نکاح میں وکالت

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
نکاح میں وکالت:

نکاح میں وکالت سے مراد عرفی وکالت نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد وہ شخص ہے جسے دولہا یا دولہن اپنے نکاح کرانے کی ذمہ داری سونپ دیں۔ اس لیے یہاں وکیل سے مراد ''مختار خاص'' یعنی ایسا شخص جسے دولہا یا دلہن نے اپنے نکاح کا اختیار تفویض کیا ہو۔ نکاح بذریعہ وکالت کی معروف مثال حضرت محمد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت ام حبیبہ سے نکاح ہے جس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طرف سے عمیر بن امیہ کو وکیل نامزد فرمایا تھا۔ پھر چونکہ مجلس نکاح میں عورت خود نہیں آ سکتی اس لیے اس کی طرف سے عموما کسی شخص کو اپنا وکیل نامزد کر دیا جاتا ہے۔

چچا زاد سے نکاح:

و یجوز لابن العم ان یزوج بنت عمہ نفسہ و قال زفر لا یجوزوا اذا اذنت المراۃ للرجل ان یزوجھا من نفسہ فعقد بحضرۃ شاھدین جازو قال زفر والشافعی لا یجوزلھما ان الواحد لا یتصوران ان یکون مملکا و متملکا کما فی البیع الا ان الشافعی یقول فی الولی ضرورۃ لانہ لا یتولاہ سواہ ولا ضرورۃ فی الوکیل۔ ولنا ان الوکیل فی النکاح معبر و سفیر التمانع فی الحقوق دون التعبیر ولا ترجع الحقوق الیہ بخلاف البیع لانہ مباشر حتی رجعت الحقوق الیہ و اذا تولی طرفیہ زوجیت یتضمن الشطرین ولا یحتاج الی القبول

ترجمہ:

اور جائز ہے چچا کے بیٹے کے لیے یہ کہ اپنا نکاح کرے اپنے چچا کی بیٹی سے اور امام زفر نے فرمایا کہ جائز نہیں اور جب اجازت دی عورت نے کسی مرد کو یہ کہ نکاح کرے اس سے اپنا۔ پس عقد کیا دو گواہوں کی موجودگی میں تو جائز ہے۔ امام زفر اور امام شافعی نے فرمایا کہ جائز نہیں ہے۔ امام زفر اور امام شافی کی دلیل یہ ہے کہ ایک آدمی مملک اور متملک نہیں ہو سکتا جیسا کہ عقد بیع میں مگریہ کہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ ولی کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس کے سوا کوئی ولی نہیں اور وکیل میں کوئی ضرورت نہیں۔ اور ہماری دلیل یہ ہے کہ وکیل نکاح میں معبر اور سفیر محض ہے اور منافات حقوق میں ہے نہ کہ تعبیر اور حقوق نکاح وکیل کی طرف نہیں لوٹنے، بخلاف بیع کے اس لیے وکیل عاقد ہے یہاں تک کہ حقوق بیع وکیل کی طرف لوٹیں گے اور جب نکاح کی دونوں طروف کا ولی ہے تو اس کا زوجت متضمن ہو گا دونوں جزوں کو اور نہیں محتاج ہو گا قبول کا۔

وضاحت:

وکالت تو در حقیقت نکاح ولایت ہی کی فرع ہے۔ کیونکہ جس طرح ولی کا تصرف نافذ ہوتا ہے مولی علیہ پر اسی طرح وکیل کا تصرف نافذ ہو گا مؤکل پر۔ صورت مسئلہ یہ ہے کہ چچا کے بیٹے نے ولی بن کر اپنا نکاح اپنے چچا کی بیٹی سے کیا حال یہ ہے کہ وہ لڑکی صغیرہ ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا ولی نہیں ہے۔ مثلا اس نے کہا کہ گواہ رہو کہ میں نے اپنا نکاح کیا فلاں لڑکی سے جو فلاں بن فلاں کی بیٹی ہے صاحب ہدایہ کے نزدیک جائز ہے۔ اور امام شافعی بھی جواز کے قائل ہیں۔ لیکن امام زفر ناجائز کہتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک عورت نے کسی مرد کو وکیل کیا کہ میرا نکاح اپنے ساتھ کر لو وکیل نے دو گواہوں کی موجودگی میں عقد نکاح کر لیا تو یہ صورت بھی صاحب ہدایہ کے نزدیک جائز ہے۔ امام زفر اور امام شافع کے نزدیک نا جائز ہے۔

امام زفر اور امام شافعی کی دلیل:

ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک آدمی ایک چیز کا ایک زمانہ میں مملک اور تملک نہیں بن سکتا ہے۔ یعنی مالک بنانے والا اور ملک حاصل کرنے والا ہو یہ نہیں ہو سکتا جیسا کہ بیع میں نہیں ہو سکتا ہے اور یہاں یہی خرابی ہے۔ کیونکہ چچا کی بیٹا اپنی طرف سے مالک بننے والا ہے اور لڑکی کی طرف سے ولی بن کر مالک بنانے والا ہے۔ لہذا مملک اور متملک دونوں ہوا۔ اور یہ ناجائز ہے اس لیے یہ عقد بھی نا جائز ہو گا۔ اسی طرح دوسرے مسئلہ میں مرد چونکہ ناکح ہے تو مالک بننے والا ہوا، اور چونکہ عورت کی طرف سے وکیل ہے اس لیے مالک بنانے والا بھی ہوا۔ لیکن امام شافعی فرماتے ہیں کہ ولی میں چونکہ ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کے لیے کوئی دوسرا ولی نہیں اس لیے پہلی صورت کو جائز قرار دیا اور وکیل میں کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے علاوہ کو وکیل بنایا جا سکتا تھا اس لیے یہ صورت نا جائز ہے۔

صاحب ہدایہ کی دلیل:

ان کی دلیل یہ ہے کہ وکیل محض تعبیر کرنے والا اور سفیر ہے ذمہ دار نہیں اور منافات حقوق میں ہے نہ کہ تعبیر میں۔ حقوق میں منافات یہ ہے کہ ایک ہی شخص مملک اور متملک دونوں ہو۔ لیکن تعبیر میں منافات نہیں کہ مالک منانے کے الفاظ کہتا ہے عورت کی طرف سے۔ اور مالک بننے کے الفاظ کہتا ہے اپنی طرف سے۔ اس کے بر خلاف بیع ہے۔ کیونکہ بیع میں وکیل عاقد ہوتا ہے۔ چنانچہ حقوق بیع وکیل ہی کی طرف لوٹتے ہیں مؤکل کی طرف نہیں۔ اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ ایک آدمی طرفین کا متولی ہو سکتا ہے تو مرد کا قول زوجت ایجاب و قبول دونوں کو شامل ہو گا قبول کے لیے علیحدہ کلام کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ جب ایک شخص دو کے قائم مقام ہو سکتا ہے تو اس کی ایک عبارت بھی دو عبارتوں کے قائم مقام ہو گی۔
 
Top