الہدایہ کی روشنی کتابیہ عورت، مجوسیہ عورت، مرتدہ عورت اور کافرہ و مشرکہ کی تعریف اور ان عورتوں سے نکاح کے احکام

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
کتابیہ عورت:

کتابیات جمع ہے کتابیہ کی، مذکر کتابی ہے۔ مطلب وہ شخص جو نبی پر ایمان رکھتا ہے اور کتاب کا اقرار کرتا ہے۔

کتابیہ عورت سے نکاح:

ویجوز تزوج الکتابیات لقولہ تعالی والحصنات من الذین اوتوا الکتاب ای العفائف ولا فرق بین الکتابیۃ الحرۃ والامۃ علی ما نبین ان شاء اللہ

''اور جائز ہے کتابیہ عورتاوں سے نکاح باری تعالی کے قول کی وجہ سے یعنی حلال کی گئی ہیں تمھارے لیے اہل کتاب میں سے محصنہ عورتیں اور کوئی فرق نہیں آزاد کتابیہ اور باندی کتابیہ کے درمیان''۔


اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللّـٰهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْـرَ مُسَافِحِيْنَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُـمْ بِهٖ مِنْـهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِيْضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا تَـرَاضَيْتُـمْ بِهٖ مِنْ بَعْدِ الْفَرِيْضَةِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيمًا ۝

اور خاوند والی عورتیں (بھی حرام ہیں) مگر جن (لونڈیوں) کے تم مالک بن جاؤ، یہ اللہ کا قانون تم پر لازم ہے، اور ان کے سوا تم پر سب عورتیں حلال ہیں بشرطیکہ انہیں اپنے مال کے بدلے میں طلب کرو لیکن نکاح کرنے کے لیے نہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لیے، پھر ان عورتوں میں سے جسے تم کام میں لائے ہو تو ان کے جو حق مقرر ہوئے ہیں وہ انہیں دے دو، البتہ ایسے سمجھوتے میں کوئی گناہ نہیں ہے جو مہر کے مقرر ہو جانے کے بعد آپس کی باہمی رضامندی سے ہو جائے، بے شک اللہ خبردار حکمت والا ہے۔ (سورۃ النساء آیت 24)

ائمہ اربعہ میں سے آزاد کتابیہ سے نکاح میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے کتابیہ باندی کے ساتھ نکاح کرنے میں اختلاف ہے۔

کتابیہ باندی کے ساتھ نکاح کا حکم:

و یجوز تزوج الامۃ کانت او کتابیۃ وقال الشافعی لا یجوز للحران یتزوج بامۃ کتابیۃ

ترجمہ:

''اور جائز ہے باندی سے نکاح کرنا مسلمان ہو باندی یا کتابیۃ اور امام شافعی نے فرمایا کہ آزاد کے لیے جائز نہیں کہ کتابیہ باندی کے ساتھ نکاح کرے''۔

باندی کے ساتھ نکاح کے جواز و عدم جواز میں اختلاف ہے۔ امام شافعی کے نزدیک کتابیہ باندی کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے۔ امام مالک بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام احمد بھی اس کے قائل ہیں۔

امام شافعی کی دلیل:

امام شافعی کی دلیل یہ ہے کہ باندیوں کے ساتھ نکاح کا جواز ضرورتا ثابت ہے کیونکہ باندی کے ساتھ نکاح کا مطلب یہ کے کہ اپنے جزء کو رقیق(مملوک) بنانا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ غیر کی باندی سے جو اولاد ہو گي شریعت میں وہ بھی غیر کی مملوک ہو گی۔ اور رقیق بنانا درحقیقت ہلاک کرنا ہے تو گویا باندی کے ساتھ نکاح کر کے اپنے جزء کو ہلاک کرنا چاہتا ہے۔ اور اپنے جز کو رقیق بنانا یعنی ہلاک کرنا ممنوع ہے۔ لہذا باندی کے ساتھ نکاح نا جائز ہونا چاہیے۔ اسی لیے امام شافعی نے قدرت علی الحرہ کو باندی کے ساتھ نکاح کرنے سے مانع کردیا۔

صاحب ہدایہ کی دلیل:

صاحب ہدایہ کی دلیل یہ ہے کہ باندیوں کے ساتھ نکاح کا جواز مطلق ہے۔ مقتضی نکاح کے مطلق ہونے کی وجہ سے مثلا:

وَاِنْ خِفْتُـمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِى الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَاِنْ خِفْتُـمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۚ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا ۝

اور اگر تم یتیم لڑکیوں سے بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو، اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو یا جو لونڈی تمہارے ملِک میں ہو وہی سہی، یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے لیے زیادہ قریب ہے۔ (سورۃ النساء آیت3)

ان آیات میں مطلق نساء سے نکاح کے جواز کو عام رکھا گیا ہے، آزاد سے ہو یا باندی سے۔ رہا امام شافعی کا یہ کہنا کہ باندی سے نکاح کرنا اپنے جز کو رقیق بنانا تو اس کا جواب یہ ہے کہ باندی سے نکاح کرنے میں جز کو رقیق بنانا مقصود نہیں ہوتا، بلکہ آزاد جز کو حاصل کرنے سے رکنا ہوتا ہے اور شریعت نے اس کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ اصل جز ہی کو حاصل نہ کرے۔

مجوسیہ عورت:

صابیہ یا مجوسیہ وہ جو انبیاء میں سے کسی نبی پر ایمان رکھتی ہو اور کسی آسمانی کتاب کا اقرار کرتی ہو۔

صاحبین کے نزدیک صابیہ وہ ہے جو ستاروں کی پرستش کرے اور کسی آسمانی کتاب کا اقرار نہ کرے۔

مجوسیہ عورت سے نکاح:

ولا یجوز تزوج المجوسیات لقولہ علیہ السلام سنوابھم سنۃ اھل الکتاب غیر ناکحی نسائھم ولا اکلی ذبائحھم قال ولا الوثنیات لقولہ تعالی ولا تنکحوا المشرکات حتی و یجوز تزوج الصبیات ان کانوا یؤمنون بدین و یقرون بکتاب لانھم من اھل الکتاب و ان کانوا یعبدون الکواکب ولا کتاب لھم لم تجز مناکحتھم لانھم مشرکون والخلاف المنقول فیہ محمول علی اشتباہ مذھبھم فکل اجاب علی ما وقع عندھم و علی ھذا حال ذبیحتھم۔

ترجمہ:

'' اور نہیں جائز ہے نکاح میں لینا مجوسیہ عورتوں کو اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجوس کے ساتھ سلوک کرو اہل کتاب کا سا سوائے ان کی عورتوں سے نکاح کرنے اور سوائے ان کا ذبیحہ کھانے میں اور بت پرست عورتوں کو بھی نکاح میں لینا جائز نہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے کی وجہ سے۔ یعنی شرک کرنے والی عورتوں کو نکاح میں مت لاؤ۔ یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔ اور جائز ہے صابیہ عورتوں سے نکاح کرنا اگر وہ کسی دین پر ایمان رکھتی ہوں اور کتاب کا اقرار کرتی ہوں۔ اس لیے کہ وہ اہل کتاب میں سے ہیں۔ اور اگر ستاروں کو پوجتی ہیں اور ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب بھی نہیں تو ان کو نکاح میں لینا جائز نہیں کیونکہ وہ مشرک ہیں اور اختلاف اس بارے میں منقول ہے کہ ان کے مذہب کے مشتبہ ہونے پر محمول ہے۔ پس ہر ایک امام نے اسی کے مطابق جواب دیا ہے جو اس کے نزدیک حق معلوم ہوا اور اسی اختلاف پر ان کا ذبیحہ کا حال ہے''۔


صابیہ عورتوں سے نکاح کے جواز و عدم جواز میں اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ جواز کے قائل ہیں اور صاحبین عدم جواز کے۔ درحقیقت یہ اختلاف صابی کی تعریف اور تفسیر میں ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ صابی وہ جو انبیاء میں سے کسی نبی پر ایمان رکھتا ہو اور کسی آسمانی کتاب کا اقرار کرتا ہو۔ پس اس وقت صابی اہل کتاب ہو گا اور اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح جائز ہے۔ لہذا صابیہ سے بھی نکاح جائز ہو گا۔ صاحبین فرماتے ہیں کہ صابی ستاروں کی پرستش کرتا ہے اور کسی آسمانی کتاب کا اقرار نہیں کرتا۔ پس یہ بت پرستوں کے حکم میں ہو گا۔ جس طرح بت پرست سے نکاح جائز نہیں ہے اس طرح صابیہ عورت سے بھی نکاح جائز نہیں ہے۔ (اشرف الہدایۃ شرح اردو ہدایۃ جلد چہارم کتاب النکاح تا کتاب الطلاق)

مرتدہ عورت:

وہ عورت جو مذہب اسلام چھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کر لے۔

مرتدہ عورت سے نکاح:

مسلمان مرد یا عورت اگر اتداد اختیار کرےتو ان کا محصن ہونا(پاک دامن ہونا)ختم ہو جاتا ہے۔ مرتدہ عورت سے نکاح جائز نہیں ہے۔ مسلمان زوجین میں سے بیوی اگر ومرتدہ یا کافرہ ہو جائے تو اسے کسی دوسرے مرد سےنکاح کرنا جائز نہیں بلکہ جج مسلمان ایسی عورت کو اسلام لانے پر مجبور کرےگا،خاتون مرتدہ کے مسلمان ہونے کےبعد دوبارہ اسی مرد سے عورت کا نکاح کردےگا اگرچہ قلیل حق مہر کےساتھ ہی ہو۔مرتدہ عورت فقہی اعتبار سے مرد پر حرام ہے مگر نکاح سے نہیں نکلتی۔ عورت کے ارتداد سے نکاح نہیں ٹوٹتا مگر دیگر احکام میں مثل مرتدہ ہی ہے ۔ حالتِ ارتداد میں عورت کسی مسلمان کی وارثت کی بھی حق دار نہیں۔

کافرہ اور مشرکہ عورت سے نکاح:

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتّـٰى يُؤْمِنَّ ۚ وَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْـرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّّلَوْ اَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّـٰى يُؤْمِنُـوْا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْـرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ ۗ اُولٰٓئِكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ۖ وَاللّـٰهُ يَدْعُوٓا اِلَى الْجَنَّـةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖ ۖ وَيُبَيِّنُ اٰيَاتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُـمْ يَتَذَكَّرُوْنَ ۝

اور مشرک عورتیں جب تک ایمان نہ لائیں ان سے نکاح نہ کرو، اور مشرک عورتوں سے ایمان دار لونڈی بہتر ہے گو وہ تمہیں بھلی معلوم ہو، اور مشرک مردوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لائیں، اور البتہ مومن غلام مشرک سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں اچھا ہی لگے، یہ لوگ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ جنت اور بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے، اور لوگوں کے لیے اپنی آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (سورۃ البقرۃ آیت221)

اس آیت کی روشنی میں کافر اور مشرکین کی عورتوں سے نکاح کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
 
Top