فقہ اسلامی کے مآخذ

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
پہلا ماخذ قرآن مجید:

سب ماخذ و مصادر کا مرجع یہاں تک کہ سنت کا مرجع بھی قرآن مجید ہے۔ اللہ تعالی کی کتاب قرآن کریم ہی اصل الاصول ہے اور تشریع اسلامی کے تمام مآخذ اس کی طرف لوٹتے ہیں، شریعت اسلامی کی دلیل اول اور اساسی مآخذ و مصدر قرآن مجید ہے۔ یہ اللہ تعالی کا کلام ہے اور رسول اللہ کی طرف نازل کیا گیا ہے۔

قرآن پاک کی تعریف:

لفظ قرآن ''قرا''، ''یقرا''، '' قرات ''سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی پڑھنے کے بھی ہیں اور ایک چیز کو دوسرے کے ساتھ ملا کر جمع کرنے کےبھی ہیں۔جب ایک حرف کا دوسرے حرف سے ملا کر تلفظ کیا جاۓ تو اس کو قراءت (پڑھنا ) کہتے ہیں۔ قرآن مقروء کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہےاس کا مطلب ہے وہ صحیفہ جو پڑھا جاتا ہے۔ کلام ﷲ کو قرآ ن اس معنی میں کہا جاتا ہے یعنی ''پڑ ھی ہو‏ئی کتاب''۔

قرآن مجید کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں کی گئ ہے ''یہ اﷲ پاک کا وہ معجز کلام ہے جسے حضرت محمدصلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم پر عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے، جو صحیفوں میں لکھا ہوا ہے، جو ہم پر تواتر سے پہنچا ہے۔ اس کی تلاوت عبادت کا درجہ رکھتی ہے ۔ اس کی ابتداء سورۂ فاتحہ سے ہوتی ہے اور اس کا اختتام سورۃالناس پر ہوتا ہے۔

قرآن مجید کے احکام:

قرآن مجید متعدد انواع کے احکام پر مشتمل ہے جن کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

عقائد کے متعلق احکام

اخلاقیات کے بارے میں احکام

مکلفین کے اقوال و افعال سے متعلق عملی احکام

عقائد کے متعلق احکام: عقیدے سے متعلق احکام جیسے اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور قیامت پر ایمان۔ یہ احکام عقائد سے متعلق ہیں۔

اخلاقیات کے بارے میں احکام: وہ احکام جن کا تعلق تہذیب نفس اور انسانی کردار کو سنوارنے سے ہے۔ ان کو اخلاقی احکام کہا جاتا ہے، کیونکہ ان کا تعالق اخلاق سے ہے۔ علم اخلاق یا تصوف میں ان احکام سے متعلق بحث کی جاتی ہے۔

مکلفین کے اقوال و افعال سے متعلق عملی احکام: وہ احکام جن کا تعلق عمل سے ہے، اورعمل میں مکلفین کے اقوال اور افعال دونوں داخل ہیں ۔ اور فقہ سے یہی مقصود ہیں۔ اور فقہ اور اصول فقہ کا مقصد بھی ان سے واقفیت اور ان تک رسائی ہے عمل سے تعلق ان احکام کی دو میں ہیں۔

عادات: جیسے نماز ، روزہ وغیرہ۔ ان کا مقصد فردا تعلق اس کے پروردگار سے قائم کرنا ہے۔

معاملات : عبادات کے علاوہ دوسرے امور جن کو فقہاء کی اصطلاح میں معاملات کہتے ہیں۔ یہ وہ احکام ہیں جو ذاتی (پرائیوٹ لا) اورموی (پبلک لا ) قانون کے دائرہ میں آتے ہیں، جیسا کہ جدید اصطلاح میں ان کو کہا جا تا ہے۔ ان کا مقصد فردا تعلق فرد کے ساتھ یا فردا تعلق جماعت کے ساتھ یا جماعت کا تعلق جماعت کے ساتھ منظم کرنا ہے۔

دوسرا ماخذ سنت:

سنت، قرآن مجید کے بعد فقہ اسلامی کا دوسرا بڑا ماخذ ہے، سنت کے بغیر قرآنی احکام کو نہ پورے طور پر سمجھنا ممکن ہے اور نہ ہی ان پر عمل کرنا ممکن ہے، نیز بہت سے احکام ایسے ہیں جن کے متعلق قرآن خاموش ہے اور وہ احکام رسول کی سنت کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں۔

سنت کی تعریف:

لغت میں سنت کا معنی طریقہ اور عادت ہے جس پر لوگ چلنے کے عادی ہوں اور مداومت اور پابندی کے ساتھ اس پر چلتے ہوں اور ان کا کوئی فعل اس کے تقاضے کے مطابق بار بار کہا جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے:

من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا و اجر من عمل بھا الی یوم القیامۃ، ومن سن سنۃ سیئۃ فعلیہ وزرھا ووزر من عمل بھا الی یوم القیامۃ

جس شخص نے کوئی اچھا طریقہ اختیار کر لیا تو اس کا ثواب اس کے لیے ہے اور قیمت تک اس شخص کا ثواب بھی اس کے لیے ہف جو اس طریقہ پر عمل کریگا اور جو شخص کوئی برا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس کے لیے اور اس شخص کا گناہ بھی قیامت تک اس کے لیے ہے جو اس طریقہ پر عمل کرتا رہے گا۔​

جب لفظ سنت کی نسبت کسی انسان کی طرف کی جاتی ہے تو اس سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے جس کو وہ تمام افعال ہیں جو اس سے صادر ہوتے ہیں لازم سمجھتا ہو اور ان پر مداومت کرتا ہو، اس کا تعلق خواہ ان کاموں سے ہو جن کے سبب اس کی تعریف کی جاتی ہو یا ان سے ہو جن کے سبب اس کا مذمت کی جاتی ہے۔

سنت دین کے اولین مآخذ و مصادر میں شمار ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء اصولین، محدثین اور سیرت نگاروں نے سنت پر مختلف انداز سے بحث کی ہے اور اس کے مفہوم و معانی بیان کیے ہیں، اس پر تمام طبقات امت متفق ہیں کہ سنت دین کے اساسی اور بنیادی مآخذ میں سے ہے۔

تشریعی احکام میں سنت کی حیثیت بطور ماخذ:

سنت مآخذ احکام میں سے ایک ماخذ ہے۔ اس کا ثبوت ہیں قرآن مجید، اجماع اور عقل سے ملتا ہے۔

قرآن مجید سے ثبوت:

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِـيْهِـمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّـٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّـٰهَ هُوَ الْغَنِىُّ الْحَـمِيْدُ (الممتحنۃ 6)

البتہ تمہارے لیے ان میں ایک نیک نمونہ ہے اس کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہو، اور جو کوئی منہ موڑے تو بے شک اللہ بھی بے پروا خوبیوں والا ہے۔ ( سورۃ الممتحنۃ)​

ایک اور جگہ ارشاد ہے:

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْـهَـوٰى (النجم 3)

اور نہ وہ اپنی خواہش سے کچھ کہتا ہے۔

اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰى (النجم 4)

یہ تو وحی ہے جو اس پر آتی ہے۔​

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی اس حیثیت سے قرآن مجید کی طرح ہیں کہ دونوں ماخذ وحی الہی ہے، فرق یہ ہے کہ سنت کے صرف مضمون و معنی وحی کے ذریعہ آپ کو بتلائے جاتے ہیں اور قرآن مجید کے لفظ اور معنی دونوں کو وحی کے ذریعے آپ پر نازل کیا جاتا ہے۔

اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمہ یہ فرض عائد کیا کہ آپ قرآن مجید کے معانی اور مضامین وضاحت سے بیان فرمائیں اور اس کے مجمل احکام کی تشریح کریں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

بِالْـبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ۗ وَاَنْزَلْنَـآ اِلَيْكَ الـذِّكْرَ لِتُـبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْـهِـمْ وَلَعَلَّـهُـمْ يَتَفَكَّـرُوْنَ (النحل 44)

ہم نے انہیں معجزات اور کتابیں دے کر بھیجا تھا، اور ہم نے تیری طرف قرآن نازل کیا تاکہ لوگوں کے لیے واضح کر دے جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے اور تاکہ وہ سوچ لیں۔​

اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان قرآن مجید کے حکم سے استفادہ اور معانی و مضامین کی توضیح و تشریح کے اعتبار سے اس کا تکملہ ہے اور شریعت کے حکم سے استفادہ اور قرآن کا مقصد سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ اس حیثیت سے سنت مآخذ احکام میں سے ایک ماخذ ہے۔

سنت رسول سے ثبوت:

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ قرآن مجید کی عملی شکل اس کے احکام کی عملی تصویر اور اس کے علوم کا عملی پیکر ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی امت کے لیے ایک عملی نمونہ ہے، اللہ تعالی پر ایمان کا ایک معیار ہو یا اس کی اطاعت کا یا اس کا تقوی مقصود ہو، ہر مرحلہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات اور طریق زندگی ہی معیار وحید پاتا ہے حتی کہ عبادات کی مقدار بھی وحی معتبر ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ سے ملتی ہو اس پر اضافہ و کمی کی اجازت نہیں۔

حضرت انس سے روایت ہے کہ تین جماعتیں و عبادات مضمرات کے پاس آئیں اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات و عبادات کے متعلق دریافت کیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات انہیں بتا دئیے گئے تو ان کو انہوں نے اپنے لیے ناکامی خیال کیا اور کہا کہ یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات ہیں ہماری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیا نسبت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو معصوم قرار دیا جا چکا اور مغفرت کی جا چکی ہے ان میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ میں ہمیشہ ساری رات عبادت کرونگا، دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ دن کو روزہ رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا تیسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ عورتوں سے بچوں گا اور کبھی شادی نہیں کرونگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

انتم الذین قلتم کذا و کذا اما واللہ انی لاخشاکم اللہ واتقاکم لہ لکنی اصوم و افظروا اصلی و ارقد و اتزوج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی

تم لوگوں نے اس طرح کہا تھا سنو! میں تم میں سے سب سے زیادہ اللہ کی خشیت اور اس کا تقوی رکھنے والا ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں، افطار بھی کرتا ہوں، عبادت بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، پس جو میری سنت سے احتراز کرے گا وہ میری جماعت سے نہیں۔​

سنت کا ثبوت صحابہ کے عمل سے:

تمام صحابہ کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتباع اور پیروی دل و جان سے زیادہ عزیز تھی، یہی وجہ تھی کہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں شراب کا بہنا اور ایک ہی نماز نصف بیت المقدس کی طرف منہ کر کے اور نصف کعبۃ اللہ کی طرف کر کے پڑھنا اسی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبین مثالیں ہیں اور تمام صحابہ کرام کے بعد سنت ہی کو سب سے بڑا مآخذ سجھتے تھے۔

تیسرا ماخذ اجماع:

قرآن و سنت کے بعد فقہ اسلامی کا تیسرا بنیادی ماخذ ’’اِجماع‘‘ ہے۔ اجماع کا لغوی معنی ہے: پکا ارادہ اور اتفاق۔ اصطلاحی طور پر اس کا معنی ہے : کسی زمانے میں اُمت محمدیہ کے مجتہدین کی رائے کا کسی شرعی مسئلے پر متفق ہو جانا۔ اجماع قرآن و سنت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر نہیں بلکہ ان سے رہنمائی لے کر کیا جاتا ہے اور جب اجماع کو قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ مضبوط کر دیا جائے تو یہ قطعی حکم بن جاتا ہے جس پر عمل کرنا لازم ہو جاتا ہے۔

اجماع کی سب سے زیادہ جامع و مانع تعریف حضرت ابن السبکی ؒ کی ہے :

ھو إتفاق المجتهدي الأمة بعد وفاة محمد صلى الله عليه وسلم في عصر على أي أمر كان۔

یعنی اجماع، امت (محمدیہ) کے مجتہدین کے اس اتفاق کا نام ہے جو حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں کسی بھی امر (بات) پر ہوا ہو۔​

جمہور مسلمین اجماع کی حجیت کے قائل ہیں، اجماع کی حجیت کتاب وسنت سے ثابت ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا

اے ایمان والو! حکم مانو اللہ (تعالٰیٰ) کا اور حکم مانو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اور اولولاَمر کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے لوٹاؤ اللہ (تعالٰیٰ) اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام۔(سورہ-النساء:59)

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی اجماع کا ثبوت ملتا ہے:

آپ صلى الله عليہ وسلم کا ارشاد ہے :

"عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ"۔

ترجمہ:حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:اللہ تعالٰیٰ میری امت کو یا (راوی نے کہا) کہ محمد صلى الله عليه وسلم کی اُمت کو ضلالت وگمراہی پر مجتمع نہیں کریگا۔(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:2093 )​

چوتھا ماخذقیاس:

قیاس کا لغوی معنی ہے : اندازہ کرنا، کسی شے کو اس کی مثل کی طرف لوٹانا۔ جب کسی ایک شے کے اچھے اور برے دونوں پہلو سامنے رکھ کر ان کا موازنہ کتاب و سنت میں موجود کسی امر شرعی کے ساتھ کیا جائے اور پھر کسی نتیجہ پر پہنچا جائے تو یہ عمل قیاس کہلاتا ہے گویا کسی علت یا سبب کو بنیاد بنا کر کسی سابقہ حکم کی روشنی میں نئے مسائل کا حل نکالنا قیاس ہے۔ جیسے شراب کا حکم قرآن اور سنت میں موجود ہے کہ یہ حرام ہے اور اس کی علت نشہ آور ہونا ہے۔ اب ہیرون یا دیگر نشہ آور اشیاء کو علت مشترکہ کی بنیاد پر شراب کے حکم میں شامل کیا جائے گا۔

یہ اسلامی اصطلاح میں ادلہ اربعہ میں چوتھا اہم اصولی دلیل و ماخذ ہے، جو اکثر اجتہاد پر بھی بولا جاتا ہے۔

قیاس کے ارکان:

قیاس کی تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ قیاس کے چار ارکان ہیں۔ جو یہ ہیں۔ اصل، فرع، حکم اور علت۔

اصل: اسے مقیس علیہ یا مشبہ بہ یا منصوص مسئلہ بھی کہتے ہیں۔ کسی مسئلہ کے بارے میں کوئی حکم جس نص سے ثابت ہو اس نص کو اصل کہتے ہیں۔ یعنی وہ جگہ جہاں حکم پایا جاتا ہے جیسے اوپر دی گئی شراب(خمر) یا بیع کی مثالیں ۔

فرع: اسے مقیس یا مشبہ یا غیر منصوص مسئلہ بھی کہتے ہیں۔ وہ مسئلہ جسے اصل پر قیاس کرکے اس کا حکم معلوم کرنا ہوتا ہے مگر نص سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا قیاس کے طریقہ کار پر عمل کرکے اصل میں جوحکم موجود ہو اس کا اطلاق اس پر کیا جاتا ہے۔ اس کی شرط یہ ہے کہ اس کا موضوع اصل کے موضوع سے مختلف نہ ہو۔جیسے بیع کا قیاس نکاح پر کرنا کیونکہ موضوع میں اختلاف ہونے کے سبب یہ صحیح نہیں۔کیونکہ بیع بھاؤ تاؤ پر اپنی بنیاد رکھتی ہے اور نکاح باہمی احترام اور آسانی پر مبنی ہوتا ہے۔

حکم : اسے حکم شرعی بھی کہتے ہیں۔ جس سے مراد وہ شرعی حکم ہے جو اصل میں آیا ہے۔ اورجسے فرع میں ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جیسے شراب کی حرمت اصل میں آئی ۔ فرع میں جو حکم ثابت ہوتا ہے وہ بذریعہ قیاس ہی ثابت ہوتا ہے جس کی مثال چرس کی حرمت ہے۔ عقائد، رویے اور تہذیب نفس ، ایمان، توکل، انابت، خوف، رجاء، حب اور بغض وغیرہ کا تعلق دل سے ہے اس لئے ان احکام میں قیاس کا دخل نہیں ہوا کرتا اس لئے کہ یہ عملی احکام نہیں۔ نیزجس حکم کی علت کا ادراک ممکن ہو۔ جیسے: حرمت ربا، یا قاتل نے جسے قتل کیا ہے اس کی وراثت سے محروم ہونا۔ ان میں بھی قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ یہ احکام عملی ہیں۔نیز عبادت سے بھی ان کا تعلق ہے۔ اسی کے بارے میں کہا جاتا ہے: لاَ قِیَاسَ فِی الْعِبَادَاتِ۔ عبادات میں قیاس نہیں ہوا کرتا۔

علت: قیاس کا اہم ترین رکن ہے ۔ جس سے مراد اصل اور فرع کے درمیان مشترک وصف کا پایا جانا ہے۔یہی تو وصف ہے جس کی وجہ سے فرع کو اصل کا حکم ملتا ہے۔ اگر یہی وصف یا اس سے مشابہ وصف نئے واقعہ میں موجود ہوتو اسے بھی اصل کے مشابہ سمجھا جائے گا۔ جیسے چرس میں نشہ کا وصف جو شراب اور چرس دونوں میں پایا جاتا ہے۔

قیاس کی شرائط :

قیاس اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک اس میں یہ اہم شرطیں موجود نہ ہوں۔

  • اصل حکم شرعی ہو نہ کہ لغوی۔ کیونکہ لغات میں قیاس نہیں ہوا کرتا۔
  • اصل ثابت ہو منسوخ نہ ہو۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ کسی موقع ومناسبت سے ایک حکم دیا گیا پھر اس مناسبت کے ختم ہونے کے بعد دوسرا حکم آگیا اب یہ اصل ثابت نہیں ہے اس لئے کہ اب موقع ومحل اور ہے اس لئے سابق حکم پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہوگا۔
  • اصل کا حکم کتاب وسنت کی نص سے ثابت ہو یا وہ مجمع علیہ ہو۔
  • حکم اصل کی علت فرع میں پائی جائے اورکسی قسم کا کوئی فارق نہ ہو یا کوئی مانع نہ ہو جو اسے حکم اصلی سے الگ کردے یا اس کے حکم سے ملنے نہ دے۔ اگر علت صرف اصل میں ہی منحصر ہو یا اصل تک ہی محدود ہو اور کسی دوسری چیز میں اس کا وجود ممکن نہ ہو تو اس پر قیاس کرنا منع ہے۔ کیونکہ قیاس کے لئے یہ ضروری ہے کہ حکم کی علت میں فرع اور اصل دونوں شریک ہوں۔
  • قیاس کی ان حدود وشرائط کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے یعنی نص میں حکم کی علت تلاش کرنا ۔ جہاں حکم کی علت نہ ہو وہاں مجتہد کو یہ علت از خود تلاش کرنا پڑتی ہے۔
حجت قیاس:

جمہور علماء کے نزدیک قیاس اصول فقہ کا ایک اہم ستون ہے۔ اسے دلیل وحجت تسلیم کیا جانا چاہئے کیونکہ قرآن وسنت، اقوال صحابہ سے اس کے دلائل ملتے ہیں۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے:

فَاعۡتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الۡاَبۡصَارِ

۔۔.. سو عبرت پکڑو اے آنکھ والو۔​

آپؐ کے قول وعمل ہردو سے قیاس کا حجت ہونا ثابت ہے۔

رسول اللہ کا ارشادِ گرامی ہے:

إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ إِنَّهَامِنْ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَاتِ۔

ترجمہ : کہ بلی کا جھوٹا ناپاک نہیں ہے؛ کیونکہ وہ اُن جانوروں میں سے ہے جن کی گھروں میں کثرت سے آمدورفت رہتی ہے۔ (ابوداؤد، كِتَاب الطَّهَارَةِ، بَاب سُؤْرِ الْهِرَّةِ، حدیث نمبر:68)​

صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کو نماز میں ان کی امامت پر قیاس کیا۔ مانعین زکوۃ کو تارکین صلاۃ پر قیاس کیا۔ شراب پینے پر کیا حد ہو؟ اسے حد قذف پر قیاس کیا کہ یہ بھی بہتان لگانے کے مترادف ہے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ کو قضاء کے بارے میں خط لکھا: پھر اگر کوئی ایسا معاملہ آپ کو پیش آئے جس کا حکم قرآن وسنت میں نہ ملے تو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کیجئے پھر قَایِسِ الأُمُورَ عِنْدَکَ پھر معاملات کو ایک دوسرے پر قیاس کیجئے اور ایک جیسے معاملات پہچانئے۔

پانچواں ماخذ استحسان:

استحسان ایک دلیل کانام ہے جوقیاس کے مخالف ہوتاہے۔ جب یہ قیاس سے اقوٰی ہو تو اسی پر عمل کیا جاتاہے۔ اس کو استحسان اسی لیے کہتے ہیں کہ عموماً یہ قیاس سے اقوٰی ہوتاہے ۔

استحسان کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں:

  • قطع المسئلہ عن نظائرھابما ھو قوی
کسی مسئلہ کو قوی وجہ سے اسکے نظائر سے الگ کر لینا۔

  • العدول عن قیاس الی قیاس اقوی العدل فی مسئلہ عن مثل ما حکم بہ فی نظائرھا ابی خلافۃ بوجہ ھو اقوی
ایک قیاس چھوڑ کر اس سے زیادہ قوی قیاس اختیار کرنا،مسئلہ کے نظائرمیں جو حکم موجود ہے کسی قوی وجہ سے اسکو چھوڑ کر اسکے خلاف حکم لگانا۔

  • اجود تعریف الاستحسان العدول بحکم المسئلہ عن نظائرھا لدلیل الشرعی
استحسان کی سب سے بہتر تعریف یہ ہے کہ کسی مسئلہ کے فیصلے میں اسکے نظائر کو دوسری دلیل شرعی کی بنا پر چھوڑ دینا۔

  • العدول بالمسئلہ عن حکم نظائرھاالی حکم آخر بوجہ اقوی ۔۔۔۔۔۔۔۔ھذالعدول
کسی مسئلہ میں اسکے نظائر سے قطع نظر کر کے کسی دوسرے حکم کو کسی فوری وجہ کی بنا پر دلیل بنا کر کوئی حکم لگانے کو استحسان کہتے ہیں۔

  • الاستحسان طلب السہولہ فی الاحکام فیما یبتلی فیہ الخاص والعام
استحسان ان صورتوں میں سہولت طلب کرتا ہے جن میں خاص و عام سب مبتلا ہیں۔

  • جب کسی مسئلہ میں قیاس سے زیادہ قوی دلیل موجود ہویعنی قرآن یا سنت کی نص یا اجماع تو فقہا نے صریح قیاس ترک کر کے زیادہ قوی دلیل کے مطابق فتوی دیا ہے اور یہی استحسان کا مفہوم ہے۔
  • مسائل کا حل بالعموم قیاس ہی سے حاصل ہوجاتا ہے لیکن بعض دفعہ قیاس اصول عامہ سے ٹکرا جاتا ہے،ایسے میں بعض فقہا اصول عامہ کو اختیار کرتے ہیں اور اسے ہی استحسان کہتے ہیں۔
استحسان کواس مثال سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ امانت کی واپسی کے لیے ضروری ہے وہی مال ہو جو دیا گیا تھا۔اگر ایک شخص ایک ہزار کا نوٹ امانتا دے کر کچھ عرصے بعد واپسی کا تقاضا کرتا ہے تو لازم ہے کہ وہی نوٹ لوٹایا جائے جو ادا کیا گیا تھا،لیکن استحسان یہ ہے کہ کوئی اور نوٹ یا ایک سے زائد نوٹ جن کی مالیت ایک ہزار کے برابر ہو، کی ادائیگی سے امانت ادا ہو جائے گی۔امانت میں استحسان کے اس اصول کے تحت ہی بنک، منی آرڈراور مالیتی اداروں کے دیگر معاملات چلائے جا سکتے ہیں۔

حضرت عمر ؓکے پاس ایک عورت کی میراث کا مسئلہ پیش کیا گیا جس نے اپنے ورثا میں شوہر،والدہ،دو سگے بھائی اور دو ماں شریک بھائی چھوڑے تھے۔قانون وراثت کے مطابق شوہر کونصف،والدہ کو چھٹا اور ماں شریک بھائیوں کو تہائی حصہ ملتا ۔قیاس کے مطابق اس تقسیم کے بعد کچھ نہ بچتا کہ سگے بھائیوں کو دیا جائے جبکہ ان کا رشتہ مضبوط تر تھا۔حضرت عمرؓ نے قیاس ترک کر کے تو سگے بھائیوں کو ماں شریک بھائیوں میں شامل کیا اور ایک تہائی ان سب میں تقسیم کر دیا ۔اسی طرح ترکہ میں پوتے کی وراثت کے بارے میں جو حل پیش کیے گئے وہ سب استحسان پر منبی ہیں۔

چھٹا ماخذ استصلاح یا مصالح مرسلہ:

کسی کی اچھائی کو مدنظر رکھنا ،مصلحت کہلاتا ہے اور مصالح مصلحت سے نکلا ہے۔ماہرین شریعت اسلامیہ کی اصطلاح میں صرف ضرورت اور مصلحت کو بنیاد بنا کر مسائل کا استنباط کرنے کا نام استصلاح یا مصالح مرسلہ ہے۔استصلاح سے مراد قیاس کو چھوڑ کر مصالح مرسلہ اختیار کرنا ۔مصالح مرسلہ سے مراد غیر معین مصلحتیں یعنی جن کا حکم کسی معین نص میں نہ ہو بلکہ قرآن و سنت کے مجموعی تاثر سے ابھرتی ہوں۔ ’’مصالح مرسلہ‘‘ فقہائے مالکیہ کی اصطلاح ہے جبکہ ماہرین فقہ حنبلیہ اسے ’’استصلاح‘‘ کا نام دیتے ہیں ۔

بنا الاحکام الفقیہ علی المقتضی المصالح المرسلہ

مصلح مرسلہ کے اقتضا پر احکام و مسائل کی بنیاد قائم کرنا

والمصالح مرسلہ وھی التی لا یشھد لھا اصل بالاعتبارفی الشرع ولا بالغاء وان کانت علی سنن مصالح وتلقتھا العقول بالقبول

مصالح مرسلہ وہ ہیں جن کے اعتبار کے لیے شریعت کی اصل کوئی شہادت نہ دے اور لغو نہ کرنے کی کوئی شرعی شہادت ہو اگرچہ وہ(بحیثیت عمومی)مصالح کے طریقے پر ہوں اور عقل انہیں قبول کرتی ہو۔

المصالح مرسلہ وھی التی لم یشھد لہا اصل شرعی من نص او اجماع لا بالاعتبار ولا بالالغاء

مصالح مرسلہ وہ ہیں جن کی شرعی کو اصل (نص اور اجماع)شہادت نہ دے نہ لغو قرار دے اور نہ اعتبار کرے۔​

ضرورت اور مصلحت کوبنیاد بنا کر مسائل کا استنباط کرنا استحسان کی نسبت استصلاح میں وسیع پیمانے پرہوتا ہے۔ استحسان خاص ہے جبکہ استصلاح میں عمومیت کا عنصر کثرت سے پایا جاتا ہے۔دوسری نظر سے دیکھا جائے تو استحسان عام ہے کہ اس میں قیاس خفی کا زاویہ نگاہ موجود ہے اور استصلاح خاص ہے کہ اس میں صرف ضرورت و مصلحت کا زاویہ نگاہ کارفرما ہوتا ہے۔یہ اصول قانون ساز سے مطالبہ کرتا ہے کہ معاشرہ کی فلاح و بہبود کو سامنے رکھے اور قرآن و سنت کے دائرے میں رہتے ہوئے افراد معاشرہ پر قلت تکلیف کے اصول کے تحت قانون سازی کرے۔

حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں ایک صاحب ضحاک بن خلیفہ نے مدینہ کی ایک وادی سے نہر نکال کر محمد بن مسلمہ کی زمین سے لے جانا چاہی،محمد بن مسلمہ نے اپنی زمین میں جگہ دینے سے انکار کر دیا،ضحاک نے بہت اسرار کیا لیکن محمد بن مسلمہ نہیں مانے۔ضحاک امیرالمومنین کے پاس گئے،محمد بن مسلمہ کوبلایا گیا، حضرت عمر نے کہا کہ اپنے بھائی کو ایسے کام سے کیوں روکتے ہوجس سے آپ کو بھی فائدہ ہے اورنقصان کسی کا بھی نہیں۔محمد بن مسلمہ بولے اﷲ کی قسم نہیں،ہر گز نہیں،حضرت عمر نے فرمایا اﷲ کی قسم وہ ہر صورت میں نہر گزارے گا خواہ تمہارے شکم سے ہو کر گزرے۔ضحاک نے حسب فیصلہ نہر گزاری۔

مذاہب اسلامی کے ائمہ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ عبادات شرعیہ کی حقیقت تعمیل احکام ہے اور مسائلِ عبادات،دلائلِ شرعیہ سے بالکل عیاں ہیں اور اسی طرح سوائے داؤدظاہری کے تمام ائمہ اس بات پربھی متفق ہیں کہ مسائل و معاملات میں جوعقلی پیمانے استعمال کیے جاتے ہیں وہ مصالح اور رفاہ عامہ پر مبنی ہیں۔جب شرع ان مصالح کا جواز یا عدم جواز نص یا قیاس کے ذریعے سے واضع کر دے تواسکی تعمیل لازم ہے لیکن جب شرع مصالح کے بارے میں خاموشی اختیار کرے یعنی جب دلائل شرعیہ کسی امر کی مصلحت کو واضح نہ کریں تو ہم اس میں مصالح عامہ سے استصواب کر سکتے ہیں۔

ساتواں ماخذ شرائع سابقہ:

پچھلی شریعتوں کے جن احکام کا ذکر قرآن نے کیا ہے اور ان کے منسوخ ہونے پر کوئی قرینہ نہیں، وہ بھی فقہ اسلامی میں حجت تسلیم کیے گئے ہیں۔ مثلا سورۃ النساء میں فرمایا:

وکتبنا علیہم فیھا ان النفس بالنفس والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والجروح قصاص۔

اور ہم نے تورات میں ان پر لازم کیا کہ جان کے بدلے جان ہے، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان اور زخموں کا بھی بدلہ ہے۔ ( سورۃ النساء آیت نمبر10 )​

بعض اہل علم نے مرتد کے لیے قتل کی سزا پر سورۂ بقرہ میں بنو اسرائیل کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ جب انہوں نے بچھڑے کی پوجا کی تو اللہ تعالی نے سزا کے طور پر حکم دیا:

فاقتلوا انفسکم۔

تم اپنے ساتھیوں کو قتل کرو۔​

آٹھواں ماخذ تعامل یا عرف و رواج:

کسی معاشرے کا عرف ورواج اگر شریعت کے منصوص احکام یا اس کے مزاج کے خلاف نہ ہو تو فقہ اسلامی میں وہ قانون سازی کے ایک مستقل ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن مجید نے جن احکام کے ضمن میں معاشرے کے رواج کی پیروی کی ہدایت کی ہے، ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:

  • دیت:
فمن عفی لہ من اخیہ شئی فاتباع بالمعروف واداء الیہ باحسان۔

پس جس کو اپنے بھائی کی طرف سے معافی مل جائے تو وہ دستور کی پیروی کرے اور اچھے طریقے سے اس کو دیت ادا کر دے۔​

  • عورتوں کی خانگی ذمہ داریاں اور حقوق:
ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف۔

دستور کے مطابق ان کے حقوق بھی ہیں اور ذمہ داریاں بھی۔​

  • عورتوں کا نفقہ:
وعلی المولود لہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف۔

بچے کی ماں کا نفقہ اور اس کا کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہے۔​

  • اجرت رضاعت:
لا جناح علیکم اذا سلمتم ما آتیتم بالمعروف۔

تم پر کوئی حرج نہیں (کہ بچے کو کوئی دوسری عورت دودھ پلائے) اگر تم وہ اجرت ان کو دو جو تم نے دستور کے مطابق دینا طے کی ہے۔​

  • بیوہ عورتوں کا حق نکاح :
فلا جناح علیکم فی ما فعلن فی انفسھن بالمعروف۔

تو دستور کے مطابق وہ اپنے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں، اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں۔​

  • مطلقہ عورتوں کے لیے متاع:
وللمطلقات متاع بالمعروف۔

اور مطلقہ عورتوں کو دستور کے مطابق کچھ سامان دے دو۔​

  • یتیم کے سرپرست کااس کے مال میں سے اپنے اوپر خرچ کرنا:
ومن کان فقیرا فلیاکل بالمعروف۔

جو محتاج ہے تو وہ دستور کے مطابق کھا سکتا ہے۔​

  • عورتو ں کا مہر:
وآتوھن اجورھن بالمعروف۔

دستور کے مطابق ان کو ان کے مہر دو۔​

نواں ماخذ سد زرائع:

سد ذرائع کا اصول درحقیقت ان مصالح ہی کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے جن کی شریعت میں رعایت کی گئی ہے۔ ا س کا مطلب ہے ان چیزوں سے بچنا جو کسی پہلو سے شریعت کے معین کردہ مصالح کو نقصان پہنچا سکتی یااس کی حرام کردہ چیزوں کے ارتکاب کا باعث بن سکتی ہیں۔قرآن مجید نے اس اصول کی بھی وضاحت کی ہے اور اسے بہت سے شرعی احکام کی بنیاد کے طور پر بیان کیا ہے:

سورۂ نور میں دوسروں کے گھروں میں داخل ہونے کے متعلق بعض ہدایات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:

ذلکم خیر لکم لعلکم تذکرون۔

یہ تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم یاد دہانی حاصل کرو​

اسی سلسلہ بیان میں آگے لباس کے بارے میں بعض ہدایات دے کر فرمایا:

ذلک ازکی لھم۔

یہ ان کیلیے زیادہ پاکیزہ ہے۔​

قرآن مجید میں بعض ایسے معاملات میں بھی سد ذرائع کے تحت بعض ہدایات دی گئی ہیں جن کا تعلق بنیادی طور پر دین وشریعت سے نہیں بلکہ دیگرانفرادی یا اجتماعی مصلحتوں سے ہے :

سورۃ البقرۃمیں گواہی سے متعلق ہدایات کے ضمن میں ارشاد ہے:

فان لم یکونا رجلین فرجل وامراتین ممن ترضون من الشھداء ان تضل احداھما فتذکر احداھما الاخری۔

اگر گواہی کے لیے دو مرد نہ مل سکیں تو پھر اپنے پسندیدہ گواہوں میں سے ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو تاکہ اگر ایک بھولے تو دوسری اس کو یاد کرا دے۔​

اسی طرح قرآن مجید کے درج ذیل احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ سد ذرائع کے تحت بعض مباح چیزوں کو واجب کیا جا سکتا اور بعض پر پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے:

رسول اللہ ﷺ کی مجالس میں مسلمانوں کو اگر کسی بات کی وضاحت دریافت کرنا ہوتی تو وہ آپ ﷺ کو راعنا (یعنی ہمارا لحاظ کیجئے) کے لفظ سے مخاطب کرتے۔ یہود مدینہ شرارت اور گستاخی کے لیے اسی لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر یوں ادا کرتے راعینا (ہمارا چرواہا) چنانچہ اللہ تعالی نے یہ ہدایت نازل فرمائی کہ مسلمان راعنا کا لفظ ہی استعمال نہ کریں تاکہ یہود کو یہ خباثت کرنے کا موقع نہ مل سکے:

یا ایھا الذین آمنوا لا تقولوا راعنا وقولوا انظرنا۔

اے اہل ایمان، تم راعنا مت کہا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو۔​

دسواں ماخذ استصحاب:

استصحاب حال کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی چیز بوقت نزاع کسی خاص حالت میں موجود ہے تو اس کی اسی حالت کو درست سمجھا اور اسے اسی پر برقرار رکھا جائے گا جب تک کہ اس کے خلاف کوئی دلیل قائم نہ ہو جائے۔ قرآن مجید میں اس اصول کا اطلاق قذف کے مسئلے میں ملتا ہے۔ سورۂ نور میں ارشاد ہے:

والذین یرمون المحصنت ثم لم یاتوا باربعۃ شھداء فاجلدوھم ثمانین جلدۃ۔

اورجو لوگ پاک دامن عورتوں پر الزام لگاتے ہیں پھر اس پر چار گواہ نہیں لاتے تو تم ان کو اسی (۸۰) درے لگاؤ۔​

یعنی چونکہ ان عورتوں کی عام شہرت پاک دامن ہونے کی ہے اور ان کے چال چلن کے بارے میں معاشرے میں کوئی شکوک وشبہات نہیں پائے جاتے، اس لیے قانون کی نظر میں وہ پاک دامن ہی شمار ہوں گی اور اگر کوئی ان پر بدکاری کا الزام لگاتا ہے تو اس کا ثبوت اس کے ذمے ہے اور اس کے لیے اسے چار عینی گواہ پیش کرنا ہوں گے، ورنہ اسے جھوٹا قرار دے کر اس پر قذف کی حد جاری کی جائے گی۔
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
ماشاء اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھی کاوش ہے اگر ساتھ حوالہ جات کا اہتمام کیا جاوے تو مناسب رہے گا ۔
پہلا ماخذ قرآن مجید:

سب ماخذ و مصادر کا مرجع یہاں تک کہ سنت کا مرجع بھی قرآن مجید ہے۔ اللہ تعالی کی کتاب قرآن کریم ہی اصل الاصول ہے اور تشریع اسلامی کے تمام مآخذ اس کی طرف لوٹتے ہیں، شریعت اسلامی کی دلیل اول اور اساسی مآخذ و مصدر قرآن مجید ہے۔ یہ اللہ تعالی کا کلام ہے اور رسول اللہ کی طرف نازل کیا گیا ہے۔

قرآن پاک کی تعریف:

لفظ قرآن ''قرا''، ''یقرا''، '' قرات ''سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی پڑھنے کے بھی ہیں اور ایک چیز کو دوسرے کے ساتھ ملا کر جمع کرنے کےبھی ہیں۔جب ایک حرف کا دوسرے حرف سے ملا کر تلفظ کیا جاۓ تو اس کو قراءت (پڑھنا ) کہتے ہیں۔ قرآن مقروء کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہےاس کا مطلب ہے وہ صحیفہ جو پڑھا جاتا ہے۔ کلام ﷲ کو قرآ ن اس معنی میں کہا جاتا ہے یعنی ''پڑ ھی ہو‏ئی کتاب''۔

قرآن مجید کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں کی گئ ہے ''یہ اﷲ پاک کا وہ معجز کلام ہے جسے حضرت محمدصلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم پر عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے، جو صحیفوں میں لکھا ہوا ہے، جو ہم پر تواتر سے پہنچا ہے۔ اس کی تلاوت عبادت کا درجہ رکھتی ہے ۔ اس کی ابتداء سورۂ فاتحہ سے ہوتی ہے اور اس کا اختتام سورۃالناس پر ہوتا ہے۔

قرآن مجید کے احکام:

قرآن مجید متعدد انواع کے احکام پر مشتمل ہے جن کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

عقائد کے متعلق احکام

اخلاقیات کے بارے میں احکام

مکلفین کے اقوال و افعال سے متعلق عملی احکام

عقائد کے متعلق احکام: عقیدے سے متعلق احکام جیسے اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور قیامت پر ایمان۔ یہ احکام عقائد سے متعلق ہیں۔

اخلاقیات کے بارے میں احکام: وہ احکام جن کا تعلق تہذیب نفس اور انسانی کردار کو سنوارنے سے ہے۔ ان کو اخلاقی احکام کہا جاتا ہے، کیونکہ ان کا تعالق اخلاق سے ہے۔ علم اخلاق یا تصوف میں ان احکام سے متعلق بحث کی جاتی ہے۔

مکلفین کے اقوال و افعال سے متعلق عملی احکام: وہ احکام جن کا تعلق عمل سے ہے، اورعمل میں مکلفین کے اقوال اور افعال دونوں داخل ہیں ۔ اور فقہ سے یہی مقصود ہیں۔ اور فقہ اور اصول فقہ کا مقصد بھی ان سے واقفیت اور ان تک رسائی ہے عمل سے تعلق ان احکام کی دو میں ہیں۔

عادات: جیسے نماز ، روزہ وغیرہ۔ ان کا مقصد فردا تعلق اس کے پروردگار سے قائم کرنا ہے۔

معاملات : عبادات کے علاوہ دوسرے امور جن کو فقہاء کی اصطلاح میں معاملات کہتے ہیں۔ یہ وہ احکام ہیں جو ذاتی (پرائیوٹ لا) اورموی (پبلک لا ) قانون کے دائرہ میں آتے ہیں، جیسا کہ جدید اصطلاح میں ان کو کہا جا تا ہے۔ ان کا مقصد فردا تعلق فرد کے ساتھ یا فردا تعلق جماعت کے ساتھ یا جماعت کا تعلق جماعت کے ساتھ منظم کرنا ہے۔

دوسرا ماخذ سنت:

سنت، قرآن مجید کے بعد فقہ اسلامی کا دوسرا بڑا ماخذ ہے، سنت کے بغیر قرآنی احکام کو نہ پورے طور پر سمجھنا ممکن ہے اور نہ ہی ان پر عمل کرنا ممکن ہے، نیز بہت سے احکام ایسے ہیں جن کے متعلق قرآن خاموش ہے اور وہ احکام رسول کی سنت کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں۔

سنت کی تعریف:

لغت میں سنت کا معنی طریقہ اور عادت ہے جس پر لوگ چلنے کے عادی ہوں اور مداومت اور پابندی کے ساتھ اس پر چلتے ہوں اور ان کا کوئی فعل اس کے تقاضے کے مطابق بار بار کہا جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے:

من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا و اجر من عمل بھا الی یوم القیامۃ، ومن سن سنۃ سیئۃ فعلیہ وزرھا ووزر من عمل بھا الی یوم القیامۃ

جس شخص نے کوئی اچھا طریقہ اختیار کر لیا تو اس کا ثواب اس کے لیے ہے اور قیمت تک اس شخص کا ثواب بھی اس کے لیے ہف جو اس طریقہ پر عمل کریگا اور جو شخص کوئی برا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس کے لیے اور اس شخص کا گناہ بھی قیامت تک اس کے لیے ہے جو اس طریقہ پر عمل کرتا رہے گا۔​

جب لفظ سنت کی نسبت کسی انسان کی طرف کی جاتی ہے تو اس سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے جس کو وہ تمام افعال ہیں جو اس سے صادر ہوتے ہیں لازم سمجھتا ہو اور ان پر مداومت کرتا ہو، اس کا تعلق خواہ ان کاموں سے ہو جن کے سبب اس کی تعریف کی جاتی ہو یا ان سے ہو جن کے سبب اس کا مذمت کی جاتی ہے۔

سنت دین کے اولین مآخذ و مصادر میں شمار ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء اصولین، محدثین اور سیرت نگاروں نے سنت پر مختلف انداز سے بحث کی ہے اور اس کے مفہوم و معانی بیان کیے ہیں، اس پر تمام طبقات امت متفق ہیں کہ سنت دین کے اساسی اور بنیادی مآخذ میں سے ہے۔

تشریعی احکام میں سنت کی حیثیت بطور ماخذ:

سنت مآخذ احکام میں سے ایک ماخذ ہے۔ اس کا ثبوت ہیں قرآن مجید، اجماع اور عقل سے ملتا ہے۔

قرآن مجید سے ثبوت:

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِـيْهِـمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّـٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّـٰهَ هُوَ الْغَنِىُّ الْحَـمِيْدُ (الممتحنۃ 6)

البتہ تمہارے لیے ان میں ایک نیک نمونہ ہے اس کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہو، اور جو کوئی منہ موڑے تو بے شک اللہ بھی بے پروا خوبیوں والا ہے۔ ( سورۃ الممتحنۃ)​

ایک اور جگہ ارشاد ہے:

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْـهَـوٰى (النجم 3)

اور نہ وہ اپنی خواہش سے کچھ کہتا ہے۔

اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰى (النجم 4)

یہ تو وحی ہے جو اس پر آتی ہے۔​

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی اس حیثیت سے قرآن مجید کی طرح ہیں کہ دونوں ماخذ وحی الہی ہے، فرق یہ ہے کہ سنت کے صرف مضمون و معنی وحی کے ذریعہ آپ کو بتلائے جاتے ہیں اور قرآن مجید کے لفظ اور معنی دونوں کو وحی کے ذریعے آپ پر نازل کیا جاتا ہے۔

اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمہ یہ فرض عائد کیا کہ آپ قرآن مجید کے معانی اور مضامین وضاحت سے بیان فرمائیں اور اس کے مجمل احکام کی تشریح کریں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

بِالْـبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ۗ وَاَنْزَلْنَـآ اِلَيْكَ الـذِّكْرَ لِتُـبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْـهِـمْ وَلَعَلَّـهُـمْ يَتَفَكَّـرُوْنَ (النحل 44)

ہم نے انہیں معجزات اور کتابیں دے کر بھیجا تھا، اور ہم نے تیری طرف قرآن نازل کیا تاکہ لوگوں کے لیے واضح کر دے جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے اور تاکہ وہ سوچ لیں۔​

اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان قرآن مجید کے حکم سے استفادہ اور معانی و مضامین کی توضیح و تشریح کے اعتبار سے اس کا تکملہ ہے اور شریعت کے حکم سے استفادہ اور قرآن کا مقصد سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ اس حیثیت سے سنت مآخذ احکام میں سے ایک ماخذ ہے۔

سنت رسول سے ثبوت:

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ قرآن مجید کی عملی شکل اس کے احکام کی عملی تصویر اور اس کے علوم کا عملی پیکر ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی امت کے لیے ایک عملی نمونہ ہے، اللہ تعالی پر ایمان کا ایک معیار ہو یا اس کی اطاعت کا یا اس کا تقوی مقصود ہو، ہر مرحلہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات اور طریق زندگی ہی معیار وحید پاتا ہے حتی کہ عبادات کی مقدار بھی وحی معتبر ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ سے ملتی ہو اس پر اضافہ و کمی کی اجازت نہیں۔

حضرت انس سے روایت ہے کہ تین جماعتیں و عبادات مضمرات کے پاس آئیں اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات و عبادات کے متعلق دریافت کیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات انہیں بتا دئیے گئے تو ان کو انہوں نے اپنے لیے ناکامی خیال کیا اور کہا کہ یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات ہیں ہماری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیا نسبت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو معصوم قرار دیا جا چکا اور مغفرت کی جا چکی ہے ان میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ میں ہمیشہ ساری رات عبادت کرونگا، دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ دن کو روزہ رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا تیسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ عورتوں سے بچوں گا اور کبھی شادی نہیں کرونگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

انتم الذین قلتم کذا و کذا اما واللہ انی لاخشاکم اللہ واتقاکم لہ لکنی اصوم و افظروا اصلی و ارقد و اتزوج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی

تم لوگوں نے اس طرح کہا تھا سنو! میں تم میں سے سب سے زیادہ اللہ کی خشیت اور اس کا تقوی رکھنے والا ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں، افطار بھی کرتا ہوں، عبادت بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، پس جو میری سنت سے احتراز کرے گا وہ میری جماعت سے نہیں۔​

سنت کا ثبوت صحابہ کے عمل سے:

تمام صحابہ کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتباع اور پیروی دل و جان سے زیادہ عزیز تھی، یہی وجہ تھی کہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں شراب کا بہنا اور ایک ہی نماز نصف بیت المقدس کی طرف منہ کر کے اور نصف کعبۃ اللہ کی طرف کر کے پڑھنا اسی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبین مثالیں ہیں اور تمام صحابہ کرام کے بعد سنت ہی کو سب سے بڑا مآخذ سجھتے تھے۔

تیسرا ماخذ اجماع:

قرآن و سنت کے بعد فقہ اسلامی کا تیسرا بنیادی ماخذ ’’اِجماع‘‘ ہے۔ اجماع کا لغوی معنی ہے: پکا ارادہ اور اتفاق۔ اصطلاحی طور پر اس کا معنی ہے : کسی زمانے میں اُمت محمدیہ کے مجتہدین کی رائے کا کسی شرعی مسئلے پر متفق ہو جانا۔ اجماع قرآن و سنت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر نہیں بلکہ ان سے رہنمائی لے کر کیا جاتا ہے اور جب اجماع کو قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ مضبوط کر دیا جائے تو یہ قطعی حکم بن جاتا ہے جس پر عمل کرنا لازم ہو جاتا ہے۔

اجماع کی سب سے زیادہ جامع و مانع تعریف حضرت ابن السبکی ؒ کی ہے :

ھو إتفاق المجتهدي الأمة بعد وفاة محمد صلى الله عليه وسلم في عصر على أي أمر كان۔

یعنی اجماع، امت (محمدیہ) کے مجتہدین کے اس اتفاق کا نام ہے جو حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں کسی بھی امر (بات) پر ہوا ہو۔​

جمہور مسلمین اجماع کی حجیت کے قائل ہیں، اجماع کی حجیت کتاب وسنت سے ثابت ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا

اے ایمان والو! حکم مانو اللہ (تعالٰیٰ) کا اور حکم مانو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اور اولولاَمر کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے لوٹاؤ اللہ (تعالٰیٰ) اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام۔(سورہ-النساء:59)

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی اجماع کا ثبوت ملتا ہے:

آپ صلى الله عليہ وسلم کا ارشاد ہے :

"عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ"۔

ترجمہ:حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:اللہ تعالٰیٰ میری امت کو یا (راوی نے کہا) کہ محمد صلى الله عليه وسلم کی اُمت کو ضلالت وگمراہی پر مجتمع نہیں کریگا۔(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:2093 )​

چوتھا ماخذقیاس:

قیاس کا لغوی معنی ہے : اندازہ کرنا، کسی شے کو اس کی مثل کی طرف لوٹانا۔ جب کسی ایک شے کے اچھے اور برے دونوں پہلو سامنے رکھ کر ان کا موازنہ کتاب و سنت میں موجود کسی امر شرعی کے ساتھ کیا جائے اور پھر کسی نتیجہ پر پہنچا جائے تو یہ عمل قیاس کہلاتا ہے گویا کسی علت یا سبب کو بنیاد بنا کر کسی سابقہ حکم کی روشنی میں نئے مسائل کا حل نکالنا قیاس ہے۔ جیسے شراب کا حکم قرآن اور سنت میں موجود ہے کہ یہ حرام ہے اور اس کی علت نشہ آور ہونا ہے۔ اب ہیرون یا دیگر نشہ آور اشیاء کو علت مشترکہ کی بنیاد پر شراب کے حکم میں شامل کیا جائے گا۔

یہ اسلامی اصطلاح میں ادلہ اربعہ میں چوتھا اہم اصولی دلیل و ماخذ ہے، جو اکثر اجتہاد پر بھی بولا جاتا ہے۔

قیاس کے ارکان:

قیاس کی تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ قیاس کے چار ارکان ہیں۔ جو یہ ہیں۔ اصل، فرع، حکم اور علت۔

اصل: اسے مقیس علیہ یا مشبہ بہ یا منصوص مسئلہ بھی کہتے ہیں۔ کسی مسئلہ کے بارے میں کوئی حکم جس نص سے ثابت ہو اس نص کو اصل کہتے ہیں۔ یعنی وہ جگہ جہاں حکم پایا جاتا ہے جیسے اوپر دی گئی شراب(خمر) یا بیع کی مثالیں ۔

فرع: اسے مقیس یا مشبہ یا غیر منصوص مسئلہ بھی کہتے ہیں۔ وہ مسئلہ جسے اصل پر قیاس کرکے اس کا حکم معلوم کرنا ہوتا ہے مگر نص سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا قیاس کے طریقہ کار پر عمل کرکے اصل میں جوحکم موجود ہو اس کا اطلاق اس پر کیا جاتا ہے۔ اس کی شرط یہ ہے کہ اس کا موضوع اصل کے موضوع سے مختلف نہ ہو۔جیسے بیع کا قیاس نکاح پر کرنا کیونکہ موضوع میں اختلاف ہونے کے سبب یہ صحیح نہیں۔کیونکہ بیع بھاؤ تاؤ پر اپنی بنیاد رکھتی ہے اور نکاح باہمی احترام اور آسانی پر مبنی ہوتا ہے۔

حکم : اسے حکم شرعی بھی کہتے ہیں۔ جس سے مراد وہ شرعی حکم ہے جو اصل میں آیا ہے۔ اورجسے فرع میں ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جیسے شراب کی حرمت اصل میں آئی ۔ فرع میں جو حکم ثابت ہوتا ہے وہ بذریعہ قیاس ہی ثابت ہوتا ہے جس کی مثال چرس کی حرمت ہے۔ عقائد، رویے اور تہذیب نفس ، ایمان، توکل، انابت، خوف، رجاء، حب اور بغض وغیرہ کا تعلق دل سے ہے اس لئے ان احکام میں قیاس کا دخل نہیں ہوا کرتا اس لئے کہ یہ عملی احکام نہیں۔ نیزجس حکم کی علت کا ادراک ممکن ہو۔ جیسے: حرمت ربا، یا قاتل نے جسے قتل کیا ہے اس کی وراثت سے محروم ہونا۔ ان میں بھی قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ یہ احکام عملی ہیں۔نیز عبادت سے بھی ان کا تعلق ہے۔ اسی کے بارے میں کہا جاتا ہے: لاَ قِیَاسَ فِی الْعِبَادَاتِ۔ عبادات میں قیاس نہیں ہوا کرتا۔

علت: قیاس کا اہم ترین رکن ہے ۔ جس سے مراد اصل اور فرع کے درمیان مشترک وصف کا پایا جانا ہے۔یہی تو وصف ہے جس کی وجہ سے فرع کو اصل کا حکم ملتا ہے۔ اگر یہی وصف یا اس سے مشابہ وصف نئے واقعہ میں موجود ہوتو اسے بھی اصل کے مشابہ سمجھا جائے گا۔ جیسے چرس میں نشہ کا وصف جو شراب اور چرس دونوں میں پایا جاتا ہے۔

قیاس کی شرائط :

قیاس اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک اس میں یہ اہم شرطیں موجود نہ ہوں۔

  • اصل حکم شرعی ہو نہ کہ لغوی۔ کیونکہ لغات میں قیاس نہیں ہوا کرتا۔
  • اصل ثابت ہو منسوخ نہ ہو۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ کسی موقع ومناسبت سے ایک حکم دیا گیا پھر اس مناسبت کے ختم ہونے کے بعد دوسرا حکم آگیا اب یہ اصل ثابت نہیں ہے اس لئے کہ اب موقع ومحل اور ہے اس لئے سابق حکم پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہوگا۔
  • اصل کا حکم کتاب وسنت کی نص سے ثابت ہو یا وہ مجمع علیہ ہو۔
  • حکم اصل کی علت فرع میں پائی جائے اورکسی قسم کا کوئی فارق نہ ہو یا کوئی مانع نہ ہو جو اسے حکم اصلی سے الگ کردے یا اس کے حکم سے ملنے نہ دے۔ اگر علت صرف اصل میں ہی منحصر ہو یا اصل تک ہی محدود ہو اور کسی دوسری چیز میں اس کا وجود ممکن نہ ہو تو اس پر قیاس کرنا منع ہے۔ کیونکہ قیاس کے لئے یہ ضروری ہے کہ حکم کی علت میں فرع اور اصل دونوں شریک ہوں۔
  • قیاس کی ان حدود وشرائط کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے یعنی نص میں حکم کی علت تلاش کرنا ۔ جہاں حکم کی علت نہ ہو وہاں مجتہد کو یہ علت از خود تلاش کرنا پڑتی ہے۔
حجت قیاس:

جمہور علماء کے نزدیک قیاس اصول فقہ کا ایک اہم ستون ہے۔ اسے دلیل وحجت تسلیم کیا جانا چاہئے کیونکہ قرآن وسنت، اقوال صحابہ سے اس کے دلائل ملتے ہیں۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے:

فَاعۡتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الۡاَبۡصَارِ

۔۔.. سو عبرت پکڑو اے آنکھ والو۔​

آپؐ کے قول وعمل ہردو سے قیاس کا حجت ہونا ثابت ہے۔

رسول اللہ کا ارشادِ گرامی ہے:

إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ إِنَّهَامِنْ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَاتِ۔

ترجمہ : کہ بلی کا جھوٹا ناپاک نہیں ہے؛ کیونکہ وہ اُن جانوروں میں سے ہے جن کی گھروں میں کثرت سے آمدورفت رہتی ہے۔ (ابوداؤد، كِتَاب الطَّهَارَةِ، بَاب سُؤْرِ الْهِرَّةِ، حدیث نمبر:68)​

صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کو نماز میں ان کی امامت پر قیاس کیا۔ مانعین زکوۃ کو تارکین صلاۃ پر قیاس کیا۔ شراب پینے پر کیا حد ہو؟ اسے حد قذف پر قیاس کیا کہ یہ بھی بہتان لگانے کے مترادف ہے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ کو قضاء کے بارے میں خط لکھا: پھر اگر کوئی ایسا معاملہ آپ کو پیش آئے جس کا حکم قرآن وسنت میں نہ ملے تو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کیجئے پھر قَایِسِ الأُمُورَ عِنْدَکَ پھر معاملات کو ایک دوسرے پر قیاس کیجئے اور ایک جیسے معاملات پہچانئے۔

پانچواں ماخذ استحسان:

استحسان ایک دلیل کانام ہے جوقیاس کے مخالف ہوتاہے۔ جب یہ قیاس سے اقوٰی ہو تو اسی پر عمل کیا جاتاہے۔ اس کو استحسان اسی لیے کہتے ہیں کہ عموماً یہ قیاس سے اقوٰی ہوتاہے ۔

استحسان کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں:

  • قطع المسئلہ عن نظائرھابما ھو قوی
کسی مسئلہ کو قوی وجہ سے اسکے نظائر سے الگ کر لینا۔

  • العدول عن قیاس الی قیاس اقوی العدل فی مسئلہ عن مثل ما حکم بہ فی نظائرھا ابی خلافۃ بوجہ ھو اقوی
ایک قیاس چھوڑ کر اس سے زیادہ قوی قیاس اختیار کرنا،مسئلہ کے نظائرمیں جو حکم موجود ہے کسی قوی وجہ سے اسکو چھوڑ کر اسکے خلاف حکم لگانا۔

  • اجود تعریف الاستحسان العدول بحکم المسئلہ عن نظائرھا لدلیل الشرعی
استحسان کی سب سے بہتر تعریف یہ ہے کہ کسی مسئلہ کے فیصلے میں اسکے نظائر کو دوسری دلیل شرعی کی بنا پر چھوڑ دینا۔

  • العدول بالمسئلہ عن حکم نظائرھاالی حکم آخر بوجہ اقوی ۔۔۔۔۔۔۔۔ھذالعدول
کسی مسئلہ میں اسکے نظائر سے قطع نظر کر کے کسی دوسرے حکم کو کسی فوری وجہ کی بنا پر دلیل بنا کر کوئی حکم لگانے کو استحسان کہتے ہیں۔

  • الاستحسان طلب السہولہ فی الاحکام فیما یبتلی فیہ الخاص والعام
استحسان ان صورتوں میں سہولت طلب کرتا ہے جن میں خاص و عام سب مبتلا ہیں۔

  • جب کسی مسئلہ میں قیاس سے زیادہ قوی دلیل موجود ہویعنی قرآن یا سنت کی نص یا اجماع تو فقہا نے صریح قیاس ترک کر کے زیادہ قوی دلیل کے مطابق فتوی دیا ہے اور یہی استحسان کا مفہوم ہے۔
  • مسائل کا حل بالعموم قیاس ہی سے حاصل ہوجاتا ہے لیکن بعض دفعہ قیاس اصول عامہ سے ٹکرا جاتا ہے،ایسے میں بعض فقہا اصول عامہ کو اختیار کرتے ہیں اور اسے ہی استحسان کہتے ہیں۔
استحسان کواس مثال سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ امانت کی واپسی کے لیے ضروری ہے وہی مال ہو جو دیا گیا تھا۔اگر ایک شخص ایک ہزار کا نوٹ امانتا دے کر کچھ عرصے بعد واپسی کا تقاضا کرتا ہے تو لازم ہے کہ وہی نوٹ لوٹایا جائے جو ادا کیا گیا تھا،لیکن استحسان یہ ہے کہ کوئی اور نوٹ یا ایک سے زائد نوٹ جن کی مالیت ایک ہزار کے برابر ہو، کی ادائیگی سے امانت ادا ہو جائے گی۔امانت میں استحسان کے اس اصول کے تحت ہی بنک، منی آرڈراور مالیتی اداروں کے دیگر معاملات چلائے جا سکتے ہیں۔

حضرت عمر ؓکے پاس ایک عورت کی میراث کا مسئلہ پیش کیا گیا جس نے اپنے ورثا میں شوہر،والدہ،دو سگے بھائی اور دو ماں شریک بھائی چھوڑے تھے۔قانون وراثت کے مطابق شوہر کونصف،والدہ کو چھٹا اور ماں شریک بھائیوں کو تہائی حصہ ملتا ۔قیاس کے مطابق اس تقسیم کے بعد کچھ نہ بچتا کہ سگے بھائیوں کو دیا جائے جبکہ ان کا رشتہ مضبوط تر تھا۔حضرت عمرؓ نے قیاس ترک کر کے تو سگے بھائیوں کو ماں شریک بھائیوں میں شامل کیا اور ایک تہائی ان سب میں تقسیم کر دیا ۔اسی طرح ترکہ میں پوتے کی وراثت کے بارے میں جو حل پیش کیے گئے وہ سب استحسان پر منبی ہیں۔

چھٹا ماخذ استصلاح یا مصالح مرسلہ:

کسی کی اچھائی کو مدنظر رکھنا ،مصلحت کہلاتا ہے اور مصالح مصلحت سے نکلا ہے۔ماہرین شریعت اسلامیہ کی اصطلاح میں صرف ضرورت اور مصلحت کو بنیاد بنا کر مسائل کا استنباط کرنے کا نام استصلاح یا مصالح مرسلہ ہے۔استصلاح سے مراد قیاس کو چھوڑ کر مصالح مرسلہ اختیار کرنا ۔مصالح مرسلہ سے مراد غیر معین مصلحتیں یعنی جن کا حکم کسی معین نص میں نہ ہو بلکہ قرآن و سنت کے مجموعی تاثر سے ابھرتی ہوں۔ ’’مصالح مرسلہ‘‘ فقہائے مالکیہ کی اصطلاح ہے جبکہ ماہرین فقہ حنبلیہ اسے ’’استصلاح‘‘ کا نام دیتے ہیں ۔

بنا الاحکام الفقیہ علی المقتضی المصالح المرسلہ

مصلح مرسلہ کے اقتضا پر احکام و مسائل کی بنیاد قائم کرنا

والمصالح مرسلہ وھی التی لا یشھد لھا اصل بالاعتبارفی الشرع ولا بالغاء وان کانت علی سنن مصالح وتلقتھا العقول بالقبول

مصالح مرسلہ وہ ہیں جن کے اعتبار کے لیے شریعت کی اصل کوئی شہادت نہ دے اور لغو نہ کرنے کی کوئی شرعی شہادت ہو اگرچہ وہ(بحیثیت عمومی)مصالح کے طریقے پر ہوں اور عقل انہیں قبول کرتی ہو۔

المصالح مرسلہ وھی التی لم یشھد لہا اصل شرعی من نص او اجماع لا بالاعتبار ولا بالالغاء

مصالح مرسلہ وہ ہیں جن کی شرعی کو اصل (نص اور اجماع)شہادت نہ دے نہ لغو قرار دے اور نہ اعتبار کرے۔​

ضرورت اور مصلحت کوبنیاد بنا کر مسائل کا استنباط کرنا استحسان کی نسبت استصلاح میں وسیع پیمانے پرہوتا ہے۔ استحسان خاص ہے جبکہ استصلاح میں عمومیت کا عنصر کثرت سے پایا جاتا ہے۔دوسری نظر سے دیکھا جائے تو استحسان عام ہے کہ اس میں قیاس خفی کا زاویہ نگاہ موجود ہے اور استصلاح خاص ہے کہ اس میں صرف ضرورت و مصلحت کا زاویہ نگاہ کارفرما ہوتا ہے۔یہ اصول قانون ساز سے مطالبہ کرتا ہے کہ معاشرہ کی فلاح و بہبود کو سامنے رکھے اور قرآن و سنت کے دائرے میں رہتے ہوئے افراد معاشرہ پر قلت تکلیف کے اصول کے تحت قانون سازی کرے۔

حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں ایک صاحب ضحاک بن خلیفہ نے مدینہ کی ایک وادی سے نہر نکال کر محمد بن مسلمہ کی زمین سے لے جانا چاہی،محمد بن مسلمہ نے اپنی زمین میں جگہ دینے سے انکار کر دیا،ضحاک نے بہت اسرار کیا لیکن محمد بن مسلمہ نہیں مانے۔ضحاک امیرالمومنین کے پاس گئے،محمد بن مسلمہ کوبلایا گیا، حضرت عمر نے کہا کہ اپنے بھائی کو ایسے کام سے کیوں روکتے ہوجس سے آپ کو بھی فائدہ ہے اورنقصان کسی کا بھی نہیں۔محمد بن مسلمہ بولے اﷲ کی قسم نہیں،ہر گز نہیں،حضرت عمر نے فرمایا اﷲ کی قسم وہ ہر صورت میں نہر گزارے گا خواہ تمہارے شکم سے ہو کر گزرے۔ضحاک نے حسب فیصلہ نہر گزاری۔

مذاہب اسلامی کے ائمہ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ عبادات شرعیہ کی حقیقت تعمیل احکام ہے اور مسائلِ عبادات،دلائلِ شرعیہ سے بالکل عیاں ہیں اور اسی طرح سوائے داؤدظاہری کے تمام ائمہ اس بات پربھی متفق ہیں کہ مسائل و معاملات میں جوعقلی پیمانے استعمال کیے جاتے ہیں وہ مصالح اور رفاہ عامہ پر مبنی ہیں۔جب شرع ان مصالح کا جواز یا عدم جواز نص یا قیاس کے ذریعے سے واضع کر دے تواسکی تعمیل لازم ہے لیکن جب شرع مصالح کے بارے میں خاموشی اختیار کرے یعنی جب دلائل شرعیہ کسی امر کی مصلحت کو واضح نہ کریں تو ہم اس میں مصالح عامہ سے استصواب کر سکتے ہیں۔

ساتواں ماخذ شرائع سابقہ:

پچھلی شریعتوں کے جن احکام کا ذکر قرآن نے کیا ہے اور ان کے منسوخ ہونے پر کوئی قرینہ نہیں، وہ بھی فقہ اسلامی میں حجت تسلیم کیے گئے ہیں۔ مثلا سورۃ النساء میں فرمایا:

وکتبنا علیہم فیھا ان النفس بالنفس والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والجروح قصاص۔

اور ہم نے تورات میں ان پر لازم کیا کہ جان کے بدلے جان ہے، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان اور زخموں کا بھی بدلہ ہے۔ ( سورۃ النساء آیت نمبر10 )​

بعض اہل علم نے مرتد کے لیے قتل کی سزا پر سورۂ بقرہ میں بنو اسرائیل کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ جب انہوں نے بچھڑے کی پوجا کی تو اللہ تعالی نے سزا کے طور پر حکم دیا:

فاقتلوا انفسکم۔

تم اپنے ساتھیوں کو قتل کرو۔​

آٹھواں ماخذ تعامل یا عرف و رواج:

کسی معاشرے کا عرف ورواج اگر شریعت کے منصوص احکام یا اس کے مزاج کے خلاف نہ ہو تو فقہ اسلامی میں وہ قانون سازی کے ایک مستقل ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن مجید نے جن احکام کے ضمن میں معاشرے کے رواج کی پیروی کی ہدایت کی ہے، ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:

  • دیت:
فمن عفی لہ من اخیہ شئی فاتباع بالمعروف واداء الیہ باحسان۔

پس جس کو اپنے بھائی کی طرف سے معافی مل جائے تو وہ دستور کی پیروی کرے اور اچھے طریقے سے اس کو دیت ادا کر دے۔​

  • عورتوں کی خانگی ذمہ داریاں اور حقوق:
ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف۔

دستور کے مطابق ان کے حقوق بھی ہیں اور ذمہ داریاں بھی۔​

  • عورتوں کا نفقہ:
وعلی المولود لہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف۔

بچے کی ماں کا نفقہ اور اس کا کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہے۔​

  • اجرت رضاعت:
لا جناح علیکم اذا سلمتم ما آتیتم بالمعروف۔

تم پر کوئی حرج نہیں (کہ بچے کو کوئی دوسری عورت دودھ پلائے) اگر تم وہ اجرت ان کو دو جو تم نے دستور کے مطابق دینا طے کی ہے۔​

  • بیوہ عورتوں کا حق نکاح :
فلا جناح علیکم فی ما فعلن فی انفسھن بالمعروف۔

تو دستور کے مطابق وہ اپنے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں، اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں۔​

  • مطلقہ عورتوں کے لیے متاع:
وللمطلقات متاع بالمعروف۔

اور مطلقہ عورتوں کو دستور کے مطابق کچھ سامان دے دو۔​

  • یتیم کے سرپرست کااس کے مال میں سے اپنے اوپر خرچ کرنا:
ومن کان فقیرا فلیاکل بالمعروف۔

جو محتاج ہے تو وہ دستور کے مطابق کھا سکتا ہے۔​

  • عورتو ں کا مہر:
وآتوھن اجورھن بالمعروف۔

دستور کے مطابق ان کو ان کے مہر دو۔​

نواں ماخذ سد زرائع:

سد ذرائع کا اصول درحقیقت ان مصالح ہی کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے جن کی شریعت میں رعایت کی گئی ہے۔ ا س کا مطلب ہے ان چیزوں سے بچنا جو کسی پہلو سے شریعت کے معین کردہ مصالح کو نقصان پہنچا سکتی یااس کی حرام کردہ چیزوں کے ارتکاب کا باعث بن سکتی ہیں۔قرآن مجید نے اس اصول کی بھی وضاحت کی ہے اور اسے بہت سے شرعی احکام کی بنیاد کے طور پر بیان کیا ہے:

سورۂ نور میں دوسروں کے گھروں میں داخل ہونے کے متعلق بعض ہدایات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:

ذلکم خیر لکم لعلکم تذکرون۔

یہ تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم یاد دہانی حاصل کرو​

اسی سلسلہ بیان میں آگے لباس کے بارے میں بعض ہدایات دے کر فرمایا:

ذلک ازکی لھم۔

یہ ان کیلیے زیادہ پاکیزہ ہے۔​

قرآن مجید میں بعض ایسے معاملات میں بھی سد ذرائع کے تحت بعض ہدایات دی گئی ہیں جن کا تعلق بنیادی طور پر دین وشریعت سے نہیں بلکہ دیگرانفرادی یا اجتماعی مصلحتوں سے ہے :

سورۃ البقرۃمیں گواہی سے متعلق ہدایات کے ضمن میں ارشاد ہے:

فان لم یکونا رجلین فرجل وامراتین ممن ترضون من الشھداء ان تضل احداھما فتذکر احداھما الاخری۔

اگر گواہی کے لیے دو مرد نہ مل سکیں تو پھر اپنے پسندیدہ گواہوں میں سے ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو تاکہ اگر ایک بھولے تو دوسری اس کو یاد کرا دے۔​

اسی طرح قرآن مجید کے درج ذیل احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ سد ذرائع کے تحت بعض مباح چیزوں کو واجب کیا جا سکتا اور بعض پر پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے:

رسول اللہ ﷺ کی مجالس میں مسلمانوں کو اگر کسی بات کی وضاحت دریافت کرنا ہوتی تو وہ آپ ﷺ کو راعنا (یعنی ہمارا لحاظ کیجئے) کے لفظ سے مخاطب کرتے۔ یہود مدینہ شرارت اور گستاخی کے لیے اسی لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر یوں ادا کرتے راعینا (ہمارا چرواہا) چنانچہ اللہ تعالی نے یہ ہدایت نازل فرمائی کہ مسلمان راعنا کا لفظ ہی استعمال نہ کریں تاکہ یہود کو یہ خباثت کرنے کا موقع نہ مل سکے:

یا ایھا الذین آمنوا لا تقولوا راعنا وقولوا انظرنا۔

اے اہل ایمان، تم راعنا مت کہا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو۔​

دسواں ماخذ استصحاب:

استصحاب حال کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی چیز بوقت نزاع کسی خاص حالت میں موجود ہے تو اس کی اسی حالت کو درست سمجھا اور اسے اسی پر برقرار رکھا جائے گا جب تک کہ اس کے خلاف کوئی دلیل قائم نہ ہو جائے۔ قرآن مجید میں اس اصول کا اطلاق قذف کے مسئلے میں ملتا ہے۔ سورۂ نور میں ارشاد ہے:

والذین یرمون المحصنت ثم لم یاتوا باربعۃ شھداء فاجلدوھم ثمانین جلدۃ۔

اورجو لوگ پاک دامن عورتوں پر الزام لگاتے ہیں پھر اس پر چار گواہ نہیں لاتے تو تم ان کو اسی (۸۰) درے لگاؤ۔​

یعنی چونکہ ان عورتوں کی عام شہرت پاک دامن ہونے کی ہے اور ان کے چال چلن کے بارے میں معاشرے میں کوئی شکوک وشبہات نہیں پائے جاتے، اس لیے قانون کی نظر میں وہ پاک دامن ہی شمار ہوں گی اور اگر کوئی ان پر بدکاری کا الزام لگاتا ہے تو اس کا ثبوت اس کے ذمے ہے اور اس کے لیے اسے چار عینی گواہ پیش کرنا ہوں گے، ورنہ اسے جھوٹا قرار دے کر اس پر قذف کی حد جاری کی جائے گی۔
 
Top