تعصب پسندی کی حوصلہ شکنی

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اور نظام کا مقصد پوری انسانیت کی فلاح اور ترقی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی معاشرے کو ایک ایسی عمارت سے تشبیہ دی ہے جس کا ہر حصہ باقی اجزاء کو سہارا دیتا ہے اور مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا ہے، جس کا ہر عضو دوسرے اعضاء کی تکلیف کو محسوس کرتا اور اُسے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔

چوں کہ فرقہ بندی، علاقائیت، قومیت ، صوبائیت اور لسانیت کی سوچ سے ایک اسلامی معاشرے کو بے حد نقصان پہنچتا ہے، اور اغیار کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کے باہمی اختلافات پیدا کرکے مسلمانوں میں انتشار پھیلائیں۔ تعلیماتِ نبویہ((علی صاحبہا الصلوۃ والسلام)) نے ان سارے راستوں کو بند کردیا ہے جن سے انتہاء پسندانہ سوچ جنم لیتی ہے۔ حکمرانوں کی اطاعت اورمسلمانوں کی جماعت کے ساتھ جڑے رہنے کے سلسلے میں ارشاداتِ نبویہ((علی صاحبہا الصلوۃ والسلام)) مشعلِ راہ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعصب پسندی کی حوصلہ شکنی فرمائی، مسلمانوں اور مسلمانوں کے ملکوں میں رہنے والی اقلیتوں کے قتل و قتال میں ملوث لوگوں کے لیے انتہائی سخت الفاظ بیان فرمائے


چنانچہ ارشادِ نبوی ہے:

’’عن أبی قیس بن ریاح عن أبی ہریرۃؓ عن النبی - صلی اللّٰہ علیہ وسلم - أنہٗ قال: من خرج من الطاعۃ وفارق الجماعۃ فمات ، مات میتۃً جاہلیۃً ، ومن قاتل تحت رأیۃ عمیۃ یغضب لعصبیۃ أو یدعو إلٰی عصبیۃ أو ینصر عصبیۃ ، فقتل فقتلۃ جاہلیۃ ومن خرج علٰی أمتی یضرب برہا وفاجرہا ولا یتحاش من مؤمنہا ولا یفی لذی عہد عہدہٗ فلیس منی ولست منہ ۔ ‘‘
(صحیح مسلم ، کتاب الإمارۃ، باب الأمر بلزوم الجماعۃ عند ظہور الفتن ، ج:۶ ، ص: ۲۰، ط:دار الجیل)

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
جو شخص حکمرانِ وقت کی اطاعت سے باہر نکل آئے اور مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہو اور اسی حالت میں اُسے موت آئے تو یہ شخص جاہلیت کی موت مرا۔ جوشخص عصبیت کی خاطر اندھا دھند کسی کے جھنڈے تلے لڑے، عصبیت کی طرف بلائے یا عصبیت کے لیے معاون بنے اوراس دوران وہ قتل ہوجائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ جو شخص میری اُمت کے خلاف برسرِپیکار نکلے، نیک و بد کی تمیز کیے بغیر ہر شخص کو قتل کرتا پھرے ، کسی مؤمن سے اپنی تلوار کو نہ بچائے اور نہ ہی کسی ذمی کے عہد کو پورا کرے تو نہ اُس کا مجھ سے کوئی تعلق اور نہ میرا اُس سے کوئی تعلق ہے۔ ‘‘


اسلام کی اعتدال پسندی یہ ہے کہ وہ اپنی جان ومال، دین ووطن کے دفاع اور تحفظ کے لیے سینہ سپر رہنے کی تلقین بھی کرتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ کسی فرد یا قوم سے کسی دوسرے فرد یا قوم کو بلاقصور کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
 
Top