ثبوت نسب کے احکام الہدایہ کی روشنی میں

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
ثبوت نسب کے احکام​

اگر کسی شخص نے کہا کہ اگر میں فلاں خاتون سے نکاح کروں تو اسے طلاق پھر اس نے اس عورت سے نکاح کر لیا اور نکاح کے چھ ماہ کے بعد عورت نے ایک بچہ کو جنا تو وہ اسی کا بیٹا ہو گا اور اس پر مہر واجب ہو گا۔

نسب کا اثبات تو اس بنا پر ہے کہ وہ اس مرد کی فراش (منکوحہ) ہے۔ اس لیے کہ جب نکاح کے وقت کے چھ ماہ بعد اس نے بچہ جنا اور وقت طلاق سے چھ ماہ سے کم مدت میں بچے کی پیدائش ہوئی تو یہ سمجھا جائے گا کہ بچے کا نطفہ حالت نکاح میں قبل از طلاق موجود تھا۔ اس لیے اس کا تصور بھی درست ہے وہ اس طرح کے مرد نے اس عورت سے مباشرت کی حالت ہی میں نکاح کیا۔ اور نکاح ہو جانے کے ساتھ ساتھ انزال سے قرار حمل ہوگیا اس لیے اثبات نسب میں احتیاط ملحوظ رکھی جاتی ہے۔ رہا مہر کا معاملہ تو وہ اس وجہ سے لازم ہوتا ہے کہ جب مرد سے بچے کا نسب ثابت ہو گیا تو حکما مباشرت کرنے والا قرار دیا جائے گا لہذا اس سے پورا مہر ثابت ہو گا۔

جس عورت کو طلاق رجعی دی گئی ہو اگر اس نے طلاق کے دو سال یا اس سے زیادہ عرصے کے بعد بچہ جنا تو بچے کا اس سے نسب ثابت ہو جائے گا۔

بشرطیکہ اس وقت تک عورت نے عدت گزارنے کا اقرار نہ کیا ہو۔ اس لیے کہ یہاں احتمال ہے کہ حالت عدت میں نطفہ رہ گیا ہو، اس لیے کہ ممکن ہے وہ ان عورتوں میں سے ہو جن کے حمل کا زمانہ بہت طویل ہو جاتا ہے۔

پیدائش کے ساتھ ہی عدت کی تکمیل:

اگر مطلقہ عورت کے ہاں دو برس سے کم مدت میں بچہ ہوا ہو تو عورت اپنے شوہر سے جدا ہو جائے گی۔

اس لیے کہ بچے کی پیدائش سے عدت گزر گئی ہے اور بچے کا نسب بھی ثابت ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بچے کا نطفہ حالت نکاح میں یا حالت عدت میں ٹھہرا تھا۔ لیکن اس صورت میں مرد کا رجوع ثابت نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہاں دو باتوں کا احتمال ہے ایک یہ کہ استقرار حمل طلاق سے پہلے ( حالت نکاح میں ہوا) دوسری یہ کہ طلاق کے بعد ہوا تو لہذا شک کی بنا پر شوہر کے رجوع کا فتوی نہیں دیا جا سکتا۔

اگر دو سال کے بعد بچے کی پیدائش ہوئی تو رجوع ثابت ہو جائے گا۔ اس لیے کہ استقرار حمل طلاق کے بعد ہوا ہے اور ظاہری قرائن سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ حمل اس مرد کا ہے اس لیے کہ زنا کا کوئی ثبوت نہیں۔ لہذا وہ مجامعت کرنے کی بنا پر اس سے رجوع کرنے والا قرار پائے گا۔

طلاق بائن سے مطلقہ عورت کے بچے کا نسب:

وہ عورت جسے ایک طلاق بائن یا تین طلاقیں دی گئیں ہوں اگر دو سال کے کم عرصہ میں بچہ جنے تو بچے کا نسب ثابت ہو جائے گا۔

اس لیے کہ احتمال ہے کہ طلاق کے وقت حمل موجود ہو اور اس بات کا یقین نہیں ہے کہ جب حمل قرار پایا تھا اس وقت نکاح زائل ہو چکا تھا لہذا احتیاطا نسب ثابت تصور ہو گا۔

دو سال کے بعد بچے کے نسب کا ثبوت:

اگر مطلقہ بائنہ کے ہاں جدائی کے وقت سے پورے دو سال کے بعد بچہ پیدا ہوا تو نسب ثابت نہیں ہوگا۔

اس لیے کہ اس صورت میں حمل طلاق کے بعد قرار میں آیا ہے لہذا وہ اس خاوند کا نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ اسے تو عورت سے مباشرت کرنا حرام تھا۔

ہاں اگر مرد خود بھی دعوی کرے کہ یہ بچہ اس کا ہے تو اس کا اقرار صحیح ہو گا۔ اس لیے کہ اس نے نسبت کو خود اپنے اوپر لازم کیا ہے۔ جس کی ممکنہ صورت یہ ہے کہ مرد نے دوران عدت شبہ میں اس سے مباشرت کر لی ہوگی۔

اگر طلاق یافتہ عورت کم سن ہو، مگر ایسی عمر کو پہنچ چکی ہو کہ اس کی ہم عمر لڑکیوں سے مباشرت کی جا سکتی ہو اور طلاق کے نو ماہ سے کم مدت میں اس کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے تو اس کا اس کے خاوند سے نسب ثابت ہو گا، یہ طرفین کا قول ہے۔

امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ طلاق کے بعد سے دو سال تک اسی خاوند سے ثابت ہو گا۔ اس لیے کہ وہ عدت گزارنے والی عورت ہے اور یہ احتمال موجود ہے کہ وہ حاملہ ہو اور اس نے عدت گزارنے کا اقرار بھی نہیں کیا لہذا وہ بالغ عورت کے مشابہ ہو گی۔

طرفین کی دلیل یہ ہے کہ ایسی بچی کے عدت گزارنے کی خاص جہت معین ہے کہ جو مہینوں سے ہے۔ لہذا ان مہینوں کے گزرنے پر شریعت نے عدت کے اختتام کا فیصلہ دے دیا ہے جو اس کے اقرار سے بڑھ کر وضاحت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ حکم شریعت میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ مگر اس کے اقرار میں احتمال موجود ہے۔

اگر بالغ لڑکی طلاق رجعی سے طلاق یافتہ ہو تو بھی طرفین کے نزدیک اس کا حکم یہی ہے کہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک ستائیس ماہ تک ہونے والے بچے کا نسب درست ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے مرد نے عدت کے آخر میں اس سے مباشرت کی ہو اور وہ پھر عورت حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت دوسال میں اس کے بچے کو جنم دے۔

اگر نا بالغ بچی نے عدت کے دوران میں استقرار حمل کا دعوی کیا تو نا بالغ لڑکی اور بڑی عورت دونوں کے لیے ایک ہی حکم ہو گا۔ اس لیے کہ نابالغ کے اقرار حمل سے اسے بالغہ تصور کیا جائے گا۔

بیوہ عورت کے بچے کا نسب:

جس عورت کا خاوند مر جائے اس کے بچے کا نسب شوہر کی وفات کے بعد سے دو سال تک بچے کی پیدائش کی صورت میں ثابت ہوگا۔

امام زفر کہتے ہیں کہ اگر اس نے عدت وفات کے بعد چھ ماہ گزرنے کے بغد بچے کو جنم دیا تو نسبت ثابت نہیں ہو گا۔ اس لیے شریعت نے مہینوں کے حساب سے اس کی مقررہ عدت کی تکمیل کا فیصلہ دے دیا ہے تو گویا اس نے عدت کے اختتام کا خاود اقرار کر لیا ہے۔

عدت کی تکمیل کے بعد پیدا ہونے والے بچے کا نسب:

اگر عدت گزارنے والی نے عدت کی تکمیل کا اقرار کر لیا پھر چھے ماہ سے کم عرصہ میں اس کی ہاں بچہ پیدا ہو گیا تو بچے کا نسب ثابت ہو جائے گا۔ اس لیے کہ عورت کا جھوٹ یقینی طور پر ظاہر ہو گیا ہے لہذا اس کا اعتراف باطل تصور ہو گا۔

البتہ اگر وہ چھ ماہ کے بعد بچے کو جنم دے تو اس بچے کا نب ثابت نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ ہم اس کے اقرار کے بطلان کو نہیں جانتے اور یہ بھی احتمال ہے کہ حمل اس کے اقرار کے بعد قرار پایا ہو اور یہاں معتدہ کا لفظ مطلق ہے۔ جو ہر عدت گزارنے والی عورت کو شامل ہے۔ خواہ وہ وفات کی عدت مین ہو یا طلاق بائن کی یا طلاق رجعی کی۔

عدت کی دوران پیدا ہونے والے بچے کا نسب:

جب کوئی عدت گزارنے والی عورت بچہ جنے اور اس کا خاوند اس بچے کو اپنا بچہ تسلیم نہ کرے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کا نسب اس طرح ثابت ہوگا کہ دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں اس کے حق میں گواہی دیں۔

سوائے اس کے حمل ظاہر ہو جائے یا خود شوہر کی طرف سے اقرار پایا جائے تو بغیر گواہی بھی نسب ثابت ہو جائے گا۔

صاحبین فرماتے ہیں تمام صورتوں میں ایک عورت یعنی دایہ کی گواہی سے ہی نسب ثابت ہو جائے گا۔ اس لیے کہ عدت قائم ہونے کی بنا پر عورت اپنے خاوند کی فراش (منکوحہ) ہے اور نسب کے ثبوت کے لیے فراش کا قائم ہونا کافی ہے اور محض اس بات کے لیے گواہی کی ضرورت ہے کہ واقعی یہ بچہ اس عورت نے جنا ہے؟ تو یہ بات اس دایہ کی گواہی سے متعین ہو جائے گی۔ جیسا کہ نکاح کی موجودگی میں بالاتفاق نسب ثابت ہو جاتا ہے۔

امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ اس عورت نے جب وضع حمل کا اقرار کیا تو اس سے عدت ختم ہو گی اور جو شے گزری ہو وہ حجت نہیں ہوتی۔ لہذا ازسر نو نسب ثابت کرنے کی ضرورت پیش آئے گی اور اس کے لیے پوری گواہی ضروری ہے۔ بخلاف اس صورت کے جب حمل ظاہر ہو یا خاوند کی طرف سے اعتراف پایا جائے، اس لیے کہ ان صورتوں میں پیدائش سے قبل ہی نسب ثابت ہو جاتا ہے۔ ہاں مذکورہ تعین ایک عورت کی گواہی سے بھی ہو جاتی ہے۔ مگر ثبوت نسب کے لیے مکمل شہادۃ ضروری ہے۔

نسب کے لیے ورثاء کی تصدیق:

اگر کوئی عورت عدت وفات گزار رہی ہو اور اس کے ہاں دو سال سے کم مدت میں بچہ ہو جائے اور وارث اس کی تصدیق کر دے کہ یہ بچہ اس کے خاوند ہی کا ہے اور بچے کی پیدائش پر کسی کو بھی گواہ نہ بنایا گیا ہو، تو بالاتفاق وہ اس کے شوہر ہی کا بیٹا ہو گا۔

یہ حکم میراث کے حق میں ظاہر ہے۔ اس لیے کہ ترکہ ان کا خاص حق ہے تو ان کا تصدیق کرنا قابل قبول ہو گا۔

رہا یہ مسئلہ کہ کیا وارثوں کے مذکورہ اقرار سے اس بچے کا اس کے والد سے نسب کا یہ ثبوت وارثوں کے علاوہ دوسروں کے حق میں ثابت ہو گا۔ تو بعض مشائخ کہتے ہیں کہ اگر تصدیق کرنے والے ورثہ ایسے ہوں کہ جن کی گواہی قابل اعتبار ہو تو تمام لوگوں کے حق میں نسب ثابت ہو جائے گا۔ اس لیے کہ حجت کے موجود ہونے سے دوسروں کے حق میں بھی نسب ثابت ہو جائے گا۔

بعض دوسرے مشائخ فرماتے ہیں کہ اس کے لیے شہادۃ کا لفظ شرط ہے بعض نے اسے شرط قرار نہیں دیا اس لیے کہ دوسروں کے حق میں نسب کا ثابت ہونا وارثوں کے حق میں ان کے اعتراف سے ثبوت نسب کے تابع ہے۔ اور جو بات تبعا ثابت ہوا کرتی ہے اس میں شرائط کا ملحوظ رکھنا ضروری نہیں ہوتا۔

دوبارہ شادی کرنے والی عورت کے شادی کے چھ ماہ بعد پیدا ہونے والے بچے کا نسب:

اگر کسی مرد نے کسی عورت سے شادی کی پھر عورت نے شادی کے بعد چھ ماہ سے کم عرصے میں بچے کو جنم دیا تو اس کا اس خاوند سے نسب ثابت نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ اب استقرار حمل نکاح سے پہلے کا ہے لہذا وہ اس خاوند سے شمار نہ ہو گا۔

اگر اس نے چھ ماہ یا اس سے زائد مدت میں بچہ جنا تو اس کا نسب ثابت ہوگا خاوند اس کا اقرار کرے یا خاموش رہے۔ اس لیے کہ فراش (نکاح) قائم ہے اور مدت بھی پوری ہے۔

اور اگر خاوند اس سے انکار کر دے تو وہ ایک خاتون (دایہ) کی گواہی جو ولادت کے موقع کی گوہ ہو نسبت ثابت ہو جائے گا۔ چنانچہ اگر خاوند بچے کے بارے میں کہے کہ یہ اس کا نہیں ہے تو اسے لعان کرنا ہو گا۔ اس لیے کہ نسب تو فراش قائم (منکوحہ) سے ثابت ہو جاتا ہے اور تہمت کی صورت میں لعان واجب ہوتا ہے۔ اور لعان کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ بچہ موجود ہو، اس لیے کہ لعان تو بچے کے بغیر بھی ممکن ہے۔

بچے کے نسب کے اختلاف میں میاں بیوی کے درمیان اختلافات میں معتبر قول:

اگر عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور بعد میں میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہو گیا۔ خاوند نے کہا کہ ابھی تو مجھے تجھ سے نکاح کیے چار ماہ ہی گزرے ہیں اور عورت کہے کہ نکاح کو چھ ماہ پورے ہو چکے ہیں تو عورت کی بات تسلیم کی جائے گی۔ اور بچہ اسی خاوند کی ہو گا۔

اس لیے کہ ظاہری حالات عورت کے دعوی کی تائید کرتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ عورتیں نکاح کی بنا پر بچے کو جنم دیا کرتی ہیں۔ نہ کہ زنا ہے۔ اس بارے میں قسم دلانے کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس میں آئمہ کے مابین اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک قسم لی جائے گی اور صاحبین کے نزدیک نہیں لی جائے گی۔

طلاق کو بچے کی پیدائش سے مخصوص کرنا:

اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا کہ جب تیری ہاں بچہ پیدا ہو جائے تو تجھے طلاق، پھر ایک عورت نے اس کی بیوی سے بچے کی ولادت کی گواہی دے دی تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک طلاق نہ ہو گی اور صاحبین کے نزدیک طلاق واقع ہو جائے گی۔

صاحبین کی دلیل یہ ہے کہ ولات کے بارے میں ایک عورت کی گواہی معتبر ہوتی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔

شھادت النساء جائزہ فیعا لا یستطع الرجال النظر الیہ

ایسے امور میں جن سے مردوں کا دیکھنا جائز نہیں عورتوں کی شہادت قبول ہو گی۔

نیز اس لیے بھی کہ جب ایک عورت کی شہادت ولادت کے متعلق قبول کی جا سکتی ہے تو ان امور کے بارے میں بھی قبول کر لیے جائے گی جو اس ولادت پر مبنی ہوتے ہیں اور پھر مزید یہ کہ زیر بحث صورت میں طلاق بھی ولادت پر مبنی ہے۔

امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ عورت نے اپنے شوہر کے حانث ہونے کا دعوی کی ہے اس لیے عورت کی گواہی سے اس پر طلاق کا وقوع ہو گیا ہے۔ اور یہ قسم ٹوٹنے کا دعوی مکمل گواہی کے بغیر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں ولادت کے سلسلے میں عورتوں کی گواہی کا قبول کی جانا ضرروت کے تحت ہے۔ لہذا اس کا اثر طلاق کے حق میں ظاہر نہ ہو گا۔ کیونکہ طلاق ولادت سے الگ بھی ہو سکتی ہے۔

خاوند کی طرف سے حمل کا اقرار:

اگر خاوند اقرار حمل کا اعتراف کر چکا ہے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک گواہی کے بغیر طلاق ہو جائے گی اور صاحبین کے دایہ کی گواہی شرط ہے۔ اس لیے کہ حنث کا دعوی کرنے کے لیے گواہی ضروری ہے۔

امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ حاملہ ہونے کا اقرار در اصل بچے کی ولادت ہونے کا اقرار ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ خاوند نے بیوی کے امانت دار ہونے کا اقرار کیا ہے۔ لہذا امانت واپس کرنے میں عورت کا قول قابل قبول ہو گا۔
 
Top