فتاوی بابری

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
ظہیر الدین بابر 4 محرم 888 ہجری میں پیدا ہوا۔ بابر نے حکومت و سلطنت کی گود میں پرورش پائی۔ فنون حرب کا ماہر، ذہین، ذکی، فطین، تیز دماغ، سریع الادراک اور قوی الحافظہ تھا۔ بارہ سال کی عمر میں 899 ہجری کو علاقہ ماوراء انہر کے ایک مقام اندجان میں بادشاہی کی تخت پر بیٹھا۔ اس کو جنگی مہمات سر کرنے میں مہارت تھی۔ اس نے پہلے کابل فتح کیا پھر ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ فاتح ہند کی حیثیت سے دہلی میں داخل ہوا اور ہندوستان کے تخت حکومت پر متمکن ہوا۔ پھر آگرہ گیا اور پورے ملک پر تسلط جمالیا۔ انتظامی اور عسکری صلاحیتوں کے علاوہ بابر مختلف معارف وفنون سے بھی گہری دلچسپی رکھتا تھا۔ شاعر بھی تھا۔ فارسی اور تر کی دونوں زبانوں میں شعر کہتا تھا۔ فقه حنفی کے بارے میں بھی بڑی معلومات کا مالک تھا۔ اس موضوع سے متعلق اس کی ایک تصنیف بھی ہے جس کا نام ''مبین''ہے۔ بابر کتابیں جمع کرنے کا بہت شوقین تھا اورمختلف مسائل سے متعلق اس کا دامن مطالعہ بہت وسیع تھا۔ تزک بابری اور تاریخ فرشتہ کے حوالے بزم تیمور میں مرقوم ہے۔

باب سفر اور حضر میں کتب خانہ ساتھ ساتھ رکھتا تھا۔ 930 ہجری میں وہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو لاہور کے پاس غازی خان سے متصادم ہوا۔ غازی خان کو شکست ہوئی تو بار اس کے قلعہ میں داخل ہوا جہاں اس کو بے شمار دولت ملی ۔ لیکن بابر کے لیے سب سے قیمتی سرمایہ غازی خان کا کتب خانہ تھا۔ غازی خان بڑا علم دوست تھا۔ جید عالم ہونے کے علاوہ شاعری کا بھی اعلی ذوق رکھتا تھا۔

ہندوستان کا مشہور بادشاہ ظہیر الدین بابر چونکہ علم دین اور فقیہات سے دلچسپی رکھتا تھا۔ اس لیے اس کے دل میں اس خواہش نے کروٹ لی کہ مسائل فقیہ پرمشتمل فارسی زبان میں ایک کتاب معرض تصنیف میں لائی جائے۔ اس کی یہ خواہش نہاں خانہ ہیال سے نکل کر زبان پر آئی تو شیخ نور الدین خوانی نے اس کام کی تکمیل کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ شیخ نورالدین خوانی شیخ زین الدین خوانی کی اولاد میں سے تھے۔ انہوں نے ہرات میں پرورش پائی اور شیخ الاسلام سیف الدین احمد سے تعلیم حاصل کی۔ جوملا سعدالدین تفتازانی کے اخلاف میں سے تھے۔ شیخ نورالدین خوانی نے مستند روایتوں اور کتابوں کی مدد سے مسائل شرعیہ کی جمع و تدوین کا کام شروع کیا۔ ہدایہ، الکافی، شرح وقایہ، شرح مختصر الوقایہ، فتاوی قاضی خان وغیرہ سے استفادہ کر کے ایک کتاب تیار کی کی جس کو ''فتاوی بابری '' کہا جاتا ہے۔
 
Top