صحیح بخاری ، مصنف کا تعارف

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
مصنف کا نام ونسب:

نام محمد بن اسماعیل اور کنیت ابو عبدﷲ ہے۔ ازبکستان کے شہر بخارا میں پیدائش کی وجہ سے بخارِی کہلائے جاتے ہیں۔

ولادت اور وفات:

آپ ۱۳ شوال ۱۹۴ھ بروز جمعہ پیدا ہوئے اور تقریباً ۶۲ سال کی عمر میں ۲۵۶ھ میں آپ کی وفات ہوئی اور عید الفطر کے دن بعد نمازِ ظہر سمرقند کے قریب "خرتنگ" نامی جگہ میں دفن کیے گئے۔

تعلیم وتربیت:

آپ کے بچپن میں ہی والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا، آپ کی تعلیم وتربیت ماں کی گود میں ہوئی۔ صرف 14 سال کی عمر میں احادیث کی بیشتر کتابیں پڑھ کر آپ نے تقریباً ستر ہزار حدیثیں زبانی یاد کرلی تھیں۔ آپ کی بینائی بچپن میں ہی چلی گئی تھی، ایک مرتبہ آپ کی والدہ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ اے عورت! ﷲ تعالیٰ نے تیری دعا کی برکت سے تیرے بیٹے کی بینائی واپس کردی ہے۔ چنانچہ صبح ہوئی تو امام بخاری بالکل بینا تھے۔ آپ کے والد محترم نے وفات کے وقت فرمایا تھا کہ میرے تمام مال میں نہ کوئی درہم حرام کا ہے اور نہ مشتبہ کمائی کا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی پرورش بالکل حلال رزق سے ہوئی تھی اور آخری عمر تک امام بخاری بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلے، غرض آپ نے کبھی لقمہٴ حرام نہیں کھایا۔

علم حدیث کی تحصیل:

ابتدا میں اپنے ہی علاقے کے بیشتر شیوخ سے احادیث پڑھیں۔ والدہ اور بھائی کے ساتھ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ گئے۔ والدہ اور بھائی تو اپنے وطن واپس آگئے مگر آپ حج سے فراغت کے بعد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے شیوخ سے احادیث سنتے رہے۔ اس کے بعد حدیث کے حصول کے لیے متعدد سفر کرکے مصر، شام، عراق اور دیگر ممالک کے شیوخ سے آپ نے احادیث پڑھیں۔ اس طرح آپ کم عمری میں ہی حدیث کے امام بن کر سامنے آئے۔

قوتِ حافظہ:

ﷲ تعالیٰ نے امام بخاری کو خصوصی قوتِ حافظہ عطا فرمائی تھی۔ ایک بات سننے کے بعد ہمیشہ یاد رکھتے۔

آپ کے استاذ امام محمد بن بشار فرماتے تھے کہ: ''اس وقت دنیا میں خصوصی حافظہ رکھنے والے چار شخص ہیں: امام بخاری، امام مسلم، امام ابوزرعہ رازی اور امام عبدﷲ بن عبدالرحمن سمرقندی''۔

شارح صحیح بخاری علامہ ابن حجر کہتے ہیں کہ: ''ان چاروں میں امام بخاری کو خاص فضیلت اور ترجیح حاصل تھی''۔

آپ کے اساتذہٴ کرام:

علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ: ''امام بخاری کے اساتذہ کی تعداد کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا''۔

خود امام بخاری کا اپنا بیان ہے کہ: ''میں نے اسی ہزار حضرات سے روایت کی ہے جو سب بلند پایہ اصحاب حدیث میں شمار ہوتے تھے''۔

تلامذہ:

آپ کے تلامذہ کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ علامہ فِرَبری فرماتے ہیں کہ: ''جب میں امام بخاری کی شہرت سن کر آپ کی شاگردی کا شرف حاصل کرنے آپ کی خدمت میں پہنچا تو اس وقت تک تقریباً نوے ہزار آدمی آپ کے شاگرد ہو چکے تھے۔ نامور شاگردوں میں امام ترمذی اور علامہ دارمی بھی شامل ہیں''۔
 
Top