قرآن کا موضوع انسان

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
قرآن پاک انسانوں کیلئے ہدایت کی کتاب ہےاس لیے اس کا موضوع انسان ہے تاکہ انسان اپنی زندگی کو بہتر بنا سکے۔ اگر انسان اپنی زندگی اس کے مطابق ڈھال لے تو یہ اس کے لیے نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی کامیابی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ۝
وہ کتاب اس میں کچھ شک نہیں ڈرنے والوں کی رہنما ہے (سورۃ بقرہ: 2)
قرآن مجید میں سورۃ البقرہ کے بالکل آغاز میں ﷲ نے تین طرح کے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے:
1) وہ لوگ جو قرآن پاک پر یقین رکھتے ہیں، اس کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں اور اس سے صحیح طریقے سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد ہے:
أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۝
یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات پانے والے ہیں (سورۃ بقرہ:5)
2) وہ لوگ جو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے یا حسد اور تکبر کی وجہ سے اس کی تعلیمات سے انکاری ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد ہے:
خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ۝
خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے (سورۃ بقرہ:7)
3) تیسری اس قسم کے لوگ ہیں جو بظاہر ایمان کا دعوی کرتے ہیں مگر ان کے دل ایمان کی روشنی سے منور نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ﷲ تعالیٰ ارشاد ہے:
فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ۝
ان کے دلوں میں مرض تھا۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کر دیا اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا (سورۃ بقرہ:10)
قرآن پاک کی تعلیمات نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام لوگوں کے لیے عام ہے۔ محتلف قسم کے لوگوں کے ذکر کے بعد قرآن اس طرح اپنی دعوت پیش کرتا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۝
لوگو! اپنے پروردگار کی عبات کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم بچو (سورۃ بقرہ: 21)
قرآن پاک نے نہ صرف عقائد اور دین کے احکامات بلکہ تمام زندگی کے تمام پہلو‎‎‎‎ؤں کا احاطہ کیا ہے۔ قرآن مجید میں انسان کے تمام زندگی کے پہلوؤں کے بارے میں ہدایت موجود ہے۔ انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت اور آخرت کے تمام مراحل کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ انسان کے حقوق العباد، حقوق ﷲ، عائلی زندگی، یتیموں، غریبوں، مساکین سے سلوک، حکومت، کاروبار غرض انسان کی ہدایت کے لیے انسانی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے۔
انسان کے وجود کے بارے میں ﷲ کا ارشاد ہے:
فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا۝
ہم نے تم کو پیدا کیا تھا مٹی سے پھر اس سے نطفہ بنا کر۔ پھر اس سے خون کا لوتھڑا بنا کر۔ پھر اس سے بوٹی بنا کر جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی تاکہ تم پر ظاہر کردیں(اپنی خالقیت)۔ اور ہم جس کو چاہتے ہیں ایک میعاد مقرر تک پیٹ میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تم کو بچہ بنا کر نکالتے ہیں۔ پھر تم جوانی کو پہنچتے ہو۔ اور بعض نہایت خراب عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں کہ بہت کچھ جاننے کے بعد بالکل بےعلم ہوجاتے ہیں۔ (سورۃ حج: 5)
حقوق العباد میں سب سے پہلے رشتہ داروں کے بارے میں فرمایا گیا اور ساتھ ہی محتاجوں اور مسافروں کے بارے میں بھی فرمایا گیا:
وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا۝
اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو۔ اور فضول خرچی سے مال نہ اُڑاؤ (سورۃ بنی اسرائیل:26)
یتیموں سے حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے اور انکا مال نا حق کھانے کے بارے میں وعید سنائی گئی ہے۔ ارشاد ہے:
وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا۝
اور یتیموں کا مال ان کے حوالے کردو اور ان کے پاکیزہ مال کو برے مال سے نہ بدلو۔ اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ۔ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے (سورۃ النساء: 2)
تجارت کے طریقے، کسب حلال اور باطل طریقے سے مال کھانے کی ممانعت اور کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا۝
مومنو! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو کچھ شک نہیں کہ خدا تم پر مہربان ہے (سورۃ النساء: 29)
قرآن پاک میں رذائل اخلاق یعنی والدین کی نافرمانی، زنا، جھوٹ، غیبت، چوری، شراب، جواء وغیرہ کی ممانعت کے لیے مختلف مقامات پر ارشادات موجود ہیں۔
صراط مستقیم کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے:
قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ۝
کہہ کہ آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کر دی ہیں کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ سے حسن سلوک کرتے رہنا اور ناداری سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا کیونکہ تم کو اور ان کو ہم ہی رزق دیتے ہیں اور بےحیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ جانا اور کسی جان کو جس کے قتل کو خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر ان باتوں کا وہ تمہیں ارشاد فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو (سورۃ المائدہ:151)
وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ۝
اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریقے سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق اور جب کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ رشتہ دار ہی ہو اور خدا کے عہد کو پورا کرو ان باتوں کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم نصحیت کرو (سورۃ المائدہ:152)
وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۝

اور یہ کہ میرا سیدھا رستہ یہی ہے تو تم اسی پر چلنا اور اور رستوں پر نہ چلنا کہ خدا کے رستے سے الگ ہو جاؤ گے ان باتوں کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم پرہیزگار بنو (سورۃ المائدہ:153)
قرآن مجید جو ہدایت دیتا ہے اس کے بھی دو حصے ہیں۔ ایک فکر و نظر کی ہدایت ہے جس کا عنوان ''ایمان''ہے۔اس کا موضوع وہی ہے جو فلسفے کا ہے۔ یعنی کائنات کی حقیقت کیا ہے، زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اس کا آغاز کیا ہے؟ انجام کیا ہے؟ صحیح کیا ہے؟ غلط کیا ہے؟ خیر کیا ہے؟ شر کیا ہے؟ علم کیا ہے؟ قرآن مجید کا دوسرا موضوع ہدایتِ عملی ہے انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔ یہ اوامر و نواہی اور حلال و حرام کے احکام پر مشتمل ہے۔پھر اس میں معاشی و معاشرتی احکام بھی ہیں۔ یہ ہدایتِ فکر و نظر اور ہدایتِ فعل و عمل (انفرادی و اجتماعی) قرآن حکیم کا موضوع ہے۔ (قرآن مجید اور ہم)
قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے سائنس کی کتاب نہیں ہے۔ البتہ اس میں سائنسی علوم کی طرف اشارے موجود ہیں اور ان کے حوالے موجود ہیں۔ قرآن مجید کائنناتی حقائق کو آیاتِ الٰہیہ قرار دیتا ہے۔
سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہے:
اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ الۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِمَا یَنۡفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ۪ وَّ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ۝
یقینا آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، اُن کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے ﷲ اوپر سے برساتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں، اور اُن بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، ان لوگوں کے لیے بے شمار نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں (سورۃ بقرہ:164)
انسان آج کے اس جدید دور میں modern physics, hyper space and time dilation جسیے جدید علوم کے بارے میں جتنا آج جانتا ہے، وہ سب تو ﷲ پاک نے تقریبا چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا۔ time dilation کے concept بارے میں ﷲ نے ہمیں واضح اشارہ سورۃ المعارج میں دیا ہے۔ا ﷲ پاک کا ارشاد ہے:
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ۝
جس کی طرف روح اور فرشتے چڑھتے ہیں اس روز جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا (سورۃ معارج: 4)
ﷲ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیے ہر خشک و تر کی مثال بیان کی ہے۔ آج کے دور کے تمام علوم کا مصدر صرف ایک قرآن ہے۔
آج کے دور میں جہاں ﷲ نے کتاب ہدایت چودہ سو سال پہلے نازل فرما دی تھی،آج ہم مسلمانوں نے اس پر عمل کرنا ترک کر دیا ہے۔ آج ہر طرف برائی عام ہے۔ نوجوان نسل کے ہاتھوں میں قرآنی تعلیمات کی بجائے بینڈ باجے اور کانوں میں ہینڈ فری ہیں۔ اسلامی معاشرے میں پردہ عورت کے وجود کا محافظ و ضامن ہوتا ہے مگر آج مغربی ثقافت کی اندھا دھند تقلید کرتی مشرقی خواتین کو اس کی اہمیت اور اہتمام کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔ ہماری روایات دم توڑ رہی ہیں۔ مغربی ثقافت اس قدر ہمارے ذہنوں میں رچ بس چکی ہے کہ اس کی بیخ کنی آج محال نظر آتی ہے۔ مغرب نے ہماری اسلامی روایات کا قتل ہماری نوجوان نسل کے ہاتھوں کروا دیا ہے۔ ہم دنیا میں رسوا ہیں۔ وہ مسلمان جو تاریخ میں کبھی فاتح تھے آج اکثر مسلمان ممالک مغرب کے ہاتھوں غلام ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ قرآنی تعلیمات کا ترک کر دینا ہے۔ بقول اقبال
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
اگر ہم اس دنیا میں اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآنی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرنی ہو گی۔ اگر ہم اس سے رہنمائی حاصل نہیں کریں گے تو قرآن نے ہمیں واضح طور پر آگاہ کر دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا۝
اور کہہ دو کہ یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔ ہم نے ظالموں کے لئے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں ان کو گھیر رہی ہوں گی۔ اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی دادرسی کی جائے گی پگھلے ہوئے تانبے کی طرح مونہوں کو بھون ڈالے گا پانی بھی برا اور آرام گاہ بھی بری (سورۃ کہف: 29)
 
Top