فقہ چوتھی صدی ہجری کے بعد

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
آغاز اسلام سے عباسیوں کے ابتدائی دورِ حکومت تک قرآن حکیم کے علاوہ عملی طور پر کوئی مدوّن آئین نہیں تھا۔ تاریخِ فقہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ فقہ کا صحیح آغاز اُموی سلطنت کے اختتام پر ہوا تھا۔ یہی وہ دور تھا جس میں ہمارے جلیل القدر فقہائے اسلام مثلاً امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبلؒ اور امام ابو یوسف وغیرہ نے علم فقہ کے میدان میں نمایاں ترین خدمات سرانجام دیں۔

تاریخ فقہ اسلامی کا یہ وہ دور ہے جو چوتھی صدی ہجری کے نصف کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں فقہ مناظرہ کا علم بن گیا۔ جو مسائل ائمہ مجتہدین سے حاصل کیے گئے تھے ان کی تحقیق اور تفتیش کے لیے مناظرے اسی دور سے شروع ہوئے۔ اسی زمانہ میں فقہ پر بڑی بڑی کتابیں لکھیں گئیں اور بے شمار مسائل کا حل تلاش کیا گیا۔ یہ دور اس وقت ختم ہوا جب خلافت بنو عباس دم توڑ رہی تھی اور بغداد میں تارتاری غارت گری کا فتنہ سر اٹھا رہا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد تک مصر میں یہی دور جاری رہا۔ تاریخ فقہ اسلامی کے اس دور کو دو حصوں میں تقیسم کیا جاتا ہے۔

دور اول:

دور او ل چوتھی صدی ہجری کی ابتدا سے سلطنت عباسیہ کے زوال تک محیط ہے۔ اس دور میں فقہ مناظرہ کا علم بن گیا جو مسائل مجتہدین سے حاصل کئے گئے تھے ان کی تحقیق و تفتیش کیلئے مناظرے اسی دور سے شروع ہوئے۔ اس کے علاوہ فقہ اور اصول فقہ کے موضوع پر بڑی بڑی تصانیف بھی اسی دور کی علمی یادگار ہیں اور پیش آمدہ مسائل کا حل اپنے اپنے مسلک کے ائمہ مجتہدین کے معین کردہ اصول و ضوابط کی روشنی میں تلاش کیا گیا، یہ دور اس وقت ختم ہوا جب خلافت بنو عباس دم توڑ رہی تھی اور بغداد میں تارتاری غارت گری کا فتنہ سر اٹھا رہا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد تک مصر میں یہی دور جاری رہا۔

دور ثانی:

دور ثانی کا آغاز سقوط بغداد سے ہوا اور اب تک جاری ہے۔ یہ دور تقلید محض کا دور کہلاتا ہے۔ دور ثانی کے ابتدائی ادوار میں حدیث کی اہم کتابوں کی شروحات، فن اسمائے رجال، فقہ اور اصول فقہ کے متون اور شروحات معرض وجود میں آئیں۔

اس دور کی خصوصیات:

  • اس دور میں علماء اور فقہاء نے تقلید محض کو اختیار کر لیا اور کوئی نمایاں فرد یا جماعت ایسی نظر نہیں آتی جس نے انفرادی یا اجتماعی اجتہاد کو رواج دیا ہو۔
  • قاہرہ میں بڑے بڑے فقہاء، مفسرین اور محدثین پیدا تو ہوئے مگر ان میں کوئی بھی اجتہادی بصیرت سے امت مسلمہ کے سامنے کوئی ایسی فقہی رائے نہ رکھ سکل جس سے یہ تاثر ملتا کہ یہ حضرت اپنے فقہی مسلک سے انحراف کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
  • دسویں صدی ہجری میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ کسی بھی فقیہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے فقہی مسلک سے ہٹ کر کوئی نئی رائے دے یا اپنے ائمہ فقہا کی مختلف فقہی آراء میں سے کسی رائے کو راجح یا مرجوع قرار دے۔
  • اس دور میں اسلامی شہروں کے علماء اور فقہاء کے درمیان تعلقات اور رابطہ کا فقدان تھا۔ زیادہ سے زیادہ حج کے موسم میں اطراف عالم سے آئے ہوئے فقہاء کا آپس میں کوئی تعارف ہوجاتا ورنہ ایسا کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا جہاں فقہاء مل بیٹھ کر مسائل حاضرہ پر بحث اور تمحیص کرتے اور متفقہ رائے سامنے آتی۔
  • اسی عہد میں شخصی اور عائلی مسائل کو کتابی شکل میں جمع کیا گیا۔
  • فقہ کے قواعد اور اصطلاحات کتابی شکل میں جمع کئے گئے۔
  • فقہی کتابوں کی طباعت شروع ہوئی۔
  • تقلید کے رواج نے ایک منفی اثر بھی پیدا کیا وہ فقہی تعصب وتنگ نظری اور جدل ومناظرہ کی کیفیت کا پیدا ہوجانا ہے۔
  • آج اس دور میں ائمہ مجتہدین کی کتابوں سے براہ راست استفادہ نہیں کیا جاتا نہ ان کی کتابوں کا کوئی درس دیتا نظر آتا ہے۔
  • مختلف علوم اسلامیہ پر مشتمل اسلاف کی کتابوں کی تلخیص اور خلاصے لکھے جانے لگے۔ اختصار میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا جن مسائل کی اس دور میں زیادہ ضرورت نہ تھی ان کو حذف کر دیا گیا۔ اور اسلاف نے جن مسائل کو متفرق اور غیر مرتب تحریر کیا تھا ان مسائل کو یکجا کر کے مرتب کر دیا گیا۔ یہ کتابیں اتنی مختصر، پیچیدہ اور مغلق ہیں کہ ان میں موجود مختص عبارات کو حل کرنے کے لیے شروحات اور حواشی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ان مختص کتابوں کو سمجھنے کے بعد طالب علم صرف مسائل سے آگاہی حاصل کر سکتا ہے اس ان مسائل کے بارے میں بیان کردہ مجتہدین کے دلائل سے قطعا کوئی واقفیت حاصل نہیں ہوتی۔
 
Top