ارتداد کی صورت میں نکاح کے احکام

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
ارتداد کی صورت میں نکاح کے احکام و مسائل:

زوجین میں سے کوئی ایک مرتد ہو گیا تو بغیر طلاق کے فرقت واقع ہو گی:

قال و اذا ارتداحدالزوجين عن الاسلام و قعت الفرقة بغير طلاق وهذا عند ابی حنیفة و ابی یوسف و قال محمد ان كانت الردة من الزوج فهي فرقة بطلاق هو يعتبر بالاباء والجامع ما بيناه و ابو یوسف مر على ما اصلنا له في الاباء و ابو حنيفة فرق بينهما ووجهه ان الردة منافية للنكاح لكونها منافية للعصمة والطلاق رافع فتعذران تجعل طلاقا بخلاف الأباء لانه يفوت الامساك بالمعروف فيجب التسريح بالاحسان علی مامرو لهذا تتوقف الفرقة بالاباء على القضاء ولا تتوقف بالردة ثم ان كان الزوج هوالمرتدفلها كل المهران دخل بها ونصف المهران لم يدخل بها و ان كانت هي المرتدة فلها كل المهران دخل بها وان لم يدخل بهافلامهر لها ولانفقة لان الفرقة من قبلها

ترجمه:

اور جب احد الزوجین اسلام سے مرتد ہو گیا تو دونوں میں بغیر طلاق کے فرقت واقع ہوگئی ۔ اور یہ ابوحنیفہ اور ابو یوسف کے نزدیک ہے۔ اور فرمایا امام محمد نے اگر مرتد ہونا شوہر کی طرف سے ہے تو فرقت طلاق ہے۔ امام محمد قیاس کرتے ہیں اباء عن الاسلام پر اور جامع وہ ہے جس کو ہم نے بیان کیا۔ اور ابو یوسف اپنی اسی اصل پر چلے جو ہم نے انکار میں ان کے واسطے سے بیان کی۔ اور ابوحنیفہ نے دونوں میں فرق کیا۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ ردت منافی نکاح ہے۔ کیونکہ منافی عصمت ہے۔ اور طلاق ( نکاح) کو اٹھانے والی ہے۔ پس محال ہے یہ کہ ردت کو طلاق قرار دیا جائے ۔ بخلاف اباء (عن الاسلام ) کے کیونکہ اباء امساک بالمعروف کو فوت کر دیتا ہے۔ پس تسریح بالاحسان واجب ہوگی۔ چنانچہ اوپر گزرا اور اسی وجہ سے فرقت اباء (عن الاسلام) کی وجہ سے قضاء قاضی پر موقوف ہوتی ہے۔ اور ردت کی وجہ سے (جوفرقت ہے وہ قضاء قاضی پر) موقوف نہیں ہوتی ۔ پھر اگر شوہر مرتد ہوا ہے تو عورت کیلئے کل مہر ہوگا اگر اس کے ساتھ دخول ہو چکا اور نصف مہر ہے اگر اس کے ساتھ دخول نہیں ہوا اور اگر عورت مرتدہ ہوئی ہے تو عورت کیلئے کل مہر ہے اگر اس کے ساتھ دخول ہو چکا اور اگر اس کے ساتھ دخول نہیں ہوا تو اس عورت کیلئے مہر نہیں ہے۔ اور نہ نفقہ ہے اسلئے کہ ردت عورت کی جانب سے آئی ہے۔

تشریح:

صورت مسئلہ یہ ہے کہ اگر احدالزوجین اسلام سے مرتد ہو گیا العیاذ باللہ تو دونوں میں فی الحال فرقت واقع ہوجائے گی۔ برابر ہے کہ شوہر نے بیوی کے ساتھ دخول کیا یا نہیں۔ اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر ارتداد دخول سے پہلے ہے تو فی الحال فرقت واقع ہوجائے گی اور اگر دخول کے بعد ہے تو تین عدت کی مدت گذارنے کے بعد فرقت واقع ہوگی ۔ جیسا کہ امام شافعی نے احد الزوجین کے اسلام کی صورت میں کہا۔ ابن ابی لیلی نے کہا احد الزوجین کے مرتد ہونے سے فرقت واقع نہیں ہوگی نہ قبل الدخول اور نہ بعد الدخول۔ بلکہ مرتد سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا اگر توبہ کی تو الحمد للہ یہ اس کی بیوی ہے سابقہ نکاح باقی ر ہے گا اور اگر بحالت ردت مر گیا یا قتل ہو گیا تو اس کی بیوی اسکی وارث ہوگی۔

بہرحال ردت کی وجہ سے جو فرقت ہوئی شیخین کے نزدیک یہ فرقت طلاق نہیں ہے بلکہ فسخ ہے اور امام محمد کے نزدیک اگر ردت شوہر کی جانب سے ہے تو یہ فرقت طلاق ہے ورنہ نہیں۔ امام محمد مرتد ہونے کو شوہر کے اباء عن الاسلام پر قیاس کرتے ہیں۔ لیکن اگر عورت مسلمان ہوگئی اور شوہر نے اسلام لانے سے انکار کر دیا تو شوہر کی طرف سے طلاق ہے۔ اسی طرح شوہر کا مرتد ہونا شوہر کی طرف سے طلاق ہے اور مقیس اور مقیس علیہ کے درمیان جامع وہی ہے جس کو بیان کیا گیا ہے۔ یعنی جس طرح شوہر اسلام لانے سے انکار کر دینے کی وجہ سے امساک بالمعروف سے رک گیا حالانکہ وہ اس پر قادر تھا تو قاضی تسریح بالاحسان میں اس کے قائم مقام ہوکر تفریق کر دے گا اور یہ تفریق طلاق ہوگی۔ اسی طرح ردت کی وجہ سے شو ہر امساک بالمعروف سے رک گیا پس قاضی تسریح بالاحسان میں اس کے قائم مقام ہوگا۔ -

امام ابو یوسف کی دلیل وہ ہے جو ابا عن الاسلام میں گذر چکی یعنی فرقت ایسی سبب سے واقع ہوئی جس میں زوجین شریک ہیں ۔ اور طلاق صرف شوہر کی طرف سے ہوتی ہے۔ بیوی کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ لہذ ارتداد کی وجہ سے جوتفریق ہوگی وہ طلاق نہیں ہوئی بلکہ فسخ نکاح ہوگا۔

امام ابوحنیفہ نے ابا عن الاسلام میں اور ارتداد میں فرق کیا ہے۔ چنانچہ شوہر کے اباء عن الاسلام کی وجہ سے جو فرقت ہے اسکوطلاق قراردیا گیا۔ اور ارتدادکی وجہ سے جو فرقت ہے اس کو طلاق قرارنہیں دیا۔ ان دونوں میں وجہ فرق یہ ہے کہ ردت نکاح کے منافی ہے کیونکہ ردت عصمت نفس اور عصمت مال کے منافی ہے۔ چنانچہ مرتد کی جان اور مال مباح ہیں اس کو اگر کوئی قتل کردے تو قاتل پر قصاص یا دیت واجب نہیں ہوتی اور مرتد کی ملک اور نکاح باطل ہو جاتے ہیں۔ اور ہی طلاق سودہ نکاح کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ طلاق تحقیق نکاح کے بعد نکاح کو اٹھانے والی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر شوہر طلاق کے بعد نکاح کرنا چاہے تو نکاح کر سکتا ہے۔ پس حاصل یہ کہ طلاق منافی نکاح نہیں ہے اور مرتد ہونا منافی نکاح ہے لہذا ردت کو طلاق قرار دینامحال ہے۔

اس کے برخلاف اسلام لانے سے انکار کرنا وہ اپنی اصلی حالت کفر پر رہنا چاہتا ہے اسلئے ذمی بنا رہا۔ لہذا اس کا خون مباح نہیں ہوا۔ اس وجہ سے ابا عن الاسلام منافی نکاح نہیں ہے۔ اور ردت منافی نکاح ہے۔ پس ردت کو ابا عن الاسلام پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔

صاحب ہدایہ نے فرمایا کہ ابا عن الاسلام کی وجہ سے شوہرا مساک بالمعروف سے رک گیا پس تسریح بالاحسان واجب ہوگا۔ اورتسریح بالاحسان نام ہے طلاق کا اس وجہ سے اباء عن الاسلام کی وجہ سے تفریق کو طلاق قرار دیا گیا ۔ اور چونکہ ردت منافی نکاح ہے اور ابا عن الاسلام منافی نکاح نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ابا عن الاسلام کی وجہ سے فرقت قضاء قاضی پر موقوف رہے گی ۔ کیونکہ ابا عن الاسلام منافی نہیں ہے اور ارتداد کی وجہ سے فرقت قضاء قاضی پر موقوف نہیں رہے گی۔ کیونکہ منافی کا حکم قضاء پر موقوف نہیں رہتا جیسے محرمیت کی وجہ سے فرقت قضا پر موقوف نہیں ہوتی۔

زوجین دونوں اکٹھے مرتد ہوئے پھر اکٹھے مسلمان ہوئے نکاح برقرار رہے گا، امام زفر کا نقطہ نظر:

قال و اذا ارتد معالم أسلما معافهما على نكاحهما استحسانا و قال زفر يبطل لان ردة احدهما منافية وفي ردتهما ردۃ احدهما و لنا ما روی ان بنی حنیفة ارتدوا ثم اسلمو او لم يامرهم الصحابة رضوان الله عليهم اجمعین تجديد الانكحة والارتداد منهم واقع معالجهالة التاريخ ولو اسلم احدهما بعد الارتداد فسد النکاح بينهما لاصرار الأخر على الردة لانه مناف کابتدائها

ترجمہ:

اور جب دونوں ساتھ ساتھ مرتد ہوئے پھر ایک ساتھ دونوں مسلمان ہو گئے تو وہ دونوں اپنے نکاح پر ہیں استحسانا اور فرمایا امام زفر نے کہ باطل ہو جائے گا۔ کیونکہ ان دونوں میں سے ایک کی ردت منافی نکاح ہے اور اگر ان دونوں کی ردت میں ان دونوں میں سے ایک کی ردت ہے اور ہماری دلیل وہ حدیث ہے جو مروی ہے کہ بنی حنیفہ مرتد ہو گئے پھر مسلمان ہوگئے اور صحابہ نے ان کو تجدید نکاح کا حکم نہیں دیا۔ اور ارتدادان سے ایک ساتھ واقع ہوا تاریخ کے مجہول ہونے کی وجہ سے اور اگر ارتداد کے بعد ان دونوں میں سے ایک مسلمان ہو گیا تو ان دونوں میں نکاح فاسد ہو گیا دوسرے کی ردت پر اصرار کرنے کی وجہ سے۔ اسلئے کہ (اس کا اصرا رعلى الردت) منافی (نکاح) ہے جیسا کہ ابتدا ءردت۔

تشریح:

زوجین ایک ساتھ مرتد ہوئے پھر ایک ساتھ دونوں مسلمان ہو گئے تو یہ دونوں اپنے نکاح پر رہیں گے۔ تجدید نکاح کی ضرورت نہیں۔ یہ قول استحسانا ہے۔ اور امام زفر نے فرمایا کہ اس صورت میں نکاح باطل ہو جا ئے گا یہ قیاس ہے اسی کے قائل امام شافعی، امام مالک اور امام احمد ہیں۔

امام زفر کی دلیل یہ ہے کہ جب ایک کا مرتد ہونا منافی نکاح ہے تو دونوں کا مرتد ہونا ھدرجہ اولی منافی نکاح ہوگا۔ کیونکہ دو کے ارتداد کے ضمن میں ایک کا مرتد ہونا بھی پایا گیا۔

صاحب ہدایہ کی دلیل حدیث ہے حاصل یہ ہے کہ بنوحنیفہ جو مسیلمہ کذاب کی قوم میں ایک چھوٹا سا قبیلہ ہے۔ لوگ زکوۃ کا انکار کرنے کی وجہ سے مرتد ہوگئے۔ پھر خلیفة المسلمین حضرت ابو بکر صدیق نے ان کی طرف صحابہ کا لشکر بھیجا تو یہ سب مسلمان ہو گئے۔ لیکن صحابہ نے ان کو تجدید نکاح کا حکم نہیں دیا۔ اس پر سب ہی صحابہ کا اتفاق تھا۔ لہذا صحابہ کا اجماع ہو گیا۔ اور اجماع کی وجہ سے قیاس ترک کر دیا جاتا ہے۔

لیکن اگر کوئی اشکال کرے کہ ان کا ارتداد بیک وقت نہیں تھا لہذا اس واقعہ سے استدلال کیسے درست ہوگا۔ تو جواب یہ ہے کہ جب تقدم اور تاخر کے بارے میں تاریخ مجہول ہو گئی تو یہی کہا جائے گا کہ سب بیک وقت مرتد ہوئے ہیں۔ اور اگر ارتداد کے بعد ان دونوں میں سے ایک مسلمان ہو گیا تو دونوں میں نکاح فاسد ہو جائے گا یعنی دونوں میں فرقت ہو جائے گی دوسرے کے ردت پر اصرار کرنے کی وجہ سے کیونکہ درت پر اصرارا اسی طرح منافی نکاح ہے جس طرح ابتداء ردت منافی نکاح ہے۔
 
Top