رکھا۔ چنانچہ ہمارے علم کے مطابق الخوارزمی ) الجبرا کے بانی( ، ابن الہیثم)ماہر طب(، حکیم یحیی/ بن ابی منصور، ابو ریحان البیرونی ) ماہر جیومیٹری( ، مسلم بن فراس ) پہلا ہوا باز( ، عباس بن سعید جوہری اور سند بن علی ) آلات رصد بنانے کے ماہر( ، بنو موسیٰ بن شاکر ) گھڑی جیسے متحرک آلات بنانے کے ماہر( محمد بن زکریا رازی ) ماہر کیمیا( حکیم ا بو محمد العدلی القائنی، ابوسہل ویجن بن رستم کوہی اور حکیم ابوالوفاء بوزجانی ) ماہرین ریاضی( جیسے لوگوں کو کبھی بھی کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم حکماء اور سائنس دانوں میں اکثر لوگ ایسے ہی تھے جنہوں نے خالصتاً ریاضی و طب جیسے حقیقی اور تجرباتی علوم تک اپنے آپ کو محدود رکھا اور اس میدان میں خدمات انجام دیں، لیکن ان کی شہرت زیادہ نہیں۔
مولانا عبدالسلام ندوی کے بقول “ صرف مامون الرشید کے زمانہ تک مسلمانوں میں متعدد ریاضی دان پیدا ہوئے ، مگر فلسفی صرف کندی پیدا ہوا۔” ) حکمائے اسلام۔ جلد۱، صفحہ ۱۰۵( لیکن ان ریاضی دانوں اور جینوئن سائنس دانوں کے نہ تو آج نام زیادہ معروف ہیں اور نہ ہی تاریخ میں ان کے احوال زیادہ محفوظ ہیں، وجہ وہی کے ان کی تعداد بہت زیادہ تھی اور یہ لوگ اپنا سا کام کرتے رہتے تھے، متنازعہ امور میں یا مذہب کے معاملہ میں ٹانگ اڑا کر انہوں نے کبھی مشہور ہونے کی کوشش نہیں کی۔ دیکھئے ، بنو موسیٰ بن شاکر، حکیم یحیی بن منصور، عباس بن سعید وغیرہ کے نام سے کون واقف ہے؟ صرف الخوارزمی کا نام جانا پہچانا ہے، مگر اس کے حالات بھی آدھے صفحہ سے زیادہ نہیں ملتے۔ ایسے لوگوں کو بھی اگرچہ بعض اوقات فلسفی کہا جاتا ہے کیونکہ اس دور میں ریاضی و طب جیسے علوم بھی فلسفہ کا ایک شعبہ سمجھے جاتے تھے، لیکن فی الجملہ ان کو فلسفی کی بجائے ” حکیم” کہا جاتا ہے۔فلسفی کا لفظ اس کے مقابلہ میں ان لوگوں کےلئے ان لوگوں کےلیے استعمال ہوتا ہے، جنہوں نے خود کو ان جینوئن علوم تک محدود نہیں رکھا، بلکہ مذہبیات اور مابعدالطبیعات میں ٹانگ اڑا کر اس میں بھی نئی نئی “ ایجادات” پیش کرنے کی کوشش کی یا دوسروں کی “ ایجادات” کو رد کیا۔ یہ وجہ ہے کہ لطفی جمعہ کی “ تاریخ فلاسفہ الاسلام” میں صرف ایسے ہی لوگوں کا تذکرہ ملتا ہے جینوئن حکماء اور سائنس دانوں کا نہیں۔
غزالی کی تنقید کا رخ انہی “ مسلم” فلسفیوں کی طرف ہے جنہوں نے اپنے متنازعہ “ کارناموں” کی وجہ سے شہرت حاصل کی اور ان میں سے بعض نے اپنی (ارسطو کی کتابوں سے اخذ کردہ)الہیات اور مابعد الطبیعیات (Metaphysics) کو اسلام میں داخل کرنے کی سعی کی۔ ان فلسفیوں نے اپنے علم الہیات میں خداوند تعالیٰ کے بارہ میں یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا کہ وہ اپنی مخلوق کی کلیات کو اور ان پر طاری ہونے والے جزوی حالات کو جانتا ہے یعنی یہ کہ میری مخلوق میں انسان ہے، چرند ہے، پرند ہے، ان میں کس نے کب پیدا ہونا اور کب مرنا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن وہ ان جزئیات میں آنے والے موقع بموقع تغیر سے بے خبر اور غافل ہے، یعنی انسانوں میں اس وقت کتنے انسان موجود ہیں، کون پیدا ہو رہا ہے؟ کون مررہا ہے؟ کون سا درخت پھل رہا ہے اور کون سا درخت سوکھ رہا ہے؟ کونسا ہو چکا ہے اور کس نے ہونا ہے؟ اگر کسی کو یہ ” منطق” ناقابلِ فہم اور عجیب و غریب محسوس ہوتی ہے تو وہ فلسفیوں کا سرپیٹے، ہمارا نہیں۔یہ حرف بحرف انہی کا عقیدہ ہے۔ فلسفہ کے مشورو متداول متن “ ہدایۃ الحکمۃ” کے مصنف اثیر الدین ابہری کے الفاظ ہیں “ الواجب لزاتہ عالم بالجزئیات المتغیرہ۔ۃ علی وجہ کلی……. لکن لا یدر کھا مع تغیرھا” ) ہدایۃ الحکمہ۔صفحہ ۷۲( اہل سنت کے ہاں مشہور یہ رہا ہے کہ فلسفی سرے سے یہ ہی نہیں مانتے کے اللہ کی ذات کو جزئیات کا علم حاصل ہے، لیکن یہ بات درست نہیں۔ علامہ شبلی نے بھی یہ وضاحت کی ہے۔)علم الکلام۔ جلد اول، صفحہ۱۲۹ ( صحیح بات یہی ہے کہ وہ اسے مانتے بھی ہیں اور نہیں بھی، یعنی مانتے ہیں لیکن اپنی عجیب و غریب منطق کے ساتھ۔تہافت التہافت کے محقق ڈاکٹر سلیمان دنیا نے بوعلی سینا کی تصنیف “ الشفاء” سے عبارت نقل کر کے دعویٰ کیا ہے کہ وہ باری تعالیٰ کے بارہ میں جزئیات سے بالکل ناواقف ہونے کا قائل تھا۔ ) تہافت التہافت۔ صفحہ ۵۷( لیکن میری سمجھ سے یہ بالاتر ہے کیونکہ اس کی محولہ عبارت میں ہی یہ الفاظ ہیں: لایجوزان یکون عاقلا لھذہ المتغیرات مع تغیرھا من حیث ھی متغیر، عقلا زمانیا مشخصا) بل علی نحو آخرنبینہ( …… واجب الوجود انما یعقل کل شی ء علی نحو کلی……. ” ) تہافت التہافت۔ صفحہ ۵۰( مزید سنئے، اسی طرح ان فلسفیوں نے یہ دعوی کیا کہ خدا ایک بے دست و پا قسم کی قوت ) جسے وہ “ عقل” کہتے ہیں( کا نام ہے جس سے ایک اور قوت نے جنم لیا، اس سے پھر ایک اور قوت نے ، یہاں تک کہ یہ سلسلہ دسویں قوت اور “ عقل” تک پہنچا۔ اس دسویں عقل اور قوت سے یہ سارا جہان نمودار ہوا۔ اثیر الدین ابہری کے الفاظ ہیں: “ الصادر من المبدء الاول انما ہوالواحدلا نہ بسیط و البسیط لا یصدر عنہ الالواحد کمامر” ) ہدایۃ الحکمۃ۔ صفحہ ۷۵ (
یہ باتیں دلیل کی رو سے کتنی بے سروپا اور احمقانہ ہیں، اس بحث میں پڑے بغیر فی الحال صرف یہ دیکھئے کہ ایک آدمی یہ سب باتیں خود کو مسلمان کہتے ہوئے اسلام ہی کے نام پر کرتا ہے تو کیا اسے اس بات کا حق پہنچتا ہے اور اگر کوئی غزالی اس پہ تنقید کرے تو کیا یہ بلاجواز ہے؟ بات بڑی واضح ہے کہ ان ہفوات کو فلسفی بے شک اپنے “ علم الہیات” کا جزو بنائیں کیونکہ دین میں جبر نہیں، مگر انہیں اس بات کا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ سب باتیں خود کو مسلمان کہتے ہوئے بھی کریں اور یوں مسلمانوں کےلئے تشویش، انتشار اور افتراق کا باعث بنیں۔ طرہ یہ کہ “ مسلم” فلسفی اپنی الہیات کو ریاضی اور منطق کی طرح حتمی اور شبہات سے پاک بھی سمجھتے ہیں، مگر ان کا دعوی تھا کہ اس کے دلائل کو سمجھنا صرف فلسفیوں کےلئے ممکن ہے۔
غزالی یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان فلسفہ اور سائنس کے صرف کارآمد علوم کو اختیار کریں اور مذہب کے دائرہ سے ان کو الگ رکھتے ہوئے ان کی بنیاد پر اسلام کو بدلنے کی کوئی کوشش نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک حکمت و فلسفہ اور سائنس کے تمام اجزاء قابل اعتراض نہیں، بلکہ صرف وہ حصہ جو اسلام کی تعلیمات سے صریحاًً متصادم ہے۔ غزالی کے اپنے الفاظ ہیں: “ ہذا الفن و نظائرہ ہوالذی ینبغی ان یظھر فساد مذھبھم فیہ دون ماعداہ” ) تہافت الفلاسفۃ۔ صفحہ۸۱( یعنی “ فن الہیات اور اس کی امثال ہی فلسفہ کا وہ شعبہ ہیں جہاں ان کے مذہب کی تردید مقصود ہے، فلسفہ کے کسی اور فن یا شعبہ ) ریاضی، طب، منطق، سوشل سائنسز وغیرہ( پر تنقید کرنا ہمیں مطلوب نہیں ” ۔ اس سے بھی زیادہ واضح الفاظ دیکھیں : “ علومھم اربعۃ اقسام: الریاضیات والالھیات والمنطقیات والطبیعیات، امالریاضیات……. فلا غرض لنا فی الاشتغال بایرادہ، واماللالھیات فاکثرعقائدھم فیھا عالی خلاف الحق والصواب نادر فیھا، واما المنطقیات……. فیخالفون اہل الحق فیھا بالاصطلاحات والایرادات دون المعانی والمقاصد اذ غرضھا تھذیب طرق الاستدلالات، وامالطبیعیات فالحق فیھا مشوب بالباطل” ) مقاصد الفلاسفہ صفحہ۱۰،۱۱( یعنی “ فلسفیوں کے نظریاتی علوم کے چار بنیادی شعبے ہیں، ایک تو ریاضی ہے جس کو موضوع بحث بنانا مطلوب نہیں، دوسرا الہیات ہے، اس میں ان کے اکثر عقائد راہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں، تیسرا منطق ہے جس میں اہل حق کا ان کے ساتھ اختلاف صرف اصطلاح میں ہے، اصل مفاہیم میں نہیں، چوتھا طبیعیات ہے جس میں الٹی سیدھی ، دونوں طرح کی باتیں پائی جاتی ہیں۔”
تہافت التہافت کی فہرست پر ایک نظر ڈال کر بھی یہ بات بآسانی معلوم کی جاسکتی ہے کہ غزالی کی گفتگو کا محور یا تو الٰہیات کے ان مسائل کی نشان دہی ہے جو دین کی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہیں، یا پھر وہ فلسفیوں کے اس زعم کو رد کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی الہیات ریاضی اور منطق کی طرح شک و شبہ سے پاک ہے۔ اپنی کتاب میں ان کے صرف یہی دو اہداف ہیں۔ دوسروں کی بنائی ہوئی فہرستوں کو بھی چھوڑ دیجئے، وہ خود “ تہافت الفلاسفۃ” کے مقدمہ میں ایک عنوان قائم کرتے ہیں: “ فھرست المسائل التی اظھرنا تناقض مذھبھم فیھا فی ھذاالکتاب” ) صفحہ ۸۷( یعنی “ ان مسائل کی فہرست جن کے اندر فلسفیوں کے مذہب کے ضعف کو ہم نے اس کتاب میں بیان کیا ہے۔” اس کے بعد انہوں نے خود بیس مسائل کی فہرست دی ہے۔ ان مسائل پر ایک سرسری نظر بھی ڈال لی جائے تو اندازاہ ہو جائے گا کہ ان کے اہداف صرف یہی دو ہیں۔ وہ الِہیات کے ان مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں جو دین کی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہیں یا پھر وہ فلسفیوں کے اس زعم کو رد کرتے ہیں کہ ان کی الٰہیات ریاضی اور منطق کی طرح شک و شبہ سے پاک ہے۔
اب خود بتایئے کہ کیا غزالی سائنس کے منکر ہیں؟ اسلام کی حقانیت دو اور دو، چار کی طرح واضح ہے کیونکہ اللہ کا وجود اس کائنات کا سب سے بدیہی سچ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت و راست گوئی کو آج کے غیر متعصب “ نان مسلم” بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد اسلام کے اثبات کےلئے کسی فلسفیانہ دلیل کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی فلسفیانہ دلیل کی بنا پر ایسے بدیہی سچ پر تنقید روا ہے۔ کجا یہ کہ اسلام پہ یہ تنقید خود کو مسلمان کہتے ہوئے ) یعنی اسلام کے نام پر( پر ہی کی جائے۔
ان واضح تصریحات کے بعد کسی کےلئے یہ کہنے کی گنجائش نہ تھی کے غزالی سائنس کے منکر ہیں یا مذہب اور سائنس کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے خلاف ہیں۔ لیکن پروپیگنڈے کا تو کام ہی یہی ہے کہ حقائق کو تروڑا مروڑا جائے۔ بہتر ہو گا کہ یہاں پر ڈاکٹر سلیمان دنیا کی رائے بھی نقل کر دی جائے۔ ڈاکٹر سلیمان دنیا جامعۃ الازہر، مصر میں فلسفہ کے استاد اور المرکز الثقافی فی الاسلامی، نیویارک کے مدیر رہے۔ وہ امام غزالی کی “ تہافت الفلاسفۃ” اور ابن رشد کی “ تہافت التہافت” دونوں کے بیک وقت محقق ، حاشیہ نگار اور مقدمہ نگار ہیں۔ انہوں نے دونوں کتابوں کے حرف حرف کو پڑھا، سمجھا، ان پہ اپنے وقیع علمی حواشی تحریر کیے، موقع بموقع غزالی اور ابن رشد دونوں پر بے لاگ نقد کیا، دونوں کتابوں کے شروع میں گراں قدر تحقیقی مقدمے تحریر کیے اور مختلف قلمی نسخوں کو سامنے رکھتے ہوئے الفاظ کے معمولی اختلاف تک کو بھی جا بجا واضح کیا۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ غزالی اور ابن رشد کے قضیہ کے بارہ میں ان کی رائے بھی دوسرے آدمی کے مقابلہ میں کس پائے کی ہو گی؟ غزالی کے بارہ میں وہ لکھتے ہیں:
“قدیم اور جدید، دونوں ادوار میں لوگوں کے ایک گروہ کا یہ خیال رہا ہے کہ غزالی پوری عقلی و فکری روایت پر حملہ آور ہیں، فکری کاوشوں کو ناپسند کرتے ہیں، ان کے خلاف برسرپیکار ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس پوری روایت کا خاتمہ ہو۔ اسی بناء پر ان لوگوں نے غزالی کے بارہ میں وہ سب کہا جو ان کے منہ میں آیا۔ ان لوگوں کے مطابق غزالی نے پورے فلسفہ اور سائنس کی ایسی بیخ کنی کی ہے کہ اس کے بعد وہ مشرق میں پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکا۔تعجب کی بات یہ ہے کہ ہمارے زمانہ میں جبکہ کتابیں آسانی سے دستیا ب ہیں اور غزالی کی کتا بوں سے مراجعت کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا ، اب بھی خود کو علم سے منسوب کرنے والے اور اہل علم میں خود کو صدر نشینی کا اہل سمجھنے والےلوگ اس حقیقت سے جاہل ہیں” )تہافت التہافت بہ تحقیق سلیمان دنیا۔ صفحہ ۱۶(
ڈاکٹر سلیمان دنیا کا تعجب بجا، مگر مسئلہ یہ ہے کہ روشن خیال اپنی روشن خیالی کو مصدقہ کروانے کے چکر میں ہر وہ کام کرتے ہیں، جس میں انہیں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔ غزالی کو پڑھے بغیر، غزالی کی طرف غلط موقف منسوب کرنا اور پھر ان پر نقد کرنا بھی شاید اسی غرض سے ہے۔ خالص عربی زبان میں بپا ہونے والے اس قضیہ کے بارہ میں بھی ان حضرات کا خیال ہے کہ عربی متون کے حوالے ثانوی درجہ رکھتے ہیں اور انگریزی مقالات کے حوالے ان سے زیادہ معتبر ہیں۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ فلسفیوں کے علم الہیات پر تنقید کرنے میں غزالی تنہا نہیں، فخر الدین رازی اور ابنِ تیمیہ جیسے کئی علماء نے بھی ان پر سخت تنقید کی ہے۔ یہ سب حضرات ) فقہی مسائل میں مختلف الخیال ہونے کے باوجود( فلسفیوں پر تنقید کرنے میں یک زبان ہیں۔ اور تو اور، خود “سلسلہ فلسفیہ” میں ایک بڑا نام ابوالبرکات بغدادی کا آتا ہے۔ یہ مذہباً یہودی تھا اور بعد میں اس نے اسلام قبول کیا۔ اس نے بھی خود اپنی کتاب “المعتبر” میں فلسفیوں کی الہیات پر شدید اور بھرپور تنقید کی ہے۔ بعض حضرات کے بقول، بعد میں رازی اور ابنِ تیمیہ کی فلسفہ پر تنقید اکثر و بیشتر اسی “المعتبر” سے ماخوذ ہوتی ہے جو سلسلہ فلسفیہ کے ہی ایک عظیم رکن کی تصنیف ہے۔ ) حکمائے اسلام۔ جلد۱، صفحہ ۴۵۰، ۴۵۱(
علامہ اقبال کے درج ذیل مشہور زمانہ شعر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی فلسفہ کے ناروا پہلوئوں پر غزالی کی تنقید کو درست اور قابلِ رشک سمجھتے ہیں۔
رسم ازاں رہ گئی، روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی

غزالی پر ابن رشد کی تنقید:
ابن رشد نے اگرچہ غزالی کی “تہافت الفلاسفۃ” پر تنقید لکھی ہے، مگر جنہوں نے دونوں کو پڑھا ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابن رشد اپنی تمام تر تنقید کے باوصف غزالی کی کتاب کا قد کاٹھ گھٹا نہیں سکے۔ ابنِ رشد کا مقصد”تہافت التہافت” میں کیا ہے اور وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ یہ بات اگر میں ابن رشد کے حامیوں سے پوچھوں تو مجھے یقین ہے کہ بغلیں جھانکنے کے سوا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا یا پھر ان میں سے جو لوگ ذرا زبان آور ہیں، وہ اندھیرے میں تیر چلاتے ہوئے کوئی نہ کوئی بات بنا لیں گے۔ اس قضیہ سے ان لوگوں کی واقفیت کا عالم تو یہ ہے کہ یہ غزالی کو سائنس و مذہب کی ہم آہنگی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ خود ابنِ رشد نے بھی”تہافت التہافت” میں کہیں غزالی پر کم از کم یہ الزام عائد نہیں کیا۔ غزالی کے مقابلہ میں ابن رشد کو راہ نما بنانے کے شوقین جانتے ہی نہیں کہ ابن رشد نے خود لکھا کیا ہے اور غزالی نے ایسا کیا لکھا تھا جس سے ابن رشد نے اختلاف کیا ہے۔
(1)۔غزالی کا مقصود ) جیسا کہ گذشتہ عنوا ن کے تحت بھی تفصیل سے بیان ہو چکا ہے( ایک تو فلاسفہ کی الٰہیات کے ان مسائل کی نشان دہی ہے جو دین کی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہیں۔ ان میں سے دو مثالوں کا ذکر ہم بھی گذشتہ سطور میں کر چکے ہیں:
۱۔ مخلوق کے جزئی احوال سے ناواقفیت والی بات۔
۲۔ یہ سارا جہان اللہ نے پیدا نہیں کیا۔ وہ ایک قوت ہے جس وہ “عقل” کا نام دیتے ہیں، اس سےایک قوت اور عقل نے جنم لیا، اس سے ایک اور عقل نے، یہاں تک کہ یہ سلسلہ دسویں عقل تک پہنچا اور اسی سے یہ سارا جہان نمودار ہوا۔
باقی مسائل جو غزالی نے فلاسفہ کی الہیات کی طرف منسوب کئے ہیں، ان سے ہم صرف نظر کرتے ہیں، صرف انہی دو مثالوں پر اکتفا کیجیے۔ ابن رشد کے “دیسی پیروئوں” کا خیال ہو گا کہ شاید ابن رشد نے فلاسفہ کی طرف ان مسائل کی نسبت کو غلط ثابت کیا ہو گا اور اس نسبت سے انکار کیا ہو گا، حالانکہ فی الواقع ایسا نہیں۔ پہلا مسئلہ ابن سینا کی تصانیف “الاشارات اور”الشفاء” میں موجود ہے اور ابنِ رشد نے بھی ابن سینا سے اس کی نسبت کو قطع نہیں کیا۔ ڈاکٹر سلیمان دنیا نے “الشفاء” کی طویل عبارت حرف بحرف نقل کی ہے۔)تہافت التہافت۔ صفحہ۵۸( جبکہ دوسرے مسئلہ کی نسبت کو ابن رشد نے فلاسفہ سے قطع ضرور کیا ہے مگر یونانی فلاسفہ سے، بوعلی سینا اور اس کے ہم نوائوں سے نہیں، انہیں وہ الٹا دوہرا مجرم نامزد کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے خانہ ساز اس عقیدہ کی نسبت غلط طور پر یونانیوں کی طرف کی ہے۔ ) تہافت التہافت۔ صفحہ ۳۰۹، ۳۰۱ ( اور غزالی کا مقدمہ خود غزالی ہی کے بقول بو علی سینا اور اس کے ہم نوائوں کے خلاف ہے۔ ) تہافت الفلاسفۃ، صفحہ ۷۶، ۷۸۔ غزالی کی اصل عبارت بھی آگے ہم نقل کر دیں گے۔ انشاء اللہ!
اب خود بتایئے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ یونانی فلسفیوں کی جان تو چھوٹ گئی کہ ابنِ رشد کے بقول ان کی طرف اس مسئلہ اورعقیدہ کی نسبت درست نہیں، لیکن کیا اس کے ساتھ ہی ساتھ بو علی سینا وغیرہ کے خلاف غزالی کی “چارج شیٹ” زیادہ مضبوط نہیں ہو گئی ) جن کی تردید کرنا غزالی کو مطلوب تھا(؟ کیونکہ ابنِ رشد کے دعوی کے مطابق اس مسئلہ میں بوعلی سینا وغیرہ ناقل نہیں، بلکہ خود ان کے موجد ہیں۔
بو علی سینا وغیرہ نے اپنی تصانیف میں کئی ایسے مسائل نقل کئے ہیں، جن کے بارہ میں ابن رشد کہتا ہے کہ بو علی سینا نے یونانی فلاسفہ کی طرف ان کی نسبت غلط طور پر کی ہے اور در حقیقت یہ اس کے اپنے ذاتی افکار ہیں۔ مثلاً دیکھئے: تہافت التہافت، صفحہ ۸۹، ۱۲۱۔ ایسے مسائل کی ایک فہرست علامہ شبلی نے “علم الکلام” میں ترتیب بھی دی ہے۔ ) علم الکلام۔ جلد۱، صفحہ ۱۲۴( انہی میں سے وہ دوسرا مسئلہ بھی ہے جو ہم نے ابھی ذکر کیا ہے۔

)۲(۔جیسا کہ ہم نے عرض کیا، غزالی کا مقصود ایک تو “الہیات” کے ان مسائل کی نشاندہی ہے جو دین کی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہیں۔ دوسرا جب وہ فلسفہ کے الہیاتی مسائل پر تنقید کرتے ہیں اور فلسفیوں کے دلائل کے مقابلہ میں مخالف عقلی و الزامی دلائل پیش کرتے ہیں تو ان کا مقصود فقط یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ فلاسفہ کی الہیات ریاضی اور منطق کے اصولوں کی طرح قطعی نہیں اور اس میں دلیل کے اعتبار سے اشتباہ اور اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ ان کے الفاظ ہیں: یعنی “ارسط کے سحر میں مبتلا “مسلم” فلسفی علم الہیات کی حقانیت کو ثابت کرنے کےلیے یہ حیلہ سازی کرتے ہیں کہ جس طرح یونانی فلاسفہ کے وضع کردہ علمِ ریاضی اور علمِ منطق شک و شبہ سے پاک ہیں، اسی طرح ان کا وضع کردہ علم الہیات بھی قطعی اور حتمی ہے، یوں وہ کم عقلوں کو اپنی الہیات سے مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اگر ان کا علمِ الہیات علومِ حسابیہ کی طرح مدلل اور شبہات سے پاک ہوتا تو کم از کم ان کے پیش رو یونانیوں کا اس میں کوئی اختلاف نہ ہوتا جیسا کہ علوم حسابیہ میں ان کا کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔” ) جبکہ ان کا اس میں شدید اختلاف منقول ہے اور خود غزالی نے وہ نقل کیا ہے(۔)تہافت الفلاسفۃ۔ صفحہ ۷۶،۷۷(
فلاسفہ کے استدلا ل کے جواب میں ان کا عقلی اور الزامی استدلال محض یہی بات ثابت کرنے کےلئے ہوتا ہے کہ الہیات کے اندر فلاسفہ کے دلائل اس طرح قطعی نہیں جس طرح کے ریاضی اور منطق کے مسائل ہیں اور جس طرح کہ ارسطو سے زیادہ ارسطو کے وفادار “مسلم” فلسفی سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر فلسفیوں کا عقیدہ تھا کہ افلاک ذی روح ہیں اور خدا تعالی ) جسے وہ “عقل اول” کہتے ہیں( کے برعکس مخلوقات کے افعال اور جذئیات میں آنے والے تغیر سے بھی لمحہ بہ لمحہ واقف رہتے ہیں۔ اب اگر کوئی اسے ثابت کرنے کا کہتا تو بتایا جاتا کہ یہ آسان کام نہیں اور اس کےلئے بہت ہی عالی قسم کا دماغ درکار ہے۔ میرا نہیں خیال کہ آج کا کوئی روشن خیال مسلمان بھی فلسفیوں کے اس رویہ کی حمایت کرے یا یہ خیال کرے کہ الہیات کے حوالہ سے “مسلم فلسفیوں” کی اندھی عقیدت بجا تھی اور غزالی نے جس طرح الہیات کو موضوع بحث بنایا ہے، الہیات کے مسائل کو جس طرح قطعی کے بجائے ظن و تخمین کا مجموعہ بتایا ہے اور ان پر قطعی دلائل کا مطالبہ کیا ہے’ یہ ناجائز تھا۔ اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو اسے چاہئے کہ کم از کم ایک دفعہ ضرور فلسفیوں کی الہیات کا مطالعہ کر لے۔
فلسفیوں کا علمِ الہیات حماقتوں کا ایک پلندہ تھا۔ ابنِ خلدون کے بقول، سمجھ نہ آنے کے باوجود لوگ اس سے چمٹے رہتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں یہ سمجھ آ جائے تو انسان کو ایک خاص قسم کی غیبی قوت حاصل ہو جاتی ہے۔ ) مقدمہ ابنِ خلدون ۔ صفحہ ۵۶۱( چنانچہ عام لوگ تو رہے ایک طرف، ارسطو کے بعد فلسفہ کے تیسرے بڑے استاد بو علی سینا کے بارہ میں منقول ہے کہ اس نے “الہیات” کے موضوع پر فلسفہ کے دوسرے استاد الفارابی کی “مابعد الطبیعہ” نام ایک کتاب پڑھی ، مگر کچھ پلے نہ پڑا۔ جذبہ ایسا قوی تھا کہ یکے بعد دیگرے اسے چالیس دفعہ پڑھ ڈالا، کتاب لفظ بہ لفظ یاد ہوگئی مگر پلے پھر بھی کچھ نہ پڑا۔ یہاں تک کہ اس علم سے مایوس ہو گیا اور جوش ٹھنڈا پڑھ گیا، لیکن دل میں خلش تھی۔ ایک دفعہ پھر کسی موقع پر اسے پڑھا تو محسوس ہوا کہ اب مجھے سمجھ آنے لگی ہے۔ ) حکمائے اسلام۔ جلد۱۔ صفحہ ۲۹۵( اور یہ کوئی ہوائی بات نہیں “مسلم” فلسفیوں کا علمِ الہیات آج بھی دستیاب ہے، خود اس کے اس کا مطالعہ کر کے اس کی “بے سروسامانی ” کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسے بے سروپا علم کے مسائل کو اگر کوئی فلسفی اپنا عقیدہ بنائے، خود کو مسلمان کہتے ہوئے بنائے اور اوپر سے یہ دعویٰ بھی کرے کہ ہمارا علمِ الہیات ریاضی کی طرح شک و شبہ سے پاک ہے، مگر اس کا سمجھنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں تو کیا وہ اب بھی قابل تنقید نہیں، قابلِ تعریف ہے؟ غزالی کا قصور یہی ہے کہ انہوں نے نے اس رویہ پر تنقید کی ہے۔ الہیاتی مسائل کو ثابت کرنے کےلئے فلسفی جو استدلال کرتے ہیں، غزالی نے اس کے برخلاف استدلال کر کے محض یہ بتایا کہ اس کی گنجائش بھی موجود ہے اور الہیات میں فلسفیوں کا استدلال دو اور دو، چار کی طرح شک و شبہ سے پاک نہیں، بلکہ وہ محض امکانات ہیں جنہیں ان لوگوں نے عقائد کا درجہ دے رکھا ہے۔
اب “تہافت الفلاسفۃ” میں جگہ جگہ بکھری ہوئی غزالی کی اس تنقید کے جواب میں ابن رشد کیا کہتے ہیں؟ یہ بھی سمجھنے کی چیز ہے۔ اس کے جواب میں ابن رشد نے دیگر فلسفیوں کی طرح ایک تو یہی مضحکہ خیز “اندازِ استدلال” اختیار کیا ہے کہ چونکہ ان دلائل کا سمجھنا عالی دماغ “خواص” کا کام ہے اور عوام کے سامنے ان کی حقیقت کو بیان کرنا درست نہیں، لہذا ان دلائل کی حقیقت میں اپنی اس کتاب “تہافت التہافت” میں کھول نہیں سکتا کیونکہ یہ کتاب میں نے عوام کےلئے لکھی ہے اور ان دلائل کا ان کی رسائی سے دور رہنا ضروری ہے۔ مثلاً ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:”ھذاالعلم لاسبیل الی افشاء ہ فی ھذا الموضع” )صفحہ۹۲( یعنی “اس کتاب میں اس علم کو بے نقاب کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔” ایک اور جگہ لکھتے ہیں: “لا یقف علی مذاھبھم فی ھذہ الاشیاء الا من نظر فی کتبھم مع الشروط التی وضعوھا مع فطرۃ فائقۃ و معلم عارف” ) صفحہ ۱۹۵( اسی طرح کا نادر اندازِ استدلال صفحہ ۱۱۳، ۱۱۷، ۱۲۹، ۱۷۳، ۳۱۱ و ۴۱۷ پر بھی نظر آتا ہے۔ ایک جگہ فلاسفہ کے موقف کے علمی اثبات کو مشکل کہہ کر اس سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں: “القدیم لایتغیر بضرب من ضروب التغیر، و ھذا کلہ عسیر البیان” )صفحہ۶۵( کے ان کے اسی طرزِ استدلال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیمان دنیا لکھتے ہیں:”الاولی بابن رشد اثبات دعواہ، لاالتھرب منھا بدعوی عسر بیانھا، ثم مھاجمۃ دعوی خصمہ”) تہافت التہافت۔ صفحہ۶۵( یعنی ” ابن رشد کو اپنا دعویٰ ثابت کرنا چاہئے تھا،دعویٰ کے اثبات کو مشکل کہہ کر جان چھڑا لینا اور پھر مخالف سے جھگڑا بھی کرنا’ یہ کوئی طریقہ نہیں۔” ابن رشد کے مرید بھی ابن رشد کے اس اندازِ استدلال سے بخوبی واقف ہیں اور وہ اس کے اس قول کی کوئی توجیہ نہیں کر پاتے کہ “عوام کو علم و حکمت کی باتوں سے دور رکھنا چاہیے۔” اس لنک پر ابن رشد کے مریدوں کا اس موضوع پر مکالمہ دیکھا جا سکتا ہے۔
دوسرا ابن رشد کو غزالی کے اس اسلوبِ نقد کو سمجھنے میں ہی سرے سے مغالطہ ہوا ہے۔ فلاسفہ کے استدلال کے مقابلہ میں غزالی جو مخالف استدلال کرتے ہیں، وہ اس کی قطعیت کا دعوی نہیں کرتے، اس سے مقصود محض فلسفیوں کے استدلال میں تشکیک کو اجاگر کرنا اور یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ایسے مسائل میں اشتباہ اور اختلاف کی گنجائش موجود ہے، لٰہذا فلسفیوں کا عوام کو یہ کہہ کر الو بنانا غلط ہے کہ ان کا سمجھنا آسان نہیں، ورنہ یہ بھی ریاضی کی طرح قطعی اور حتمی ہیں۔ مثلاً افلاک کو جان دار ثابت کرنے کےلئے فلسفی “اٹکل نما” جو استدلال کرتے ہیں، غزالی نے اس کے مخالف استدلال کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ افلاک ضرور بے جان ہی ہیں، بلکہ محض یہ بتایا کہ فلسفی اپنے جس تصور کو حتمی اور قطعی سمجھتے ہیں، اس کےلئے کوئی قطعی دلیل موجود نہیں ہے۔ مثلاً وہ اپنے مقدمہ میں ہی وضاحت کرتے ہیں: “لا ادخل فی الاعتراض علیھم الادخول مطالب منکر، لا دخول مدع مثبت”)تہافت التہافت۔ صفحہ۸۲( یعنی”ان پر میرے اعتراض سے مقصود جانب مخالف کا دعویٰ اور اس کا اثبات نہیں ہوتا، بلکہ صرف یہ دکھانا ہوتا ہے کہ ان کا موقف غیر قطعی ہے اور دوسرے امکان کی گنجائش بھی موجود ہے۔”ابنِ رشد نے ایسے موقعوں پر یہ سمجھا ہے کہ وہ شاید اپنے مخالف استدلال کو قطعی بنا کر پیش کرتے ہیں۔اس لئے وہ اپنی تصنیف میں جابجا بس یہی ثابت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہاں پر غزالی کا مخالف استدلال بھی قطعی نہیں، حالانکہ یہ چیز غزالی کے موقف کو کمزور کرنے کی بجائے الٹا اسے تقویت دیتی ہے کیونکہ جب وہ غزالی کے موقف کو غیر حتمی کہتے ہیں تو اس کا بالواسطہ یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ فلاسفہ کا استدلال بھی اس کے مقابلہ میں حتمی اور قطعی نہیں ) اور یہی ثابت کرنا غزالی کا مقصود ہے( ورنہ ظاہر ہے کہ اگر ان کا استدلال حتمی اور قطعی ہوتا تو غزالی کے استدلال کو وہ غیرحتمی کی بجائے باطل اور غلط محض کہتے۔
“تہافت التہافت” کے دوسطری مقدمہ میں “تہافت التہافت”تحریر کرنے کا مقصد خود ابنِ رشد ہی کے الفاظ میں یہ ہے: “فان الغرض فی ھذا القول ان نبین مراتب الاقاویل المثبتۃ فی کتاب التھافت لابی حامد فی التصدیق والاقناع و قصور اکثرھا عن رتبۃ الیقین” )تہافت التہافت۔صفحہ۵۵( یعنی “اس کتاب میں ہمارا مقصود یہ بتانا ہے کہ ابو حامد الغزالی کی کتاب “تہافت الفلاسفہ” میں جو بیانات اور دلائل مذکور ہیں، استدلال کی رو سے ان کا کیا درجہ ہے اور یہ کہ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جو یقین کے رتبہ سے فروتر ہیں۔” بعینہ اسی طرح کا مضمون لفظوں کے ذرا اختلاف کے ساتھ صفحہ ۸۲ پر بھی موجود ہے۔”فقد تبین لک انہ لیس فی الادلۃ التی حکاھا عن المتکلمین فی حدوث العالم کفایۃ فی ان تبلغ مرتبۃ الیقین، وانھا لیست تلحق بمراتب البرھان، ولا الادلۃ التی ادخلھا عن الفلاسفۃ فی ھذا الکتاب لاحقۃ بمراتب البرھان۔ وھو والذی قصدنا بیانہ فی ھذا الکتاب”۔
ڈاکٹر سلیمان دنیا اس پہ تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “”الغزالی لیس بصدد ان یثبت عقیدۃ فی کتاب تھافت الفلاسفۃ، وانما ھدفہ ھو التشکیک فی ادلۃ الفلاسفۃ تلک الادلۃ التی یزعم الفلاسفۃ انھا بلغت حد الیقین والریاضی ۔۔۔۔۔۔ فلیس اذن من حق ابنِ رشد ان ینتظر من الغزالی فی کتابہ تھافت الفلاسفۃ ان یکون مثبتا ولیس من حقہ کذلک ان یتصید من کلامہ مایسمیہ ادلۃ لم تبلغ متبتہ الیقین” )تہافت التہافت۔ صفحہ ۷۲( یعنی “غزالی اپنی کتاب “تہافت الفلاسفۃ” میں اپنے عقیدہ کو قطعی دلائل کے ساتھ ثابت کرنے کے درپے نہیں ہیں )یہ کام غالباً انہوں نے اپنی ایک اور کتاب قواعد العقائد میں کیا ہے جو احیاء العلوم کا حصہ ہے( اس کتاب (التہافت)میں ان کا مقصود محض فلاسفہ کے دلائل میں اشتبا ہ کی گنجائش نکال کر دکھانا ہے جنہیں فلسفی ریاضی کی طرح قطعی سمجھتے ہیں اور بس، لہذا ابن رشد کےلئے مناسب نہیں کہ وہ غزالی سے اس کتاب میں قطعی دلائل کی توقع رکھے اور نہ ہی اس کےلئے مناسب ہے کہ ان کے غیر یقینی استدلالات کو غیر یقینی کہ کر ان کا شکار کھیلے۔”
خلاصہ یہ کہ غزالی رح نے “مسلم ” فلسفیوں کی طرف جن ہفوات کی نسبت کی ہے،ابنِ رشدان ہفوات کی “مسلم ” فلسفیوں کی طرف نسبت کو غلط ثابت نہیں کرپائے ،بلکہ لگتا ہے کہ یہ ان کا مقصد ہی نہیں تھا۔ “مسلم ” فلسفیوں سے منسوب جن دو ہفوات کا ہم نے حوالہ دیا ہے،ان کے ضمن میں ابنِ رشد کا رویہ سامنے آچکا ہے کہ وہ ان جیسے مسائل میں بوعلی سینا کو ناقل کے بجائے بلکہ موجدِ اول نامزد کردیتے ہیں اور بوعلی سینا وغیرہ کے خلاف غزالی رح کی “چارج شیٹ”کو اور بھی مضبوط بنا دیتے ہیں۔اسی طرح آپ یہ بھی جان چکے ہیں کہ غزالی رح نے جہاں فلاسفی کی الہٰیات کو غیر قطعی ثابت کرنےکے لئے اور محض فلاسفہ کے استدلالات میں تشکیکات دکھانے کے لئے مخالف استدلال کئے ہیں،ان سے ان کامقصود اپنے استدلال کو قطعی ثابت کرنا نہیں،بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ ایسے مسائل میں کسی ایک جانب کو ترجیح دینے کے لئے کوئی قطعی دلیل کسی کے پاس نہیں ہے۔ لہذا ابنِ رشد کاکوشش کرکے ایسے موقعوں پر غزالی رح کے استدلالات کو غیر حتمی ثابت کرنا غزالی رح کے لئے مضر نہیں،بلکہ ان کے مؤقف کو اور زیادہ مضبوط کرتا ہے۔

(3)تیسری بات جو ہم یہاں عرض کرنا چاہتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ مختلف مسائل میں یونانی فلاسفہ کے ہاں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔غزالی رح نے تہافۃ الفلاسفہ میں اس اختلاف سے صرفِ نظر کرتے ہوئے تردید کے لئے صرف ارسطو کے اقوال کو چنا ہے اور ایسا عمداَ کیا ہے۔وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی اس کتاب کے ذریعےبنیادی طور پر اعتقادی انحراف کا شکار مسلم فلسفیوں کو دعوتِ دین و دعوتِ توبہ دینا چاہتے ہیں اور مسلم فلسفیوں کے ہاں ارسطو ہی کو مرشد و سالار سمجھا جاتا تھا۔اگلی بات یہ ہے کہ پھر اسی ارسطو ہی کے کلام کوسمجھنے میں اس کے “مسلم “عقیدت مندوں کا خاصا اختلاف رہا ہے۔غزالی رح نے اس اختلاف سے بھی صرفِ نظر کرتے ہوئے مسلم فلسفیوں میں سے صرف فارابی اور بوعلی سینا کی تشریحات و تفہیمات پر توجہ مذکور کرتے ہوئے انہی کی تردید کرتے ہیں اور یہ بھی انہوں نے عمداََ کیا ہے۔،وجہ یہ ہے کہ “مسلم” فلسفیوں میں جو اثرو رسوخ فارابی اور بوعلی سینا کی آراء کو حاصل تھا ،وہ کسی اور کو نہ تھا اور غزالی رح کا مقصود فلسفیوں کی ہی ہدایت ہے۔ فی الواقع کون سے مسئلہ میں ارسطو کی رائے کو کس فلسفی نے زیادہ درست انداز میں بیان کیا ہے،یہ توضیح اور “کلامِ ارسطو” کی تشریح کے ضمن میں مسلم فلسفیوں کے مابین محاکمہ کرنا غزالی رح کا مقصود نہیں ۔
غزالی رح خود اس بات کو جانتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ ” یعنی”فلاسفہ کا باہمی نزاع اور اختلاف بہت زیادہ ہے اور ان سب کا تعاقب کرنے سےبات طویل ہوجائے گی۔ان کی آراء میں اتحاد نہیں اور نہ ہی ان کے دلائل میں کوئی یگانگت ہے۔اس لئے ہم نے یہاں صرف ارسطو کی آراء کوموضوعِ تنقید بنایا ہے جو “مسلم” فلسفیوں کا مقتدا ہے اور ان کے ہاں اسے فلسفہ کے پہلے باضابطہ استاد کا درجہ حاصل ہے۔۔۔پھر ارسطو کے شارحین اور ترجمانوں کے کلام میں بھی تحریف اور تبدیلی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ توجیہ و تاویل کی محتاج ہے اور جس کی وجہ سےارسطو کے شارحین میں بھی اختلاف پھیل گیا ہے۔ارسطو کے شارح “مسلم”فلسفیوں میں سب سے زیادہ بااثر اور معتمدِِِِِِِِِِِِِِِِِ فارابی اور بوعلی سینا سمجھے جاتے ہیں۔لہٰذا واضح رہے کہ ہم”مسلم”فلسفیوں کی تردید انہی دو آدمیوں کی نقول کی بنیاد پر کریں گے اور بس۔”ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ(تہافت الفاسفۃ،صفحہ؛76،78)
اب بڑی بدیہی سی بات ہے کہ اگر ابنِ رشد غزالی رح کا جواب لکھنا چاہتے تھے تو انہیں اپنےجواب میں فارابی اور بوعلی سینا کی طرف سے بھرپور صفائی دینا تھی،مگر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ان کی گفتگو سے کہیں یہ تاثر نہیں ملتا کہ وہ ابنِ سینا اور فارابی کے وکیل ہیں۔بلکہ اس کے برعکس ابنِ رشد، ابنِ سینا اور فارابی ہی سے شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ انہوں نے حکمائےیونان کے اصل مذہب کوبگاڑ دیا ہے اور اس کی درست تشریح نہیں کی۔انہوں نے ابنِ سینا کے مؤقف،استدلال اور اقوال کوسوفسطائی (تہافت التہافت،صفحہ 237)،خطاء (ص298)،غلط (ص 326)اور غیر صادق (ص407) لکھا۔جی ہاں !یہ سب انہوں نے لکھا ہے۔کچھ مسائل کے بارہ میں لکھا ہے کہ حکماء(حکمائے یونان) میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں تھا،سوائے ابنِ سینا کے،لہٰذا حکماء کی طرف اس کی نسبت کرنا درست نہیں۔(ص195) بعض مسائل کے بارہ میں لکھا ہے کہ فارابی اور ابنِ سینا نے حکمائے یونان کی طرف یہ مسائل غلط طور پر منسوب کیے ہیں۔(ص309،302،121،89) ایک جگہ لکھتے ہیں،”فنظر ھذا الغلط ما اکثرہ علی الحکماء،فعلیک ان تتبین قولھم ھذا۔۔۔فی کتب القدماء لا فی کتب ابن سینا وغیرہ الذین غیروا مذاھب القوم فی العلم الاھی حتی صار ظنیا” (ص 301) یعنی”دیکھو، یہ غلط فکر کتنی کثرت سے حکمائے یونان کی طرف منسوب کی گئی ہے،لہٰذا تم پرلازم ہے کہ ان کے اقوال کو متقدمین کی کتابوں میں دیکھا کرو،ابنِ سینا کی کتابوں میں نہیں!جنہوں نے علمِ الہٰی میں یونانی فلسفہ کے مذہب کو بدل کر اتنی تحریف کی ہے کہ یہ قطعی کے بجائے ظنی ہو کر رہ گیاہے۔” اس عبارت میں کئی دلچسپ مگر غور طلب باتیں ہیں؛
٭ارسطو کے افکار کی تشریح میں ابنِ سینا کے ساتھ ابنِ رشد کا یہ اختلاف کوئی نئی بات نہیں۔آپ جان چکے ہیں کہ غزالی رح’ارسطو کے شارحین کے اس اختلاف سے پہلے ہی واقف ہے۔انہوں نے جان بوجھ کر فارابی اور ابنِ سینا کی تشریحات کو اپنی تنقید کا موضوع بنایا کیونکہ “مسلم”فلسفیوں میں ان کو جو مقام حاصل تھا، وہ کسی اور کو نہ تھا اور غزالی رح کا مقصد “مسلم”فلسفیوں کو ہی دعوتِ اصلاح دینا ہے۔فی الواقع ارسطو یا حکمائے یونان کے افکار کیا ہیں اور کیا نہیں،یہ چیز ان کی بحث سے خارج ہےکیونکہ اب وہ ارسطو کی قبر میں جاکر اس کو دعوتِ دین دینے سے تو رہے۔
٭ابنِ رشد کا جواب واقعتاََ جواب کہلانے کا مستحق تب ہوتا جب ابنِ رشد نے “مسلم” فلسفیوں اور خصوصاََ بوعلی سینا وغیرہ کی طرف سے کوئی صفائی دی ہوتی اور ان کے داغوں کو دھویا ہوتا،کیونکہ غزالی رح کےاپنے الفاظ کے مطابق،غزالی کا مقدمہ انہی کے خلاف تھا۔یہاں تو یہ معاملہ ہے کہ غزالی رح کا مقدمہ جن فلسفیوں کے خلاف ہے،ابنِ رشد ان کی طرف سے سرے سے کوئی صفائی ہی نہیں دیتے،بلکہ انہیں دوہرا مجرم بناتے چلے جاتے ہیں،یہ کہہ کر کہ یہ مسائل ارسطو کی طرف غلط منسوب ہوئے ہیں اور یہ بوعلی سینا وغیرہ کی خواہش ہے۔
٭ اس عبارت سے غزالی رح کے اس دعویٰ کی بھی تائید ہوگئی کہ فلسفی اپنے الہٰیات کو ریاضی کی طرح قطعی سمجھتے ہیں۔چنانچہ ابنِ رشد بھی کہہ رہے ہیں کہ بوعلی سینا کی تشریحات نےفلاسفہ کے علمِ الہٰیات کو ظنی بنا چھوڑا ہے(ورنہ وہ فی الواقع تو قطعی تھا۔)
مزید سنئے،وہ غزالی رح پر بھی غصہ نکالتے ہوئے یہی کہتے ہیں کہ “لم ینظر الرجل الی فی الکتب ابن سینا فلحقہ القصور فی الحکمۃ من ھذہ الجھۃ” (صفحہ 409) یعنی”اس شخص (غزالی رح)نے صرف ابنِ سینا کی کتب پر اکتفاء کیا ہے جس کی وجہ سے وہ فلسفہ کو سمجھنے میں ناقص رہا۔” یعنی قصور ان “مسلم” فلسفیوں کا نہیں جو ابنِ سینا کو ارسطو کا سب سے بڑا شارح سمجھتے ہیں اور نہ ہی ابنِ رشد کا ہے جو ان فلسفیوں کو سمجھانے کے بجائے اور ابنِ سینا کی تردید میں لکھنے کے بجائے غزالی رح کو کوس رہا ہے،قصور ہے تو غزالی رح کا ہے کہ انہوں نے بوعلی سینا کی بنیاد پر اس کے پیروکار فلسفیوں کےخلاف مقدمہ دائر کیو ں کیا ہے؟میں ان لوگوں پر حیران ہوں جو اب بھی ابنِ رشد کے جواب کو”جواب”کہتے ہیں۔
ابنِ رشد کے رویہ کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر سلمان دنیا لکھتے ہیں؛”کنا ننتظر من ابن رشد فی ھذا المقام الا ید خل علی ھذہ الادلۃ التی حکماھا الغزالی تعدیلا من عندہ۔۔۔بل ان یشیر الی الادلۃ التی لابن سینا ولفارابی فی ھذ ا المجال لانھما الذان ینقدھما الغزالی۔۔۔اما ان یغفل ابن رشد بیان ذالک ویحاول ھو ان یعرض ادلۃ الفلاسفۃ فی صورۃ اکثرقوۃ واشد حجیۃ فلیس یثبت بذالک ادانۃ الغزالی۔۔”(تہافت التہافت،صفحہ 83) ایک اور جگہ لکھتے ہیں؛ “ابن رشد لا ینصب نفسہ مدافعا عن ابن سینا والفارابی وحدھما۔۔۔وارسطو اغلی علی ابن رشد من الفارابی وابن سینا،ولذالک حین یختلف الفارابی او ابن سینا مع ارسطو تجد ابن رشد یناصر الغزالی علی الفارابی او ابن سینا لا حبا فی الغزالی،ولکن لان وجھہ وجھہ نظرۃ فی ھذہ الحالۃ تتلقی مع ارسطو الذی ھو احب مخلوق الیہ فی العالم الفلسفۃ”یعنی “ہم اس انتظار میں تھے کہ ابنِ رشد کا جواب پڑھیں گے تو وہ اس میں اپنی جانب سے دلائل دینے کی بجائے بوعلی سینا اور فارابی کے دلائل کی طرف اشارہ کریں گے اور ان کو تقویت دیں گے کیونکہ غزالی رح کی تنقید انہی دو اشخاص پر ہے(لیکن معاملہ یہاں برعکس ہے)،ابنِ رشد اس نکتہ سے غافل ہوکر مسلسل اس چکر میں رہتے ہیں کہ بوعلی سینا کے دلائل سے زیادہ قوی دلائل اپنی جانب سے دےکر غزالی رح کو نیچا دکھائیں،جبکہ یہ ممکن نہیں۔ابنِ رشد اپنے جواب میں اپنے آپ کو صرف بوعلی سینا اور فارابی کا وکیل نہیں سمجھتے،ان کے نزدیک بوعلی سینا اور فارابی سے زیادہ قیمتی ارسطو ہے،لہٰذا جہاں ابنِ رشد کو بوعلی سینا اور فارابی کا ارسطو کے ساتھ اختلاف محسوس ہو(کہ انہوں نے اس کے مذہب کی صحیح توجیہہ نہیں کی ) تو ابنِ رشد بھی بوعلی سینا اور فارابی کے خلاف بیان دےکر غزالی ؒ کی مدد کرتے رہتے ہیں،اس وجہ سے نہیں کہ وہ غزالیؒ سے محبت ہے،بلکہ اس وجہ سے کہ فلسفہ کے جہان میں ان کے لئے سب سے محبوب مخلوق ارسطو ہی ہے۔”
ابنِ رشد کا خواہ مخواہ کئی جگہوں پر یہ کہنا کہ یونانی فلاسفہ کی طرف ان کی نسبت درست نہیں اور یہ بوعلی سینا وغیرہ کی غلطی ہے جس کی تردید کرکے غزالی ؒ مطمئن ہیں،اپنا مذاق بنوانے والی بات ہے۔غزالیؒ کو خود بھی معلوم ہے کہ یونانیوں کے ہاں ایسے مسائل میں اختلاف رہا ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ “مرشد ارسطو” کے کلام کو سمجھنے میں ان کے “مسلم” عقیدت مندوں کا شدید اختلاف ہے، انہوں نے جان بوجھ کر صرف فارابی اور بوعلی سینا کو مدنظر رکھا کہ “مسلم” فلسفیوں میں جو اثرو رسوخ ان کی آراء کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں اور غزالی رح کا مقصد فلسفیوں ہی کی اصلاح اور انہیں رجوع الی اللہ کی طرف آمادہ کرنا تھا۔فرض کریں کہ اگر ابنِ رشد واقعی سچ کہتے ہیں اور جو ابنِ سینا نے ارسطو کے کلام کو سمجھا،وہ غلط ہے تو یہ ان کا بوعلی سینا سے اختلاف ہے اور انہیں چاہئیے تھا کہ ابنِ سینا کی تصانیف :الارشادات”اورالشفاء”کا رد لکھتے،اس کے لئے “تہافت الفلاسفۃ” کا رد لکھنے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟یا پھر اپنے فلسفی بھائیوں کو سمجھاتے جو ابنِ رشد کے بجائے ابنِ سینا کو ارسطو کا جانشین سمجھتے ہیں۔غزالیؒ ‘فلسفیوں کی فکری تدفیقات سے غافل نہیں،وہ ان سے واقف ہیں اور انہوں نے “تہافت الفلاسفۃ”سے پہلےایک تمہیدی کتاب “مقاصد الفلاسفۃ”کے نام سے تحریر کرکےفلسفیوں سے بھی زیادہ اچھے انداز میں فلسفیوں کے مذہب اور فکر کوتفصیل سے اور بغیر تنقیدکئے بیان کیا ہے۔
ابنِ رشد کے دلائل خواہ کتنے ہی قوی ہوں،دیکھنا یہ ہےکہ مسلم فلسفیوں اوربوعلی سینا وغیرہ کی طرف سے کتنی وکالت کی ہے اور کتنا کامیاب مقدمہ لڑا ہے؟تب ہی ان کا جواب “جواب”کہلانے کا مستحق ہوگا۔
(4)بعض لوگوں کا خیال ہے کہ غزالیؒ کے برعکس ابنِ رشد کا لہجہ نرم ہوتا ہے،اس نے کہیں بھی غزالیؒ کے لئے ناشائشتہ الفاظ استعمال نہیں کئے۔ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ غزالی ؒ کے لہجہ میں کتنی تلخی ہے اور کیوں؟بس ان حضرات کی اطلاع کے لئے بتانا چاہتے ہیں کہ ابنِ رشد نے بھی “غزالیؒ”(جو رشتے میں شائد ابنِ رشد کے دادا استاد بھی ہیں)کےلئے شریر اور جاہل کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔(صفحہ 195،196)
(5)غزالی ؒ کے اٹھائے گئے بعض جزوی نکات پر ابنِ رشد کی تنقید بجا بھی ہوسکتی ہے،لیکن فی الجملہ یہ سمجھنا کہ انہوں نے “مسلم”فلسفیوں کے سارے داغ دور کردیے ہیں،اس بات کی دلیل ہے کہ ابنِ رشد کے ہمنوا اس سے زیادہ اس کے وفادار بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ساری بحث کو ایک طرف رکھ دیجئے،مجھے صرف ایک سوال کا جواب دیجئے کہ ابنِ رشد نے “مسلم”فلسفیوں کی طرف منسوب ہفوات کوان سے کیسے دور کردیا،جن میں سے دینی عقائد پر براہِ راست ضرب لگانے والی دو مثالوں کا ذکر مضمون کی ابتدائی سطور میں ہوچکا ہے؟

٭ابنِ رشد سے پیار کیوں؟
مذکورہ بالا صورتِحال کو سامنے رکھتے ہوئے، میں ابنِ رشد کے مریدوں سے پوچھتا ہوں کہ آخر کس امتیازی خوبی کی بناء پر وہ ابنِ رشد کے سام سے اپنا رشتہ جوڑتے ہیں؟کیس محض اس وجہ سے کہ”تردیدِ غزالی”کا “سہرا”ان کے سرپر ہے؟مجھے شک ہے کہ ابنِ رشد کو بطورِ مرشد پیش کرنے والے اس کے چالاک مریداور غیر مسلم”لبرلز” اس کی جس خوبی سے متاثر ہیں وہ اس کی آزاد خیالی ہے جو تاریخی روایات میں اس سے منسوب کی گئی ہے۔اگر ابنِ رشد کوراہنما بنانا ہے اور اسی ابنِ رشد کو جوتاریخی روایات کے اندر نظر آتاہے تو سنئے،وہ قومِ عاد کے وجود کا منکر تھا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔(تاریخ فلسفۃ الاسلام،صفحہ 148) میں نہیں کہتا کہ یہ بات ضرور سچ ہے جو اس سے منسوب کی گئی ہے،ہاں البتہ میں یہ سوچتا ہوں کہ اس کے تاریخی چہرے پر لگے ان جیسے”تاریخی داغوں”کو دھوئے بغیر اس کے تاریخی چہرہ کو راہنما و مرشد بنانے میں کیا حکمت ہوسکتی ہے؟ابنِ رشد کے مرید اس بات کا جواب نہیں دیتے۔ابنِ رشد کی ذات ہماری نظر میں ایک معما ہے۔اس کی زندگی میں اس کی طرف بہت کچھ منسوب ہوا اور اس کی صفائیاں بھی ملتی رہیں۔مسلم امراء کے ہاں اسے کبھی عزت اور کبھی ذلت نصیب ہوتی رہی۔(دیکھئے؛تاریخ فلسفۃ الاسلام)اس معمہ کو حل کئے بغیر اس کو راہنما بنانے ے کیا مقصود ہے؟
بتایا جاتا ہے کہ ابنِ رشد نے سائنس و فلسفہ کے لئے بہت سی قربانیاں دیں،اس نے جوتے کھائے اور اس پر تھوکا گیا۔سوال یہ ہے کہ جس تاریخ میں اس کی یہ “قربانیاں” مذکور ہیں،کیا اسی تاریخ میں وہ”سائنسی انکشافات”مذکور نہیں ہیں جس کی وجہ سے اسے عام مسلمان کے غیظ وغضب کا شکار ہونا پڑا؟یا تو دونوں سچ کیئے یا پھر دونوں غلط۔اگر بات قربانیوں کی ہے تو سنئے،مسلم معاشرہ سے فلسفہ کے برے اثرات ردکرنے کےلئے امام احمد بن حنبلؒ نے بھی بہت کوڑے کھائے،کیا محض اس بناء پر آپ فلسفہ کے مضر اثرات کو تسلیم کرلیں گے؟اگر ہاں تو غزالیؒ کا کیا قصور ہے؟انہوں نے انہی مضرات کو ہی تو نشان زد کیا تھا۔مزید سنئے، خود غزالیؒ کے بارہ میں منقول ہے کہ ان کی بعض کتابیں بعض علاقوں میں جلائی گئیں۔(طبقات الشافعیۃ،جلد 6،صفحہ 258) پس کیا فرق ہوا؟اپنے مؤقف کے لئے قربانیاں تو سب نے دی ہیں۔
مراجع
1۔مقاصد الفلاسفۃ،امام غزالیؒ-تحقیق؛محمود بیجو۔ط؛مطبعۃ ایضاح،دمشق
2۔تہافت الفلاسفۃ،امام غزالیؒ۔تحقیق؛ڈاکٹر سلیمان دنیا-دارالمعارف،مصر
3-تہافت التہافت،ابنِ رشد۔تحقیق؛ڈاکٹر سلیمان دنیا-دارالمعارف،مصر
4۔ھدایۃ الحکمۃ،اثیر الدین ابہری-حواشی؛محمد عبیداللہ قندھاری و سعادت حسین۔ط؛مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ
5۔طبقات الشافعیۃ،تاج الدین السبکی-ط؛داراحیاء الکتب العربیۃ
6۔تاریخ فلاسفۃ الاسلام،لطفی جمعہ-ترجمہ؛ڈاکٹر میر ولی محمد۔ط؛نفیس اکیڈمی،کراچی
7۔مقدمہ ابنِ خلدون،ترجمہ ؛مولانا عبدالرحمٰن دہلوی۔ط؛الفیصل،لاہور
8۔حکمائے اسلام،مولانا عبدالسلام ندوی۔ط؛نیشنل بک فاؤنڈیشن
9۔علم الکلام،علامہ شبلی نعمانی۔ط؛نفیس اکیڈمی،کراچی

تحریر محمد عبداللہ شارق، بشکریہ ماہنامہ الشریعہ
 
Top