تفسیر کا فقہی رجحان

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
تفسیر کا فقہی رجحان:

تفسیر کے اس رجحان کے نتیجے میں وہ کتب مرتب ہوئیں جن میں قرآن مجید کی ان آیات کی تفسیر کی گئی ہے جو فقہی احکام و مسائل پر مشتمل ہے۔ جن حضرات کے ہاتھوں یہ کام انجام پایا انہیں فقہاء کہا جاتا ہے اور ان کی مدونہ کتب کو فقہی تفاسیر کہا جاتا ہے۔ جن میں اصل اہمیت استنباط احکام کو دی گئی ہے تاکہ قرآن کا باضابطہ قانون پوری تفصیل کے ساتھ سامنے آجاۓ۔

فقہی مذاہب کے باقاعدہ ظہور سے قبل فقہی تفسیر سادہ نوعیت کی تھی اور اس میں شخصی رجحان کا عمل دخل نہیں تھا۔ پھر جوں جوں فقہی مذہب پیدا ہوتے گئے فقہی تفسیر بھی مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی چلی گئی۔ چناچہ ڈاکٹر محمد حسین ذہبی لکھتے ہیں: ''فقہی تفسیر کے تاریخی مرحلے کا جائزہ لینے سے واضح ہو جاتا ہے کہ نزول قرآن کی ابتداء سے لے کر فقہی مذاہب کے قیام تک یہ تفسیر ذاتی اغراض و خواہشات سے بعید رہی۔ پھر اس کے بعد فقہی مذاہب کے زیر اثر اس میں تنوع پیدا ہو گیا اور یہ مختلف انواع میں منقسم ہو گئی۔ چناچہ اہل سنت کی متنوع تفسیر ابتدا میں تعصب سے پاک تھی۔ بعد میں وہ بھی اس تعصب میں ملوث ہوتی چلی گئی۔ اسی طرح ظاہر کی فقہی تفسیر اس بات پر قائم ہے کہ صرف ظاہری مفہوم پر اکتفا کیا جائے اور کسی صورت بھی اس سے عدول نہ کیا جاۓ۔ اسی طرح خواری اور شعیہ کی فقہی تفاسیر بھی خاص نوعیت کی ہے۔ ان مذاہب و فرق میں ہر ایک اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ قرآنی آیات کی تاویل اس اسلوب میں کی جاۓ کہ وہ ان کے مخصوص نظریات کی تائید کرے یا اس کے خلاف نظر نہ آئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ آیات کی تاویل میں اس طرح کھینچا تانی کرنے لگے کہ قرآنی الفاظ اپنے معنی و مدلول سے دور نکل گئے''۔
 
Top