دودھ کا پیالہ سب کے لئے کافی ہوگیا

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے ""اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں بھوک سے نڈھال ہوکر زمین سے جالگتا تھا او ربھوک کے مارے پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا۔ ایک دن میں مسجد کے قریب لوگوں کے راستے میں بیٹھ گیا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ گزرے۔ میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کی تفسیر پوچھی۔ میں نے ان سے صرف اس لئے پوچھا تھا کہ وہ مجھے اپنے سال لے چلیں گے۔ لیکن وہ آیت کی تفسیر بتاکر چل دیئے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا ۔ میں نے ان سے بھی کتاب اللہ کی آیت کی تفسیر پوچھی ۔ میں نے ان سے یہ سوچ کر سوال کیا تھا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے چلیں گے لیکن وہ بھی آیت کی تفسیر بتا کر چلے گئے۔ ان دنوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عام طور پر فاقے کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھار کوئی مہمان آجاتا تو اس کے کھانے کو بھی کچھ نہ ہوتا۔ پھر ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم میرے قریب سے گزرے اور مجھے دیکھ کر دل کی بات بھانپ گئے۔ چلتے چلتے فرمایا:
""ابوہریرہ!"" میں نے کہا: ""لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !""آجائو!""
میں آپ کے پیچھے پیچھے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے ۔ میں نے اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی او رمیں بھی اندر چلا گیا۔ ایک پیالے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تھوڑا سا دودھ نظر آیا۔ دریافت کیا:""یہ دودھ کہاں سے آیا؟"" گھر والو ں نے کہا: ""فلاں آدمی یا فلاں خاتون نے تحفہ بھیجا ہے""۔
فرمایا: ""ابوہریرہ!"" میں نے کہا: ""لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !""
اہل صفہ کے پاس جائو اور انہیں بلا لائو۔
اہل صفہ اسلام کے مہمان تھے۔ یہ لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے تھے اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں رہائش پذیر تھے۔ ان کا نہ کوئی گھر تھا اور نہ اسباب۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر خاص شفقت کیا کرتے تھے۔ آپ کے پاس صدقہ آتا تو ان کے پاس بھیج دیتے او راس میں سے کچھ نہ لیتے۔ تحفہ آتا تو انہیں بھیج کر اس میں شریک کرتے۔ مجھے فکر پڑ گئی۔ میں نے سوچا: ""اتنا سا دودھ اہل صفہ کے کس کام آئے گا۔"" میں ہی یہ دودھ پی لیتا او رجسم میں کچھ طاقت آتی۔ اہلِ صفہ آئیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ ہی کو حکم دیں گے اور میں ہی انہیں دودھ پیش کرو گا، پھر میرے لئے کیا بچے گا! لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گزاری کے بغیر چارہ بھی نہیں تھا۔ بہر حال میں گیا او رانہیں بلالایا۔ وہ آئے، آپ نے اجازت دی او روہ گھر میں آکر بیٹھ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کیا: ""ابوہریرہ!""۔
میں نے کہا: ""لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !""
""پیالہ اٹھائو او راہل صفہ کو دو""۔
میں باری باری سب کو پلانے لگا۔ سب سیر ہوگئے۔ پیالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا ۔ آپ نے پیالہ ہاتھوں میں اٹھایا، میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: ""ابوہریرہ!""
""میں نے کہالبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! "" ۔ ""اب میں اور تم رہ گئے۔ ""
""بالکل صحیح فرمایا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !""
""لو، بیٹھو او رپیو""۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ میرے حوالے کرتے ہوئے فرمایا۔
میں نے بیٹھ کر پیا۔ فرمایا:""اور پیو""۔
میں نے او رپیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے:""او رپیو""
یہاں تک کہ میں نے کہا: ""نہیں ، قسم اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ، اب اس کے لئے کوئی راستہ نظر نہیں آتا""۔
فرمایا:""اچھا، مجھے دکھائو""
میں نے پیالہ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا شکر ادا کیا او راس کا نام لے کرپیالے میں بچادودھ پی لیا""۔

(بخاری)
 
Top