کفو میں پیش نظر رکھے جانے والے امور

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
کفو میں پیش نظر رکھے جانے والے امور:

1) نسب میں کفو کا اعتبار:


ثم الکفاءۃ تعتبر فی النسب لانہ بہ التفاخر فقریش بعضھم اکفاء لبعض والعرب بعضھم اکفاء لبعض والاصل فیہ قولہ علیہ السلام قریش بعضھم اکفاء لبعض بطن ببطن والعرب بعضھم اکفاء لبعض قبیلۃ بقبیلۃ والموالی بعضھم اکفاء لبعض رجل برجل ولا یعتبر التفاضل فیما بین قریش لما روینا وعن محمد الا ان یکون نسبا مشھورا کاھل بیت الخلافۃ کانہ قال تعظیما للخلافۃ و تسکینا للفتنۃ وبنو باھلۃ لیسوا باکفاء لعامۃ العرب معروفون بالخساستہ

ترجمہ:

''پھر کفاءة معتبر ہوتی ہے نسب میں اس لئے کہ نسب کے ساتھ باہم فخر ہوتا ہے۔ پس قریش بعض بعض کا کفو ہیں اور عرب کفو ہیں بعض کا۔ اور اصل اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول ہے کہ قریش بعض کفو ہے بعض کا بطن بطن کا۔ اور عرب میں سے بعض کا ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ کا اور عجمی بعض کفو ہے بعض کا ایک مرد دوسرے مرد کا۔ اور قریش میں باہم ایک کی دوسرے پر فضیلت معتبر نہیں روایت کردہ حدیث کیوجہ سے۔ اور امام محمد سے روایت ہے مگر یہ کہ نسب مشہور ہو جیسے خاندان خلافت گویا امام محمد نے کہا شان خلافت کو ظاہر کرنے اور فتنہ کو دور کرنے کے لئے۔ اور بنو با هله عامته العرب کا کفو نہیں۔ اس لئے کہ وہ معروف بالخساستہ ہیں''۔

وضاحت:

مبسوط میں ہے کہ مرد کے حق میں کفاءۃمعتبر ہوگی۔ نسب، حریت، مال، پیشہ اور حسب میں۔ اور بعض نے تقوی، اسلام ،مذہب اور عقل کا بھی اضافہ کیا ہے۔ اور منہاج میں ہے کہ امام شافعی كفاءة كا اعتبار کرنے میں سلامت عیوب، عفت اور پیشہ میں، امام احمد دین اور مذہب کا بھی اضافہ کرتے ہیں۔ اشرف الھدایۃ کے مصنف فرماتے ہیں کہ نسب میں کفاءۃ معتبر ہے۔ کیونکہ نسب کے ساتھ بھی آپس میں ایک دوسرے پرفخر کرتے ہیں۔ اور جو چیز ایسی ہو کہ اس ساتھ لوگ فخر کرتے ہیں کفاءۃکا اعتبار کیا گیا ہے پس ایک قریشی دوسرے قریشی کا کفو ہوگا۔ قریش کے علاوہ ایک عرب دوسرے عرب کا کفو ہوگا۔ دلیل اس سلسلے میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ:

''قریش آپس میں ایک دوسرے کا کفو ہیں ۔ ایک بطن دوسرے بطن کا اور عرب آپس میں ایک دوسرے کا کفو ہیں۔ ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کا۔ اور غیر عرب اعا تم آپس میں ایک دوسرے کا کفو ہیں ۔ ایک مرد دوسرے مرد کا۔ اور قریش میں باہم ایک دوسرے پرفضیلت معتبر نہیں''۔

لہذا قر یشی دوسرے قریشی کا کفو بن جائے گا۔ کیونکہ حدیث الائمتہ من قریش کی وجہ سے ہر قریشی میں خلافت کی صلاحیت و اہلیت ہوتی ہے۔ البتہ قریش کے علاوہ دوسرے عرب قریش کا کفو نہیں بن سکتے۔ کیونکہ قریش کے علاوہ دوسرے عرب میں خلافت کی صلاحیت نہیں ہے۔ پس غیر قریش عرب قریش کے مساوی نہیں ہیں۔ لہذا کفو بھی نہیں بن سکتے ہیں۔ امام محمد فرماتے ہیں کہ قریش میں باہم ایک دوسرے پر فضیلت نہیں ہے۔ ہاں مگر کوئی نسب مشہور ہو۔ جیسے خاندان خلافت پس اس مشہور خاندان میں تفاضل معتبر ہوگا۔ چنانچہ قریش میں سے خاندان خلافت کی لڑکی دوسرے قریش کی جو خاندان خلافت سے نہیں ہے۔ حتی کہ قریشیہ بالغہ جو خاندان خلافت سے ہے اس نے نکاح کر لیا کسی ایسے قریش سے جو خاندان خلافت سے نہیں تو اولیاء کو حق اعتراض ہو گا۔

صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ امام محمد کا نسب مشہور کا استثناء کرنا گویا ان کے پیش نظر خاندان خلافت کی تعظیم اور فتنہ کو دور کرنا ہے۔ آخر میں فرماتے ہیں کہ عرب میں ایک خاندان بنو باہلہ کا ہے۔ وہ عامۃ العرب کا کفو نہیں ہوں گے۔ اس لیے کہ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مردار کی ہڈیاں لیکر ان کو جوش دیتے ہیں اور ان کی چکنائی لیتے ہیں۔ پس یہ خاندان انتہائی پست اور ادنی ہے اس لیے ان کو عام عرب کو کفو بھی نہیں بنایا جا سکتا۔

اعاجم میں کفو کی تفصیل:

واما الموالي فمن كان له ابوان في الاسلام فصاعدا فهو من الاكفاء یعنی لمن له آباء فيه و من اسلم بنفسه او له اب و احد في الاسلام لايكون كفو المن له ابوان في الاسلام لان تمام النسب بالاب والجد و ابویوسف الحق الواحد بالمثنی كما هو مذهبه في التعريف ومن اسلم بنفسه لايكون كفو المن له اب واحد في الاسلام لان التفاخر فيما بين الموالي بالاسلام والكفاءة في الحرية نظير هافي الاسلام في جميع ماذكرنا لان الرق اثر الكفر وفيه معنى الذل فيعتبر في حكم الكفارة

ترجمہ:

''اور بہر حال اعاجم سو وہ شخص جسکے دو باپ ( باپ دادا ) اسلام میں ہیں یا زیادہ پس وہ اکفاء میں سے ہے اس شخص کا جسکے بہت سے آ با اسلام میں ہیں اور وہ شخص جوخود مسلمان ہو اس کا ایک باپ اسلام میں ہے تو وہ کفو نہیں ہوگا۔ اس شخص کا جسکے دو باپ (باپ اور دادا) اسلام میں ہیں اس لئے کہ نسب کی تکمیل باپ اور دادا سے ہوتی ہے اور ابو یوسف نے ایک کو دو کے ساتھ لاحق کیا جیسا کہ وہ ان کا مذہب ہے۔ تعریف میں اور جوشخص خود مسلمان ہوا وہ کفو نہیں ہوگا اس شخص کا جس کا ایک باپ اسلام میں ہے۔ اس لئے کہ اعاجم میں تفاخر اسلام کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور حریت میں کفاءۃ نظیر ہے کفاءة في الاسلام کی مذکورہ تمام صورتوں میں اس لئے کہ ملوک ہونا کفر کا اثر ہے اور رق میں ذلت کے معنی ہیں پس اعتبار کیا جائے گا کفاءۃ کے حکم میں''۔

تشریح:

اس عبارت میں اعاجم میں کفاءة کی تفصیل بیان کی ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ جس کا باپ اور دادا دونوں مسلمان ہیں یہ شخص اس کا کفو بن جائے گا جس کا باپ دادا اور پردادا اور اس سے اوپر کے حضرات بھی مسلمان تھے۔ اور جوشخص خودتو مسلمان ہے لیکن باپ مسلمان نہیں یا خود بھی مسلمان اور باپ بھی مسلمان لیکن دادامسلمان نہیں تو یہ شخص اس کا کفونہیں بن سکتا جس کا باپ اور دادا دونوں مسلمان ہیں کیونکہ سب کی تکمیل باپ اور دادا دونوں کے ذکر سے ہوتی ہے۔ اور ابو یوسف نے ایک کو قیاس کیا دو پر۔ اصل اختلاف تو تعریف میں ہے امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ شہادت وغیرہ میں گواہ کی تعریف اس کے باپ کا نام ذکر کر کے پوری ہو جاتی ہے دادا کا نام ذکر کر نے کی ضرورت نہیں اور طرفین کے نزدیک تعریف میں باپ دادا دونوں کا ذکر ضروری ہے۔

اور جوشخص خود مسلمان ہے اس کا باپ مسلمان نہیں۔ یہ اس کا کفو نہیں ہوسکتا جس کا باپ بھی مسلمان ہے اس لئے کہ عجمی لوگ اسلام کے ذریعہ بھی باہم تفاخر کرتے ہیں۔

اور حریت میں کفاء ۃ کا حکم ایسا ہے جیسا کہ اسلام میں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خود بھی آزاد ہے اور اس کا باپ اور دادا بھی آزاد ہے۔ تو یہ اس شخص کا کفو ہو جائے گا جس کے بہت سے آباء آزاد ہیں مثلا باپ بھی آزاد، دادا بھی آزاد ہے۔ دوسری صورتوں کو اس پر قیاس کر لیا جائےکفاءۃ میں حریت کا اعتبار کرنے پر۔ دلیل یہ ہے کہ ملوک ہونا کفر کا اثر ہے گویا کہ کفرہے۔ پس جس طرح کفر اور اسلام میں کفاءۃ نہیں اسی طرح حریت میں اور رقیت میں بھی کفاء ت نہیں ہوگی ۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ رقیت میں ذلت کے معنی اور حریت میں عزت کے معنی ہیں اس وجہ سے حکم کفاءۃ میں ان کا بھی اعتبار کیا جائے گا۔

دین میں کفاءۃ کا اعتبار:

قال وتعتبر ايضا في الدين ای الديانة وهذا قول أبي حنيفة و ابی یوسف هو الصحيح لانه من اعلى المفاخر والمرأة تعیر بفسق الزوج فوق ماتعير بضعة نسبه وقال محمد لا يعتبر لانه من أمور الأخرة تبتنی احکام الدنيا عليه الا اذا كان يصفع ويسخر منه او يخرج الى الاسواق سکران ويلعب به الصبيان لانه مستخف به

ترجمہ:

''اور اعتبار کیا جا تا ہے کفاءة كا دین میں یعنی دیانت میں اور یہ قول ہے ابوحنیفہ اور ابو یوسف کا یہی صحیح ہے۔ اس لئے کہ دین اعلی مفاخر میں سے ہے۔ اور عورت کو شوہر کے فاسق ہونے پر اس سے زیادہ عار دلائی جاتی ہے جتنی کہ شوہر کے نسب کے گھٹیا ہونے پر دلائی جاتی ہے اور امام نے فرمایا کہ دیانت معتبر نہیں ۔ اسی لئے کہ دیانت امور آخرت میں سے ہے۔ پس احکام دنیا اس پر مبنی نہیں ہوں گے مگر جب کہ شوہر کو طمانچہ مارا جائے اور اس کے ساتھ تمسخر کیا جائے یا بازار کی طرف نشے کی حالت میں نکالا جائے اور بچے اس کے ساتھ کھیل کریں اس لئے کہ اس کہ اس وجہ سے وہ حقیر وخوار ہوگا''۔

تشریح:

صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ دین میں بھی کفاءۃ معتبر ہے۔ دین سے مراد دیانتی ہے۔ یعنی تقوی، صلاح، حسب اور مکارم اخلاق کیونکہ دین بمعنی اسلام تو نکاح مسلمہ کے جواز کے لئے شرط ہے۔ اور ہمارا کلام اس میں ہے کہ نفاذ عقد کے بعد اولیاء کو حق اعتراض حاصل ہو۔ بہر حال، دیانت میں کفاءۃ کا اعتبار کرنا شیخین کا مذہب ہے۔ دلیل یہ ہے کہ دیانت اور صلاح اعلی مفاخر میں سے ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ لوگ عورت کو اس کے شوہر کے نسب کے گھٹیا ہونے پر جس قدر عار دلاتے ہیں اس سے کہیں زیادہ شوہر کے فاسق ہونے پر عار دلائیں گے۔

امام محمد دیانت میں کفاء ت کا اعتبار نہیں کرتے ہیں کیونکہ دیانت امور آخرت میں سے ہے۔ لہذا احکام دنیا اس پر موقوف نہیں ہوں گے مگر کسی کا شوہر اگر اس درجہ فسق و فجور میں مبتلا ہے کہ جو چاہے اسکو طمانچے لگا دے اور لوگ مذاق اڑاتے رہیں اور نشے کی حالت میں لوگ اس کو بازار میں نکالیں تاکہ بچے اس کے ساتھ کھیل کریں تو ایسا شخص کسی صالحہ عورت کو کفو نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ شخص انتہائی حقیر اور ذلیل ہے۔

مال میں کفاءۃ:

قال و تعتبر فی المال و ھوان یکون مالکا للمھر والنفقۃ و ھذا ھو المعتبر فی ظاھر الروایۃ حتی ان من لا یملکھما او لا یملک احدھما لا یکون الان المھر بدل البضع فلا بدمن ایفانہ و بالنفقۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ:

''اورکفاءۃکا اعتبار کیا جاتا ہے مال میں اور وہ یہ ہے کہ زوج نفقہ اور مہر کا مالک ہو اور یہی معتبر ہے ظاہر الروایۃ میں حتی کہ جو شخص دونوں کا مالک نہیں یا ان دونوں میں سے ایک کا مالک نہیں ہے تو وہ کفو نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔''۔

تشریح:

مال میں بھی کفاءۃ معتبر ہے۔ مال سے مراد یہ کہ شوہر نفقہ اور مہر ادا کر دینے پر قادر ہو۔ حتی کہ اگر شوہر دونوں کا مالک نہیں یا ان دونوں میں سے ایک کا مالک نہیں تو وہ کفونہیں ہوگا اگر چہ عورت فقیر ہی ہو۔ مہر کا مالک ہونا تو اس لئے ضروری ہے کہ مہر بدل بضع ہے۔ لہذا اس کے ادا کر دینے سے قدرت کا ہونا ضروری ہوگا۔ اور نفقہ سے زوجیت کا رشتہ قائم و دائم رہے گا۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اگر مرد ذی وجاہت ہے جیسے کہ حاکم یا عالم تو کفو ہوگا۔ اگر چہ نفقہ کا مالک نہ ہو۔

5) پیشوں میں کفو:

وتعتبر في الصنائع وهذا عند ابی یوسف و محمد وعن ابی حنيفة في ذلك روايتان وعن ابی یوسف انه لايعتبر الا ان يفحش کالحجام والحانک والدباغ وجه الاعتبار ان الناس يتفاخرون بشرف الحرف ويتعيرون بدناء تھاوجه القول الأخران الحرفة ليست بلازمة ويمكن التحول عن الخسيسة الى النفيسة منها

ترجمہ:

'' اور کفاء ۃ معتبر ہے پیشوں میں۔ اور یہ صاحبین کے نزدیک ہے اور ابوحنیفہ سے اس بارے میں دو روایتیں ہیں۔ اور ابو یوسف سے روایت ہے کہ پیشہ میں کفاءۃ معتبر نہیں۔ مگر یہ کہ پیشہ فاحش ہو جیسے پچھنا لگانے والا اور جولاہہ اور چمڑے کو دباغت دینے والا اور اعتبار کی وجہ یہ ہے کہ لوگ پیشہ کے اچھا ہونے سے فخر کرتے ہیں۔ اور گھٹیا ہونے سے عارمحسوس کرتے ہیں۔ اور دوسرے قول کی وجہ یہ ہے کہ پیشہ لازم نہیں اور ادنی پیشہ سے اعلی پیشہ کی طرف منتقل ہونا ممکن ہے''۔

تشریح:

پیشوں میں کفاءۃ معتبر ہے یانہیں اس بارے میں صاحبین کا مذہب یہ ہے کہ معتبر ہے اور امام صاحب سے دو روایتیں ہیں۔ ایک کے مطابق معتبر نہیں اور دوسری میں اعتبار کیا گیا ہے۔ امام ابو یوسف سے بھی ایک روایت ہے کہ معتبر نہیں۔ ہاں البتہ اگر پیشہ انتہائی گھٹیا ہو۔ مثلا حجام کا پیشہ یا جولاہہ یا دباغت کا پیشہ تو اس صورت میں کفاءۃ معتبر ہوگی۔ پیشوں میں کفاءۃ کے معتبر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ لوگ عمده پیشوں پر فخر کرتے ہیں اور گھٹیا پیشوں پرشرم اور عار محسوس کرتے ہیں۔ دوسرے قول کی وجہ یہ ہے کہ پیشہ لازم نہیں۔ ادنی سے اعلی کی طرف منتقل ہونا ممکن ہے۔ پس جو چیز غیر لازم ہے۔ اس کا اعتبارنہیں کیا جائے گا۔ (اشرف الہدایۃ شرح اردو ہدایۃ جلد چہارم کتاب النکاح تا کتاب الطلاق, صفحہ 76 تا 81)
 
Top