1)محکم:
محکم، اس کلام کو کہتے ہیں جس سے اہل زبان صرف وہی مخصوص معنی سمجھ سکے، جس معنی میں وہ کہا گیا ہو۔ مگر اس کو سمجھنے میں پہلا اعتبار عربوں کا ہو گا نہ کہ ہمارے عالموں کا۔ جن میں تنگ نظری ایک ایسا مرض ہے جس سے وہ محکم کو متشابہ اور معلوم کو مجہول بنا دیتے ہیں۔
2)متشابہ:
متشابہ اس کلام کو کہتے ہیں جس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایسا کئی طریقوں سے ہو سکتا ہے مثلا:
1) جب جملے کسی ''ضمیر'' کے دو مرجع ہوں۔ مثلا کسی شخص نے کہا ہو ان الامیر امرنی ان العن فلانا لعنہ ﷲ مطلب مجھے امیر نے حکم دیا کہ میں فلاں آدمی پر لعنت کروں، ﷲ اس پر لعنت کرے۔ یہاں اشتباہ ہوتا ہے کہ کہنے والے کی مراد ''ضمیر سے کون ہے؟ ''فلاں'' ہے یا ''امیر''۔
2) جب کلام میں کوئی لفظ ذو معنی استعمال ہو۔ مثلا
3) جب کلام کے دو لفظوں پر، جو قریب و بعید ہوں، عطف کا احتمال ہو
کنایہ، ایسے انداز کلام کو کہتے ہیں جس سے کوئی بات سننے والے کے لیے اس طرح ثابت کی جاۓ تاکہ اس کا ذہن ایسی بات کی طرف منتقل ہو جاۓ جو قدرتی طور پر عقل کے نزدیک لازم ہو۔ مثلا کسی شخص کو عظیم الرماد (راکھ کی بڑی ڈھیر والا) کہیں اور اس سے مراد بہت مہمان نواز ہو۔ اسی طرح یداہ مبسوطتان ( اسکے ہاتھ کشادہ ہیں ) سے کرم و سخاوت کا مفہوم ذہن میں آتا ہے۔ اسی طرح اپنے دلی خیالات کو محسوسات کے ذریعے ظاہر کرنا بھی کنایہ میں داخل ہے۔
یہ مضمون بہت وسیع ہے۔ عربوں کے اشعار، خطبات، قرآن مجید اور احادیث رسول صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم میں کناۓ بکثرت استعمال ہوۓ ہیں۔ مثلا
4)تعریض:
تعریض، یہ ہے کہ کوئی عام بات کہیں مگر اس سے مقصود کسی شخص کا حال بیان کرنا ہو، یا کسی کو تنبیہ کرنا ہو۔ بعض اوقات سلسلہ مضامین میں اس شخص کی بعض خصوصیات بیان کر دیتے ہیں، اور مخاطب کو اس شخص سے مطلع نہیں کرتے۔ ایسے مقامات میں قرآن مجید پڑھنے والا قصّے کا منتظر رہتا ہے۔ قرآن مجید میں آیت ہے:
اور اس آیت میں حضرت ابو بکر کی طرف اشارہ ہے۔
5)مجاز عقلی:
مجاز عقلی، یہ ہے کہ کلام میں کسی فعل کو کسی ایسے شخص کی طرف منسوب کریں جو حقیقت میں اس کا فاعل نہیں ہے۔ اور ایسی چیز کو مفعول بہ بنائیں جو اصل میں مفعول بہ نہیں ہے۔ ان دونوں کے درمیان کسی مشابہت کی وجہ سے ایسا کہا جاتا ہے۔ کہنے والا گویا اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ یہ بھی اس میں شمار ہیں۔ اور اسی جنس سے ہیں: مثلا کہا جاتا ہے، '' امیر نے محل بنایا'' حالانکہ بنانے والے معمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح کہا جاتا ہے '' بہار نے سبزہ اگایا'' حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگانے والا ﷲ تعالیٰ ہے۔ وﷲ اعلم بالصّواب۔
محکم، اس کلام کو کہتے ہیں جس سے اہل زبان صرف وہی مخصوص معنی سمجھ سکے، جس معنی میں وہ کہا گیا ہو۔ مگر اس کو سمجھنے میں پہلا اعتبار عربوں کا ہو گا نہ کہ ہمارے عالموں کا۔ جن میں تنگ نظری ایک ایسا مرض ہے جس سے وہ محکم کو متشابہ اور معلوم کو مجہول بنا دیتے ہیں۔
2)متشابہ:
متشابہ اس کلام کو کہتے ہیں جس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایسا کئی طریقوں سے ہو سکتا ہے مثلا:
1) جب جملے کسی ''ضمیر'' کے دو مرجع ہوں۔ مثلا کسی شخص نے کہا ہو ان الامیر امرنی ان العن فلانا لعنہ ﷲ مطلب مجھے امیر نے حکم دیا کہ میں فلاں آدمی پر لعنت کروں، ﷲ اس پر لعنت کرے۔ یہاں اشتباہ ہوتا ہے کہ کہنے والے کی مراد ''ضمیر سے کون ہے؟ ''فلاں'' ہے یا ''امیر''۔
2) جب کلام میں کوئی لفظ ذو معنی استعمال ہو۔ مثلا
لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ
تم نے چھوا عورتوں کو (سورۃ مائدہ:6)
کے معنی چھونے کے علاوہ جماع کرنے کے بھی ہیں۔تم نے چھوا عورتوں کو (سورۃ مائدہ:6)
3) جب کلام کے دو لفظوں پر، جو قریب و بعید ہوں، عطف کا احتمال ہو
وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تم مسح کرو اپنے سروں کا اور اپنے اور اپنے پاؤں کا (سورۃ مائدہ:6)
4) کبھی اس صورت میں بھی اشتباہ ہوتا ہے جہاں عطف بھی ہو سکتا ہو، اور نئے جملے کا آغاز بھی ممکن ہو۔ مثلااور تم مسح کرو اپنے سروں کا اور اپنے اور اپنے پاؤں کا (سورۃ مائدہ:6)
مَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ
نہیں جانتا اسکا حقیقی مطلب مگر ﷲ، اور علم میں رسوخ رکھنے والے (سورہ آل عمران:7)
3) کنایہ:نہیں جانتا اسکا حقیقی مطلب مگر ﷲ، اور علم میں رسوخ رکھنے والے (سورہ آل عمران:7)
کنایہ، ایسے انداز کلام کو کہتے ہیں جس سے کوئی بات سننے والے کے لیے اس طرح ثابت کی جاۓ تاکہ اس کا ذہن ایسی بات کی طرف منتقل ہو جاۓ جو قدرتی طور پر عقل کے نزدیک لازم ہو۔ مثلا کسی شخص کو عظیم الرماد (راکھ کی بڑی ڈھیر والا) کہیں اور اس سے مراد بہت مہمان نواز ہو۔ اسی طرح یداہ مبسوطتان ( اسکے ہاتھ کشادہ ہیں ) سے کرم و سخاوت کا مفہوم ذہن میں آتا ہے۔ اسی طرح اپنے دلی خیالات کو محسوسات کے ذریعے ظاہر کرنا بھی کنایہ میں داخل ہے۔
یہ مضمون بہت وسیع ہے۔ عربوں کے اشعار، خطبات، قرآن مجید اور احادیث رسول صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم میں کناۓ بکثرت استعمال ہوۓ ہیں۔ مثلا
1) وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا
اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیاروں کو چڑھا کر لاتا رہ اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدے کرتا رہ۔ اور شیطان جو وعدے ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے (سورہ بنی اسرائیل: 64)
اس آیت میں ابلیس کو ڈاکو سے تشبیہ دی گئی ہے جس طرح ڈاکوؤں کا سرغنہ غارت گری کے وقت اپنے ساتھیوں کو پکارتا ہے اور چھاپا مارنے کا حکم دیتا ہے، اور کہتا ہے ادھر سے آؤ، ادھر سے آؤ، (اسی طرح شیطان مختلف طریقوں سے رہزنی کرتا ہے)۔اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیاروں کو چڑھا کر لاتا رہ اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدے کرتا رہ۔ اور شیطان جو وعدے ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے (سورہ بنی اسرائیل: 64)
2) إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلَالًا فَهِيَ إِلَى الْأَذْقَانِ فَهُم مُّقْمَحُونَ وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ
ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال رکھے ہیں اور وہ ٹھوڑیوں تک (پھنسے ہوئے ہیں) تو ان کے سر اُلل رہے ہیں (سورۃ یسین:8)
اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنا دی اور ان کے پیچھے بھی۔ پھر ان پر پردہ ڈال دیا تو یہ دیکھ نہیں سکتے (سورہ یسین:9)
یہاں قرآنی آیات میں کافروں کے غور و تدبر نہ کرنے کو ایسے آدمیوں سے تشبیہ دی گئی ہے، جن کے گلوں میں بھاری طوق پڑے ہوۓ ہوں، اور اوپر کو سر نہ اٹھا سکتے ہوں اور ان کے چاروں طرف دیواریں ہوں۔ اور وہ باہر نہ دیکھ سکتے ہوں۔ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال رکھے ہیں اور وہ ٹھوڑیوں تک (پھنسے ہوئے ہیں) تو ان کے سر اُلل رہے ہیں (سورۃ یسین:8)
اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنا دی اور ان کے پیچھے بھی۔ پھر ان پر پردہ ڈال دیا تو یہ دیکھ نہیں سکتے (سورہ یسین:9)
3) اسْلُكْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ
اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالو تو بغیر کسی عیب کے سفید نکل آئے گا اور خوف دور ہونے (کی وجہ) سے اپنے بازو کو اپنی طرف سیکڑلو۔ یہ دو دلیلیں تمہارے پروردگار کی طرف سے ہیں (ان کے ساتھ) فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس جاؤ کہ وہ نافرمان لوگ ہیں (سورہ قصص:32)
یعنی خاطر جمع رکھ اور پریشان نہ ہو۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ کسی شخص کی بہادری کا بیان کرنا ہو تو تلوار کو ہاتھ میں گھما کر بتاتے ہیں کہ وہ یوں تلوار چلاتا ہے۔ بعض دفعہ کوئی شخص کسی جنگجو کی نقل اتارتا ہے جبکہ وہ غالب آ چکا ہوتا ہے اور اسکی فتح مندی کا اظہار کرتا ہے حالانکہ اس نے کبھی جنگ نہیں کی۔ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالو تو بغیر کسی عیب کے سفید نکل آئے گا اور خوف دور ہونے (کی وجہ) سے اپنے بازو کو اپنی طرف سیکڑلو۔ یہ دو دلیلیں تمہارے پروردگار کی طرف سے ہیں (ان کے ساتھ) فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس جاؤ کہ وہ نافرمان لوگ ہیں (سورہ قصص:32)
4)تعریض:
تعریض، یہ ہے کہ کوئی عام بات کہیں مگر اس سے مقصود کسی شخص کا حال بیان کرنا ہو، یا کسی کو تنبیہ کرنا ہو۔ بعض اوقات سلسلہ مضامین میں اس شخص کی بعض خصوصیات بیان کر دیتے ہیں، اور مخاطب کو اس شخص سے مطلع نہیں کرتے۔ ایسے مقامات میں قرآن مجید پڑھنے والا قصّے کا منتظر رہتا ہے۔ قرآن مجید میں آیت ہے:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا (سورۃ احزاب: 36)
اس آیت میں حضرت زینب اور حضرت زید کے قصے کی طرف اشارہ ہے۔اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا (سورۃ احزاب: 36)
اور اس آیت میں حضرت ابو بکر کی طرف اشارہ ہے۔
وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور جو لوگ تم میں صاحب فضل (اور صاحب) وسعت ہیں، وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور محتاجوں اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ خرچ پات نہیں دیں گے۔ ان کو چاہیئے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ خدا تم کو بخش دے؟ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے (سورۃ نور:22)
ایسی صورتوں میں جب تک واقعہ معلوم نہ ہو مطلب واضح نہیں ہوتا۔ اور جو لوگ تم میں صاحب فضل (اور صاحب) وسعت ہیں، وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور محتاجوں اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ خرچ پات نہیں دیں گے۔ ان کو چاہیئے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ خدا تم کو بخش دے؟ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے (سورۃ نور:22)
5)مجاز عقلی:
مجاز عقلی، یہ ہے کہ کلام میں کسی فعل کو کسی ایسے شخص کی طرف منسوب کریں جو حقیقت میں اس کا فاعل نہیں ہے۔ اور ایسی چیز کو مفعول بہ بنائیں جو اصل میں مفعول بہ نہیں ہے۔ ان دونوں کے درمیان کسی مشابہت کی وجہ سے ایسا کہا جاتا ہے۔ کہنے والا گویا اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ یہ بھی اس میں شمار ہیں۔ اور اسی جنس سے ہیں: مثلا کہا جاتا ہے، '' امیر نے محل بنایا'' حالانکہ بنانے والے معمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح کہا جاتا ہے '' بہار نے سبزہ اگایا'' حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگانے والا ﷲ تعالیٰ ہے۔ وﷲ اعلم بالصّواب۔