صحیح بخاری کتاب العلم باب نمبر 51

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
حدیث:

حدثنا مسدد، قال: حدثنا بشر، قال: حدثنا ابن عون، عن ابن سيرين، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابيه، ذكر النبي صلى الله عليه وسلم قعد على بعيره وامسك إنسان بخطامه او بزمامه، قال: اي يوم هذا؟ فسكتنا حتى ظننا انه سيسميه سوى اسمه، قال: اليس يوم النحر؟ قلنا: بلى، قال: فاي شهر هذا؟ فسكتنا حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، فقال: اليس بذي الحجة؟ قلنا: بلى، قال:" فإن دماءكم واموالكم واعراضكم بينكم حرام، كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا، ليبلغ الشاهد الغائب، فإن الشاهد عسى ان يبلغ من هو اوعى له منه"۔

ترجمہ:

ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے بشر نے، ان سے ابن عون نے ابن سیرین کے واسطے سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ سے نقل کیا، انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی کہ وہ (ایک دفعہ) رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص نے اس کی نکیل تھام رکھی تھی، آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے پوچھا آج یہ کون سا دن ہے؟ ہم خاموش رہے، حتیٰ کہ ہم سمجھے کہ آج کے دن کا آپ کوئی دوسرا نام اس کے نام کے علاوہ تجویز فرمائیں گے (پھر) آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا، بیشک۔ (اس کے بعد) آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم (اس پر بھی) خاموش رہے اور یہ (ہی) سمجھے کہ اس مہینے کا (بھی) آپ اس کے نام کے علاوہ کوئی دوسرا نام تجویز فرمائیں گے۔ پھر آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا، بیشک۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، تو یقیناً تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔ پس جو شخص حاضر ہے اسے چاہیے کہ غائب کو یہ (بات) پہنچا دے، کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ جو شخص یہاں موجود ہے وہ ایسے شخص کو یہ خبر پہنچائے، جو اس سے زیادہ (حدیث کا) یاد رکھنے والا ہو۔

خلاصہ:

اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتیں ہمارے علم میں آتی ہیں۔

  • پہلی بات یہ ہے کہ اس باب میں تبلیغ اور دین کے علم کو آگے پہنچانے کی اہمیت بیان کرنا مقصود ہے اور استاد کے لیے یہ ارشارہ بھی ہے کہ وہ علم کو بلا استثنی آگے پہنچا دے۔ ممکن ہے کہ اس کے شاگردوں یا سامعین میں اس سے زیادہ علم یاد کرنے والا یا اس سے زیادہ اچھے طریقے سے مسائل کا استنباط کرنے والا موجود ہو۔
  • دوسری بات یہ ہے کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ تمھارے خون، تمھارے مال اور تمھاری آبروئیں ایک دوسرے پر اسی طرح سے حرام ہیں جیسے تمھارے لیے اس دن کی حرمت، اس مہینے میں، اس شہر میں۔
  • چونکہ زمانہ جاہلیت کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اجتماعی طور پر حرمت والے مہینوں میں قتل و قتال نہیں کرتے تھے۔ مگر باقی دنوں میں یہ کام خوب کرتے تھے۔ اس لیے رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دوسرے سے قتل مقاتلہ کرنا یا دوسرے کی عزت خراب کرنا وغیرہ حرمت والے مہینوں کی خصوصیت نہیں ہے۔ بلکہ تمھارے خون، اموال اور عزتیں ہمیشہ ایسے ہی حرام ہیں جیسے کہ اس مقام میں، اس دن میں حرام ہیں۔ (مطالعہ حدیث, 2013, صفحہ 35)
دور حاضر میں اس حدیث سے رہنمائی:

بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

رُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ

تعلیم، سیکھنے،سکھانے اورعلم کو منتقل کرنے کا عمل ہے، قرآن میں متعدد مقامات پرمختلف انداز میں تعلیم کا تذکرہ آیا ہے۔ کہیں ''اقراء''کے لفظ سے اس عظیم منصب کو بیان کیا گیا ہے اور کہیں ''عَلَّمَ، یعلم، یعلمون'' جیسے لفظوں سے دہرایا گیا ہے۔

احادیث مبارکہ میں بھی اس کا تذکرہ بے شمار مقامات پر موجود ہے، ذخیرہ احادیث میں'' کتاب العلم'' کے عنوان سے حدیث کی ہر کتاب میں علم کی فضیلت، تحصیلِ علم کے فضائل اور ترغیبات کا بیان موجود ہے۔ تعلیم(سکھانا) منصبِ الٰہی ہے، جو آغازِ انسانیت سے ہی شروع ہوا۔ ﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم کو علم عطا کر کے فرشتوں پر فضیلت اور فوقیت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ انسانیت اور علم کو لازم و ملزوم قرار دیا۔ جب تک آسمانی وحی کا سلسلہ قائم رہا، تعلیم کا سلسلہ ﷲ تعالیٰ اور انبیاء کرام کے درمیان،پھر انبیاء کے واسطے سے عام لوگوں میں بھی قائم رہا۔ پیغمبرِ اسلام صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی ہی ''اقراء'' کا حکم لے کر اتری۔ چھ سو سال کے طویل وقفے کے بعد بھٹکتی انسانیت کے لیے خدا کے نئے پیغام کا آغاز کلمہ ''اقراء'' کے ساتھ ہوا، یہ پہلی وحی واضح اشارہ تھی کہ کائنات میں ہر سو، ہر نوع پھیلی ہوئی ظلمتوں سے نجات کا ذریعہ نورِ علم ہی ہو سکتا ہے۔

اس حدیث میں درج ذیل باتیں ہمارے علم میں آتی ہیں:

  • امام، خطیب، محدث یا استاد ضرورت کے وقت سواری پر سوار ہو کر خطبہ دے سکتا ہے۔ وعظ کہہ سکتا ہے۔ شاگردوں کے سوال حل کر سکتا ہے۔
  • شاگرد کو چاہیۓ کہ استاد کی تشریح و توضیح کا انتظار کرے اور جواب دینے میں جلدی نہ کرے۔
  • شاگرد فہم میں استاد سے بھی آگے بڑھ سکتے ہیں اور یہ بات استادوں کے لیے باعث فخر ہونی چاہیۓ۔
آج ہمارے معاشرے میں جس طرح کی علم سے بے رغبتی برتی جاتی ہے وہ مختلف وجوہات پر مشتمل ہے۔ جب ہم علم کے انتقال اور تحصیل میں مخلص نہیں ہیں تو ہم اس حدیث سے کیونکر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

معاشرے کے لیے علمائے دین کی ضرورت، ان کا کردار اور حیثیت بہت زیادہ ہے۔ علمائے کرام انبیائے کرام کے وارث ہیں۔ علمائے کرام کے بغیر اسلامی معاشرہ اپنے خالق و مالک اور اپنے آپ کو نہیں پہچان سکتا۔ علمائے کرام کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر ان کی آواز کو اسلامی معاشرہ کی سب سے مؤثر آواز سمجھا جاتا ہے۔ مسلمان سب سے زیادہ اپنے علمائے کرام کی بات مانتے ہیں، کیوں کہ امت میں ان کی حیثیت وہی ہے جو اپنے زمانہ میں انبیائے کرام کی تھی۔

فروغِ علم اور ترویجِ تعلیم انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ علمائے کرام چونکہ معاشرے کی مؤثر آواز کے حامل ہیں، اس لیے اس حوالے سے ان کی ذمہ داری بطورِ خاص قابلِ ذکر ہے۔ علمائے دین جس دینی شعبے سے وابستہ ہوں، وہ اپنے فورم سے عوام میں شعور وآگاہی کو موضوع بنا سکتے ہیں۔ تعلیم کی اہمیت، فروغِ علم کی ضرورت، اس کے فوائد وثمرات اور جہالت و تعلیم سے دوری کے نقصانات سے آگاہی کومشن بنائیں۔ نیز جدید و قدیم، عصری و دینی علوم کی تفریق پر مبنی نظریات کی حدود و قیود بیان کی جائیں۔ مسلمان بحیثیت انسان انسانی معاشرے کا فرد ہے، مسلمان رہتے ہوئے وہ معاشرتی ضروریات پر مشتمل عصری تقاضوں اور ان تقاضوں تک رسائی دینے والے علوم و وسائل سے مستغنی نہیں رہ سکتا۔ اس لیے علمائے دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرہ میں قائم اس تفریقی سوچ کی اصلاح کرتے ہوئے دینی وعصری علوم کے تقابل کو تلازم باور کرائیں اور ہر ایک طبقہ کی اپنی جگہ ضرورت کا جائز مقام سمجھائیں، کیوں کہ مسلمان معاشرے کے لیے جس طرح ایک اچھے عالم دین کا ہونا ناگزیرہے۔

بچوں کی علمی محرومی کا بنیادی سبب والدین کی غفلت اور لاپرواہی ہے۔ والدین کی اس بات سے آگہی ضروری ہے کہ اولاد ﷲ تعالیٰ کی نہ صرف ایک نعمت بلکہ امانت بھی ہے۔ اس امانت کے تقاضے پورے کرنا اور حقوق ادا کرنا والدین پر شرعاً فرض ہے۔ ایک بچے کی جہالت اور تربیت سے محرومی اس کے والدین اور معاشرے کے لیے رحمت کی بجائے زحمت کا ذریعہ ثابت ہوگی۔

والدین کی توجہ اور بچوں کی رغبت کے باوجود تعلیم گاہوں میں آنے کے بعد بھی بچے علم سے محروم رہ جاتے ہیں، اس کی بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ اساتذہ کرام کا رویہ اور اپنے فرائض میں کوتاہی بھی ہے۔ اسلام کی روح سے استاد کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ اس پر گفتگو کی جائے اور انہیں باور کرایا جائے کہ اساتذہ ادارے اور بچوں کے والدین کے امین بھی ہیں، جنہوں نے بچوں کے مستقبل کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں تھما دی ہے۔ استاد کے دل میں دوطرفہ دیانت داری و امانت داری کا احساس پیدا ہونا بہت ضروری ہے۔ ورنہ یہ علم کے فروغ میں رکاوٹ کے علاوہ امانت کے تقاضے بھی ضائع کرنے کا جرم شمار ہوگا۔

یہ حدیث اساتذہ کے لیے مشعل راہ ہے کہ وہ علم کو بغیر اپنے ذاتی مفادات کو بلائے طاق رکھتے ہوئے آگے منتقل کریں۔ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ ان کے شاگردوں میں کوئی ایسا طالب علم ہو جو کہ اس کو بہتر طریقے سے یاد اور زیادہ اچھے طریقے سے دوسروں کو آگے منتقل کر سکتا ہو۔

دین و مذہب کے لیے خدمات فراہم کرنے کا عمل کسی لالچ وطمع سے پاک ہونا چاہیے۔ دین کی طرح کی اعلی اقدار کو معمولی سطح کے اعمال کا آلہ کار بنانے سے قطعی طور پر پرہیز کرنا چاہیے۔ اسے ذریعہ معاش نہیں ہونا چاہیے۔ مبلغ اور عالم کو کئی طرفہ اور ہر طبقے کو اپنے اندر شامل کرنے والے طریقہ کار کو اپنانا چاہیے۔ یہ عمل، عقیدہ، سماجی سطح، عمر، کام اور حیثیت چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو کسی کو مستثنیٰ قرار دیے بغیر ہی سر انجام پانا چاہیے۔ ان کے تیور اور رد عمل میں بعض حلقوں سے تفریق بازی کرنے کا عنصر شامل نہیں ہونا چاہیے۔ مبلغ کو ملنساری اور ہمدردی کے جذبات کو ہمیشہ برقرار رکھنا مقصود ہے۔

نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ دین کو بتانے کی طرح کے اہم فرائض ادا کرنے والوں کو اپنی ذمہ داری کے شعور کے ساتھ اولین طور پر اپنی ذاتی صورتحال اور اعمال پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ بعد ازاں سامنے موجود انسانوں کے حالات کا بھر پور طریقے سے اندازہ کرنا چاہیے۔ دین کو انسانوں تک پہنچانے کے فریضے کو موجودہ دور کے حالات کی روشنی میں نئے مؤقف اور طریقوں سے فروغ دینا چاہیے۔ کسی بھی دینی علم کوعلمی اقدار سے ہٹ کر توہم پرستی اور کہانیوں کے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ انسانوں کو دین و مذہب کی جانب راغب کرنا، اس کی خوبصورتیوں اور نعمتوں سے آگاہی کروانا بڑے ثواب کا کام ہے۔

اسلام تکریم انسانیت کا دین ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو نہ صرف امن و آشتی، تحمل و برداشت اور بقاء باہمی کی تعلیم دیتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے عقائد و نظریات اور مکتب و مشرب کا احترام بھی سکھاتا ہے۔ یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ بلا تفریق رنگ و نسل تمام انسانوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اسلام میں کسی انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔

قرآن حکیم میں ﷲ تعالی نے ارشاد فرمایا:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا

جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا (المائدة:32)

اس آیت مبارکہ میں انسانی جان کی حرمت کا مطلقاً ذکر کیا گیا ہے جس میں عورت یا مرد، چھوٹے بڑے، امیر و غریب حتی کہ مسلم اور غیر مسلم کسی کی تخصیص نہیں کی گئی۔ مدعا یہ ہے کہ قرآن نے کسی بھی انسان کو بلاوجہ قتل کرنے کی نہ صرف سخت ممانعت فرمائی ہے بلکہ اسے پوری انسانیت کا قتل ٹھہرایا ہے۔
 
Top