"لعان" تعریف و احکام

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
لعان کے معنی و تعریف:

لعان اور ملاعنہ کے معنی ہیں ایک دوسرے پر لعنت کرنا، شرعی اصطلاح میں لعان اس کو کہتے ہیں کہ جب شوہر اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے یا جو بچہ پیدا ہو اس کے بارے میں یہ کہے کہ یہ میرا نہیں نہ معلوم کس کا ہے اور بیوی اس سے انکار کرے اور کہے کہ تم مجھ پر تہمت لگا رہے ہو پھر وہ قاضی اور شرعی حاکم کے پاس فریاد کرے قاضی شوہر کو بلا کر اس الزام کو ثابت کرنے کے لئے کہے چنانچہ اگر شوہر گواہوں کے ذریعہ ثابت کر دے تو قاضی اس کی بیوی پر زنا کی حد جاری کرے اور اگر شوہر چار گواہوں کے ذریعہ الزام ثابت نہ کر سکے تو پھر قاضی پہلے شوہر کو اس طرح کہلائے کہ میں خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ میں نے جو زنا کی نسبت اس کی طرف کی ہے اس میں سچا ہوں عورت کی طرف اشارہ کر کے چار دفعہ شوہر اسی طرح کہے پھر پانچویں دفعہ مرد کی طرف اشارہ کر کے یوں کہے کہ اس مرد نے میری طرف جو زنا کی نسبت کی ہے اگر اس میں یہ سچا ہے تو مجھ پر خدا کا غضب ٹوٹے۔

جب دونوں اس طرح ملاعنت کریں تو حاکم دونوں میں جدائی کرا دے گا اور ایک طلاق بائن پڑھ جائے گی اور وہ عورت اس مرد کے لئے ہمیشہ کے لئے حرام ہو جائے گی ہاں اگر اس کے بعد مرد خود اپنے کو جھٹلائے یعنی یہ اقرار کر لے کہ میں نے عورت پر جھوٹی تہمت لگائی تھی تو اس صورت میں اس پر حد تہمت جاری کی جائے گی اور عورت سے پھر نکاح کرنا اس کے لئے درست ہو جائے گا لیکن حضرت امام ابویوسف یہ فرماتے ہیں کہ اگر مرد خود اپنے کو جھٹلائے تب بھی عورت اس کے لئے ہمیشہ کو حرام رہے گی۔

دربار رسالت میں لعان کا ایک واقعہ:

حضرت سہل ابن سعد ساعدی کہتے ہیں کہ ایک صحابی عویمر عجلانی نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اس شخص کے بارے میں بتائیے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو پائے اور اسے یہ یقین ہو کہ اس مرد نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کیا ہے کیا وہ اس مرد کو قتل کر ڈالے؟ اگر وہ اس کو مار ڈالے گا تو مقتول کے وارث اس کو قتل کر دیں گے ایسی صورت میں وہ کیا کرے آیا اس عار پر صبر کرے یا کوئی اقدام کرے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر اس سے فرمایا کہ تم میاں بیوی کے قضیہ میں و حی نازل کی گئی ہے جاؤ اپنی بیوی کو بلا لاؤ حضرت سہل کہتے ہیں کہ عویمر اپنی بیوی کو بلا لائے اور میاں بیوی نے مسجد نبوی میں لعان کیا اور میں بھی اس وقت دوسرے لوگوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ہی موجود تھا چنانچہ جب وہ دونوں میاں بیوی لعان سے فارغ ہوئے تو عویمر (یعنی میاں نے کہا کہ اگر میں اس عورت کو اپنے پاس رکھوں تو گویا میں نے اس پر تہمت لگائی ہے اس کے بعد انہوں نے اس عورت کو تین بار طلاق دی ۔

پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر یہ عورت اپنے موجودہ حمل سے ایسا بچہ جنے جس کا رنگ سیاہ آنکھیں بہت کالی ہوں کولہے بڑے ہوں اور دونوں پنڈلیوں کا گوشت بھرا ہو تو میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھوں گا کہ عویمر نے اس عورت کے بارے میں جو کہا ہے وہ سچ کہا ہے کیونکہ عویمر نے جس مرد کی طرف زنا کی نسبت کی وہ اسی رنگ وصورت کا ہے اور جب اسی کی شباہت کا بچہ پیدا ہو گا تو یہی کہا جائے گا کہ وہ اسی کے نطفہ سے ہے اور اگر اس عورت نے ایسا بچہ جنا جس کا رنگ سرخ ہو اور بامنی کے رنگ کا معلوم ہوتا ہو تو پھر میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھوں گا کہ عویمر نے اس کے بارے میں جھوٹ بولا ہے یعنی عویمر چونکہ سرخ رنگ کے ہیں اس لئے بچہ کی رنگت بھی سرخ ہوئی تو سمجھا جائے گا کہ بچہ عویمر ہی کے نطفہ سے ہے اور عویمر نے اپنی بیوی کو جھوٹی تہمت لگائی ہے)۔

چنانچہ جب اس عورت کا بچہ پیدا ہوا تو وہ اسی صورت کا تھا جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عویمر کی تصدیق کے لئے ذکر کیا تھا (یعنی وہ بچہ اسی مرد کی شباہت کا تھا جس کی طرف سے عویمر نے زنا کی نسبت کی تھی گویا عویمر کی بات سچ ثابت ہوئی اس کے بعد وہ بچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کے مطابق) اپنی ماں کی طرف منسوب کیا گیا (بخاری و مسلم)

لعان کا طریقہ کار:

خاوند نے اپنی بیوی پر الزام لگایا کہ اس نے زنا اور بدکاری کی ہے اوربیوی اس سے انکار کرتی ہے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا ہے ان دونوں پاس سوائے اپنے نفس کے اور کوئی گواہ نہیں تو جب یہ معاملہ حاکم کے سامنے پیش ہوگا حاکم دونوں کو سمجھائے کہ دونوں میں سے کوئی ضرور جھوٹا ہے۔ جھوٹا اپنے قول سے رجوع کرے۔ اگر دونوں اس بات پر راضی نہیں ہوتے تو حاکم دونوں سے قسم لے گا۔ پہلے شوہر سے چارمرتبہ قسم لے کر جو الزام اس نے لگایا ہے صحیح ہے اورپانچویں مرتبہ اس سے یہ کہلایا جائے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر خدا کی لعنت ہے۔ اس کے بعد عورت سے چار مرتبہ قسم لے کر جوتہمت اس پر لگائی گئی ہے غلط ہے اور پانچویں مرتبہ اس سے کہلایا جائے گا کہ جو الزام اس پر لگایا گیا ہے اگر یہ صحیح ہے تو اس پر خدا کا غضب نازل ہو۔

مرد کی پانچویں قسم میں لعنت کا لفظ اور عورت کی پانچویں قسم میں لفظ غضب ہے، کیونکہ عورتیں غضب سے زیادہ ڈرتی ہیں۔ یہ گواہیاں اور قسمیں حد قذف اور سزائے تہمت زنا کے قائم مقام ہیں کیونکہ اگر یہ قسمیں نہ کھائے تو تہمت زنا کی سزا میں اسی کوڑے مارے جائیں گے۔ لیکن قسمیں کھانے کی وجہ سے یہ سزائیں معاف ہو جاتی ہیں اور عورت کی یہ قسمیں حد زنا کےقائم مقام ہیں اس لئے اگر عورت یہ قسمیں نہ کھائے تو زنا کی حد ماری جائے گی۔ تو ان قسموں کے کھانے سے حد زنا ساقط ہو جائے گی۔ اس طرح کرنے کو لعان کہتے ہیں اور لعان کے بعد حاکم میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دے، پھر ان میں ملاپ نہیں ہو سکتا ہے اور نہ دوبارہ نکاح ہی ہو سکتا ہے ۔

اس لعان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَالَّـذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُـمْ وَلَمْ يَكُنْ لَّـهُـمْ شُهَدَآءُ اِلَّآ اَنْفُسُهُـمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِـمْ اَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللّـٰهِ ۙ اِنَّهٝ لَمِنَ الصَّادِقِيْنَ ۝ وَالْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّـٰهِ عَلَيْهِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِيْنَ ۝ وَيَدْرَاُ عَنْـهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللّـٰهِ ۙ اِنَّهٝ لَمِنَ الْكَاذِبِيْنَ ۝ وَالْخَامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّـٰهِ عَلَيْهَآ اِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِيْنَ ۝ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّـٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْـمَتُهٝ وَاَنَّ اللّـٰهَ تَوَّابٌ حَكِـيْـمٌ ۝

اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں اور ان کے لیے سوائے اپنے اور کوئی گواہ نہیں تو ایسے شخص کی گواہی کی یہ صورت ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ بے شک وہ سچا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہے۔ اورعورت کی سزا کو یہ بات دور کر دے گی کہ اللہ کو گواہ کر کے چار مرتبہ یہ کہے کہ بے شک وہ سراسر جھوٹا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ کہے کہ بے شک اس پر اللہ کا غضب پڑے اگر وہ سچا ہے۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو کیا کچھ نہ ہوتا) اور یہ کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا حکمت والا ہے۔ (سورۃ النور آیت 6 تا 10 )

ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان خاوندوں کے لئے جو اپنی بیویوں کی نسبت ایسی بات کہہ دیں چھٹکارے کی صورت بیان دے جب وہ شہادت پیش نہ کر سکے تو حاکم ایسے چار گواہوں کے قائم مقام چار قسمیں دے گا۔ اور یہ قسمیں کھا کر کہے گا کہ وہ سچا ہے جو بات کہتا ہے وہ حق ہے پانچویں دفعہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر خدا کی لعنت ہے۔

امام شافعیؒ وغیرہ کے نزدیک اس کی عورت اس سے بائن ہو جائے گی۔ یہ مہر ادا کر دے گا اور اس عورت پر حد زنا ثابت ہو جائے گی۔ لیکن اگر وہ عورت بھی سامنے لعان کر لے تو حد اس پر سے ہٹ جائے گی یہ بھی چار مرتبہ حلفیہ بیان دے گی کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے گی کہ اگر وہ سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو ۔

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرمایا کرتا ہے گو کیسے ہی گناہ ہوں اور کسی وقت بھی توبہ ہو وہ حکیم اور دانا ہے۔

لعان کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان تفریق کا مسئلہ:

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص اور اس کی بیوی کے مابین لعان کا حکم فرمایا چنانچہ اس لعان کی وجہ سے وہ شخص اس عورت کے بچہ سے دور ہو گیا یعنی بچہ کا نسب اس شخص سے ہٹا دیا گیا نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دی اور بچہ کو عورت کے حوالے کر دیا (بخاری مسلم)۔

تفریق کرا دی کا مطلب یہ ہے کہ لعان کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان تفریق جدائی حاکم و قاضی کے حکم ہی سے ہوتی ہے نہ کہ محض لعان سے چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ کا مسلک یہی ہے نیز ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر نفس لعان ہی سے تفریق واقع ہو جاتی تو پھر تین طلاقیں کیوں دی جاتیں جیسا کہ اوپر کی حدیث میں گزرا ہے کہ حضرت عویمر نے لعان کے بعد اپنی بیوی کو تین طلاق دی۔

اور حضرت ابن عمر کی ایک روایت میں جو بخاری و مسلم ہی نے نقل کی ہے یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو نصیحت کی اور آخرت کا عذاب یاد دلایا (تاکہ وہ جھوٹ نہ بولے اور عورت اپنے الزام کو ناحق ثابت نہ کرے) اور اس کو اس بات سے آگاہ کیا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کو بلایا اس کو بھی نصیحت کی اور آخرت کا عذاب یاد دلایا اور آگاہ کیا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے۔

دنیا کے عذاب سے مراد حد یعنی شرعی سزا ہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر مرد کسی عورت کو چاہے وہ اس کی بیوی ہی کیوں نہ ہو) زنا کی تہمت لگائے اور اس کی تہمت جھوٹی ثابت ہو جائے تو شرعی قانون کے مطابق اس پر حد جاری کی جائیگی یعنی اس کو ایک پاکدامن عورت پر زنا کی جھوٹ تہمت لگانے کے جرم میں اسی کوڑے مارے جائیں گے اور اگر وہ مرد سچا ثابت ہو جائے یعنی یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے کہ اس عورت نے بدکاری کرائی ہے تو پھر اس عورت پر حد جاری ہو گی کہ شادی شدہ ہونے کی صورت میں اس کو سنگسار کر دیا جائے گا اور غیر شادی شدہ ہونے کی صورت میں سو کوڑے مارے جائیں گے اس صورت میں یہ امکان ہو سکتا ہے کہ مرد نے کسی غلط فہمی کی بناء پر یا کسی خاص جذبہ کے تحت عورت کو تہمت لگا دی ہو اور پھر اسے یہ یقین ہو گیا ہو کہ میں نے عورت پر جو الزام لگایا ہے وہ بے بنیاد ہے مگر اب اس خوف سے کہ ایک پاکدامن عورت پر جھوٹی تہمت لگائی تھی یا یہ کہ واقعۃً عورت نے بدکاری کرائی ہو مگر اس خوف سے کہ میں سنگسار کر دی جاؤں گی یا سو کوڑے ماری جاؤں گی اپنے اس گناہ کا اعتراف و اقرار نہیں کرتی بلکہ ملاعنت پر تیار ہو جاتی ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس امکانی صورت کے خلاف دونوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں دنیا کا عذاب یعنی یہاں کی سزا کہیں آسان اور سہل ہے اس لئے جو صورت حال ہو اور جو سچ بات ہو اس کا اعتراف و اقرار کر لو اور اس دنیا کے آسان عذاب کو اختیار کر کے آخرت کے سخت ترین عذاب سے بچو۔

لعان کے اولاد پر اثرات:

اگر لعان خاوند کی طرف سے اپنی بیوی سے اپنی اولاد کو اپنی اولاد تسلیم نہ کرنے کی بنا پر ہو تو لعان کے بعد قاضی بچے کا نسبت اس مرد سے نفی کر کے اسے اس کی ماں کے ساتھ ملا دے گا۔ اس صورت میں لعان کا طریقہ یہ ہو گا کہ قاضی شوہر سے کہے گا کہ وہ کہے '' میں اللہ تعالی کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اولاد کی نفی کا جو الزام تجھ پر لگایا ہے میں اس میں سچا ہوں'' اور عورت بھی جواب میں اس طرح کہے گی۔

اگر خاوند نے اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگایا اور بچے کی نسبت سے بھی انکار کیا تو مرد لعان میں دونوں باتوں کا ذکر کرے گا اور قاضی مرد سے بچے کی نفی کر کے بچے کو اس کی ماں کے ساتھ ملحق کر دے گا۔

لیکن اگر بعد میں خاوند اپنے دعوی سے رجوع کر لے اور اپنے جھوٹا ہونے کا اقرار کر لے تو قاضی حد قذف جاری کرے گا۔ اس یلے کہ خاوند نے یہ اقرار کر کے خود اپنے اوپر حد قذف کو قائم کیا ہے۔ اور اس کے لیے اب اس عورت سے دوبارہ نکاح جائز ہے۔

شوہر کا لعان سے انکار:

اگر عورت کے مطالبے پر خاوند لعان سے انکار کردے تو حاکم وقت اسے قید کر دے گا یا آنکہ یا تو لعان کرے یا یہ کہے کہ میں اپنے دعوی میں جھوٹا ہوں۔ تا کہ اس پر حد جاری ہو سکے اس لیے کہ لعان کرنا خاوند پر ضروری ہو جاتا ہے۔ اور مرد کو اس حق کے پورا کرنے پر قدرت بھی حاصل ہے لہذا اسے قید کیا جائے گا۔ تا کہ وہ حق کو ادا کرے یا اپنے آپ کو جھٹلائے تا کہ جس سبب کی بنا پر یہ حق واجب ہوا تھا، وہ رفع ہوجائے۔

اور اگر خاوند نے لعان کیا تو عورت پر اس کے لعان کا سامنا کرنا واجب ہو گا۔ اس لیے مذکوررہ بالا نص قرآنی سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ البتہ اس کی ابتداء مرد کی طرف سے ہو گی۔ اس لیے کہ وہ مدعی ہے۔ اور اگر عورت جواب دینے سے انکار کرے تو حاکم اسے قید کر دیگا یہاں تک کہ یا تو وہ لعان کرے یا پھر مرد کے دعوی کی تصدیق کرے۔ اس لیے کہ لعان کرنا عورت پر واجب ہے اور اس کی ادائگی پر بھی قادر تھی لہذا عورت کو قید کی جائے گا۔

لعان کے لیے چند ضروری باتیں:

  • لعان حاکم کے سامنے ہونا چاہیے۔
  • لعان سےپہلے حاکم دونوں کو سمجھائے اورسمجھنے کا موقعہ دے۔
  • لعان کے بعد دونوں میں تفریق کر دے، یہ ہمیشہ کی تفریق ہوگی۔
  • لعان سے مہر ساقط نہیں ہوگا اگر نہیں دیا ہے تو دینا پڑے گا۔ اور اگر دے چکا ہے تو واپس نہیں لے سکتا ہے۔
  • لعان کے بعد جو اولاد پیدا ہوگی وہ ماں کی طرف منسوب ہوگی۔ باپ کی طرف منسوب نہیں ہوگی۔
  • اس اولاد کو حرامی نہیں کہا جاسکتا ہے۔
  • اگر کوئی مرد لعان سے انکار کرے تو اس پر حد قذف جاری کی جائے گی اور اگر عورت اس سے انکار کرے تو اس پر حد زنا قائم ہوگی۔
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
لعان کے معنی و تعریف:

لعان اور ملاعنہ کے معنی ہیں ایک دوسرے پر لعنت کرنا، شرعی اصطلاح میں لعان اس کو کہتے ہیں کہ جب شوہر اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے یا جو بچہ پیدا ہو اس کے بارے میں یہ کہے کہ یہ میرا نہیں نہ معلوم کس کا ہے اور بیوی اس سے انکار کرے اور کہے کہ تم مجھ پر تہمت لگا رہے ہو پھر وہ قاضی اور شرعی حاکم کے پاس فریاد کرے قاضی شوہر کو بلا کر اس الزام کو ثابت کرنے کے لئے کہے چنانچہ اگر شوہر گواہوں کے ذریعہ ثابت کر دے تو قاضی اس کی بیوی پر زنا کی حد جاری کرے اور اگر شوہر چار گواہوں کے ذریعہ الزام ثابت نہ کر سکے تو پھر قاضی پہلے شوہر کو اس طرح کہلائے کہ میں خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ میں نے جو زنا کی نسبت اس کی طرف کی ہے اس میں سچا ہوں عورت کی طرف اشارہ کر کے چار دفعہ شوہر اسی طرح کہے پھر پانچویں دفعہ مرد کی طرف اشارہ کر کے یوں کہے کہ اس مرد نے میری طرف جو زنا کی نسبت کی ہے اگر اس میں یہ سچا ہے تو مجھ پر خدا کا غضب ٹوٹے۔

جب دونوں اس طرح ملاعنت کریں تو حاکم دونوں میں جدائی کرا دے گا اور ایک طلاق بائن پڑھ جائے گی اور وہ عورت اس مرد کے لئے ہمیشہ کے لئے حرام ہو جائے گی ہاں اگر اس کے بعد مرد خود اپنے کو جھٹلائے یعنی یہ اقرار کر لے کہ میں نے عورت پر جھوٹی تہمت لگائی تھی تو اس صورت میں اس پر حد تہمت جاری کی جائے گی اور عورت سے پھر نکاح کرنا اس کے لئے درست ہو جائے گا لیکن حضرت امام ابویوسف یہ فرماتے ہیں کہ اگر مرد خود اپنے کو جھٹلائے تب بھی عورت اس کے لئے ہمیشہ کو حرام رہے گی۔

دربار رسالت میں لعان کا ایک واقعہ:

حضرت سہل ابن سعد ساعدی کہتے ہیں کہ ایک صحابی عویمر عجلانی نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اس شخص کے بارے میں بتائیے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو پائے اور اسے یہ یقین ہو کہ اس مرد نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کیا ہے کیا وہ اس مرد کو قتل کر ڈالے؟ اگر وہ اس کو مار ڈالے گا تو مقتول کے وارث اس کو قتل کر دیں گے ایسی صورت میں وہ کیا کرے آیا اس عار پر صبر کرے یا کوئی اقدام کرے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر اس سے فرمایا کہ تم میاں بیوی کے قضیہ میں و حی نازل کی گئی ہے جاؤ اپنی بیوی کو بلا لاؤ حضرت سہل کہتے ہیں کہ عویمر اپنی بیوی کو بلا لائے اور میاں بیوی نے مسجد نبوی میں لعان کیا اور میں بھی اس وقت دوسرے لوگوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ہی موجود تھا چنانچہ جب وہ دونوں میاں بیوی لعان سے فارغ ہوئے تو عویمر (یعنی میاں نے کہا کہ اگر میں اس عورت کو اپنے پاس رکھوں تو گویا میں نے اس پر تہمت لگائی ہے اس کے بعد انہوں نے اس عورت کو تین بار طلاق دی ۔

پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر یہ عورت اپنے موجودہ حمل سے ایسا بچہ جنے جس کا رنگ سیاہ آنکھیں بہت کالی ہوں کولہے بڑے ہوں اور دونوں پنڈلیوں کا گوشت بھرا ہو تو میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھوں گا کہ عویمر نے اس عورت کے بارے میں جو کہا ہے وہ سچ کہا ہے کیونکہ عویمر نے جس مرد کی طرف زنا کی نسبت کی وہ اسی رنگ وصورت کا ہے اور جب اسی کی شباہت کا بچہ پیدا ہو گا تو یہی کہا جائے گا کہ وہ اسی کے نطفہ سے ہے اور اگر اس عورت نے ایسا بچہ جنا جس کا رنگ سرخ ہو اور بامنی کے رنگ کا معلوم ہوتا ہو تو پھر میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھوں گا کہ عویمر نے اس کے بارے میں جھوٹ بولا ہے یعنی عویمر چونکہ سرخ رنگ کے ہیں اس لئے بچہ کی رنگت بھی سرخ ہوئی تو سمجھا جائے گا کہ بچہ عویمر ہی کے نطفہ سے ہے اور عویمر نے اپنی بیوی کو جھوٹی تہمت لگائی ہے)۔

چنانچہ جب اس عورت کا بچہ پیدا ہوا تو وہ اسی صورت کا تھا جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عویمر کی تصدیق کے لئے ذکر کیا تھا (یعنی وہ بچہ اسی مرد کی شباہت کا تھا جس کی طرف سے عویمر نے زنا کی نسبت کی تھی گویا عویمر کی بات سچ ثابت ہوئی اس کے بعد وہ بچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کے مطابق) اپنی ماں کی طرف منسوب کیا گیا (بخاری و مسلم)

لعان کا طریقہ کار:

خاوند نے اپنی بیوی پر الزام لگایا کہ اس نے زنا اور بدکاری کی ہے اوربیوی اس سے انکار کرتی ہے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا ہے ان دونوں پاس سوائے اپنے نفس کے اور کوئی گواہ نہیں تو جب یہ معاملہ حاکم کے سامنے پیش ہوگا حاکم دونوں کو سمجھائے کہ دونوں میں سے کوئی ضرور جھوٹا ہے۔ جھوٹا اپنے قول سے رجوع کرے۔ اگر دونوں اس بات پر راضی نہیں ہوتے تو حاکم دونوں سے قسم لے گا۔ پہلے شوہر سے چارمرتبہ قسم لے کر جو الزام اس نے لگایا ہے صحیح ہے اورپانچویں مرتبہ اس سے یہ کہلایا جائے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر خدا کی لعنت ہے۔ اس کے بعد عورت سے چار مرتبہ قسم لے کر جوتہمت اس پر لگائی گئی ہے غلط ہے اور پانچویں مرتبہ اس سے کہلایا جائے گا کہ جو الزام اس پر لگایا گیا ہے اگر یہ صحیح ہے تو اس پر خدا کا غضب نازل ہو۔

مرد کی پانچویں قسم میں لعنت کا لفظ اور عورت کی پانچویں قسم میں لفظ غضب ہے، کیونکہ عورتیں غضب سے زیادہ ڈرتی ہیں۔ یہ گواہیاں اور قسمیں حد قذف اور سزائے تہمت زنا کے قائم مقام ہیں کیونکہ اگر یہ قسمیں نہ کھائے تو تہمت زنا کی سزا میں اسی کوڑے مارے جائیں گے۔ لیکن قسمیں کھانے کی وجہ سے یہ سزائیں معاف ہو جاتی ہیں اور عورت کی یہ قسمیں حد زنا کےقائم مقام ہیں اس لئے اگر عورت یہ قسمیں نہ کھائے تو زنا کی حد ماری جائے گی۔ تو ان قسموں کے کھانے سے حد زنا ساقط ہو جائے گی۔ اس طرح کرنے کو لعان کہتے ہیں اور لعان کے بعد حاکم میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دے، پھر ان میں ملاپ نہیں ہو سکتا ہے اور نہ دوبارہ نکاح ہی ہو سکتا ہے ۔

اس لعان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَالَّـذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُـمْ وَلَمْ يَكُنْ لَّـهُـمْ شُهَدَآءُ اِلَّآ اَنْفُسُهُـمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِـمْ اَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللّـٰهِ ۙ اِنَّهٝ لَمِنَ الصَّادِقِيْنَ ۝ وَالْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّـٰهِ عَلَيْهِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِيْنَ ۝ وَيَدْرَاُ عَنْـهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللّـٰهِ ۙ اِنَّهٝ لَمِنَ الْكَاذِبِيْنَ ۝ وَالْخَامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّـٰهِ عَلَيْهَآ اِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِيْنَ ۝ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّـٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْـمَتُهٝ وَاَنَّ اللّـٰهَ تَوَّابٌ حَكِـيْـمٌ ۝

اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں اور ان کے لیے سوائے اپنے اور کوئی گواہ نہیں تو ایسے شخص کی گواہی کی یہ صورت ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ بے شک وہ سچا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہے۔ اورعورت کی سزا کو یہ بات دور کر دے گی کہ اللہ کو گواہ کر کے چار مرتبہ یہ کہے کہ بے شک وہ سراسر جھوٹا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ کہے کہ بے شک اس پر اللہ کا غضب پڑے اگر وہ سچا ہے۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو کیا کچھ نہ ہوتا) اور یہ کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا حکمت والا ہے۔ (سورۃ النور آیت 6 تا 10 )

ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان خاوندوں کے لئے جو اپنی بیویوں کی نسبت ایسی بات کہہ دیں چھٹکارے کی صورت بیان دے جب وہ شہادت پیش نہ کر سکے تو حاکم ایسے چار گواہوں کے قائم مقام چار قسمیں دے گا۔ اور یہ قسمیں کھا کر کہے گا کہ وہ سچا ہے جو بات کہتا ہے وہ حق ہے پانچویں دفعہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر خدا کی لعنت ہے۔

امام شافعیؒ وغیرہ کے نزدیک اس کی عورت اس سے بائن ہو جائے گی۔ یہ مہر ادا کر دے گا اور اس عورت پر حد زنا ثابت ہو جائے گی۔ لیکن اگر وہ عورت بھی سامنے لعان کر لے تو حد اس پر سے ہٹ جائے گی یہ بھی چار مرتبہ حلفیہ بیان دے گی کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے گی کہ اگر وہ سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو ۔

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرمایا کرتا ہے گو کیسے ہی گناہ ہوں اور کسی وقت بھی توبہ ہو وہ حکیم اور دانا ہے۔

لعان کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان تفریق کا مسئلہ:

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص اور اس کی بیوی کے مابین لعان کا حکم فرمایا چنانچہ اس لعان کی وجہ سے وہ شخص اس عورت کے بچہ سے دور ہو گیا یعنی بچہ کا نسب اس شخص سے ہٹا دیا گیا نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دی اور بچہ کو عورت کے حوالے کر دیا (بخاری مسلم)۔

تفریق کرا دی کا مطلب یہ ہے کہ لعان کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان تفریق جدائی حاکم و قاضی کے حکم ہی سے ہوتی ہے نہ کہ محض لعان سے چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ کا مسلک یہی ہے نیز ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر نفس لعان ہی سے تفریق واقع ہو جاتی تو پھر تین طلاقیں کیوں دی جاتیں جیسا کہ اوپر کی حدیث میں گزرا ہے کہ حضرت عویمر نے لعان کے بعد اپنی بیوی کو تین طلاق دی۔

اور حضرت ابن عمر کی ایک روایت میں جو بخاری و مسلم ہی نے نقل کی ہے یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو نصیحت کی اور آخرت کا عذاب یاد دلایا (تاکہ وہ جھوٹ نہ بولے اور عورت اپنے الزام کو ناحق ثابت نہ کرے) اور اس کو اس بات سے آگاہ کیا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کو بلایا اس کو بھی نصیحت کی اور آخرت کا عذاب یاد دلایا اور آگاہ کیا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے۔

دنیا کے عذاب سے مراد حد یعنی شرعی سزا ہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر مرد کسی عورت کو چاہے وہ اس کی بیوی ہی کیوں نہ ہو) زنا کی تہمت لگائے اور اس کی تہمت جھوٹی ثابت ہو جائے تو شرعی قانون کے مطابق اس پر حد جاری کی جائیگی یعنی اس کو ایک پاکدامن عورت پر زنا کی جھوٹ تہمت لگانے کے جرم میں اسی کوڑے مارے جائیں گے اور اگر وہ مرد سچا ثابت ہو جائے یعنی یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے کہ اس عورت نے بدکاری کرائی ہے تو پھر اس عورت پر حد جاری ہو گی کہ شادی شدہ ہونے کی صورت میں اس کو سنگسار کر دیا جائے گا اور غیر شادی شدہ ہونے کی صورت میں سو کوڑے مارے جائیں گے اس صورت میں یہ امکان ہو سکتا ہے کہ مرد نے کسی غلط فہمی کی بناء پر یا کسی خاص جذبہ کے تحت عورت کو تہمت لگا دی ہو اور پھر اسے یہ یقین ہو گیا ہو کہ میں نے عورت پر جو الزام لگایا ہے وہ بے بنیاد ہے مگر اب اس خوف سے کہ ایک پاکدامن عورت پر جھوٹی تہمت لگائی تھی یا یہ کہ واقعۃً عورت نے بدکاری کرائی ہو مگر اس خوف سے کہ میں سنگسار کر دی جاؤں گی یا سو کوڑے ماری جاؤں گی اپنے اس گناہ کا اعتراف و اقرار نہیں کرتی بلکہ ملاعنت پر تیار ہو جاتی ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس امکانی صورت کے خلاف دونوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں دنیا کا عذاب یعنی یہاں کی سزا کہیں آسان اور سہل ہے اس لئے جو صورت حال ہو اور جو سچ بات ہو اس کا اعتراف و اقرار کر لو اور اس دنیا کے آسان عذاب کو اختیار کر کے آخرت کے سخت ترین عذاب سے بچو۔

لعان کے اولاد پر اثرات:

اگر لعان خاوند کی طرف سے اپنی بیوی سے اپنی اولاد کو اپنی اولاد تسلیم نہ کرنے کی بنا پر ہو تو لعان کے بعد قاضی بچے کا نسبت اس مرد سے نفی کر کے اسے اس کی ماں کے ساتھ ملا دے گا۔ اس صورت میں لعان کا طریقہ یہ ہو گا کہ قاضی شوہر سے کہے گا کہ وہ کہے '' میں اللہ تعالی کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اولاد کی نفی کا جو الزام تجھ پر لگایا ہے میں اس میں سچا ہوں'' اور عورت بھی جواب میں اس طرح کہے گی۔

اگر خاوند نے اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگایا اور بچے کی نسبت سے بھی انکار کیا تو مرد لعان میں دونوں باتوں کا ذکر کرے گا اور قاضی مرد سے بچے کی نفی کر کے بچے کو اس کی ماں کے ساتھ ملحق کر دے گا۔

لیکن اگر بعد میں خاوند اپنے دعوی سے رجوع کر لے اور اپنے جھوٹا ہونے کا اقرار کر لے تو قاضی حد قذف جاری کرے گا۔ اس یلے کہ خاوند نے یہ اقرار کر کے خود اپنے اوپر حد قذف کو قائم کیا ہے۔ اور اس کے لیے اب اس عورت سے دوبارہ نکاح جائز ہے۔

شوہر کا لعان سے انکار:

اگر عورت کے مطالبے پر خاوند لعان سے انکار کردے تو حاکم وقت اسے قید کر دے گا یا آنکہ یا تو لعان کرے یا یہ کہے کہ میں اپنے دعوی میں جھوٹا ہوں۔ تا کہ اس پر حد جاری ہو سکے اس لیے کہ لعان کرنا خاوند پر ضروری ہو جاتا ہے۔ اور مرد کو اس حق کے پورا کرنے پر قدرت بھی حاصل ہے لہذا اسے قید کیا جائے گا۔ تا کہ وہ حق کو ادا کرے یا اپنے آپ کو جھٹلائے تا کہ جس سبب کی بنا پر یہ حق واجب ہوا تھا، وہ رفع ہوجائے۔

اور اگر خاوند نے لعان کیا تو عورت پر اس کے لعان کا سامنا کرنا واجب ہو گا۔ اس لیے مذکوررہ بالا نص قرآنی سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ البتہ اس کی ابتداء مرد کی طرف سے ہو گی۔ اس لیے کہ وہ مدعی ہے۔ اور اگر عورت جواب دینے سے انکار کرے تو حاکم اسے قید کر دیگا یہاں تک کہ یا تو وہ لعان کرے یا پھر مرد کے دعوی کی تصدیق کرے۔ اس لیے کہ لعان کرنا عورت پر واجب ہے اور اس کی ادائگی پر بھی قادر تھی لہذا عورت کو قید کی جائے گا۔

لعان کے لیے چند ضروری باتیں:

  • لعان حاکم کے سامنے ہونا چاہیے۔
  • لعان سےپہلے حاکم دونوں کو سمجھائے اورسمجھنے کا موقعہ دے۔
  • لعان کے بعد دونوں میں تفریق کر دے، یہ ہمیشہ کی تفریق ہوگی۔
  • لعان سے مہر ساقط نہیں ہوگا اگر نہیں دیا ہے تو دینا پڑے گا۔ اور اگر دے چکا ہے تو واپس نہیں لے سکتا ہے۔
  • لعان کے بعد جو اولاد پیدا ہوگی وہ ماں کی طرف منسوب ہوگی۔ باپ کی طرف منسوب نہیں ہوگی۔
  • اس اولاد کو حرامی نہیں کہا جاسکتا ہے۔
  • اگر کوئی مرد لعان سے انکار کرے تو اس پر حد قذف جاری کی جائے گی اور اگر عورت اس سے انکار کرے تو اس پر حد زنا قائم ہوگی۔
وہی گزارش دوبارہ ہے بصداحترام ہے۔ کہ حوالہ جات کا اہتما م بات کے حسن کو بڑھا دیتا ہے۔
 
Top