نکاح میں چھوارے تقسیم کرنا۔

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
نکاح میں چھوارے تقسیم کرنا۔​

حضور صلی اللہ علیہ وسلم ( حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نکاح میں) ایک طبق خرما لے کر بکھیر دیا ۔

اس روایت کو ذہبی وغیرہ محدثین نے ضعیف کہا ہے اور عافیت مافی ا لباب (زائد سےزائد ) سنت زاید ہوگا ۔مگر قاعدہ شرعیہ ہے کہ جہاں امر مباح یا مستحب میں کسی مفسدہ کا اقتران (شامل) ہو جائے اس کو ترک کردینا مصلحت ہے اس معمول میں آج کل اکثر رنج وتکرار کی نوبت آجاتی ہے اس لیے تقسیم پر کفایت کریں۔( اصلاح الرسوم )

چھوارے مقصودبالذات نہیں

ایک نکاح میں چھوارے تقسیم ہوتی تھے ،اس پر فر مایا کہ خرما (چھوارے کی تخصیص سنت مقصود نہیں اگر کشمش ہوتی وہ بھی تقسیم ہو جاتی اس سے بھی سنت ادا ہو جاتی ) یہاں چونکہ یہی تھے اس لیے تقسیم ہوگئے ا(حسن العزیز)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔۔ اگر کوئی شخص مسجد کا احترام اور تقدس کا لحاظ کرتے ہوئے نکاح کے موقع پر چھوہارے لٹاتا ہے تو یہ جائز اور مباح ہے
البتہ اس عمل کو سنت نہ سمجھا جائے
اور اگر لوگ اس عمل کو سنت سمجھتے ہوں اور اس سے مسجد کا احترام وتقدس بھی پامال ہوتا ہو تو پھر اس عمل سے اجتناب ضروری ہے۔
امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں کہ چھوہارے لٹانے سے متعلق جو روایات منقول ہیں وہ سب ضعیف ہیں ۔
اگر آپس میں تنازع کا اندیشہ نہ ہو تو چھوہارے تقسیم کرنا یا ان کو لٹانا دونوں درست اور مباح ہیں
لیکن اگر نکاح کا عقد مسجد میں ہو تو پھر ترتیب سے تقسیم کردیا جائے تاکہ ایک مباح کام کی وجہ سے مسجد کی بے ادبی کا گناہ نہ ہو۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:لا بأس بنثر السكر والدراهم في الضيافة وعقد النكاح، كذا في السراجية.
(5 / 345، الباب الثالث عشر في النهبة ونثر الدراهم والسكر وما رمى به صاحبه، کتاب الکراہیۃ، ط؛ رشیدیہ)


مندرجہ بالا عبارات سے اس عمل کا مباح ہونا معلوم ہوتا ہے، جیساکہ”لابأس“لفظ اس پر دلالت کرتا ہے، باقی جن روایات میں عقدِ نکاح کے موقع پر چھوہارے لٹانے کا ذکر ہے وہ انتہائی ضعیف ہیں
اس عمل کے سنت ہونے پر استدلال کرنا درست نہیں ہے
 
Top