فتاوی عالمگیری

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
فتاوی عالمگیری:

اورنگ زیب عالمگیر بن شاہ جہاں 15 ذیقعد 1028 ہجری میں دوحہ کے مقام پر پیدا ہوا۔ اورنگزیب عالمگیر کی زندگی کے دو پہلو بہت نمایاں ہیں۔ ایک پہلو بادشاہت کا اور دوسرا عالم دین اور خادم اسلام کا۔ علمی اعتبار سے وہ عالم دین وار متعدد علوم و فنون پر عبور رکھتا تھا۔ نیکی اور دینداری کے لحاظ سے متقی، متورع، نماز باجماعت کا پابند اور تہجد گزار تھا۔ رمضان کے روزے شدید گرمیوں میں بھی باقاعدہ رکھتا۔ علماء کرام کا انتہائی قدردان تھا۔

فقہ کے احکام کے متعلق علم رکھتا تھا اور اس کی جزئیات پر پورا استخصار تھا۔ اس کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ علماء حنفیہ کی ایک عظیم جماعت سے دو لاکھ روپے خرچ کر کے چھ ضخیم جلدوں میں فتاوی ہندیہ جسے ''فتاوی عالمگیری'' بھی کہا جاتا ہے مرتب کرایا۔ ترتیب اور تالیف کے بعد یہ فتاوی متعدد لوگوں نے نقل کیا۔ اس کے بہت سے نسخے مختلف اسلامی ممالک حجاز، مصر، شام اور روم وغیرہ میں پہنچے اور پھیلے اور ممالک اسلامی کے علمائے دین و اصحاب افتاء نے اس سے استفادہ کیا۔ فتاوی عالمگیری کی تدوین ترتیب کے بعد عالم گیر نے پورے ملک میں حکم جاری کر دی تھا کہ عدالتی فیصلوں میں اسی کو سامنے رکھا جائے۔ اور اسی کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔ اس لیے ہندوستان کے مختلف شہروں اور علاقوں میں دیانت دار اور امیں اہل علم مقرر کیے تا کہ وہ شریعت کی روشنی میں فیصل صادر کرنے سے متعلق کسی نوع کی کمزوری کا شکار نہ ہوں اور ہر معاملے میں دیانت دارانہ تحقیق کے بعد صحیح نقطہ تک پہنچنے کی کوشش کریں۔

اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ صرف ایک یا دو چار علماء کی علمی کوششوں کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ علمائے دین اور فقہائے کرام کی ایک بڑی جماعت کی مساعی جمیلہ سے معرض تصنیف میں آیا۔ عالم گیر نے جن علمائے کرام کو اس کی ترتیب و تالیف کے لیے منتخب کیا وہ نہ صرف اس دور کے علمی میدان میں اپنا حریف نہ رکھتے تھے بلکہ زہد وتقوی اور تدین و پارسائی میں بھی ان کا مقام بلند تھا۔ انہوں نے کمال محنت اور بدرجہ غایت عرق ریزی سے یہ ہم فریضہ انجام دیا اور چونکہ یہ علمائے فقہ کی ایک پوری جماعت کی تگ و تاز علمی کا نتیجہ ہے اس لیے اس میں فقہی اعتبار سے غلطی کا امکان کم ہے۔

اس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی ہندوستان میں علم فقہ کی یہ پہلی مفصل مبسوط کتاب ہے جو ایک دیندار بادشاہ کی ذاتی سعی و محنت سے لکھی گئی اور اس پر عمل کی تمام دیواریں مستحکم کی گئیں۔ یہ کتاب کئی بار کتابت وطباعت کی منزلوں سے گزری، فارسی اور اردو زبانوں میں اس کے تر جمے بھی کیے گئے۔ تا کہ اس کے مضامین و مندرجات سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوسکیں۔

اس کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فقط حصہ عبادت ہی کو اہمیت نہیں دی گئی اس کا حصہ معاملات بھی متعدد ضروری تفصیلات اور جزئیات پرمشتمل ہے اور اہم مسائل کومحیط ہے۔

چوتھی اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہر مسئلہ کے مآخذ کا حوالہ دیا گيا ہے۔ اگر اصل کتاب جس کا حوالہ دیا گیا ہے موجود نہیں ہے اور مسئلہ دوسری کتاب سے نقل کیا گیا ہے تو ''ناقلا عن فلاں'' کا لفظ لکھ کر اصل مآخذ کا ذکر کر دیا گیا ہے۔
 
Top