قصہ ڈیڑھ لاکھ والی مسجد کا

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قصہ ڈیڑھ لاکھ والی مسجد کا
(مولانا )عبد الرحیم (صاحب) مظاہری مہتمم مدرسہ ریاض العلوم،گورینی،جونپور،انڈیا
والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ممبئی کثرت سے آناجاناہوتارہتا تھا، قیام کبھی طویل ہوتا اور کبھی مختصر ، ایک مرتبہ YMCمیدان(مدن پورہ) کے سامنے واقع سہاگ پیلیس میںحضرت کا قیام تھااور اتوارکا دن،صبح صبح ممبئی کے بڑے بڑے تاجروں کا ایک وفد ملاقات کے لیے آیا، چائے وغیرہ سے فراغت کے بعد ایک صاحبنے مساجد کا تذکرہ چھیڑ دیا کہ فلاں ملک میں اتنے کروڑکی مسجدبنی ہے اورفلاں ملک میں اتنی بڑی مسجد ہے کہ بیک وقت ایک لاکھ آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں،دیگر حضرات بھی اپنی اپنی معلومات کے حساب سے دنیا کی بڑی مساجد کا تذکرہ اوران پر تبصرہ کرنے لگے، والد صاحب اپنی عادت کے مطابق خاموشی سے سنتے رہے ، اورمیں دل ہی دل میں سوچتا رہاکہ :
''یہ سب حضرات کروڑ پتی، ارب پتی ہیں، کاش ان حضرات کی توجہ ان غریب مسلمانوںکی طرف ہوجاتی ،جہاں غربت کی وجہ سے مسلمان مسجد نہیں بناپاتے،سیکڑوں نہیں ہزاروں گاؤں ایسے ہیں، جہاں مسلمان دو چار گھر سے لے کر پچیس پچاس گھر تک ہیں ،ان کے پاس مسجد کے لیے زمین بھی ہے؛لیکن غربت کی وجہ سے وہمسجد نہیںبنا پاتے ۔''
میرے لیے ان حضرات کی گفتگو جب ناقابل برداشت ہوگئی ، تو مجھ سے رہا نہ گیا اورمیںبول پڑاکہ :
''آپ حضرات کروڑوں ، اربوں کی بات کرتے ہیں ، مجھے تو صرف ڈیڑھ لاکھ مل جائے تو میں مسجد بنادوں اور وہ بھی آپ حضرات کی کروڑوں کی مسجد سے زیادہ فائدہ مند ہوگی۔''
میری بات سنتے ہی ان میں سے چند حضرات نے میری طرف بنظر استہزا دیکھا ؛لیکن ان میں سے ایک صاحب میری طرف متوجہ ہوئے اور کہاکہ مولوی صاحب آپ نے دو دعویٰ کیا ہے(١) ڈیڑھ لاکھ میں مسجد کی مکمل تعمیرجب کہ ممبئی میں ڈیڑھ لاکھ میں مسجد کا پیشاب خانہ بھی نہیں بن پاتا(٢) کروڑوں والی مسجد سے زیادہ نفع بخش ۔
ذرا آپ وضاحت کریں کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ میں نے کہا :سنئے !
'' میں پورے ملک کی بات نہیں کرتا ، صرف پوربی یوپی کی بات کرتاہوں ، جس علاقے کا میں رہنے والا ہوں، سیکڑوں نہیں ہزاروں گاؤں ایسے ہیں، جہاں غریب مسلمان دو ،چار، دس، پندرہ، بیس، پچیس رہتے ہیں اور ان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے گاؤں میں مسجد بن جائے؛ لیکن اتنی مالی وسعت نہیں کہ وہ مسجد بناسکیں،جب کہ وہ زمین دینے کے لیے اورمحنت ومزدوری کے لیے بھی تیار رہتے ہیں، میںایسے گاؤں میں دو صف (١٠٣٠)کا ایک ہال بناتاہوں،جانب مشرق اوسط درجے کی لکڑی کے تین دروازے ،جانب مغرب محراب کے دائیں بائیں ایک ایک اورجانب شمال و جنوب ایک ایک کل چار کھڑکیاں ، اونچائی ١٠/فٹ، گاٹر اور پٹیا کی چھت ،اس کے اوپردو چھو ٹے چھوٹے مینارے ،کمرہ کے بعد٢٠٣٠ کا صحن ، صرف تین فٹ اونچی دیوار سے صحن کااحاطہ کردیا گیا ،مسجد کے باہرایک ہینڈ پائپ، چند لوٹے اور ایک استنجا خانہ، بس مسجد تیاراور اذان ، نماز شروع۔''
اب آپ خود ہی غور کرلیجئے اتنی تعمیر کے لیے کتنی رقم چاہئے ، جب کہ لیبر کا اکثر کام وہ غریب مسلمان خود ہی کرلیتے ہیں، مسجد کا پیسہ یا لگتاہی نہیں اورلگتا بھی ہے تو بہت ہی کم ۔
رہی بات دوسرے دعوے کی تواس کی تفصیل بھی سنئے!
'' اس گاؤںمیں جب پہلی مرتبہ اذان ہوتی ہے تو مسلمانوںہی کے چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں بڑے بوڑھوں سے پوچھتے ہیں کہ اِی کا ہولا؟(یہ کیا ہورہا ہے)تو بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ اذان ہورہی ہے، اور اللہ کی بڑائی بیان کی جارہی ہے، اس دن گاؤں کے عورت مرد، بچے بوڑھے سبھی کی خوشی قابلِ دید ہوتی ہے، اور اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ نے بڑی نعمت عطا فرمائی ۔''
مسجد کی تیاری کے بعد ایک آدمی کو وہاں امام رکھ دیتا ہوں، تاکہ نماز کے ساتھ ساتھ بچوں کودینی تعلیم دے اور بڑے لوگوں کو کلمہ، درود وغیرہ سکھانا شروع کردے، رفتہ رفتہ آبادی کے ہرمسلمان مردو عورت کلمہ سیکھ جاتے ہیں اور پڑھنے بھی لگتے ہیں اور جنازہ ،تجہیز وتکفین، نکاح و شادی سب اسلامی طریقے پرہونے لگتے ہےں، جب کہ اس سے پہلے ان کی اکثریت مسلمان ہونے کا مطلب صرف عید ،بقرعید کا تہوار منانا، ختنہ کرانااور گوشت کھانا ہی سمجھتے تھے۔
محترم !آپ حضرات کی کروڑ وںوالی مسجد میں مسلمان آئیں گے اور نماز پڑھ کے چلے جائیں گے بس، ایسی آبادی جس میں مسجد نہیں تھی، مسجد بنتے ہی مسلمانوں میں یکجائی اور قوت آجاتی ہے اور جو مسلمان ارتداد کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں،پنجوقتہ اذان ونماز اورمعلم و مبلغ کی برکت سے ارتداد سے بچ جاتے ہیں اور اسلام پرمضبوطی سے جم جاتے ہیں اور ان کی آنے والی نسلیں بھی ان شاء اللہ ایمان و اسلام پر قائم و دائم رہےں گی،یا بالفاظ دیگر یوں کہئے :فسق و فجور ، جہالت و کفرو شرک سے نکل کر ایمان و اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں،میری اس تقریر سے والد صاحب کا چہرہ بھی خوشی سے کھل گیا(فللہ الحمد )اور ایک صاحب نے میری بات سے متاثرہوکر کہا میں ڈیڑھ لاکھ روپیہ دیتا ہوں، آپ ایک مسجد بنائےے،میں تیار ہوگیااورایسے گاؤں کا انتخاب کیا ، جس میں صرف دوگھر مسلمان تھے ( اب تو الحمد للہ ٨/ گھر ہوچکے ہیں)اور مسجد بن کر تیار بھی ہوگئی تووہ صاحب ممبئی سے مسجد دیکھنے کے لیے تشریف لائے اور مسجد دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے،اینٹ سیمنٹ وغیرہ کا حساب پوچھااورتھوڑی دیر خاموشی کے بعد فرمایا کہ مولوی صاحب آپ کے بتائے ہوئے حساب سے مسجد کا خرچ ڈھائی لاکھ بنتا ہے، میں نے کہا آپ کا تخمینہ صحیح ہے؛لیکن مزدوری میں ایک پیسہ بھی خرچ نہیںہواہے ، یہ پورا خاندان راج گیر ہے ، سب نے مل کر خود ہی بناڈالااورجب اپنے رشتہ دار ومتعلقین کو خوشخبری سنائی کہ ہماری مسجد بن رہی ہے، ان لوگوں نے بھی اپنی اپنی وسعت کے مطابق سو دو سو روپئے یا اور کوئی سامان بھجوادیا ، اس طرح کم خرچ میں گمان سے زیادہ اچھی مسجد بن گئی۔
الحمد للہ١٤١٥ھ(١٩٩٣ئ)میں مسجد (ویس پار جونپور یوپی )بن کر تیار ہوئی،اسی وقت سے ریاض العلوم کی طرف سے ایک استاذ بھی وہاں پرامامت و معلمی کے فرائض انجام دے رہے ہیں، آج ٣٠/ نومبر ٢٠٢١ء ہے، کل اسی گھرانے میں ایک بچی کا نکاح ہے ،آج بعد نماز مغرب مولانا عبد الحلیم صاحب نور اللہ مرقدہ بانی مدرسہ عربیہ ریاض العلوم چوکیہ گورینی کے پوتے مولانا احمد شمیم صاحب استاذ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم کا بیان ہوا اور میزبانوں کے مطابق اس کا کافی مثبت اثر رہا، بیان میں دوسرے گاؤں کے کچھ جہالت اور بدعت سے متاثر افراد بھی شریک ہوئے، جن کا تبصرہ یہ تھا کہ مولانا نے بہت اچھی اور عام فہم باتیں کیں، جو پڑھے لکھے اوران پڑھ لوگوں کے دلوں میں بھی آسانی سے اتررہی تھیں، ہمارے مسلک کے مولانا لوگ بلا وجہ آپ حضرات کے بیان میں شرکت سے روکتے ہیں۔
اسی آبادی میں مسجد بننے کے بعد ہی میں نے ایک نکاح پڑھایا تھا، لوگ طرح طرح کے رسوم کے پابند تھے، اور اس بات پربضد تھے کہ نکاح تما م غیر شرعی رسوم کے ساتھ تم کو پڑھانا ہے، ورنہ نہیں،میرے انکار پر ایک رسم پرست نکاح خواں سے انھوں نے نکاح پڑھوایا تھا، مگر آج صورت حال سب بدل گئی ہے،پہلے ہی ان لوگوں نے کہہ دیا تھا کہ نکاح حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب ناظم مدرسہ عربیہ ریاض العلوم سے ہی پڑھوانا ہے۔فللہ الحمد۔
مسجد اب مکمل ہے، پلاسٹر ، سفیدی، وائرنگ ، فرش ، دروازے کاکام بھی ہوچکا ہے،وہ بھی کیسے؟ ایک مرتبہ شادی کا موقع تھا، کچھ مالدار رشتہ دار آئے، انھوں نے مسجد کے فرش کو نامکمل دیکھا ، انھوں نے پورے مسجد کا فرش بنوادیا، غرضیکہ اسی طرح ایک ایک حصہ بنتا رہا اور اب مسجد کا پلاسٹر ،دروازہ، وائرنگ، مائک ، استنجا خانہ ، وضو خانہ سبھی مکمل ہوگئے۔
اس مسجد کے بعد اللہ کے فضل و کرم سے بہت سی ایسی مساجد بنیں، جو ابتدا میں بلا پلاسٹر اور دروازے اورکھڑکی کے تھیں ؛ لیکن رفتہ رفتہ وہ سب مکمل ہوگئیں اور سبھی میںنماز باجماعت ہورہی ہے۔فللہ الحمد والمنۃ
جن صاحب نے مجھ سے پوچھا تھا کہ تم مسجد کیسے بناؤ گے اورڈیڑھ لاکھ والی مسجد کی تعمیرکے لیے ہمت باندھی تھی، ان صاحب خیر کا نام بابو بھائی مہتہ(رحمۃ اللہ علیہ)ہے، ان کے صاحبزادے کا اسم گرامی منصور مہتہ ہے ( میراتھن انّوا،گنپت راؤ قدم مارگ، لوور پاریل، ممبئی٤٠٠٠١٣ )
یہ پہلی مسجد ہے جو کم خرچ اور ایسی آبادی میںبنی جس میں کوئی مسجد نہیں تھی، اس کے بعد سے یہ سلسلہ چل نکلا ، کتنی مساجد بن گئیں، اب مجھے بھی یاد نہیں؛لیکن جتنی بھی اس جیسی مساجد بنیں ، سب کا ثواب بابو بھائی مہتہ کو یقینا ملے گا، اس لیے کہ وہ اس کار خیر کی ابتدا کرنے والے ہیں، اللہ رب العزت ان کی قبر پر رحمتوں کی بارش فرمائے اور ان کی آل و اولاد کو دارین میںترقیات سے نوازے،آمین یارب العالمین۔
 
Last edited:

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
محترم میرے بھتیجے کے انتقال کے بعد میں نے ذاتی طور پر اپنے بھائی سے کہا کہ ایک مسجد کی تعمیر کرتے ہیں جو صدقہ جاریہ ہوگا اور ثواب بھتیجے کو اور ہمارے والدین کے ساتھ ہمیں بھی فائدہ ہوگا
بھائی نے کہا کہ فی الحال کسی مسجد اور مدرسہ میں ہم حصہ ڈال دیتے ہیں
میں نے ان سے کہا کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں پر ہمارے آس پاس آباد مساجد ہیں جس میں صرف ڈیکوریشن کے خرچے ہو رہے ہیں
میں نے ان سے کہا کہ ایک ایسی آبادی جس میں مسجد کی ضرورت ہو اور آس پاس مسجد بھی نہ ہو وہاں پر زمین خرید لیتے ہیں
ہم نے تلاش کیا اور ایک علاقے میں جہاں نئی آبادی ہو رہی ہے اور جہاں مسجد کی ضرورت ہے اور آس پاس کرسچن آبادی ہے وہاں پر ہم نے پلاٹ خریدا
120 گز کے 4 پلاٹ خریدے جو 480 گز بنے اور سستا ملا
اب وہاں پر ہم کام شروع کر رہے ہیں اور بہت جلد بنیاد ڈالیں گے
ابھی ہم نے جگہ صرف دیکھی اور بہت سارے بچےجو کھیل رہے تھے جمع ہو کر کہنے لگے کہ ہمارے لیے مدرسہ کی بھی ضرورت ہے
تو اس طرح مدرسہ بھی بنا لیں گے اسی مسجد کی جگہ۔
تو جہاں ضرورت ہو وہاں پر فائدہ مند ہوتا ہے
جب مسجد ایک بار بن جاتی ہے تو وہ پھر وقت کے ساتھ ترقی کرتی جاتی ہے
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مسجد تو بنالی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
سادگی اور تقوی کی بنیاد عند اللہ مقبولیت کی نشانی ہے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : جو شخص صبح کو مسجد میں جائے یا شام کو مسجد میں جائے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لئے ہر صبح وشام جنت سے ضیافت تیار کرتا ہے ۔
(بخاری ، مسلم)
 
Top