رجوع کے احکام اور آئمہ کے درمیان اختلاف

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
رجوع کے احکام اور آئمہ کے درمیان اختلاف

رجوع کا حق اور عورت کی رضا مندی:

اگر شوہر نے بیوی کو ایک یا دو رجعی طلاقیں دیں تو اسے حق حاصل ہو گا کہ وہ دوران عدت میں اس سے رجوع کرلے۔ خواہ عورت اس پر رضا مند ہو یا نہ ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے:

الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان (آیت ٢٢٩ ،سورة البقرة٢)

اس آیت میں فامساک بمعروف یعنی معروف کے ساتھ روک لو کا مطلب ہے کہ رجعت کر لو حدیث میں ہے۔

سمعت ابن عمر قال طلق ابن عمر امرأتہ وھی حائض فذکر عمر للنبی ۖ فقال لیراجعھا ۔

اس حدیث میں رجعت کا حکم دیا۔جس سے رجعت کا ثبوت ہوا۔

اور عورت راضی نہ ہو تب بھی رجعت کر سکتا ہے اس کی دلیل یہ ہے۔

وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحا (آیت ٢٢٨ ،سورة البقرة ٢)

اس آیت میں ہے کہ شوہر کو رجعت کا زیادہ حق ہے، جس سے اشارہ نکلتا ہے کہ عورت کی رضامندی کی ضرورت نہیں۔

امام ابن قدامہ فرماتے ہیں:

وجملته أن الرجعة لا تفتقر إلى ولي ولا صداق ولا رضي المرأة ولا علمها بإجماع أهل العلم لما ذكرنا من أن الرجعية في أحكام الزوجات والرجعة إمساك لها واستبقاء لنكاحها

خلاصہ کلام یہ ہے کہ تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ رجوع ولی،حق مہر،عورت کی رضا اور اور اس کے علم کا محتاج نہیں ہے،کیونکہ رجوع کا معاملہ در اصل عورت کے نکاح کو باقی رکھنے اور اسے اپنے پاس روک لینے پر مشتمل ہے۔

امام کاسانی فرماتے ہیں۔

ولا يشترط فيها رضا المرأة، لأنها من شرائط ابتداء العقد لا من شرط البقاء, وكذا إعلامها بالرجعة ليس بشرط حتى لو لم يعلمها بالرجعة جازت، لأن الرجعة حقه على الخلوص لكونه تصرفا في ملكه بالاستيفاء والاستدامة، فلا يشترط فيه إعلام الغير كالإجازة في الخيار، لكنه مندوب إليه ومستحب،

اسی طرح رجوع میں عورت کی رضا شرط نہیں ہے،کیونکہ یہ شرط ابتداء عقد میں ہوتی ہے ،اس کو باقی رکھنے کے لئے نہیں۔اسی طرح عورت کو رجوع کی خبر دینا بھی شرط نہیں ہے،اگر اس کو علم نہ بھی ہو تب بھی رجوع جائز ہے۔ کیونکہ رجوع مرد کا حق ہے ،اس میں اجازہ فی الخیار کی مانند کسی کو بتانے کی شرط لگانا درست نہیں ہے۔ لیکن بتا دینا مستحب عمل ہے۔

رجوع کرنے کے الفاظ:

رجوع اس طرح ہوتا ہے کہ مرد عورت کو مخاطب کر کے کہے کہ میں نے تجھ سے رجوع کیا یا میں نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔

یہ الفاظ رجوع میں صریح ہیں اور ان کے متعلق آئمہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔

القدوری فرماتے ہیں کہ یا مرد بیوی سے مباشرت کر لے یا اسے چوم ہے یا اسے چھوئے تو بھی رجوع ہو جائے گا۔ یہ تمام صورتیں احناف کے نزدیک ہیں۔ امام شافع فرماتے ہیں کہ اگر مرد بول سکتا ہے تو زبان سے کہے بغیر رجوع صحیح نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ امام شافعی کے نزدیک رجوع نکاح کی طرح ہے حتی کہ عدت کے دوران میں عورت سے مباشرت حرام ہے۔ مگر احناف کے نزدیک رجوع نکاح کے برقرار رکھنے کے حکم میں ہے۔

اور مرد کا اپنا فعل بھی کبھی کبھار اس کے نکاح کے برقرار رکھنے کی دلیل بن سکتا ہے، جیسا کہ اختیار کے ساقط کرنے میں یہی حکم ہے اور فعل سے رجوع کی دلیل کا ہونا نکاح کے ساتھ مختص ہے اور مذکورہ افعال نکاح ہی سے مختص ہیں۔ خصوصا آزاد عورت کے حق میں بخلاف اسے چھونے اور دیکھنے کے جو بلا شہوت ہو۔ اس لیے کہ بلا شہوت چھونا اور دیکھنا بعض اوقات بلا نکاح بھی جائز ہوتا ہے۔ جیسے دایہ اور طبیب وغیرہ کا چھونا اور دیکھنا۔

رجوع پر گواہی قائم کرنا:

القدوری کہتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ مرد اپنے رجوع پر دو گواہ قائم کرلے۔ اور اگر گواہ نہ ہوں تھی رجوع صحیح ہو گا۔

امام شافعی کے ایک قول کے مطابق گواہ کے بغیر رجوع صحیح نہیں۔ اور یہی امام مالک کا بھی مسلک ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

واشهدوا ذری عدل منكم

اور تم دو عادل گواہ قائم کر لو

اور امر وجوب کے لیے ہی ہوتا ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی طلاق سے متعلق نصوص گواہوں کی قید کے بغیر ہیں۔ نیز اس لیے بھی کہ رجوع نکاح کو قرار رکھنا ہے اور نکاح کو قرار رکھنے میں گواہی ضروری نہیں ہوتی ہے جیسے کہ ایلاء کی صورت میں رجوع کے وقت بالاتفاق ایسی شرط نہیں ہے۔ ہاں گواہ قائم کرنا احتیاط کے پیش نظر مستحب ہے تا کہ ان کے مابین ”لا علمی “ نہ رہے۔ امام شافعی نے جو آیہ پیش کی ہے وہ بھی اس ''استحساب'' پر محمول ہے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ اس شہادت کو تفریق کے ساتھ لایا گیا ہے۔ (آیت میں جہاں رجوع کے ساتھ گواہوں کا تذکرہ ہے وہیں ”فار قوھن“ کے ساتھ بھی گواہوں کا ذکر ہے) حالانکہ بالاتفاق علیحدگی پر گواہ قائم کرنا مستحب ہے اور یہ مستحب ہے کہ رجوع کے متعلق بیوی کو بتا دے تا کہ وہ کسی گناہ کے کام میں مبتلا نہ ہو (کہ عدت کے بعد وہ کسی اور کے پاس چلی جائے۔)

عدت گزارنے کے بعد عدت میں رجوع کرنے کا اقرار:

پھر جب عدت گزر جائے اور مرد کہے کہ میں نے عدت میں تجھ سے رجوع کر لیا تھا اور عورت بھی اس کی تصدیق کر دے تو یہ رجوع شمار ہو گا اور اگر اس نے مرد کی بات کو جھٹلایا تو عورت کی بات تسلیم کی جائے گی۔

اس لیے کہ خاوند نے ایسی بات کی خبر دی جس کو وہ فوری طور پر وجود میں لانے کا اہل نہیں ہے۔ لہذا اس پر یہ الزام ہو گا کہ وہ کسی حیلے بہانے سے رجوع کرنا چاہتا ہے البتہ اگر عورت نے تصدیق کر دی تو الزام ختم ہو جائے گا۔

امام ابو حنیفہ کے نزدیک اختلاف کی صورت میں عورت پر قسم واجب نہیں ہے۔

"اور اگر خاوند نے بیوی سے کہا میں نے تجھ سے رجوع کیا مگر عورت نے جواب دیا کہ میری عدت گزر چکی ہے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک رجوع صحیح نہیں ہوگا۔''

صاحبین کہتے ہیں کہ رجوع صحیح ہو گا۔ اس لیے کہ رجوع کا عدت سے اتصال پایا گیا ہے (یعنی مرد نے رجوع پہلے کر لیا ہے) عورت نے بعد میں کہا ہے کہ میری عدت گزر گئی ہے۔ اس لیے کہ بظاہر عدت اس وقت تک رہتی ہے جب تک عورت عدت گزرنے کی مرد کو خبر نہ دے مگر اس کی طرف سے خبر دینے سے پہلے رجوع واقع ہو چکا ہے اس بنا پر اگر مرد نے عورت سے کہا کہ میں نے تجھے (دوسری) طلاق دی مگر عورت نے جواب دیا : کہ میری تو عدت گزر چکی ہے تو طلاق واقع ہو جائے گی۔

حق رجوع کا ختم ہونا:

جب ایک عورت کے تیسرے حیض کا خون دس دن کے بعد بند ہو گیا تو خاوند کا حق رجوع ختم ہو جائے گا۔ خواہ عورت نے غسل نہ بھی کیا ہو لیکن اگر حیض کا خون دس دن سے کم دنوں میں بند ہوا تو جب تک عورت غسل نہ کر لے گی یا ایک نماز کا پورا وقت نہ گزر جائے گا حق رجوع ختم نہ ہو گا۔

امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک رجوع کا حق اس وقت ختم ہو جائے گآ جب عورت تیمم کر کے کوئی نماز نہ پڑھ لے۔ یہ نماز پڑھنے کی قید بطور استحسان ہے۔

امام محمد فرماتے ہیں کہ تیمم کرتے ہی روجع کا حق ختم ہو جائے گا اور یہی قیاس ہے۔

شیخین کے نزدیک نماز شروع کرتے ہی رجوع کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد ختم ہو گا۔
 
Top