منگنی میں ہاتھ کیوں مانگتے ہیں

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
ایک دوست اپنی پریشانی کا سبب بتاتے ہوئے کہنے لگا
"یا ر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی، شادی کی بات کرتے وقت لڑکے والے لڑکی کے ماں باپ سے لڑکی کا ہاتھ کیوں مانگتے ہیں؟ آخر لڑکی کے پاوٗں بھی تو ہوتے ہیں"؟ اب اس بے چارے کی اپنی نظر وفکر ہے ۔۔مانگنے پر تو جہیز بھی مانگا جاتا ہے بڑی بڑی فرمائشیں ہوتی ہے پر اسکی سوچ کا گھوڑا ابھی ہاتھوں پہ اٹکا ہوا ہے داماد جی کے سامنے دستر خوان پر ۔۔انڈوں کا سالن پیش کیا گیا۔۔تو داماد جی بڑے غور وفکر سے اسے دیکھنے لگے ساس نے جب دیکھا داماد جی محو حیرت ہے ناجانے اسے سالن پسند نہیں آیا یا برتتن پسند نہیں ساسو ماں بولیں ۔۔۔۔۔۔۔ میاں خیر ہے یوں دیدے پھاڑ پھاڑ کر کیا دیکھ رہے ہو۔۔داماد جی گویا ہوئیے ساسو ماں مجھے ان انڈوں کے والدین سے ملنے کا اشتیاق ہے ۔۔۔ساسو ماں بولیں ۔۔۔۔میاں۔یہ۔یتیم ہیں انہیں کے سروں پہ دست شفقت رکھدو۔۔۔اب۔ انڈوں کے ماں باپ کہاں سے تلاش کیجیے جائیں اسی۔طرح۔ یہ سوال بھی ۔۔۔مگنی میں ہاتھ کیوں مانگتے ہیں۔۔۔۔
دوسرا دوست اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگا
"بے وقوف آدمی۔۔۔۔!! لڑکی کے ہاتھ میں سونے کی چوڑیاں اور انگلیو ں میں سونے کی انگوٹھیاں ہوتی ہیں اس لئے اس کا ہاتھ مانگا جاتا ہے جبکہ پیروں میں تو ہیل اور سینڈل ہوتے ہیں"
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ایک دوست اپنی پریشانی کا سبب بتاتے ہوئے کہنے لگا
"یا ر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی، شادی کی بات کرتے وقت لڑکے والے لڑکی کے ماں باپ سے لڑکی کا ہاتھ کیوں مانگتے ہیں؟ آخر لڑکی کے پاوٗں بھی تو ہوتے ہیں"؟ اب اس بے چارے کی اپنی نظر وفکر ہے ۔۔مانگنے پر تو جہیز بھی مانگا جاتا ہے بڑی بڑی فرمائشیں ہوتی ہے پر اسکی سوچ کا گھوڑا ابھی ہاتھوں پہ اٹکا ہوا ہے داماد جی کے سامنے دستر خوان پر ۔۔انڈوں کا سالن پیش کیا گیا۔۔تو داماد جی بڑے غور وفکر سے اسے دیکھنے لگے ساس نے جب دیکھا داماد جی محو حیرت ہے ناجانے اسے سالن پسند نہیں آیا یا برتتن پسند نہیں ساسو ماں بولیں ۔۔۔۔۔۔۔ میاں خیر ہے یوں دیدے پھاڑ پھاڑ کر کیا دیکھ رہے ہو۔۔داماد جی گویا ہوئیے ساسو ماں مجھے ان انڈوں کے والدین سے ملنے کا اشتیاق ہے ۔۔۔ساسو ماں بولیں ۔۔۔۔میاں۔یہ۔یتیم ہیں انہیں کے سروں پہ دست شفقت رکھدو۔۔۔اب۔ انڈوں کے ماں باپ کہاں سے تلاش کیجیے جائیں اسی۔طرح۔ یہ سوال بھی ۔۔۔مگنی میں ہاتھ کیوں مانگتے ہیں۔۔۔۔
دوسرا دوست اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگا
"بے وقوف آدمی۔۔۔۔!! لڑکی کے ہاتھ میں سونے کی چوڑیاں اور انگلیو ں میں سونے کی انگوٹھیاں ہوتی ہیں اس لئے اس کا ہاتھ مانگا جاتا ہے جبکہ پیروں میں تو ہیل اور سینڈل ہوتے ہیں"
جب والدین کو احساس ہوتا ہے کہ ان کا بیٹا اب ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے اور ان کے ہاتھ آنے والا نہیں (یہاں ہاتھ پر زور ہے)
تو وہ لوگ پھر کچھ ایسے ہاتھ تلاش کرنے لگتے ہیں جن ہاتھوں سے بیٹا کنٹرول ہو سکے اس لیے وہ لڑکی مانگنے وقت لڑکی کے ہاتھ مانگتے ہیں (امید ہے کہ سمجھ آئی ہوگی)
 

رعنا دلبر

وفقہ اللہ
رکن
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے یٹی والے خود چل کر جاتے ہیں اور ان کے بیٹے کاہاتھ مانگتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے جس طرح ہم نے اس کو سنبھالا اسی طرح یہ ہماری بیٹی کو سنبھالے گا
یہ سوچنا والدین بیٹے کو کنٹرول کرنے ہوگا تو کہیں نہ کہیں غلط تاثر جاتا ہے اور بعض اوقات بیٹا ایسا کنٹرول ہوتا ہے جو والدین کو کچھ نہیں سمجھتا
بلکہ اس کو ایک خوبصورت رشتہ کے طور پر مرموٹ کرنا چاہئے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے یٹی والے خود چل کر جاتے ہیں اور ان کے بیٹے کاہاتھ مانگتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے جس طرح ہم نے اس کو سنبھالا اسی طرح یہ ہماری بیٹی کو سنبھالے گا
یہ سوچنا والدین بیٹے کو کنٹرول کرنے ہوگا تو کہیں نہ کہیں غلط تاثر جاتا ہے اور بعض اوقات بیٹا ایسا کنٹرول ہوتا ہے جو والدین کو کچھ نہیں سمجھتا
بلکہ اس کو ایک خوبصورت رشتہ کے طور پر مرموٹ کرنا چاہئے
ہمارے یہاں ایسا کوئی رواج نہیں ہے کہ بیٹی والے جا کر ان کے بیٹے کا ہاتھ مانگتے ہوں ۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سب لوگ بات کو سنجیدہ لے گے ہو
سنجیدہ نہیں بلکہ رنجیدہ ہو گئے لڑکوں کی حالت دیکھ کر جب والدین ہاتھ مانگیں اور وہ بھی ایسی لڑکی کے جس کے ہاتھ بہت بڑے اور مضبوط ہوں
 

رعنا دلبر

وفقہ اللہ
رکن
ہمارے یہاں ایسا کوئی رواج نہیں ہے کہ بیٹی والے جا کر ان کے بیٹے کا ہاتھ مانگتے ہوں ۔
ایسا رواج کہیں بھی نہیں بلکہ اس طرح آج کل اچھا رشتہ ملنا ہر گھر کی پریشانی بنا ہوا ہے اس لیے بعض دفعہ بیٹی والوں کو رشتہ مناسب لگے تو وہ بیٹے والوں سے بیٹے کا ہاتھ مانگ لیتے ہیں
اور میرے خیال میں یہ کوئی بری بات نہیں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ایسا رواج کہیں بھی نہیں بلکہ اس طرح آج کل اچھا رشتہ ملنا ہر گھر کی پریشانی بنا ہوا ہے اس لیے بعض دفعہ بیٹی والوں کو رشتہ مناسب لگے تو وہ بیٹے والوں سے بیٹے کا ہاتھ مانگ لیتے ہیں
اور میرے خیال میں یہ کوئی بری بات نہیں
لڑکی کی عزت و تکریم اسی میں ہے کہ لڑکا لڑکی کے گھر جا کر رشتہ مانگے۔۔۔۔اور اگر دیکھا جائے تو یہی ہوتا آرہا ہے۔اگر چہ قرآن و حدیث سے یہ ثابت نہیں لیکن روایات سے یہی ثابت ہوتا ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہہ کے لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ مانگا
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت ام کلثوم کا رشتہ مانگا
آپ ﷺکے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد خویلد بن اسد کے پاس رشتہ لے کر آئے
 

رعنا دلبر

وفقہ اللہ
رکن
آپ ﷺکے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد خویلد بن اسد کے پاس رشتہ لے کر آئے
جہاں تک میرے علم میں ہے حضرت خدیجہ کے والد انتقال کرچکے تھے۔

اہل علم اس بارے میں میری رہنمائی فرمادیں

@احمدقاسمی @محمدداؤدالرحمن علی @مولانانورالحسن انور @زنیرہ عقیل
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جہاں تک میرے علم میں ہے حضرت خدیجہ کے والد انتقال کرچکے تھے۔

اہل علم اس بارے میں میری رہنمائی فرمادیں

@احمدقاسمی @محمدداؤدالرحمن علی @مولانانورالحسن انور @زنیرہ عقیل
آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد خویلد بن اسد کے پاس رشتہ لے کر آئے بمطابق روایتِ ابن اسحاق
جبکہ بعض روایات میں ان کا انتقال ہو چکا تھا۔

تاريخ الإسلام للذهبي میں ہے:

"قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ : ثُمَّ إِنَّ «خديجة بنت خويلد بْن أسد بْن عَبْد الْعُزَّى بْنِ قُصَيٍّ» وَهِيَ أَقْرَبُ مِنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قُصَيٍّ بِرَجُلٍ، كَانَتِ امْرَأَةً تَاجِرَةً ذَاتَ شَرَفٍ وَمَالٍ، وَكَانَتْ تَسْتَأْجِرُ الرِّجَالَ فِي مَالِهَا، وَكَانَتْ قُرَيْشٌ تُجَّارًا فَعَرَضَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَخْرُجَ فِي مَالٍ لَهَا إِلَى الشَّامِ ، وَمَعَهُ غلام لها اسْمُهُ «مَيْسَرَةُ» ، فَخَرَجَ إِلَى الشَّامِ، فَنَزَلَ تَحْتَ شَجَرَةٍ بِقُرْبِ صَوْمَعَةٍ، فَأَطَلَّ الرَّاهِبُ إِلَى مَيْسَرَةَ فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَ: مَا نَزَلَ تَحْتَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا نَبِيٌّ . ثُمَّ بَاعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِجَارَتَهُ وَتَعَوَّضَ وَرَجَعَ، فَكَانَ «مَيْسَرَةُ» - فِيمَا يَزْعُمُونَ- إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ يَرَى مَلَكَيْنِ يُظِلَّانِهِ مِنَ الشَّمْسِ وَهُوَ يَسِيرُ.... وَحَدَّثَهَا «مَيْسَرَةُ» عَنْ قَوْلِ الرَّاهِبِ، وَعَنِ الْمَلَكَيْنِ، وَكَانَتْ لَبِيبَةً حَازِمَةً، فَبَعَثَتْ إِلَيْهِ تَقُولُ: يَا بْنَ عَمِّي، إِنِّي قَدْ رَغِبْتُ فِيكَ لِقَرَابَتِكَ وأمانتك وصدقك وحسن خلفك، ثُمَّ عَرَضَتْ عَلَيْهِ نَفْسَهَا، فَقَالَ ذَلِكَ لِأَعْمَامِهِ، فَجَاءَ مَعَهُ حَمْزَةُ عَمُّهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خُوَيْلِدٍ فَخَطَبَهَا مِنْهُ، وَأَصْدَقَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ بَكْرَةً، فَلَمْ يَتَزَوَّجْ عَلَيْهَا حَتَّى مَاتَتْ. وَتَزَوَّجَهَا وَعُمْرُهُ خَمْسٌ وَعِشْرُونَ سَنَةً".
(تاريخ الاسلام- ت: التدمري: شَأْنُ خَدِيجَةَ، ١ / ٦٣ -٦٤، ط: دار الكتاب العربي)


البداية النهاية لإبن كثير میں ہے:

"قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَكَانَتْ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ امْرَأَةً تَاجِرَةً ذَاتَ شَرَفٍ وَمَالٍ تَسْتَأْجِرُ الرِّجَالَ عَلَى مَالِهَا مُضَارَبَةً فَلَمَّا بَلَغَهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَلَغَهَا مِنْ صِدْقِ حَدِيثِهِ وَعِظَمِ أَمَانَتِهِ وَكَرَمِ أَخْلَاقِهِ بَعَثَتْ إِلَيْهِ فَعَرَضَتْ عَلَيْهِ أَنْ يَخْرُجَ لَهَا فِي مَالِهَا تَاجِرًا إِلَى الشَّامِ، وَتُعْطِيهِ أَفْضَلَ مَا تُعْطِي غَيْرَهُ مِنَ التُّجَّارِ مَعَ غُلَامٍ لَهَا يُقَالَ لَهُ: مَيْسَرَةُ فَقَبِلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا، وَخَرَجَ فِي مَالِهَا ذَاكَ، وَخَرَجَ مَعَهُ غُلَامُهَا مَيْسَرَةُ حَتَّى نَزَلَ الشَّامَ فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ظِلِّ شَجَرَةٍ قَرِيبًا مِنْ صَوْمَعَةِ رَاهِبٍ مِنَ الرُّهْبَانِ فَاطَّلَعَ الرَّاهِبُ إِلَى مَيْسَرَةَ فَقَالَ: مَنْ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي نَزَلَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ؟ فَقَالَ مَيْسَرَةُ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ أَهْلِ الْحَرَمِ. فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ: مَا نَزَلْ تَحْتَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا نَبِيٌّ. ثُمَّ بَاعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِلْعَتَهُ - يَعْنِي تِجَارَتَهُ - الَّتِي خَرَجَ بِهَا، وَاشْتَرَى مَا أَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَ، ثُمَّ أَقْبَلَ قَافِلًا إِلَى مَكَّةَ، وَمَعَهُ مَيْسَرَةُ فَكَانَ مَيْسَرَةُ - فِيمَا يَزْعُمُونَ - إِذَا كَانَتِ الْهَاجِرَةُ وَاشْتَدَّ الْحَرُّ يَرَى مَلَكَيْنِ يُظِلَّانِهِ مِنَ الشَّمْسِ وَهُوَ يَسِيرُ عَلَى بَعِيرِهِ. فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ عَلَى خَدِيجَةَ بِمَالِهَا، بَاعَتْ مَا جَاءَ بِهِ فَأَضْعَفَ أَوْ قَرِيبًا، وَحَدَّثَهَا مَيْسَرَةُ عَنْ قَوْلِ الرَّاهِبِ، وَعَمَّا كَانَ يَرَى مِنْ إِظْلَالِ الْمَلَكَيْنِ إِيَّاهُ، وَكَانَتْ خَدِيجَةُ امْرَأَةً حَازِمَةً شَرِيفَةً لَبِيبَةً مَعَ مَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَا مِنْ كَرَامَتِهَا فَلَمَّا أَخْبَرَهَا مَيْسَرَةُ مَا أَخْبَرَهَا بَعَثَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ لَهُ: - فِيمَا يَزْعُمُونَ - يَا ابْنَ عَمِّ إِنِّي قَدْ رَغِبْتُ فِيكَ; لِقَرَابَتِكَ وَسِطَتِكَ فِي قَوْمِكَ، وَأَمَانَتِكَ وَحُسْنِ خُلُقِكَ، وَصِدْقِ حَدِيثِكَ، ثُمَّ عَرَضَتْ نَفْسَهَا عَلَيْهِ. وَكَانَتْ أَوْسَطَ نِسَاءِ قُرَيْشٍ نَسَبًا، وَأَعْظَمَهُنَّ شَرَفًا، وَأَكْثَرَهُنَّ مَالًا كُلُّ قَوْمِهَا كَانَ حَرِيصًا عَلَى ذَلِكَ مِنْهَا لَوْ يَقْدِرُ عَلَيْهِ فَلَمَّا قَالَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ ذَلِكَ لِأَعْمَامِهِ فَخَرَجَ مَعَهُ عَمُّهُ حَمْزَةُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خُوَيْلِدِ بْنِ أَسَدٍ فَخَطَبَهَا إِلَيْهِ فَتَزَوَّجَهَا عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ. قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: فَأَصْدَقَهَا عِشْرِينَ بَكْرَةً، وَكَانَتْ أَوَّلَ امْرَأَةٍ تَزَوَّجَهَا، وَلَمْ يَتَزَوَّجْ عَلَيْهَا غَيْرَهَا حَتَّى مَاتَتْ".
( تَزْوِيجُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ خَدِيجَةَ بِنْتَ خُوَيْلِدٍ، ٣ / ٤٦٢ - ٤٦٣، ط: دار هجر للطباعة و النشر و التوزيع و الإعلان)

سيرة ابن هشام ( ت: السقا) میں ہے:

"(زَوَاجُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَدِيجَةَ) : فَلَمَّا قَالَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذكر ذَلِك لَا عِمَامَة فَخَرَجَ مَعَهُ عَمُّهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، رَحِمَهُ اللَّهُ، حَتَّى دَخَلَ عَلَى خُوَيْلِدِ بْنِ أَسَدٍ، فَخَطَبَهَا إلَيْهِ، فَتَزَوَّجَهَا. قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: وَأَصْدَقَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ بَكْرَةً، وَكَانَتْ أَوَّلَ امْرَأَةٍ تَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَتَزَوَّجْ عَلَيْهَا غَيْرَهَا حَتَّى مَاتَتْ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا".
( ١ / ١٩٠، ط: شركة مكتبة و مطبعة مصطفي الحلبي)

 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
جہاں تک میرے علم میں ہے حضرت خدیجہ کے والد انتقال کرچکے تھے۔

اہل علم اس بارے میں میری رہنمائی فرمادیں

@احمدقاسمی @محمدداؤدالرحمن علی @مولانانورالحسن انور @زنیرہ عقیل
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
اکثریت مؤرخین کے نزدیک حضرت خدیجہ کے والد کا انتقال ہوچکا تھا۔ غالبا طبقات ابن سعد میں حرب الفجار کی لڑائی میں لکھا ہے کہ خویلد کا انتقال حرب الفجار کی لڑائی میں ہوا۔
مولانا عاشق الہی بلند شہریؒ لکتے ہیں کہ:
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام خود آپﷺ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ یعلیٰ بناامیہ کی بہن "نفیسہ "پیغام لیکر آئیں تھی جسے آپﷺ نے قبول فرمالیا۔آپﷺ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور ابوطالب نے بھی بخوشی اس رشتہ کو پسند کیا۔
نکاح کے لیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ،ابوطالب وخاندان کے دیگر اکابر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے مکان پر تشریف لائےاور نکاح ہوا۔ نکاح کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد کا انتقال ہوچکا تھا،اس موقع پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا "عمروبن اسد" شریک تھے۔(امت مسلمہ کی مائیں ازمولانا عاشق الہی بلند شہریؒ ص۱۳ مطبوعہ مکتبہ معارف القرآن کراچی پاکستان)
صاحب "سیر صحابیات مع اسوہ صحابیات" لکھتے ہیں کہ
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد حرب الفجار کی لڑائی میں گئے اور وہیں مارے گئے نیچے حاشیہ میں لکھتے ہیں "یہاں کچھ تسامح ہے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد کا انتقال حرب الفجار سے قبل ہوا ہے۔"(سیر صحابیات مع اسوہ صحابیات از مولانا سعید انصاری ندویؒ،مولانا عبدالسلام ندویؒ ص۱۹)

واللہ اعلم بالصواب
الغزالی فورم
 

رعنا دلبر

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
اکثریت مؤرخین کے نزدیک حضرت خدیجہ کے والد کا انتقال ہوچکا تھا۔ غالبا طبقات ابن سعد میں حرب الفجار کی لڑائی میں لکھا ہے کہ خویلد کا انتقال حرب الفجار کی لڑائی میں ہوا۔
مولانا عاشق الہی بلند شہریؒ لکتے ہیں کہ:
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام خود آپﷺ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ یعلیٰ بناامیہ کی بہن "نفیسہ "پیغام لیکر آئیں تھی جسے آپﷺ نے قبول فرمالیا۔آپﷺ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور ابوطالب نے بھی بخوشی اس رشتہ کو پسند کیا۔
نکاح کے لیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ،ابوطالب وخاندان کے دیگر اکابر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے مکان پر تشریف لائےاور نکاح ہوا۔ نکاح کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد کا انتقال ہوچکا تھا،اس موقع پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا "عمروبن اسد" شریک تھے۔(امت مسلمہ کی مائیں ازمولانا عاشق الہی بلند شہریؒ ص۱۳ مطبوعہ مکتبہ معارف القرآن کراچی پاکستان)
صاحب "سیر صحابیات مع اسوہ صحابیات" لکھتے ہیں کہ
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد حرب الفجار کی لڑائی میں گئے اور وہیں مارے گئے نیچے حاشیہ میں لکھتے ہیں "یہاں کچھ تسامح ہے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد کا انتقال حرب الفجار سے قبل ہوا ہے۔"(سیر صحابیات مع اسوہ صحابیات از مولانا سعید انصاری ندویؒ،مولانا عبدالسلام ندویؒ ص۱۹)

واللہ اعلم بالصواب
الغزالی فورم
جزاک اللہ خیرا
 
Top