فقہ میں "امر" کیا ہے؟

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
امر کی تعریف:

اللفظ الوضوع لطلب الفعل علی سبیل الاستعلاء

امر ایسا لفظ ہے جو کسی فعل کے کرنے کے مطالبہ کے لیے وضع کیا گیا ہو، اور اس مطالبہ میں بر تری و بالادستی پائی جاتی ہو۔​

امر کی اس تعریف میں دو باتیں توجہ طلب ہیں۔

1) امر کی تعریف میں علی سبیل الاستعلاء کی قید ہے۔ یہ قید اس بات کو بتلاتی ہے کہ حکم دینے والے کا حقیقت میں بالادست ہونا شرط نہیں ہے، بلکہ شرط یہ ہے کہ وہ خود کو بالادست سمجھتا ہو۔ خواہ فی الواقع بالادست ہو یا نہ ہو۔

2) علمائے اصول کا اس پر اتفاق ہے کہ امر اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوتا ہے، اور اس سے مراد وہ خصوصی قول ہے جو حکم کے لیے ہو۔ البتہ فقہاء کے درمیان اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ قول کے علاوہ فعل میں امر کا استعمال حقیقت ہے یا مجاز؟ بعض فقہاء کے نزدیک فعل مین بھی امر کا استعمال حقیقت ہے جبکہ جمہور فقہاء کا کہنا ہے کہ امر مجازا فعل کو بھی کہتے ہیں۔

کام کرنے کا مطالبہ کرنا:

کسی کام کے کرنے کا مطالبہ کئی طرح سے ہوتا ہے جن میں سے چند صورتیں حسب ذیل ہیں:

1) فعل امر:

جیسے:

أَقِمِ الصَّلاةَ

نماز قائم کرو۔ (الإسراء:78)

اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُم

اپنے رب سے بخشش طلب کرو۔ ( سورۃ نوح آیت:10 )

يا أَيهَا النَّبِي جَاهِدِ الكُفَّارَ وَالمُنَافِقِينَ

اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے۔ (التوبة:73)​

2) مضارع مجزوم بلام امر:

جیسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:

ثُمَّ لْيقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيطَّوَّفُوا بِالْبَيتِ الْعَتِيقِ

پھر وه اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں۔ (الحج:29)​

3) اسم فعل بمعنی امر:

جیسے اللہ رب العالمین کا یہ فرمان ہے:

يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيكُمْ أَنْفُسَكُمْ

اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو۔ (المائدة:105 )​

4) فعل امر کا نائب مصدر:

جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

فَضَرْبَ الرِّقَابِ

تو ان کی گردنیں مارو۔ (محمد:4 )​

امر کے صیغوں کا فائدہ دینے والے چند مزید صیغ:

امر کے اصلی صیغوں کا بیان پیچھے گزرچکا ہے ۔ کچھ اور بھی ایسے صیغے ہیں جو کسی چیز کے حکم اور اس کے پیدا کرنے کی طلب پر دلالت کرتے ہیں۔ وہ صیغ یہ ہیں:

  • امرکے لفظ کے ساتھ وضاحت ہو، جیسے: آمركم، وأمرتكم، أنتم مأمورون میں تمہیں حکم دیتا ہوں، میں نے تمہیں حکم دیا تھا، تمہیں حکم دیا گیا تھا وغیرہ۔
  • فرض یا لکھے جانے کی وضاحت کا ہونا۔
  • کسی کام کے واجب ہونے کی صراحت کا ہونا۔
  • حق علی العباد و علی المؤمنین (بندوں اور مؤمنوں پر کام کرنا واجب ہے) کے الفاظ کا ہونا۔
  • اسی طرح جن کاموں کے چھوڑنے پر مذمت بیان کی گئی ہو اور سزا کا مستحق ٹھہرایا گیا ہو یا پھر اعمال کے برباد ہونے کی خبر سنائی گئی ہو۔
امر کے معنی میں فقہاء کا اختلاف:

امر چونکہ بہت سے معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے اس بات میں اختلاف ہے کہ امر کی حقیقی مراد کیا ہے؟ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب کوئی ایسا قرینہ موجود نہ ہو جو یہ بتلاتا ہو، کہ اس مقام پر امر کے کون سے معنی مراد لیے جائیں گے؟ ایسی صورت میں فقہاء کے درمیان اس امر کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ امر کا صیغہ کس معنی کے لیے وضع کیا گیا ہے؟

اس بات پر تو تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ امر کا صیغہ حقیقت میں بہت سے معنی کے لیے وضع نہیں کیا گياہے، لہذا وجوب، استحباب و اباحت اور ندب کے علاوہ دیگر معانی کے لیے امر کا استعمال مجازی ہوگا۔ لیکن فقہاء کے درمیان ان تین وجوب، استحباب و اباحت اور ندب کے معانی کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ امر کا صیغہ اصل کے اعتبار سے ان تینوں معانی کو بتلانے کے لیے وضع کیا گیا ہے؟ یا دو معانی کے لیے وضع کیا گیا ہے؟ یا ان تینوں میں سے کسی ایک خاص معنی کے لیے وضع کیا گیا ہے۔

1) بعض فقہاء یہ کہتے ہیں کہ لفظی اشتراک کی وجہ سے امران ان تینوں (وجوب، استحباب و اباحت اور ندب) معانی کے لیے مشترک ہے۔ اس لیے امر سے جو معنی مراد ہیں وہ اس وقت تک واضح نہیں ہوتا جب تک کوئی مرجح موجود نہ ہو، جیسا کہ لفظ مشترک میں ہوتا ہے۔

2) فقہاء کی دوسری جماعت کی تحقیق یہ ہے کہ امر ایجاب اور استحباب کے درمیان مشترک ہے اور اشتراک لفظی ہے اس لیے ان دونوں میں سے ایک کی تعین کے لیے کسی مرجح کا ہونا ضروری ہے۔

3) امام غزالی اور بعض دیگر فقہاء کی رائے یہ ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ امر کے حقیقی معنی صرف وجوب کے ہیں، یا صرف استحباب کے ہیں یا وہ ان دونوں معانی کے میں مشترک ہے۔ ان فقہاء کے نزدیک قرینہ کے بغیر صیغہ امر کے کسی معنی کے بارے میں کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ لہذا اس وقت تک توقف کرنا چاہیے جب تک واضح نہ ہو جائے کہ اس مقام پر امر سے کون سا معنی مطلوب ہے کیونکہ یہ مجمل کی طرح ہے، اس لیے اس میں بیک وقت اکٹھے ہوگئے ہیں۔

4) عام فقہاء کا نقطہ نظریہ یہ کہ امر حقیقت مین کسی ایک خاص معنی کے لیے ہی مستعمل ہے۔ اس میں دوسرے معنی کا نہ اشتراک ہے اور نہ اجمال۔ یعنی امر اپنی اصل ساخت و بناوٹ کے لحاظ سے ان تینوں معانی میں سے صرف ایک ہی معنی کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ اس ایک معنی پر امر کی دلالت حقیقت ہو گی اور بقیہ معانی میں امر کا استعمال مجازی ہو گا۔

امر مطلق:

وہ امر جس میں کسی قرینہ یا دلیل سے یہ معلوم نہ ہو کہ اس پر عمل کرنا ضروری ہے یا نہیں امر مطلق کہلاتا ہے۔

امر مطلق کا حکم:

جب تک اس امر مطلق کے خلاف کوئی دلیل قائم نہ ہو اس پر عمل کرنا واجب ہے۔

مامور بہ کی اقسام با اعتبار وقت:

جس چیزکا حکم دیا جائے وہ ’’مامور بہ‘‘ ہے۔

مامور بہ کی دو قسمیں ہیں :

1) مطلق عن الوقت

2) مقید با لوقت

1) مطلق عن الوقت: ایسا مامور بہ جس کی ادا ئیگی کے لیے شریعت نے کوئی وقت متعین نہ کیا ہو کہ وقت چلے جانے سے وہ حکم بھی چلا جائے ۔ جیسے کہ زکاۃ، صد قۂ فطر۔

شریعت نے حکم دیا ہے کہ زکاۃ اداکرو ،تویہ زکوٰۃ ’’ماموربہ ‘‘ ہے اور کب ادا کرو کوئی وقت شریعت نے متعین نہیں کیا ہے تو وقت کی قید سے آزاد ہوا، لہٰذا مطلق عن الوقت ہے، اب عمر کے جس مرحلے میں بھی زکوۃ دیں وہ ادا کہلائے گی قضا نہیں ۔ایسے ہی صدقۂ فطر ہے ۔

2) مقید بالوقت :ایساماموربہ جس کی ادا ئیگی کے لیے شریعت نے وقت مقرر کیا ہو وہ ’’مقید بالوقت‘‘ ہے ۔

مثا ل : پنج وقتہ نمازیں ، رمضان کے روزے، حج بیت اللہ ۔

تشریح :دن بھرکی پانچ نمازوں کااللہ نے حکم دیا ہے تویہ مامو ربہ ہوئیں ، پھر ہر ایک کی ادائیگی کے لیے وقت مقرر کیا ہے کہ فجر کی نماز صبح صادق کے بعد سے طلوع آفتاب تک ہی پڑھ سکتے ہیں ’’ایسے ہی اور نمازیں تو یہ مامور بہ ''مقید بالوقت '' ہوئیں ۔ایسے ہی رمضان شریف کے روزوں کے لیے دن کا وقت مقررہے رات میں کوئی روزہ نہیں ہوتا۔لہٰذایہ بھی مامور بہ مقید با لوقت ہوا ایسے ہی حج کہ مخصو ص ایام ہی میں ادا ہوسکتا ہے۔

مقید بالوقت کی قسمیں:

پھر مقید بالوقت کی دو قسمیں ہیں :

1) ظرف: اس کو ’’مُوَسَّعْ ‘‘بھی کہتے ہیں۔

2) معیا ر: اس کو ’’مُضَیَّقْ ‘‘بھی کہتے ہیں۔

1) ظرف: ماموربہ واجب کی ادائیگی کے بعد وقت بچ جائے ۔ مثال کے طور پر پنج وقتہ نمازیں۔

فجر کی نماز پڑ ھنے کے بعد وقت بچ جاتاہے کہ صبح صادق کے بعد سے طلوع آفتاب تک لمبا وقت رہتاہے ۔اسی طرح ’’ظہر ‘‘کی نمازکے لیے زوال کے بعد اسی سے دو مثل سائے تک وقت رہتاہے کہ ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد وقت بچا رہتاہے ۔اسی پر اور نمازیں قیاس کرلیں ۔

حکم :اس میں مامور بہٖ متعین نیت کے ساتھ ہی اداہوگا ۔ غیر واجب کو بھی اس وقت میں اداکرنے کے وسعت وگنجائش ہے ۔اسی لیے اس کا دوسرانام ’’موسع ‘‘بھی ہے۔

2)معیار : ماموربہ اور وقت دونوں بالکل برابرہوں ۔ اس کا نام ’’مضیق‘‘ بھی ہے۔ مثلا روزہ ۔

روزہ کو معیار یا مضیق کہتے ہیں کہ روزہ کا وقت صبح صادق سے شروع ہوکر غروب آفتاب تک رہتا ہے، اور اسی وقت روزہ بھی ختم ہوجاتاہے ، یعنی روزہ اور اس کا وقت برابر سرابرہوئے۔

حکم:اس وقت میں ماموربہ کے علاوہ کوئی اور چیز جائز نہیں اس لیے کہ شریعت نے خود ہی ماموربہ کو متعین کردیا ہے ، لہٰذا اس تعین کی ضرورت نہیں باقی رہتی کہ مثلا میں اسی واجب ( فرض) روزے کو ادا کرنے جارہاہوں ، رمضان کے ماہ میں روزہ: ایک آدمی نے روزے کی نیت کی،لیکن رمضان کے روزہ کی صراحت نہیں کی تو رمضان ہی کا روزہ مانا جائے گا کیوں کہ شریعت نے یہ وقت رمضان ہی کے لیے متعین کردیا ہے، لہذا بند ے کی تعیین کی ضرورت نہیں ، البتہ اگر غیر رمضان کا مہینہ ہے تو اس میں قضاء ،واجب، نذر، نفل سب طرح کا روزہ رکھا جاسکتا ہے، شریعت نے متعین نہیں کیا ہے، لہٰذا اس میں بندے کی تعین کی ضرورت پڑے گی کہ میں رمضان کی قضاء رکھ رہاہوں یا پھر نفل یا کوئی نذر کا روزہ۔

حسن کے اعتبار سے ماموربہ کی اقسام:

حسن کے اعتبار سے مامور بہ کی دو قسمیں ہیں:

حسن بنفسہ

حسن لغیرہ

1) حسن بنفسہ: وہ مامور بہ جس میں بذات خود اچھائی پائی جائے۔ مثال کے طور پر عزوجل پر ایمان لانا، سچ بولنا، عدل و انصاف کرنا، نماز پڑھنا وغیرہ وغیرہ۔

حسن بنفسہ کا حکم:

جب بندے ر اس کی ادائیگی واجب ہو جائے تو بغیر ادائیگی یہ ساقط نہیں ہوتا۔

حسن بنفسہ میں بعض افعال تو وہ ہیں کہ جو کبھی بھی ساقط نہیں ہوتے جیسے اللہ عزوجل پر ایمان لانا، اور بعض افعال وہ ہیں جو ادائیگی سے یا پھرامر کے ساقط ہونے سے ساقط ہو جاتے ہیں۔ جیسے اول وقت میں نماز واجب ہو گی تو یہ ادائیگی سے ساقط ہو جائیگی یا پھر آخر وقت تک حیض و نفاس یا جنون کا معاملہ پیش آنے کی وجہ سے امر کے ساقط ہونے کے سبب اس کی ادائیگی بھی ساقط ہو جائے گی۔

2)حسن لغیرہ کی تعریف:

وہ مامور بہ جو غیر کی وجہ سے حسن وہ جائے۔

مثال کے طور پر وضو اور سعی الی الجمعہ ہے۔ وضو اس لیے حسن ہے کہ یہ نماز کی کنجی اور اس کے لیے شرط ہے اور سعی الی الجمعہ اس لیے حسن قرار پائی کہ یہ جمعہ کی ادائیگی مین معاون ہے۔

حسن لغیرہ کا حکم:

جب وہ واسطہ ساقط ہو جائے جس کی وہ اس مامور بہ میں حسن آیا تھا تو مامور بہ بھی ساقط ہو جاتا ہے۔ لہذا جس سے جمعہ ساقط ہو جائے اس سے سعی کا وجوب بھی ساقط ہو جائے گا اسی طرح سقوط نماز وضو کے وجوب کو بھی ساقط کر دیتا ہے۔

ادائیگی کے اعتبار سے مامور بہ کی اقسام:

ادائیگی کے اعتبار سے مامور بہ کی دو قسمیں ہیں :

1) ادا

2) قضا

1)ادا: امر سے ثابت ہو نے والے حکم کو بعینہ اس کے شرعی مقررہ وقت میں کر لینا ’’ادا‘‘ کہلاتا ہے۔ادا کی دوقسمیں ہیں:

1)کامل

2) قاصر

1) ادائے کامل: کوئی عمل اس کی تمام شرعی خوبیوں کے ساتھ انجام دینا ’’ادائے کامل‘‘ کہلاتا ہے۔مثال کے طور پر نماز جماعت کے ساتھ اداکرنا۔

نماز ایک عمل ہے، اللہ نے کلام پاک میں 300 سے زائد آیتوں میں صراحۃً و اشارۃً اس کا حکم دیا ہے، اس کو جماعت کے بغیر بھی ادا کر یں توادا ہوجائے گی، لیکن جماعت کے ساتھ اداکریں گے، تو حسن و کمال کے ساتھ ادا ہوگی، تو اس طرح کی ادائیگی ادائے کامل ہوگی، اسی طرح جیسے ایک حسی مثال ہے، آدمی نے دوسرے کو قلم ڈھکن ( (cap)کے ساتھ دیا، اب واپس کرنے اورادا کرنے کی بات آئی تواگر قلم بغیر ڈھکن کی ساتھ واپس کرے تو بھی ادائیگی ہے ،کہ لکھنے کا عمل ہوسکتا ہے، لیکن ڈھکن کے ساتھ واپسی ’’ادائے کامل‘‘ ہے ۔

2) ادا ئے قاصر: کوئی عمل اس کی خوبی میں کمی کے ساتھ انجام دینا ’’ادا ئے قاصر ‘‘کہلاتا ہے۔ مثال کے طور پر نماز اکیلے پڑھنا۔

نماز ایک عمل ہے، اس کی ایک خوبی ہے کہ جماعت کے ساتھ ادا کی جائے، اب اکیلے پڑھا تواس خوبی کوچھوڑنے کی وجہ سے نماز کی ادا ئیگی ’’قاصر ‘‘ہوگی ۔

2)قضا: ثابت شدہ حکم کو وقت گز رنے کے بعد کرنا ’’قضا ‘‘ کہلاتا ہے ۔

قضا کی بھی دو قسمیں ہیں :

1) قضائے کامل

2) قضائے قاصر

1)قضائے کامل :جوچیزادا کر نا واجب تھی اسی طرح کی چیز جوشکل وصورت اور حقیقت میں بھی اسی کی طرح ہوادا کرنا ’’قضائے کامل ‘‘ہے ۔

مثال : روزے کی قضا روزے کے ذریعہ کی جائے ۔

توضیح :رمضان کے تیس یا انتیس روزے فرض ہیں ان کو رکھنا اپنے ہی وقت پر ادا ہے کسی کا ایک روزہ فوت ہوگیا تو رمضان کے علاوہ کسی بھی دن میں روزہ رکھ لیا تو یہ پہلے روز ے کے بدلہ میں روزہ ہوا لہٰذا ’’قضائے کامل ‘‘کہلا ئے گا ۔

2)قضا ئے قاصر:واجب چیز کی طرح کوئی اورچیزنہیں ، تواس کی قیمت وغیر ہ دینا، ’’قضائے قاصر‘‘ ہے۔

مثال کے طور پر روزے کے بدلے میں فدیہ ۔

روزے چھوٹے ہیں ، کوئی رکھ نہیں پارہاہے ،تواس کی قیمت ایک آدمی کے صدقۂ فطر کے برابر ایک روزے کے عوض دینا قضا ہے ،اور وہ بھی ’’قضا ئے قاصر ‘‘۔
 
Top