قرآن فہمی کے راستہ میں حائل مشکلات

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
قرآن مجید عربی زبان میں عربوں کے محاورہ کے عین مطابق نازل ہوا۔ عرب قدرتی طور پر اسکے صحیح معنی سمجھ لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نبی پاک صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم سے بہت کم سوال کرتے تھے۔ لیکن جب صحابہ کا دور گزر گیا اور عجمیوں کی مداخلت سے پہلی زبان متروک ہو گئی تب بعض مقامات پر شارع کی مراد کو سمجھنا مشکل ہو گیا۔
کسی لفظ کے معنی سمجھنے میں دشواری کا سبب اس کا غیر مانوس اور اجنبی ہونا ہوتا ہے۔ کبھی ناسخ و منسوخ کی تمیز نہ کرنے سے ہوتا ہے اور کبھی نزول کے سبب کو بھول جانے سے، کبھی مضاف اور موصوف وغیرہ کے محذوف ہونے سے۔ ذیل میں تین اسباب کی وضاحت کی جاتی ہے
1) غیریب الفاظ
2) ناسخ و منسوخ
3) اسباب نزول کی عدم معرفت

1) غریب الفاظ کی عدم معرفت:
قرآن مجید کی غریب الفاظ کی عدم معرفت فہم قرآن کے راستے میں دشواری کا سبب ہے۔
ڈاکٹر سیّد عبدالوہاب طالقانے نے غریب القرآن کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
''غریب،مشکل اور امثالِ قرآن جیسے الفاظ سے مراد وہ اصطلاحات نہیں ہیں کہ جن سے عام طور پر غیر مانوس لغات مراد لی جاتی ہیں قرآن میں غیر مانوس لغات اور غیر مصطلح الفاظ استعمال نہیں ہوئے ہیں کیونکہ ایسے الفاظ کا استعمال اعجاز قرآن کے بلاغت کے پہلو سے مغایرت رکھتاہے ۔ بلکہ غریب سے مُراد مشکل لغات ہیں یا وہ لغات اور تراکیب جو مختلف افراد اپنی معلومات اور ذہنی سطح کے مطابق تعبیر کرتے ہیں۔ علوم قرآن کے علماء نے مشابہ آیات اور الفاظ کے تقابل اور روایات کی مدد سے الفاظ قرآن کے حقیق معنی کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے تا کہ ہر کوئی اپنے سلیقہ کے مطابق خاص معنی استنباط نہ کرے اور الفاظ قرآن کے حقیقی معانی سے جو فہم آیا ت کےلئے مقدمہ ہے سے رو گردانی نہ کرے۔ قرآن میں مختلف قبائل کے لہجے اور لغات موجود ہیں اور تمام قبائل الفاظ سے یکساں استفادہ نہیں اٹھاتے اور یہ بات مسّلم ہے کہ ہر لغت کا ماہر اپنی اصطلاح کو دوسروں سے صحیح تر استعمال کرتا ہے۔ بنا بریں ایک قبیلہ کی لغت دوسرے قبیلہ کے لئے غریب اور غیرمانوس تصور ہو گی''۔
حل:
ان کی شرح سے واقفیت ہونا ضروری ہے۔ غریب القرآن کی بہترین شرح ترجمان قرآن حضرت عبدﷲ ابن عباس کی ہے۔جو ابن ابی طلحہ کے ذریعے صحیح طور پر ہم تک پہنچی ہے۔اس کے بعد ابن عباس سے ضحاک کے ذریعے جو روایات ہیں۔ پھر نافع ابن الارزق کے سوالات پر ابن عباس کے جوابات ہیں۔ اس کے بعد امام بخاری نے ائمہ تفسیر سے جو شرح نقل کی ہے، اس کا مرتبہ ہے۔ پھر وہ شرحیں ہیں جو دوسرے مفسرین نے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین سے روایت کی ہیں۔
2) ناسخ و منسوخ آیات کی عدم معرفت:
قرآن مجید کی فہم میں دشواری کا ایک سبب اس کی ناسخ و منسوخ آیات کی عدم معرفت ہے۔
نسخ کی لغوی تعریف:
یہ نَسَخَ، یَنْسَخُ کا مصدر ہے، اس کے دو معانی ہیں: 1۔ اِزالہ و رفع۔ 2۔ نقل وتحویل
نسخ کی حکمت:
ﷲ تعالیٰ نے جب رسولِ کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کو عرب معاشرے کی طرف مبعوث کیا اس وقت پوری دنیا خصوصا غرب معاشرہ انسانیت کی ذلیل اور پست ترین سطح پر موجود تھا۔ عرب معاشرہ جس میں معاشی، معاشرتی، سیاسی، اخلاقی، مذہبی اور ثقافتی ہر قسم کی برائیاں پائی جاتی تھیں اور یہ ان کی گھٹی میں رَچ بس چکی تھیں، ان برائیوں کو یکسر ختم دینا ان کے لیے بہت مشکل تھا۔ علاوہ اَزیں مصلحت ِعامہ اور حکمت ِبالغہ کا تقاضا یہ یہی تھا کہ شریعت کے احکام میں'' تدریج'' کو مد نظر رکھا جائے۔ لہٰذا بعض اوقات ایسا ہوتا کہ ابتدا میں نسبتاً آسان حکم نازل ہوتا اور پھر جب دیکھا جاتا کہ لوگوں کے ذہن ایک جائز حکم کی بجا آوری میں پختہ ہوچکے اور ان کے دل جذبہ اتباع سے لبریز ہو چکے ہیں تو پہلے حکم کو منسوخ کرکے حتمی فیصلہ سنا دیا جاتا۔
نسخ کے عمومی مزاج سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے احکام کی بجآوری میں تخفیف، سہولت اور مصلحت عامہ اور خاصہ کا لحاظ رکھا گیا ہے تاکہ اسلامی احکام ہر دور میں اپنے پیروکاروں کیلئے سود مند ثابت ہوں۔ شارع نے ناسخ ومنسوخ کے عمل سے اسلام کی پہلی کھیپ میں اسلام کی طرف میلان پیدا کرنے اور ان میں اسلام کی محبت راسخ ہونے پر حتمی فیصلہ سنا دیا تا کہ وہ قیامت تک کیلئے ہر دور، ہر نسل کیلئے مفید ہو۔
نسخ صرف اُمت محمدیہﷺ کی خصوصیت نہیں، بلکہ پہلے انبیا کی شریعتوں میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا ہے، جس کی بہت سی مثالیں موجودہ بائبل میں بھی ملتی ہیں۔ مثلاً بائبل میں ہے کہ سیدنا یعقوب کی شریعت میں دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز تھا اور خود سیدنا یعقوب کی بیویاں لیاہ اور راحیل آپس میں بہنیں تھیں، لیکن موسیٰ کی شریعت میں اسے ناجائز قرار دے دیا گیا۔ سیدنا نوح کی شریعت میں ہر چلتا پھرتا جاندار حلال تھا، لیکن موسیٰ کی شریعت میں بہت سارے جانور حرام کر دئیے گئے۔ غرض عہدنامہ جدید وقدیم میں ایسی بیسیوں مثالیں ملتی ہیں جن میں کسی پرانے حکم کو نئے حکم سے منسوخ کر دیا گیا''۔
اس عمل کی ضرورت اس لیے بھی تھی کہ ﷲ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جیسا پیدا نہیں کیا۔ ﷲ نے ان کی ذہنی تفاوت میں فرق رکھا ہے۔ ﷲ نے تمام انسانوں کو ایک جیسا دماغ عطا کیا ہے مگر اس کو استعمال کرنے کی صلاحیت سب کی الگ الگ ہے۔ جس ذات باری تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کیا وہ اس کی تمام تر ضروریات زندگی اور حاجات سے بخوبی واقف ہے۔
منسوخ آیات کی تعداد:
منسوخ آیات کے تعین میں بھی فرق ہے۔ بعض کے نزدیک کچھ آیات منسوخ ہیں ،جبکہ دوسروں کے نزدیک کچھ دوسری آیات منسوخ ہیں۔مفسر کیلئے اس موضوع پر مکمل دسترس رکھنا ضروری ہے ،ورنہ تفسیر پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
قرآن پاک میں ناسخ ومنسوخ آیات کے بارے میں علما میں اختلاف ہے۔ امام جلال الدین السیوطی نے الاتقان فی علوم القرآن میں 20 آیات بتائی ہیں اور حضرت شاہ ولی ﷲ نے الفوز الکبیر فی اصول تفسیر میں 5 آیات بتائی ہیں اور بعض کے نزدیک ناسخ ومنسوخ آیات کی تعداد اس سے بھی کم بتائی ہے۔
حل:
ناسخ ومنسو خ کے علم کی معرفت حاصل کی جائے۔ ناسخ ومنسو خ کا علم جاننا ہر قاضی اور مفتی کیلئے نہایت ضروری ہے۔
اس کی اہمیت کا اندازہ اس طرح ہوتا ہے کہ جس شخص کو نسخ کا علم نہ ہوتا، صحابہ کرام اس کو فتویٰ دینے سے منع کرتے اور نہ ہی اس کو منصب ِقضا پر فائز کیا جاتا۔
سیدنا علی کرم اﷲ وجہہ نے ایک قاضی سے پوچھا:
''کیا تو ناسخ منسوخ کو پہچانتا ہے؟'' قاضی نے نفی میں جواب دیا، تو فرمایا: ''تو خود بھی ہلاک ہوا اور دوسروں کو بھی ہلاک کیا''۔ (الناسخ والمنسوخ لقاسم بن سلام: ص:۴)
علماء کرام کے ہاں نقطہ نگاہ یہ بھی ہے کہ قرآن میں نسخ موجود نہیں ،اور جن لوگوں نے بعض آیات کو منسوخ قرار دیا ہے وہ منسوخ نہیں۔دراصل ان کے اطلاق کے حالات اب موجود نہیں۔اگر قیامت تک کسی دور میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو ان کا اطلاق ممکن ہو گا ۔گویا علماء میں نسخ کی موجودگی میں بھی اختلاف ہے۔
3) اسباب نزول کی عدم معرفت:
قرآن مجید کی فہم میں دشواری کا ایک سبب اسباب نزول کی عدم معرفت ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک کو انسان کی ضرورت کے مطابق نازل فرمایا۔ قرآن کا اکثر حصہ تو وہ ہے جو شروع میں نصیحت، ﷲ کا خوف پیدا کرنے اور احکامات کی وضاحت کے سلسلے میں نازل ہوا ہے۔ لیکن قرآن کا وہ حصہ جو کسی حادثہ یا سوال کے جواب میں اُترا ہے، علماء نے ان حوادث / سوالات کو اَسباب سے تعبیر کیا ہے۔
مفسر اسباب نزول کا بیان کرتے ہوئے درج ذیل اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔
1) فی کذا کا مطلب ''اس بارے میں''۔
فی کذا: اس اصطلاح کا استعمال صحابہ اور تابعین کے دور میں اسباب نزول کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی ہوتا رہا ہے۔ وہ اس اصطلاح کو دور رسالت میں واقع ہونے والے کسی ایک واقعہ کے لیے بھی استعمال کیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ جب محمدصلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سوال پیش کیا جاتا یا آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کے دور مبارک میں کبھی کوئی خاص واقعہ ہوتا تو آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ایسے موقعوں پر قرآن کی کسی آیت سے کوئی حکم متنبط فرماتے تو ساتھ ہی اس آیت کی تلاوت بھی فرما دی، صحابہ کرام بھی یہ ہی اصطلاح استعمال کرتے تھے اور اس قسم کے واقعات بیان کرتے ہوئے کہا کرتے تھے نزلت فی کذا مطلب کہ اس بارے میں نازل ہوا بھی استعمال کرتے تھے۔
2) نزلت فی کذا کا مطلب '' اس بارے میں نازل ہوئی''۔
3) فانزل ﷲ تعالٰی کا مطلب '' پس ﷲ تعالٰ نے نازل فرمایا''۔
4) فنزلت کا مطلب '' پس نازل ہوئی''۔
حل:
محدّثین کرام قرآنی آیات کی تشریح کے ذیل میں بہت سی ایسی چیزوں کا ذکر کر دیتے ہیں جو در حقیقت سبب نزول نہیں ہوتی، اس لیے ان سے اجتناب ضروری ہے۔قرآن مجید کی تفسیر سبب نزول کی معرفت کے بغیر مناسب نہیں ہو سکتی کیونکہ جس دور میں اور جن حالات میں قرآن مجید نازل ہوا ان حالات کو جاننا بے حد ضروری ہے کہ یہ آیت کسی حادثہ یا کسی سوال کے جواب میں نازل ہوئی ہے۔
امام واحدی رحمۃ ﷲ علیہ سبب نزول کے متعلق لکھتے ہیں کہ:'' آیت کا تفسیر اور اس کے غرض و غایت کا علم اس کے سبب نزول کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔ اور اس کے سبب نزول میں کوئی بات کرنا جائز نہیں سوائے صحیح روایت کے جنہوں نے قرآن کے نزول کا زمانہ پایا''۔
سبب نزول آیت کے مقصد اور تفسیر میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
امام ابن تیمیۃ رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں: ''سبب نزول کی پہچان کسی آیت کے فہم و ادراک میں مدد دیتی ہے اس لیے کہ سبب کے علم سے مسبب کا معلوم ہونا ایک فطری بات ہے''۔
جلال الدین سیوطی رحمۃ ﷲ علیہ امام ابن دقیق العید رحمۃ ﷲ علیہ کا قول ذکر کرتے ہیں کہ ''سبب نزول کا علم قرآن کے معانی اور فہم کا قوی ذریعہ ہے ان حوالوں کے سبب نزول کی اہمیت اور ضرورت واضح ہو گی۔ اسباب نزول کا علم آیت کے مقصد کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو تاہے اور اسباب نزول کی عدم معرفت غلطی اور خطا کا سبب بنتا ہے''۔
 
Top