دار العلوم دیوبند شعراء کی نظر میں

اسلام عامر اسلام

وفقہ اللہ
رکن
دار العلوم دیوبند شعراء کی نظر میں

تیرھویں صدی کا آخر تھا، مغلیہ سلطنت کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں مسلمانوں کی شوکت و سطوت کا چراغ گل ہو گیا تھا، بر صغیر پر انگریزی سامراج کا تسلط ہو چکا تھا، جس کے نتیجے میں دیگر شعبۂ حیات کے ساتھ ساتھ مذہب اسلام بھی بری طرح متأثر ہوا، ہندی مسلمانوں میں بے کلی و اضطراری کی کیفیت پیدا ہو گئی، ہر طرف سے یلغاریں، جور و ظلم ہونے لگا، اور مشق ستم کا نشانہ بنایا جانے لگا، اور ایسا نازک دور آ پہنچا کہ جس کی حالت ناگفتہ بہ ہے، افقِ آسمانِ ہند پر ایسا آفتاب طلوع ہوا جس کی کرنیں اپنے جلو میں دہریت و لادینیت، کفروالحاد، جہل و گمرہی، فطرت پسندی و نفس پرستی سموئے ہوئے تھی، غرض چمنِ ہند سے ایمان کی بادِ بہاری رخصت ہونے کو تھی، کفر کی خزاں کا دور آنے کو تھا، اسلام کا قصرِ بلند کسی بھی وقت ڈھہ جانے کو تھا،
ایسے نازک دور میں حبِ خدا میں مستغرق، عشق نبی میں غریق کچھ دور اندیش اپنی فراستِ ایمانی اور دیدہ بصیرت سے اندازہ لگایا کہ ان حالات میں اگر مسلمانوں کو قرآن و حدیث و دیگر علومِ اسلامیہ سے واقف کرانے کا کوئی معقول مستحکم انتظام نہ کیا گیا تو خوف ہے کہ مسلمان لادینیت و دہریت کے چنگل میں نہ پھنس جائے، بقائے اسلام و تحفظ دین کی خاطر ایک دینی و علمی درسگاہ کے قیام کو عمل میں لانا ناگزیر اور امر لابدی بن چکا تھا؛ چنانچہ سہارن پور سے متصل قصبہ دیوبند میں ۱۵ / محرم الحرام ۱۲۸۳ھ بروز پنجشنبہ مطابق ۳۱ مئی ۱۸۶۶ کو مسجد چھتہ کے صحن میں انار کے درخت کے سایہ تلے مدرسہ کا افتتاح عمل میں آیا ۔
اور پھر دیکھتے دیکھتے اس مدرسہ نے وہ کارہائے نمایاں انجام دئے جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا عاجز و قاصر ہے، ایسے ایسے علمی جیالے، درخشندہ ستارے، رجال ساز، شخصیات پیدا کیں جس کی مثال عالمِ دنیا میں ناپید ہے، اس مدرسے سے بلند ہونے والی قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں پوری دنیا میں پھیل گئیں، ہر طرف کلمۂ حق کا اعلاء ہوا،
چہار دانگ عالم میں اس کی حقانیت کا ڈنکا بجا ، قلمکاروں نے اسے سراہا ، شعراء نے اس کا تذکرہ کیا اور مصنفین نے اس کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرنے میں صفحات کے صفحات سیاہ کردیے۔

چوں کہ اس مضمون کا عنوان " دار العلوم دیوبند شعراء کی نظر میں " ہے اس کی اہمیت و افادیت، اس کے کارنامے اور اس کی روداد ہم شعرائے کرام کے اشعار میں دیکھیں گے

(۱)

دیوبند ہے انوار مدینہ کی تجلی ،
توحید کی اس شمع سے روشن ہے زمانہ
اس مکتبۂ فکر کے ممنون ولی ہیں،
مذہب کی حقیقت ہے یہ باقی ہے فسانہ
کاشانۂ‌ رحمت ہے زمانہ کی نظر میں
بیٹھا تھا جہاں تنہا اللہ کا دیوانہ
محمور جہاں سوۓ مدنی جہاں لیٹے
اس خاک میں محفوظ ہے ملت کا خزانہ
ایمان ہے آئین فرنگی سے بغاوت
بخشا ہے اسی خاک کونے ملت کو ترانہ
نکلے ہیں اسی ساز سے توحید کے نغمے
قائل ہیں اسی بات کے اغیار‌ و یگانہ
ابھرے نا کبھی ہند میں دیوبند کا سورج
ڈھونڈھا ہے کئی بار فرنگی نے بہانہ
الله کرے ہند میں خود اس کی حفاظت
مرکز ہے یہ جانباز کے ایماں کا یگانہ
بقلم جاں باز مرزا

(۲)
دل روشن مثال دیوبند
اور ندوہ ہے زبان ہوشمند
گر علی گڑھ کی بھی تم تشبیہ دو
اک معزز پیٹ بس اس کو کہو
اکبر مرحوم الہ آبادی
(۳)
علم کا مرکز ولی اللہ محدث دہلوی
ان کے بیٹے چار علم و عمل کے ہیں تاجدار
ساقی دہلی کے مستوں نے بارضِ دیوبند
جب رکھی بنیاد ِ مے خانہ بطورِ یادگار
دور دورہ ساغرِ صہبائے طیبہ کا ہوا
جرعہ نوشانِ ازل آئے قطار اندر قطار
نا معلوم

(۴)
دل افرنگ کا کانٹا

عینِ حق ہے جو تجھے علم کا دریا کہہ دوں
یہ بھی سچ ہے کہ تجھے گلشنِ تقوی کہہ دوں
ایشیا ہے جو انگوٹھی تو پھر اس میں تجھ کو
کیوں نہ میں ایک چمکتا ہوا ہیرا کہہ دوں
جتنے والے ہیں وہ تجھ پہ ہیں شیدا دل سے
کیوں نہ دل والوں کی میں تجھ کو تمنا کہہ دوں
تونے پیدا کئے ، محمود و رشیدو انور
زیب دیتا ہے انہیں جس قدر اچھا کہہ دوں
ہاں بجا ہوگا! کہ میں تیرے حسین احمد کو
پیکرِ عشق کہوں، علم سراپا کہہ دوں
ہاں ترے اشرف و عثمانی و طیب کو میں
جھوٹ کیا ہوگا، اگر فخرِ زمانا کہہ دوں
ایک دو چار جو ہوتے تو گنا دیتا میں
حق ہے یہ، تجھ کو نوادر کا خزانا کہہ دوں
بار بار آتا ہے گیلانی کے دل میں کہ تجھے
دلِ افرنگ میں اٹکا ہوا کانٹا کہہ دوں
سید امین گیلانی شیخوپورہ

(۵)
اے مرکزِ دیں، مرکزِ انوارِ نبوت
امت کے لیے ترکۂ سردارِ نبوت
تو بحر ہے، دریا ہء کہ ہے چشمۂ جاری
تیرا نشۂ فیض ہے، مخلوق پہ طاری
تو مرجعِ اربابِ خرد، جانِ شریعت
کہتے ہیں تجھے لوگ گلستان ِ شریعت
پھیلی ہے ہر اک سمت ترے علم کی خوشبو
چمکے ہیں اندھیروں میں ترے فیض کے جگنو
اس دور میں کیوں راہنما تجھ کو نہ کہہ دیں
کیوں اپنے اکابر کی دعا تجھ کو نہ کہہ دیں
ذرے بھی تری چشمِ کرم سے بنے مہتاب
حاصل ہوئی اک دولتِ دیں، دولتِ کمیاب
تعریف کے عنوان کی تعبیر کے قابل
الفاظ میسر نہیں تحریر کے قابل
مفتی کفیل الرحمن نشاط
(۶)

شہرہ جہاں میں عام ہے دار العلوم کا
الہام پر قیام ہے دار العلوم کا
اس کا وجود عظمتِ اسلام کی دلیل
کتنا بلند مقام ہے دار العلوم کا
محمود ہو، حسین ہو، قاسم ہو یا رشید
روشن انہی سے نام ہے دار العلوم کا
جس کو ہوا نصیب وہاں درسِ آگہی
وہ تیغِ بے نیام ہے دار العلوم کا
شاخیں نگر نگر میں ہیں دار العلوم کی
کیسا عظیم کام ہے دار العلوم کا
بٹتا یے اب بھی بادۂ عرفاں شبانہ روز
گردش میں اب بھی جام ہے دار العلوم کا
دشنامیوں کا طائفہ، افرنگ کے غلام
کیا جانے کیا مقام ہے دار العلوم کا
تبلیغِ دین خواجۂ گیہاں شعارِ خاص
یہ کام صبح و شام ہے دار العلوم کا
تاریکیوں میں اس نے جلائی ہیں مشعلیں
یہ مشغلہ مدام ہے دار العلوم کا
چرچا ہوا ہے دینِ محمد ﷺ کا چار کھونٹ
یہ ہی تو فیض عام ہے دار العلوم کا
روشن قلوب میں ہیں چراغِ علوم و فن
یہ حسنِ اہتمام ہے دار العلوم کا
چڑھتا نہیں گناہ پہ یاں نیکیوں کا جھول
پیغامِ حق پیام ہے دار العلوم کا
ہر آنکھ میں اسی سے ہے شرم و حیا کا رنگ
ہر دل میں احترام ہے دار العلوم کا
ہے امن و آشتی کی بقا اس کے نام سے
دار العلوم نام ہے دار العلوم کا
اکرام مجھ سا ننگِ بزرگان ِ دیوبند
ادنی سا اک غلام ہے دار العلوم کا
بقلم اکرام القادری

(۷)
اہلِ باطل کو ناگوار ہیں ہم
اہلِ حق کے لیے شعار ہیں ہم

حق کی شمشیرِ آب دار ہیں ہم
تو ہے فاروق، ذوالفقار ہیں ہم

چشمۂ علم و فن خدا رکھے
تو ہمالہ ہے آبشار ہیں ہم

تو ہے ہیرے کی کان دنیا میں
تیرے ہیرے سے تاجدار ہیں ہم
افضال الحق جوہر
(۸)
اے جہادِ شاملی کی دولتِ دل کے امیں
اس صداقت میں کوئی بھی اس کا اب شامل نہیں
کوئی ہستی کو تری ہرگز مٹا سکتا نہیں
گردنِ اعزاز کو تیری جھکا سکتا نہیں
علامہ انور صابری

(۹)

دیوبند نے کئے سینکڑوں غازی پیدا
جس نے لاکھوں کئے انگریز کے باغی پیدا
یاد کے کیا تمہیں ہنگامۂ قصہ خوانی
یاد ہے تحریکِ خلافت کی نہیں قربانی
جوش ملیح آبادی

(۱۰)
انکار بھلا کون حقائق سے کرے گا
تاریخ دیوبند ہے تاریخ وطن کی
جتنے بھی اکابر تھے مجاہد تھے وطن کے
جی جان سے سب نے ہی حفاطت کی چمن کی
ہر طور سے ہر شکل سے گلشن کو سنوارا
قوم آج بھی ممنون ہے ان سب کے چلن کی
لال دھرپال گیتا وفا
(۱۱)

طلب جس کی ہمیشہ درس دیتی ہے اخوت کا
وہی ہے علم کہ مشعل مرے سینے میں تابندہ
جسے گہوارۂ علم و ہنر کہتے ہیں سب مضطر
مجھے یہ فخر ہے میں ہوں اسی بستی کا باشندہ
شمیم مضطر دیوبندی
(۱۲)

اس میں نہیں کلام کہ دیوبند کا وجود
ہندوستاں کے سر پہ ہے احسانِ مصطفیٰ

تا حشر اس پہ رحمتِ پروردگار ہو
پیدا کئے ہیں جس نے فدایانِ مصطفیٰ

گونجے گا چار کھونٹ میں نانوتوی کا نام
بانٹا ہے جس نے بادۂ عرفانِ مصطفیٰ

دار العلوم تیرے بزرگوں کی یادگار
تیرے بزرگ حلقہ بگوشانِ مصطفیٰ

اس مدرسہ کے جذبۂ عزت سرشت سے
پہنچا ہے خاص و عام کو فیضانِ مصطفیٰ

کافر گروں کی کھیپ ہے، اب اس پہ طعنہ زن
جس کا ہر ایک فرد ہے درطانِ مصطفیٰ

یہ کیا غضب ہے دین فروشانِ عصرِ نو
ڈھاتے ہیں دستِ شرک سے ایوانِ مصطفیٰ

ان ظالموں سے عہدہ بر آہوں تو کس طرح
اس فکر میں ہیں غرق ثنا خوانِ مصطفیٰ

اس کی طرف سے نذرِ محقر قبول ہو
شورش ہے اک غلام غلامانِ مصطفیٰ

شورش کاشمیری

(۱۳)
مخزنِ علمِ نبی آنکھوں کا تارا دیوبند
معدنِ فضل و ہدا ہم سب کا پیارا دیوبند

پنجۂ شیطاں سے چھٹنے کا سہارا دیوبند
دیوبندی ہم ہیں سن اور ہے ہمارا دیوبند

ہونے بھی دو گر کسی کو این و آں پر ناز ہے
نسبتِ دیوبندیاں تو مایۂ اعزاز ہے

، شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہوی
زمین ِ دیوبند میں وہ سبیلِ عام جاری ہے
کہ جس پر حوضِ کوثر کو بھی شوقِ جاں نثاری ہے
جہاں ابرِ کرم کر وقت محوِ آبشاری ہے
کہ جس سے ابرِ باراں کو بھی از حد شرمساری ہے،
، تسلسل سے ہے ہر دم دور میں جامِ مئے اطہر
کھڑے ہیں جانشین ِ قاسم ِ کوثر لبِ کوثر

وہ دریا علم کا پہلے جو نکلا تھا مدینے سے
نبی لائے جسے علمِ لدنی کے خزینے سے
چلا آیا ہے سیدھا دیوبند بہہ کر مدینے سے
ہیں اس کی نہریں جاری سارے عالم میں قرینے سے

ہزاروں تشنگان علم دین سیراب ہوتے ہیں
جو پی لیتے ہیں قطرہ گوہر نایاب ہوتے ہیں

قاری طیب صاحب

(۱۴)
ساقیِ دہلی کے مستوں نے بارضِ دیوبند
جب رکھی بنیاد مے خانہ بطورِ یادگار
دور دورہ ساغر صہبائے طیبہ کا ہوا
جرعہ نوشانِ ازل آئے قطار اندر قطار
قاسم و محمود و انور نے لنڈھائے خم کے خم
اپنی وسعت کے مطابق پی گیا ہر بادہ خوار
آج بھی ساقی چشمِ خاص کی تاثیر دیکھ
بادۂ مغرب کے متوالوں کا ٹوٹا ہے خمار
آج بھی آفاق میں اس میکدے کی دھوم ہے
چار جانب سے سمٹ کر آ رہے ہیں بادہ خوار
در کفے جامِ شریعت در کفے سندانِ عشق
یہ خصوصیت یہاں ہر فرد میں ہے آشکار
اس کے ہر مے خوار کو پیرِ مُغاں کا حکم ہے
باخدا دیوانہ باش و بامحمد ہوشیار
کاش اے ساقیِ دہلی تو بھی آکر دیکھتا
اپنے مے خانے کی رونق اپنے رندوں کی بہار
تیرا دور جام دورِ چرخ سے بھی تیز تر
تیرا مستقبل ترے ماضی سے بڑھ کر شاندار
یا الٰہی حشر تک باقی رہے یہ میکدہ
دور میں ساغر رہے تا گردشِ لیل و نہار
اس کی ہر ہر اینٹ میں تاریخ ماضی ثبت ہے
ہند میں بزم ولی کی ہے یہ واحد یادگار
مسلم ہندی اگرچہ مفلس و نادار ہے
پھر بھی اس سرمایۂ ملت کا ہے سرمایہ دار
شوکتیں جب دہلیِ مرحوم کی آتی ہیں یاد
دیکھ کر اس کو بہل جاتا ہے قلب سوگوار
جن کی کوشش سے چلا ہے دور صہبائے حجاز
نور سے معمور کردے اے خدا ان کے مزار
آ فریدی تو بھی ہو ساغر بکف مینا بدوش
طالب جوش عمل ہے ساقی ابر بہار
از قلم سید نسیم احمد فریدی

(۱۵)
شادباش و شادزی اے سرزمین دیوبند
ہند میں تونے کیا اسلام کا جھنڈابلند

ملتِ بیضا کی عزت کو لگائے چار چاند
حکمتِ بطحا کی قیمت کو کیا تو نے دو چند

اسم تیرا با مسمی ضرب تیری بے پناہ
دیو استبداد کی گردن ہے اور تیری کمند

تیری رجعت پر ہزار اقدام سو جاں سے نثار
قرنِ اول کی خبر لائی تری الٹی زقند

تو علمبردارِ حق ہے حق نگہباں ہے ترا
خیلِ باطل سے پہنچ سکتا نہیں تجھ کو گزند

ناز کر اپنے مقدر پر کہ تیری خاک کو
کر لیا ان عالمانِ دینِ قیم نے پسند

جان کر دیں گے جو ناموس پیمبر پر فدا
حق کے رستے پر کٹا دیں گے جو اپنا بند بند

کفر ناچا جن کے آگے با رہا تگنی کا ناچ
جس طرح جلتے توے پر رقص کرتا ہے سپند

اس میں قاسم ہوں کہ انور شہ کہ محمود الحسن
سب کے دل تھے درد مند اور سب کی فطرت ارجمند

گرمئی ہنگامہ تیری ہے حسین احمد سے آج
جن سے پرچم ہے روایات سلف کا بلند

مولانا ظفر علی خان

(۱۶)

اس کے بانی کی وصیت ہے کہ اس کے لیے
کوئی سرمایہ بھروسہ کا ذرا ہوجائے گا
پھر یہ قندیل معلق اور توکل کا چراغ
یہ سمجھ لینا کہ بے نور و ضیا ہوجائے گا
ہے توکل پر بنا اس کی تو بس اس کا معین
اک اگر جائے گا پیدا دوسرا ہوجائے گا

مفتی فضل الرحمان عثمانی

(۱۷)

°= دارالعلوم دیوبند=°

یہ وہ بت خانہ ہے تقدیسِ حرم ہے جس سے
یہ وہ مے خانہ جہاں ساقیِ کوثر کا ورود

یہ وہ گلشن ہے کہ جنت کی فضا ہے جس میں
یہ وہ ایمن ہے جہاں موسیٰ کو جلوہ کا شہود

یہ وہ دریا ہے کہ جس میں نہیں کچھ موجِ حباب
یہ وہ صحرا ہے کہ جس میں ہوئی غنچوں کی کشود

یہ وہ کعبہ ہے کہ جھک جاتی ہیں نظریں سب کی
یہ وہ قبلہ ہے کہ جس سمت جنوں کر دے سجود

یہ وہی عرش ہے قدسی جہاں لیتے ہیں پناہ
یہ وہی فرش ہے جس پر جھکے یہ چرخِ کبود

یہ وہ غم خانہ ہے جس میں غمِ ہستی کو قرار
یہ وہ خم خانہ ہے جس سے خم مستی کا وجود

جہاں انفاسِ مسیحائی فضا میں تحلیل
جہاں بندوں میں ہے احساس خدائی موجود

جہاں ہر فرد کو اس غارِ حرا سے نسبت
جہاں ہر شخص کو معلوم مقامِ محمود

یہ وہ مضراب سخن جس میں مرے نالوں کا ساز
یہ وہ مطرب ہے کہ جس میں مری آہوں کی سرود

جہاں ملتی ہے ہر اک علم و ہنر کی تعلیم
جہاں ہوتی ہے ہر اک شخص کے جوہر کی نمود

یہ وہ محور ہے جہاں اہلِ یقیں جمع ہوئے
یہ وہ مرکز ہے جہاں معرکۂ بود و نبود

*ثانؔی ارریاوی متعلم دار العلوم دیوبند*
Zubair Ahmad Saani Qasmi
(۱۸)
دارالعلوم ہے یہی دارالعلوم ہے

جس کے ہر ایک فیض کا اتنا عموم ہے
عرب و عجم سے تا بہ خراسان و روم ہے

ہر فرد جس کا تشنۂ آبِ علوم ہے
طلبائے علمِ دین کا کتنا ہجوم ہے

ارض و سماء میں کوہ و بیاباں میں دھوم ہے
دارالعلوم ہے یہی دارالعلوم ہے

باطل کے قلعوں کو جو کیا کرتا ہے تباہ
الحاد و کفر میں ہے جو ایمان کا گواہ

اندھیری شب میں آج بھی جو ہے چراغِ راہ
ہر حق پرست راہی کی منزل ہے اور پناہ

سجدے میں جس کے آج بھی ماہ و نجوم ہے
دارالعلوم ہے یہی دارالعلوم ہے

ایماں کے تیشہ سے سرِ باطل کو پھوڑ دے
سیلِ روانِ کفر و خرافات موڑ دے

گیدڑ نما درندوں کے پنجے مروڑ دے
تبلیغِ دیں میں خون و پسینہ نچوڑ دے

چرچے ہیں جس کے عزم کے، ہمت کی دھوم ہے
دارالعلوم ہے یہی دارالعلوم ہے

قسمت کیا خوب کاتبِ تقدیر نے لکھی
ہاں سرزمینِ دیوبند خوش نصیب تھی

اپنے کرم کے واسطے اللہ نے چنی
بنیاد جس کی ساقیٔ کوثرﷺ نے خود رکھی

ثانؔی جہاں پہ فضلِ خدا کا ہجوم ہے
دارالعلوم ہے یہی دارالعلوم ہے

احمد شہید و قاسم و امداد کا چمن
میدانِ ہر جہاد میں باندھے ہوئے کفن

اشرف علی مناظرِ احسن نگارِ فن
ہر غنچہ و کلی کا نیا روپ و بانکپن

بدعت کی جس سے تھم گئی بادِ سموم ہے
دارالعلوم ہے یہی دارالعلوم ہے
ثاؔنی ارریاوی

(۱۹)

*ایماں کے پہریدار ہیں علمائے دیوبند

*از قلم: مولانا زبیر احمد ثانؔی قاسمی ارریاوی*

ایماں کے پہریدار ہیں علمائے دیوبند
چاروں طرف حصار ہیں علمائے دیوبند

اسلام کے وقار ہیں علمائے دیوبند
ایمان کے مدار ہیں علمائے دیوبند

جھکتے ہی نہیں یہ کبھی باطل کے سامنے
اللّٰہ کے پرستار ہیں علمائے دیوبند

وہ معرکۂ ختمِ نبوت کے سپاہی
آقا کے جاں نثار ہیں علمائے دیوبند

ہو سامنے ان کے جو کبھی کفر صف آرا
تو یورِش و یلغار ہیں علمائے دیوبند

جرأت کے عزیمت کے وہ مینارۂ روشن
غیور ہیں خود دار ہیں علمائے دیوبند

ہر ملحد و کافر کے لیے زہرِ ہَلاہَل
ہاں وقت کی تلوار ہیں علمائے دیوبند

ہے سارا جہاں ان کا ہی پیرو و مقلد
اور قافلہ سالار ہیں علمائے دیوبند

صدیقؓ کے فاروقؓ کے عثماںؓ کے وارثین
ہاں حیدرِ کرارؓ ہیں علمائے دیوبند

ہاں وہ شبِ تاریک میں دھندلا سا ستارا
حق والوں کے معیار ہیں علمائے دیوبند

ہر دشمنِ دیں کے لیے ہر وقت مسلسل
للکار ہیں یلغار ہیں علمائے دیوبند

وہ ہند کی آزادی کے پر عزم سپاہی
بھارت کے شہسوار ہیں علمائے دیوبند

ہر خواب کی تعبیر وہ ہر جذبے کی تعمیر
ہر نسل کے معمار ہیں علمائے دیوبند

وہ خالد و طلحہ کے حذیفہ کے سراپا
اسلاف کے اوتار ہیں علمائے دیوبند

وہ اہل جہاں کے لیے ہیں خضر و سکندر
اور دیں کے مددگار ہیں علمائے دیوبند

حضراتِ صحابہ و مہاجر کے وہ پیکر
اور پرتوِ انصار ہیں علمائے دیوبند

اسلام کے دشمن بھی ہیں حیران و پریشاں
اک عقدۂ دشوار ہیں علمائے دیوبند

اسلام کو ہے معرکۂ روح و بدن پیش
بیدار ہیں تیار ہیں علمائے دیوبند

یہ کارواں تا حشر یوں ہی چلتا رہے گا
کہ قافلہ سالار ہیں علمائے دیوبند

سیراب جن کے فیض سے اب بھی ہے یہ دنیا
ثانؔی وہ آبشار ہیں علمائے دیوبند
ثانی ارریا وی

(۲۰)
اور آخر میں پیش ہے
ترانۂ دارالعلوم دیوبند
* یہ علم و ہنر کا گہوارہ تاریخ کا وہ شہ پارہ ہے
ہر پھول یہاں اِک شعلہ ہے ہر سرو یہاں مینارہ ہے

*خود ساقی کوثر نے رکھی مے خانے کی بنیاد یہاں
تاریخ مرتب کرتی ہے دیوانوں کی روداد یہاں

*جو وادیِ فاراں سے اٹھی گونجی ہے وہی تکبیر یہاں
ہستی کے صنم خانوں کے لیے ہوتا ہے حرم تعمیر یہاں

*برسا ہے یہاں وہ ابرِ کرم اٹھا تھا جو سوئے یثرب سے
اس وادی کا سارا دامن سیراب ہے جوئے یثرب سے

*کہسار یہاں چھپ جاتے ہیں طوفان یہاں رُک جاتے ہیں
اس کاخ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں

*ہر بوند ہے جس کی امرت جل یہ بادل ایسا بادل ہے
سو ساگر جس سے بھر جائیں یہ چھاگل ایسا چھاگل ہے

*مہتاب یہاں کے ذروں کو ہر رات منانے آتا ہے
خورشید یہاں کے غنچوں کو ہر صبح جگانے آتا ہے

*یہ صحن چمن ہے برکھادت ہر موسم ہے برسات یہاں
گلبانگ سحر بن جاتی ہے ساون کی اندھیری رات یہاں

*اسلام کے اس مرکز سے ہوئی تقدیس عیاں آزادی کی
اس بام حرم سے گونجی ہے سو بار اذان آزادی کی

*اس وادی گل کا ہر غنچہ خورشید جہاں کہلایا ہے
جو رِند یہاں سے اُٹھا ہے وہ پیر مغاں کہلایا ہے

*جو شمع یقین کی روشن ہے یہاں وہ شمع حرم کا پرتو ہے
اس بزم ولی اللہی میں تنویر ثبوت کی ضوء ہے

*یہ مجلس مے وہ مجلس ہے خود فطرت جس کی قاسم ہے
اس بزم کا ساقی کیا کہیے جو صبح ازل سے قائل ہے

*جس وقت کسی یعقوب کی لے اس گلشن میں بڑھ جاتی ہے
دَھاڑوں کی ضیاء خورشیدِ جہاں کو ایسے میں شرماتی ہے

*عابد کے یقین سے روشن ہے سادات کا سچا صاف عمل
آنکھوں نے کہاں دیکھا ہوگا اخلاص کا ایسا تاج محل

*یہ ایک صنم خانہ ہے جہاں محمود بہت تیار ہوئے
اس خاک کے ذرّے ذرے سے کس درجہ شرر بیدار ہوئے

*ہے عزم حسین احمد سے بپا ہنگامۂ گیر و دار یہاں
شاخوں کی لچک بن جاتی ہے باطل کے لیے تلوار یہاں

*رومیؒ کی غزل رازیؒ کی نظر غزالیؒ کی تلقین یہاں
روشن ہے جمال انورؒ سے پیمانۂ فخرالدینؒ یہاں

*ہر رند ہے ابراہیم یہاں ہر مکیش ہے اعجاز یہاں
رِندانِ ہدیٰ پر کھلتے ہیں تقدیس طلب کے راز یہاں

*ہیں کتنے عزیز اس محفل کے انفاسِ حیات افروز ہمیں
اس ساز معانی کے نغمے دیتے ہیں یقین کا سوز ہمیں

*طیبہ کی مئے مرغوب یہاں دیتے ہیں سفالِ ہندی میں
روشن ہے چراغ نعمانی اس بزم کمالِ ہندی میں

*خالق نے یہاں ایک تازہ حرم اس درجہ تمہیں بنوایا ہے
دل صاف گواہی دیتا ہے یہ خلد بریں کا سایہ ہے

*اس بزمِ جنوں کے دیوانے ہر راہ سے پہنچے یزداں تک
ہیں عام ہمارے افسانے دیوارِ چمن سے زنداں تک

*سو بار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو
یہ اہل جنوں بتلائیں گے کیا ہم نے دیا ہے عالم کو

*جو صبح ازل میں گونجی تھی فطرت کی وہی آواز ہیں ہم
پروردۂ خوشبو غنچے ہیں گلشن کے لیے اعجاز ہیں ہم

*اس برقِ تجلی نے سمجھا پروانۂ شمع نور یہیں
یہ وادیِ ایمن دیتی ہے تعلیم کلیم طور یہیں

* دریائے طلب ہوجاتا ہے ہر مے کش کا پایاب یہاں
ہم تشنہ لبوں نے سیکھے ہیں مے نوشی کے آداب یہاں

*بلبل کی دعا جب گلشن میں فطرت کی زباں ہوجاتی ہے
انوارِ حرم کی تابانی ہر سمت عیاں ہوجاتی ہے

*امدادؒ و رشیدؒ و اشرفؒ کا یہ قلزم عرفاں پھیلے گا
یہ شجرۂ طلبؒ پھیلا ہے تا وسعتِ امکاں پھیلے گا

* خورشید یہ دین احمد کا عالم کے اُفق پر چمکے گا
یہ نور ہمیشہ چمکا ہے یہ نور برابر چمکے گا

* یوں سینۂ گیتی پر روشن اسلاف کا یہ کردار رہے
آنکھوں میں رہیں انوارِ حرم سینہ میں دلِ بیدار رہے

مفتی ریاست ظفر بجنوری

نوٹ ::: مختلف رسائل کتب و ماہناموں سے اتنے کلام ملے ہیں اگر ان کلام کے علاوہ آپ بھی کسی شاعر کا کلام جانتے ہوں تو کمنٹ کر کے شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں تاکہ اس کڑی میں اسے بھی شامل کر دیا جائے

تحقیق اسلام عامر اسلام
#اسلام_عامر_اسلام

#دیوبند_زندہ_باد
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
سلامتی
جزاک اللہ خیرا
آتے رہا کریں اور اپنی مفید پوسٹ سے ہم طالب علموں کو علم سکھاتے رہیں،امید کرتاہوں آپ کی مزید مفید پوسٹ ہمیں پڑھنے کو ملینگی۔
آپ کو ہمیشہ خوش آمدید
 
Top