خلع کی تعریف اور احکام

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
خلع​

تعریف:

اسلام متوازن اور اعتدال والا دین ہے اور زندگی کے ہر معاملے میں اعتدال چاہتا ہے۔ اوراس کی ایک جھلک اسلام کے عائلی قوانین میں بھی نظر آتی ہے اسلام نے خانگی رشتے کو قائم رکھنے کی بھر پور ہدایات کی ہیں مگر جب اس رشتے کو زوجین کے لیے بر قرار رکھنا مشکل ہو جائے تو اس صورت میں اسلام نے مرد اور عورت دونوں کے حقوق کا خیال رکھا ہے۔ اگر ان کا ایک دوسرے کے ساتھ نبھانا مشکل ہو اور اصلاح کی کوشش کے باوجود ان کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا مشکل ہو رہا ہو تواس صورت میں جب بیوی کی طرف سےحقوق کی ادایگی میں کوتاہی ہو رہی ہو تو مرد کو طلاق کا اختیار دیا ہے اگر مرد کی طرف سے مسائل پیدا کیے جا رہے ہوں تو بیوی کو خلع کا اختیا ر دیا ہے۔

خلع کی بنیادی تعریف اور فقہی اصطلاحی مفہوم کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ اس کا پورا مفہوم واضح ہوجائے ۔خلع کا لفظ عربی زبان میں کسی چیز کو اتارنے کے معنٰی میں آتا ہے۔ابنِ منظور الافریقی لکھتے ہیں:

خلع امرأته وخالعها إذا افتدت منه بمالها فطلقها وأبانها من نفسه، وسمی ذلک الفراق خلعا؛ لان الله تعالی جعل النساء لباسا للرجال، والر جال لباسا لهن

اس نے عورت کو خلع دیا اور اس نے خلع کیا جب خاتون اپنے مال کے ذریعے اس کو فدیہ اد اکرے اور مرد اسےطلاق دے دےاور اس کواپنے آپ سے جدا کر لے تواس جدائی کو خلع کہا جا تا ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا لباس بنایا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کےازدواجی تعلق کو انتہائی خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہےکہ ان دونوں کو ایک دوسرے کے لباس سے تشبیہ دی ہے جس طرح لباس انسان کو گرمی ،سردی سے بچاتا ہےاس کو خوبصورتی عطاکرتا ہے اس کی ستر پوشی کرتا ہےاور اس کےوقار میں اضافے کا باعث ہے اسی طرح شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے غم خوار ،رازدان اور مصائب میں معاون و ممد ہوتے ہیں وہ جب ایک دوسرےسے علیحدگی اختیار کرتےہیں تو گویا وہ اپنا لباس اتار تے ہیں اور اس علیحدگی کو علماخلع کہتے ہیں۔

اصطلاحی مفہوم

مشہور مسالک (حنفی،مالکی ،شافعی اور حنبلی ) کے فقہا و مؤلفین نےاپنے نقطۂ نظر کے اعتبار سے خلع کی مختلف تعریفیں کی ہیں یہاں چاروں مسالک کے فقہا و مؤلفین نےخلع کی جواصطلاحی تعریفیں کی ہیں وہ ذکر کی جارہی ہیں۔

فقہ حنفی

ابنِ عابدین حنفی خلع کی تعریف یوں کرتے ہیں :

هو إزالة ملک النکاح المتوقفة علی قبولها بلفظ الخلع أو ما فی معناه

لفظ ِخلع یا اس کےہم معنی لفظ کے ذریعے ملکیت ِ نکاح ختم کرنے کو خلع کہتے ہیں جو عورت کے قبول کرنے پر موقوف ہوتا ہے

گویا احناف کے نزدیک خلع کے لیے لازمی چیز لفظ خلع یا ہم معنیٰ لفظ کا ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر ان الفاظ کا استعمال نہ کیا گیا تو پھر طلاق بالمال اور خلع میں کوئی فرق نہیں رہے گا حالانکہ ان دونوں کے احکام الگ الگ ہیں اس لیے خلع میں الفاظ کا خیا ل رکھنا ضروری ہے تاکہ ان دونوں میں فرق رہے۔ اور عورت کے قبول کرنے پر اس لیے موقوف ہے کہ اس نے عوض دینا ہوتا ہے لہذا اس کی رضا مندی بھی ضروری ہے ۔

فقہ مالکی

مختصر خلیل میں لکھا ہے:

جاز الخلع وهو: الطلاق بعوض وبلا حاكم وبعوض من غيرها إن تأهل

خلع جائز ہے اور یہ طلاق بعوض اور بلا حاکم اور بیوی کے علاوہ کسی اور سے عوض لینے کا نام ہے اور وہ اس کا اہل بھی ہو۔

مالکیہ کے نزدیک پہلی بات یہ ہے کہ خلع میں حاکم کا ہونا ضروری نہیں ہے اور دوسری بات یہ ہےعوض کا ہونا ضروری ہے ۔

فقہ شافعی

خطیب شربینی نے خلع کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :

هو فرقة بين الزوجين بعوض بلفظ طلاق أو خلع

خلع زوجین کے درمیان کسی چیز کے بدلے میں لفظِ طلاق یا خلع کے ذریعے جدائی کا نام ہے۔

گویا شوافع کے نزدیک خلع میں الفاظ کی اتنی اہمیت نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ لفظ طلاق سے بھی خلع ہوجا تا ہے اور لفظ خلع سے بھی البتہ اس میں عوض کا ہونا ضروری ہے ۔اور یہ الفاظ میں فرق اس لیے نہیں کرتے کہ ان کے نزدیک طلاق با لمال اور خلع میں کوئی فرق نہیں ہے ۔

فقہ حنبلی

وهو فراق الزوج امرأته بعوض يأخذه الزوج من امرأته أو غيرها بألفاظ مخصوصة

شوہر کا بیوی کو، اس عوض کے بدلے جو وہ اس سے یا کسی اور سے لیتا ہے الفاظ مخصوصہ کے ذریعے چھوڑ دینا خلع کہلاتا ہے۔

تعریف کے ان الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حنبلی فقہا کے نزدیک خلع میں مخصوص الفاظ اور عوض کا ہونا ضروری ہے۔

قرآن اور خلع:

سورۃ بقرہ کی 229 ویں آیت میں موجود ہے کہ عورت کچھ بدلہ رقم شوہر کو ادا کرکے اس سے چھٹکارا حاصل کر لے۔

الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلاَّ أَن يَخَافَا أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

تمھیں حلال نہیں کہ جو کچھ عورتوں کو دیا ہے اُس میں سے کچھ واپس لو، مگر جب دونوں کو اندیشہ ہو کہ اﷲ کی حدیں قائم نہ رکھیں گے تو اُن پر کچھ گناہ نہیں، اِس میں کہ بدلا دیکر عورت چھٹی لے، یہ اﷲ کی حدیں ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اورجو اﷲ کی حدوں سے تجاوز کریں تو وہ لوگ ظالم ہیں۔

حدیث اور خلع:

صحیح بخاری و صحیح مسلم میں عبداﷲ بن عباس سے مروی ہے کہ ثابت بن قیس کی زوجہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی، کہ یا رسول اﷲ! ثابت بن قیس کے اخلاق و دین کی نسبت مجھے کچھ کلام نہیں (یعنی اُن کے اخلاق بھی اچھے ہیں اور دیندار بھی ہیں) مگر اسلام میں کفران نعمت کو میں پسند نہیں کرتی (یعنی بوجہ خوبصورت نہ ہونے کے میر ی طبیعت ان کی طرف مائل نہیں) ارشار فرمايا: اُس کا باغ (جو مہر میں تجھ کو دیا ہے) تو واپس کر دیگی؟ عرض کی، ہاں۔ آپ نے ثابت بن قیس سے فرمايا: باغ لے لو اور طلاق دیدو۔

خلع میں قاضی کے فیصلے کا حکم:

اسلام میں ایسے تنازعات جن کا فیصلہ اس مسئلے کے دونوں فریق آپس میں مل بیٹھ کر نہ کرسکیں تو ان کے لیے ایسی صورت حال میں عدالت کی طرف رجوع کرنے کا راستہ رکھا گیا ہے ۔انہیں تنازعات میں سےمیا ں ،بیوی کے آپس کے اختلافات بھی ہیں تاریخ ِاسلام میں گھریلو اختلاف کی وجہ سے سب سے پہلا جومقدمہ درج ہوا اورجس میں علیحدگی کا مطالبہ کیا گیا تھا وہ ثابت بن قیسؓ کی زوجہ کا مقدمہ تھا۔ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی خلفا‎‎ئے راشدین کے دور میں عورتیں گھریلو ناچاقیوں کی شکایات لے کر آتی رہیں ہیں اور ان میں بعض اوقات خلع کے فیصلے بھی کیے گئے ۔ اس حوالے سے کہ خلع کے لیے عدالت سے مدد لی جا سکتی ہے کوئی نیا تصورنہیں ہے بلکہ بعض فقہا کے نزدیک مثلاسعید بن جبیر،ابن سیرین وغیرہ کے نزدیک خلع کے لیے عدالت ہی سے فیصلہ حاصل کرنا ضروری ہے اس کے بغیر خلع نہیں ہوسکتا۔ اس کے برعکس دیگر فقہا کی راے ہے کہ خلع میں صرف میاں، بیوی کی رضا مندی کافی ہے اس کے لیے عدالت کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ لیکن بعض اوقات شوہر بیوی کی طرف سے خلع کی پیشکش کے باوجود خلع کے لیے راضی نہیں ہوتا اور بیوی بھی اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو اس صورت میں بیوی عدالت کی طرف رجوع کرتی ہے اور عدالت اس مقدمے میں خلع کی ڈگری جاری کردیتی ہےاور شوہر کی رضامندی کا اعتبار نہیں کیا جاتا تو کیاعدالت کا خلع کے لیے یہ یک طرفہ فیصلہ سنا دینا شرعی طور پر معتبر بھی ہوگا یا نہیں ؟ یہاں سے علمی حلقوں میں اس بحث کا آغاز ہوگیا کہ عدالت کی طرف سے اگر شوہر کی رضامندی کے بغیرخلع کا فیصلہ کردیا جائے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟

عدالتی خلع کےحوالے سے کچھ علماء شدید اختلاف رکھتے ہیں اور وہ خلع کے معاملے میں قاضی کو بالکل بھی اختیارات دینے کے حق میں نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خلع مکمل طور پر میاں، بیوی کے درمیان ہونے والا معاملہ ہے اس میں کسی اور کو دخل کا کوئی حق نہیں ہے ۔خلع میں جو بھی فیصلہ ہو گا اس میں دونوں کی رضامندی کا اعتبار کیا جائے گا۔ شوہر کی رضا مندی کے بغیر خلع کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور ان کے دلائل ہیں کہ خلع کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کا ساتھ ساتھ ذکر کیا ہے لہٰذا ان میں سے کسی ایک کی مرضی کے بغیر کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے جو خلع ہوا تھا اس میں بھی شوہر کی رضامندی کے مطابق ہی فیصلہ ہوا تھا۔

البتہ کچھ علما قاضی کو بھی خلع کے معاملے میں فیصلہ کرنے کے حوالے سےحق دیتے ہیں کہ اگر شوہر خلع کے لیے راضی نہیں ہوتا اور معاملہ اس حد تک خراب ہوجاتا ہے کہ دونوں کا حدوداللہ کو برقرار رکھنا ممکن نہیں تو پھر شوہر کی مرضی کے برخلاف قاضی کو خلع کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے ۔ ان حضرات کا استدلال یہ ہے کہ خلع کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے قاضی کو بھی شریک کیا ہے لہٰذا اس کا بھی اس معاملے میں کہیں نہ کہیں عمل دخل ضرور ہے ورنہ اس کا ذکر بے محل قرار پائے گا ۔اور اسی طرح وہ ان احادیث سے استدلال کرتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلا جو خلع ہوا تھا اس میں اللہ کے رسول ﷺ نے خود ہی فیصلہ سنا دیا تھا اس میں صرف بیوی سے پوچھا تھا کہ تم اس کا دیا ہوا باغ واپس کرو گی اور اس کی رضامندی کے بعد خلع کا فیصلہ سنا دیا گیا تھا۔

بغیر کسی جواز کے عورت کا خلع لینا:

بغیر کسی جواز کے عورت کا خلع لینا ایک نا جائز امر ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔

حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ایما امراۃ سالت زوجھا طلاقا من غیر باس فحرام علیھا رائحتہ الجنۃ

جس عورت نے بھی اپنے شوہر سے بغیر کسی معقول عذر اور مجبوری کے خلع حاصل کیا اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔

خلع سے واقع ہونے والے طلاق:

خلع سے طلاق با‎ئن واقع ہوتی ہے۔ امام برہان الدین مرغینانی نے ہدایہ میں لکھا ہے:

فاذا فعلا ذلکا وقع بالخلع تطلیقۃ بائنۃ ولزمھا المال

اگر میاں بیوی نے خلع کا فیصلہ کر لیا تو خلع کی وجہ سے عورت پر طلاق بائن واقع ہو گی اور عورت کے ذمہ مال واجب ہو گا۔

خلع کے بعد رجوع:

عورت حاکم وقت کی عدالت سے خلع کا مطالبہ کرتی ہے اور حاکم پہلے مصالحت کی کوشش کرتا ہے اور ناکامی پر عورت سے مہر کی واپسی کا تقاضا کر کے زوجین کے درمیان تفریق کروا دی جاتی ہے۔ خلع کی یہ طلاق مکمل اور بائن واقع ہوتی ہے، البتہ یکطرفہ ڈگری کی صورت میں عورت کی رضامندی سے حیثیت رجعی رہتی ہے اور تجدید نکاح ہو سکتا ہے۔
 
Top