طلاق کی مختلف صورتیں

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
طلاق کی مختلف صورتیں:

طلاق کی تین صورتیں

قال الطلاق علی ثلثۃ اوجہ حسن و احسن و بدعی فالاحسن ان یطلق الرجل تطلیقۃ واحدۃ فی طھر ہم یجامعھا فیہ و یترکھا حتی تنقضی عدتھا لان للصحابۃ کانوا یستحبون ان لا یزیدوا فی الطلاق علی واحدۃ حتی تنقضی العدۃ و ان ھذا افضل عندھم من ان یطلق الرجل ثلثا عند کل طھر واحدۃ و لانہ ابعد من الندامۃ و اقل ضرر بالمراۃ ولا خلاف لاحد فی الکراھۃ

ترجمہ:

فرمایا کہ طلاق تین طرح کی ہے حسن، احسن، بدعی۔ پس احسن یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو ایک طلاق دے ایسے طہر میں جس میں جماع نہیں کیا اور عورت کو چھوڑے یہاں تک کہ اس کی عدت گذر جائے۔ کیونکہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پسند کرتے تھے کہ طلاق میں ایک پر زیادہ نہ کریں یہاں تک کہ عدت گزر جائے۔ اور یہ بات ان کے نزدیک افضل تھی بمقابلہ اس کے کہ مرد تین طلاق دے ہر طہر پر ایک، اور اس لیے کہ یہ طلاق ندامت سے بہت دور ہے اور عورت کے حق میں ضرر بہت کم ہے۔ اور کراہت کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں۔

وضاحت:

صاحب اشرف الھدایہ نے طلاق کی تین صورتیں بیان فرما کر طلاق احسن کی تعریف کی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ طلاق احسن یہ ہے کہ مرد اپنی منکوحہ کو ایک طلاق ایسے طہر میں دے جس میں اس کے ساتھ مباشرت نہیں کی اور اس کو چھوڑے رکھے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے۔ دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام اس بات کو پسند کرتے تھے کہ ایک طلاق سے زائد نہ دیں۔ اور دوسری دلیل عقلی یہ ہے کہ ایک طلاق واقع کرنا ندامت سے بھی بہت دور ہے اور عورت کو ضرر بھی بہت کم پہنچے گا۔ ندامت سے دوری تو اس لیے ہے کہ شوہر کا تدارک کا امکان ہے کہ وہ عدت میں رجعت کر سکتا ہے اور عدت کے بغیر حلالہ تجدید نکاح کر سکتا ہے اور ایسا کرنا جس میں تدارک کی گنجائش باقی رہے اللہ رب العزت کے نزدیک مستحسن ہے۔

طلاق حسن:

طلاق حسن طلاق سنت بھی کہلاتی ہے کہ وہ ایسی بیوی کو جس سے اس نے مباشرت کی ہو۔ تین طہروں میں ایک ایک طلاق دے۔

طلاق حسن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام مالک کا نقطہ نظر:

والحسن هو طلاق السنة وهو أن يطلق المدخول بها ثلاثا في ثلثة اطهار و قال مالک انه بدعة و لا يباح الا واحدة لأن الأصل في الطلاق هو الحظر والاباحة لحاجة الخلاص و قداند فعت بالواحدة و لنا قوله عليه السلام في حديث ابن عمر ان السنة أن يستقبل الطهر استقبالا فيطلقها لكل قرء تطليقة و لان الحكم يدار على دليل الحاجة وهو الاقدام على الطلاق في زمان تجدد الرغبة وهو الطهر فالحاجة كالمتكررة نظرا إلى دليلها ثم قیل الاولى ان يؤخر الايقاع الى اخر الطهر احترزا عن تطويل العدة و الا ظهران يطلقها كما طهرت لانه لواخرربما يجامعها ومن قصده التطليق فيبتلى بالايقاع عقيب الرقاع

ترجمہ:

اور حسن وہ طلاق سنت ہے اور وہ یہ ہے کہ طلاق دے مدخول بہا کوتین، تین طہر میں ۔ اور امام مالک نے فر مایا کہ یہ بدعت ہے اور نہیں مباح ہے مگر ایک کیونکہ اصل طلاق میں ممانعت ہے۔ اور اباحت چھٹکارا پانے کی حاجت کی وجہ سے ہے۔ اور حاجت دفع ہوگئی ایک سے۔ اور ہماری دلیل حضور صلى الله عليه وسلم کا قول ہے حدیث ابن عمر میں کہ سنت یہ ہے کہ طہر کا انتظار کرے۔ پھر اس کو ہر طہر میں ایک طلاق دے۔ اور اسلئے کہ حکم دائر ہوتا ہے حاجت طلاق کی دلیل پر۔ اور وہ (دلیل) اقدام على الطلاق ہےتجدید رغبت کے زمانہ میں اور وہ ( تجدید رغبت کا زمانہ ) طہر ہے۔ پس حاجت متکررہ کے مانند ہوگئی دلیل حاجت کی طرف نظر کرتے ہوئے ۔ پھر کہا گیا کہ ایقاع طلاق کو مؤخر کیا جائے طہر کے آخر تک طویل عدت سے بچتے ہوئے ۔ اور اظہر یہ ہے کہ اس کو طلاق دے ۔ جیسے ہی طہر (شروع) ہو ۔ اسلئے کہ اگر مؤخر کرے گا تو بسا اوقات اس سے مباشرت کر لے گا۔ حالانکہ اس کا ارادہ طلاق دینے کا ہے۔ پس وہ مبتلا ہو جائے گا مباشرت کے بعد (طلاق) واقع کر نے کے ساتھ۔

امام مالک کی دلیل:

طلاق حسن کی تعریف یہ ہے کہ شوہر اپنی منکوحہ مدخول بہا کو تین طہر میں تین طلاق دے۔ امام مالک کہتے ہیں کہ یہ طلاق بدعت ہے اور مباح صرف ایک طلاق ہے۔

ان کی دلیل یہ ہے کہ طلاق میں ممانعت اصل ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے تزوجوا ولا تطلقوا کی وجہ سے یعنی نکاح کرو اور طلاق مت دو۔ اور اباحت طلاق عورت سے چھٹکارا پانے کی حاجت کی وجہ سے ہے۔ اور حاجت ایک طلاق سے پوری ہو جاتی ہے۔ لہذا دوسری طلاق مباح نہیں ہو گی۔

صاحب ہدایہ کی دلیل:

ان کی دلیل حدیث ابن عمر ہے۔ حاصل حدیث یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے ناپاکی کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دیدی۔ پھر ارادہ کیا کہ دوسری دو طلاقیں دو طہر میں دیدیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس ابن عمر ایسا کرنیکا تجھے اللہ نے حکم نہیں دیا تو سنت کو فراموش کر گیا۔ سنت یہ ہے کہ تو انتظار کرے طہر کا۔ پھر ہر طہر میں طلاق دے۔ پھر مجھے حکم دیا تو میں نے اپنی بیوی سے رجعت کر لی۔ پھر آپ نے فرمایا جب وہ پاک ہو جائے تو اس وقت اس کو طلاق دے یا روک لے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بتائیے اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دوں تو کیا میرے لیے اس سے مراجعت کرنا حلال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا نہیں وہ تو بائنہ ہو گئی اور گناہ ہو گیا یہ حدیث دار قطنی کی روایت کردہ ہے۔

عقلی دلیل:

اس کا حاصل یہ ہے کہ حاجت طلاق امر باطن ہے۔ اس پر مطلع ہونا ناممکن ہے۔ لہذا حکم کی دلیل پر دائر کیا جائے گا۔ اور حاجت طلاق کی دلیل تجدد رغبت یعنی طہر کے زمانہ میں طلاق دینے کا اقدام کرنا ہے۔ اور جب بھی حاجت میں تکرار ہو گا تو گویا حاجت الی الطلاق میں تکرار ہو گا۔ اور جب حاجت الی الطلاق میں تکرار ہے تو پھر تکرار طلاق بھی مباح ہو گا اس لیے متفرق طور پر تین طہر میں تین طلاقیں واقع کرنا مباح ہو گا۔

طلاق بدعت:

طلاق بدعت یہ ہے کہ شوہر اپنی منکوحہ کو ایک کلمہ سے تین طلاق دے۔ یا ایک طہر میں تین طلاق واقع کرے۔

طلاق بدعت۔۔۔۔۔۔۔ امام شافعی کا نقطہ نظر:

و طلاق البدعۃ ان یطلقھا ثلثا بکلمۃ واحدۃ اور ثلثا فی طھر واحد فاذا فعل ذلک وقع الطلاق و کان عصیا و قال الشافعی کل طلاق مباح لانہ تصرف مشروع حتی یستفادیتہ الحکم والمشروعیتہ لا تجامع الحظر بخلاف الطلاق في حالة الحيض لان المحرم تطويل العدة عليها لا الطلاق ولنا أن الأصل في الطلاق هو الحظر لما فيه من قطع النكاح الذي تعلقت به المصالح الدينية والدنياوية و الا باحة للحاجة الى الخلاص ولاحاجة الى الجمع بين الثلث وهي في المفرق على الاطهار ثابتة نظرا إلى دليلها والحاجة في نفسها باقية فامكن تصوير الدليل عليها والمشروعية في ذاته من حيث انه ازالة الرق لا تنافي الحظر لمعنى في غيره وهو ماذكرناه و كذا ايقاع الثنتين في الطهر الواحد بدعة لماقلنا واختلفت الرواية في الواحدة البائنة قال في الأصل انه اخطأ السنة لانه لا حاجة الى اثبات صفة زائدة في الخلاص وهي البينونة و في رواية الزيادات انه لايكره للحاجة الى الخلاص ناجزا

ترجمہ:

اور طلاق بدعت یہ ہے کہ مرد اس کو ایک کلمہ سے تین طلاق دے یا ایک طہر میں تین طلاق دے۔ پس جب یہ کر لیا تو طلاق واقع ہوگئی اور (وہ) گنہگار ہے۔ اور امام شافعی نے فرمایا کہ ہر طلاق مباح ہے۔ کیونکہ وہ تصرف مشروع ہے حتی کہ طلاق سے حکم مستفاد ہوتا ہے۔ اور مشروعیت ممانعت کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی۔ بخلاف حالت حیض میں طلاق کے، کیونکہ محرم اس پر عدت کوطول دینا ہے نہ کہ طلاق۔ اور ہماری دلیل یہ ہے کہ طلاق میں اصل ممانعت ہے کیونکہ طلاق میں اس نکاح کوقطع کرنا ہے جس کے ساتھ دینی اور دنیوی مصلحتیں متعلق ہیں۔ اور اباحت چھٹکارا پانے کی ضرورت کی وجہ سے ہے۔ اور تین کو جمع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اور حاجت ان طہروں پر متفرق کرنے میں ثابت ہے دلیل حاجت کی طرف نظر کرتے ہوئے۔ اور حاجت بذات خود باقی ہے۔ لہذا دلیل کو حاجت پر تصور کرنا ممکن ہے اور ( طلاق بدعی مشروع ہوا) اس حیثیت سے کہ وہ رقیت کا ازالہ ہے منافی نہیں ممانعت کے ایسے معنی کی وجہ سے جو اس کے غیر میں ہے۔ اور وہ معنی وہ ہے جو ہم نے ذکر کیا۔ اور ایسے ہی دو (طلاق) کا واقع کرنا ایک طہر میں بدعت ہے۔ اسکی وجہ سے جو ہم نے کہا اور ایک بائنہ میں روایت مختلف ہوگئی۔ امام محمد نے مبسوط میں کہا کہ یہ سنت سے تجاوز ہے۔ اسلئے کہ چھٹکارا پانے میں صفت زائدہ ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور وہ بینونت ہے۔ اور زیادات کی روایت میں مکروہ نہیں فوری چھٹکارا پانے کی ضرورت کی وجہ سے۔

امام شافعی کی دلیل:

ان کی دلیل یہ ہے کہ طلاق تصرف مشروع ہے۔ چنانچہ طلاق سے حکم طلاق مستفاد ہوتا ہے۔ اور حکم طلاق وقوع طلاق ہے۔ حاصل یہ کہ طلاق پر اثر شرعی یعنی وقوع طلاق مرتب ہوتا ہے اور جس چیز پر اثر شرعی مرتب ہو جائے وہ امر مشروع کہلائے گا۔ لہذا طلاق امر مشروع ہوئی اور جو چیز مشروع ہے وہ ممنوع تو نہیں ہو سکتی کیونکہ مشروعیت ممانعت کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔

طلاق سنت:

طلاق سنت دو طریقوں سے ہے۔ ایک سنت وقت کے اعتبار سے ہے اور تعداد کے اعتبار سے۔ تعداد کے اعتبار سے سنت میں مباشرت کردہ اور غیر مباشرت کردہ عورت یکساں ہے۔ ایک طہر میں ایک طلاق دینا۔ اور وقت کے اعتبار سے سنت صرف مباشرت کردہ عورت کے ساتھ مختض ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس نے اس نے مباشرت نہ کی ہو۔ اس لیے کہ یہاں عورت کی دلیل کو ملحوظ رکھا گیا ہے جو طلاق کا ایسے وقت میں اقدام ہے جس میں مرد کی عورت کی طرف رغبت متجرد ہوتی ہے اور ایسی پاکی ہے جو مباشرت سے خالی ہو۔ جبکہ ناپاکی کا وقت تو کراہت کو وقت ہے اور پاکی میں ایک مرتبہ مباشرت سے رغبت کم پڑ جاتی ہے۔
 
Top